دینی مدارس کا نیا عہد، ایک روشن باب
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 2005، اس کے بعد 2010 اور اب 2019 میں حکومت اور دینی مدارس کے معروف پانچ وفاقات (اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان) کے ذمہ داروں کے مابین مذاکرات کے بعد اتفاق رائے سے پھر ایک تحریری معاہدہ طے پایا جا چکا ہے۔ جس کے مطابق مدارس رجسٹریشن، 1860 ء کے قانون سوسائٹی ایکٹ کے آزاد ہوکروفاقی وزارت تعلیم و تربیت و پیشہ وارانہ امورکے ساتھ نئے سرے سے رجسٹریشن کا آغاز کرے گا۔ وفاقی وزارت تعلیم و تربیت و پیشہ وارانہ امورکے وزیر موصوف شفقت محمود صاحب کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے نہایت ہی ذہانت اوراپنے مدبرانہ انداز سے مذاکرات اور گفت شنید کے بعد اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے خواب کی عملی تعبیر پیش کر دی ہے۔ اس معاہدے میں نہ صرف مدارس کی رجسٹریشن کی رضامندی بلکہ چار صفحات پر مبنی رجسٹریشن فارم، بنک اکاؤنٹ اور غیر ملکی طلبہ کی ویزوں سے متعلق مشکلات پر پربھی اتفاق رائے ہوا ہے۔
گزشتہ 5 سالوں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئر مین کے منصب پرتھا تو حکومت اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان رجسٹریشن فارم اور دیگر امور پر بے شمار مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ ان معاملات کے لیے اجلاس کبھی وزارت مذہبی امور میں منعقد ہوتے تو کبھی نیکٹا میں، کبھی وزارت داخلہ میں اور کبھی وزارت تعلیم میں، کبھی وزیر اعظم سیکرٹیریٹ میں مدارس کے حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کر دی جاتی اور کبھی نیشنل سیکورٹی کونسل کے چیئر مین کے پاس یہ معاملہ پہنچتا۔
2015 ء کے وسط میں ایک دن سیکریٹری مذہبی امور نے مجھے طلب کیا اور بتایا کہ وزیر اعظم دفتر کی جانب سے ایک خط موصول ہوا کہ جس میں وزارت کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ تین اہم امور : نمبر 1:مدارس رجسٹریشن کا کیا طریقہ مرتب ہو سکتا ہے؟ نمبر 2: پانچ وفاق المدارس کے مشترکہ نصاب کیا ہیں؟ اور نمبر 3:مدارس کےمالیاتی ذرائع پر تجاویز مرتب کرنا تھا ۔اس حوالے سے وزارت میں جوائنٹ سیکریٹری کی سربراہی میں تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی۔ وزارت مذہبی امور کی اُن تینوں کمیٹیوں میں شامل رہا۔ میں نے ہر کمیٹی میں تجاویز دیں اور پانچ مکاتب فکر کے مشترکہ نصاب پر ایک رپورٹ بھی تیار کی تھی جسے وزیر اعظم ہاؤس بھجوا دیا گیا۔مجھے وزارت مذہبی اُمور میں چیئرمین مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے علاوہ کچھ لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ میرا نسبی اور حسبی تعلق دینی مدارس اور علمائے کرام سے پہلے سے جڑا ہوا ہے۔ لہذا اُن کی نظر میں میرا بھرپورتعارف موجود تھا کہ میں نہ صرف مدارس کے مسائل اور ضروریات سے بخوبی آگاہی رکھتا ہوں بلکہ حل کے لیے مخلصانہ سوچ بھی رکھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکریٹری مذہبی امور کی خصوصی خواہش پر مجھے ایک اور بھی ذمہ داری دی گئی کہ مدارس کے لیے رجسٹریشن فارم تیار کروں۔ یہ بات شاید کچھ لوگ ہی جانتے ہونگے کہ میں نے حکومتی سطح پر سب سے پہلے کوشش کی اور پانچ صفحات پر مبنی ایک رجسٹریشن فارم تیار کیا اور اُسے بطور تجویز سیکریٹری صاحب کے حوالے کیا۔ سیکرٹری صاحب کی جانب سے مدارس رجسٹریشن فارم وزیر اعظم ہاؤس اور وزارت داخلہ کوبھیجا گیا۔ وہاں فارم میں ترمیم واضافہ کے بعد اُسے وزارت تعلیم اور پھروزارت مذہبی امور کو واپس بھیجا دیا گیا تاکہ اس فارم کو بطور تجویزاتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے علمائے کرام کو ارسال کیا جاسکےاور یہ حضرات اپنی رائے، خدشات ،تحفظات اور درستگی سے آگاہ کر سکیں۔ مگر بد قسمتی سےاتحاد تنظیمات کی جانب سے اس فارم پرسخت تحفظات سامنے آئے۔ کچھ عرصے بعد اُسی طرز کا نیکٹا نے ایک فارم بنانےکی کامیاب کوشش کی اور مدارس کے علمائے کرام سے مشاورت کے بعد رجسٹریشن فارم کو آگے بڑھایا گیا۔
اس ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن، ان میں سہولیاتی پروگرامز، اساتذہ کے لیے تربیتی کورسز اور طلبہ و طالبات کے لیے، اسپورٹس، اسکالر شپ، ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز کا انعقاد ممکن ہو سکے گا
مدارس کے علمائے کرام کی جانب سے سابقہ حکومت کے بارے میں یہ اعتراض بجا تھا کہ حکومت اور بیورو کریسی مدارس رجسٹریشن کے معاملے میں سست روی اور عدم دلچسپی کا اظہار کرتی چلی آئی ہے۔ اورحکوم فٹبال کی طرح اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کو مذاکرات کے لیے کبھی وزارت داخلہ اور کبھی وزارت مذہبی امور کے پاس بھیجتی ہے اور کبھی نیکٹا کے پاس، اور آخر میں سابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے چیئر مین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)ناصر جنجوعہ کے پاس مدارس کے معاملات مذاکرات کے لیے پہنچے۔ مدارس رجسٹریشن اور دیگر امور سے متعلق وزیر اعظم ہاؤس میں جنرل صاحب سے میری تین مرتبہ ملاقات ہوئی، کافی ساری تجاویز پر اتفاق بھی ہوا اوروزیر اعظم ہاؤس میں ایک حکومتی جلاس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ اجلاس میں وزیر تعلیم، وزیر مذہبی امور، سیکرٹری مذہبی امور، سیکریٹری تعلیم، چیئر مین ایچ ای سی، چیئر مین فیڈرل بورڈ، سیکریٹری آئی بی سی سی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی موجود تھے اور صدارت جنرل ناصر جنجوعہ کی تھی۔ اس میں مدارس رجسٹریشن اور عصری نصاب پر تجاویز پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اس کے کچھ ماہ بعد اعلیٰ سطحی اجلاس سابق وزیر اعظم پاکستان کے زیر صدارت اتحاد تنظیمات کے ساتھ بھی منعقد ہوئے۔
قصہ مختصر یہ کہ سابقہ حکومت کے 5 سال میں بے شمار اجلاس ہوتے رہے۔ کچھ معاملات پر اتفاق رائے بھی سامنے آتا رہا مگر مجموعی طور پر مدارس رجسٹریشن اور دیگر امور کا تنازعہ حل کی جانب نہ بڑھ سکا اور نہ ہی اُنہیں وہ کامیابی مل سکی ہے جو اِس وقت موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے حاصل کرلی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کامیابی صرف حکومت کی نہیں بلکہ دینی مدارس کی بھی ہے جہاں ایک نیا روشن باب کھلنے جارہا ہے اور ان کی مخلصانہ سوچ کہ دینی مدارس تعلیمی ادارے ہیں اور ہماری رجسٹریشن اسی طرح وزارت تعلیم سے ہونی چاہیئے جس طرح عصری تعلیمی اداروں کی ہوتی ہے۔ بالآخر مدارس کا سفر 70 دہائی بعد کامیابی سے ہمکنار ہو چلا ہے۔
موجودہ معاہدے کےمطابق رجسٹرڈ مدارس کے طلبہ و طالبات بہتر دنیاوی مستقبل کے لیے عصری علوم”میٹرک اور انٹر” کی تعلیم کی سند حاصل کر سکیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر میں موجود دینی مدارس کے ذہین طلبہ و طالبات اپنے دینی علوم، متوسطہ، ثانیہ عامہ، ثانیہ خاصہ، عالیہ اور عالمیہ میں مہارت کے جوہر دکھا کر بی اے، بی ایس سی، بی کام، ووکیشنل کورسز، ایم اے، ایم اے سی، ایم کام، ایم فل اور پی ایچ، ڈی کی بھی سند حاصل کرکے حکومتی اداروں میں خدمات سر انجام دے کر اپنے دینی اداروں کا نام فخر سے بلند کر سکیں گے۔
گزشتہ حکومت میں ہر سرکاری اجلاس میں میری تجویز یہی رہی تھی کہ مدارس میں اسٹریمنگ رجسٹریشن کا معاملہ وزارت تعلیم میں ہی ہونا چاہیے اور اب اس حوالے سے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اس قومی ادارے کووزارت مذہبی امور سے وزارت تعلیم میں ہی منتقل کیا جانا چاہیے۔ میں نے اس حوالے سے تحریری تجویز وزارت مذہبی امور کے سیکریٹری کو ارسال کی تھی مگر ہمارے سابق وزیر مذہبی امور شاید کسی وجہ سے تردد میں رہے۔ لیکن بالآخر اب اس حکومت نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے باقاعدہ وزیر اعظم پاکستان کی منظوری سے وزارت تعلیم کو منتقل کر دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک اچھا قدم ہے۔ اس حوالے سے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ایکٹ میں نام کی تبدیلی یعنی پاکستان مدارس رجسٹریشن اتھارٹی اور ضروری شقوں میں ترمیم کی منظوری کے بعد اس ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن، ان میں سہولیاتی پروگرامز، اساتذہ کے لیے تربیتی کورسز اور طلبہ و طالبات کے لیے، اسپورٹس، اسکالر شپ، ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔
آج وقت بدل چکا ہے، دینی مدارس کے ذمہ داروں میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ نرمی آگئی اور ان کے مطالبات بھی ماضی جیسے نہیں رہے۔ یقیناً یہ وقت سب کے لیے اہم ہے کیونکہ آج پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں دینی مدارس میں اہم اور روشن باب کھلنے جا رہا ہے۔ یوں ہی یہ سلسلہ ایک دہائی تک جاری و ساری رہا تو یقینا ً دینی مدارس کے طلبہ و طالبات ریاستی اور غیر ریاستی اداروں میں اپنی نمایاں خدمات پیش کرتے نظر آئیں گے۔
فیس بک پر تبصرے