شدت پسندی کے خلیوں کو نظرانداز کرنے کی روِش

1,020

گزشتہ ہفتے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں جس طریقے سے ہندوؤں کے مندروں کو مسمار کیا گیا اور نجی املاک تباہ ہوئیں یہ ایک وارننگ ہے کہ ہم مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خطرے کے حوالے سے جو اندازہ رکھتے ہیں معاملہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ حکومت کو ان واقعات کی لفظی مذمت کرنے کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک کی تمام اقلیتوں کو تشدد کے عفریت سے محفوظ رکھنے کے لیے دیگر تمام ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت کو فوری طور پر دو مزید امور یقینی بنانے چاہیئں۔ پہلا یہ کہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر قانونی قدغن لگائی جائے اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ دوسرے یہ کہ ریاست مذہبی شدت پسند گروہوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد کی طرف سے آن لائن یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے نفرت انگیز بیانیے کا پرچار کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی نرمی اور برداشت کا مظاہرہ نہ کرے۔

ریاست تمام پاکستانیوں کو واضح اور واشگاف پیغام دے کہ حکومت تمام شہریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے اور وہ ہر صورت اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ بغیر مذہبی عقائد میں امتیاز برتتے ہوئے ریاست کو یہ باور کروانا ہو گا کہ اکثریتی مذہب کے شدت پسندوں کے اس بیانیہ میں کوئی حقیقت نہیں کہ اقلیتوں کی سرگرمیاں پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ حب الوطنی کا معیار نہ کسی کا مذہب ہو سکتا ہے، نہ اس اساس پرغیر مسلموں کی پاکستان کی شہریت کے حق کو مشکوک بنایا جاسکتا ہے۔

بجائے اس کے کہ مذہبی، ثقافتی اور سماجی افکار کے تنوع کو ملک میں ہمہ گیریت اور توسع کی خوشگوار علامت کے طور پر دیکھا جاتا، پاکستان کی اشرافیہ ماضی میں اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے مذہبی، نسلی اور ثقافتی امتیازات کو فروغ دیتی رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے، خصوصاََ احساس (Empathy)اور نرمی (compassion) جیسی انسانی اقدار کو سب سے زیادہ زک پہنچی ہے جو سماج میں نفرت اورتفرقے کے خلاف ڈھال کا کام کرتی ہیں۔ احساس وہ داخلی صلاحیت ہے جو دوسرے کے جذبات سمجھنے اور ان کی قدر کرنے پر آمادہ کرتی اور مشکلات و مصائب سے نجات دلانے میں کردار ادا کرتی ہے۔

کسی بھی علاقائی نسبت اور مذہبی یا سیکولر میلانات سے قطع نظر اگر کوئی معاشرہ اکثریتی بالادستی کے جنون یا خبط عظمت سے لبریز قوم پرستی کا شکار ہے یا مجموعی طور پہ نفرت اور جارحیت کے رویے کا حامل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ احساس اور نرمی جیسی صلاحیتیں کھو چکا ہے۔ ان دو اقدار سے محرومی معاشروں کو انتشار اور انارکی کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ ہمدردی ان دو اقدار کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ ہمدردی جذبات کے ایسے وقتی بہاؤ کا نام ہے جس میں انسان دوسروں کو درپیش مشکلات کے اعتراف کے ذریعے ذہنی دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے لیکن اس اعتراف میں وابستگی کا وہ عنصر موجود نہیں ہوتا جو مشکلات کو ان کی حقیقی حیثیت میں سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ریاست ایسے انتہاپسندوں کو خطرہ ہی نہیں سمجھتی جو تسلسل کے ساتھ اس کا عملی مظاہرہ تو نہیں کر رہے لیکن وہ اپنے اندر تخریب کاری اور امن کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں

بدقسمتی سے پاکستان کی اشرافیہ میں عوام کے حوالے سے احساس (Empathy) کا جذبہ پایا جاتا ہے نہ ہی انہوں نے نے اسے عوام میں فروغ دینے کے لئے کبھی کوئی اقدام کیا ہے۔ اور اگر رسمی وغیررسمی تعلیمی نظم کے اندر سے بھی احساس اور نرمی کی بنیادی انسانی اقدار مفقود ہوجائیں تو اس کے اثرات زیادہ بھیانک اور تباہ کن برآمد ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے معروف امریکی سکالر گری گورے ایج سٹیٹن کا ’سریبرینیتسا نسل کشی‘ کے حوالے سے کیا گیا تصنیفی کام دقت نظر کا حامل ہے۔ انہوں نے نسل کشی کے 10 مراحل گنوائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ نسل کشی ایسا بہیمانہ اقدام کبھی بھی انفرادی یا چھوٹے گروہوں کی سطح پر انجام نہیں پاتا بلکہ اس میں بڑی اکثریت، یہاں تک کہ کسی نا کسی طرح حکومت یا اس کی پالیسیاں بھی ملوث ہوتی ہیں۔

نسل کشی کا پہلا مرحلہ تو درجہ بندی کا ہے، جہاں معاشرہ پہلے مختلف نسلی یا مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوجاتا ہے۔ اگلے تین مراحل میں ’’غیر‘‘ کا تصور علامتی تفریق اور توہین آمیز رویوں کی صورت گری ہوتی ہے  اگلے تین مراحل میں علامتی تفریق، امتیازی رویوں اور انسانی رتبے سے گرانے کے عمل کے ذریعے ’غیر‘ (otherness) کے تصور کو پختہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ پانچویں درجے میں دشمن متصور کیے گئے ’غیر‘ کے استحصال اور قلع قمع کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

اس کے بعد میڈیا اور دیگر فورمز کے کے ذریعے اس طبقے کو انسانی رتبے سے گرانے کےعمل کو مزید وسعت ومقبولیت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ سماج کے ساتھ دانشور اور بااثر طبقات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی ذات کو مخدوش بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان سارے مراحل کے بعد ’غیر‘ کا قلع قمع اور اس کی بیخ کنی آسان ہوجاتی ہے۔ تخریب کارانہ جرائم پر پردہ دالنے کے لیے مسلسل مخالفین کے خلاف تشدد سے انکار کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ گریگوری (gregory)نے 11واں مرحلہ مکمل فتح کا بیان کیا ہے، جس میں اپنی کامیابیوں کو مزید نسل کشی کاجواز بنایا جاتا ہے اور اس مرحلے میں شدت پسندوں کو قومی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے دنیا بھر میں یہ درجہ بندی ایک نہ ہو مگر طریقہ کار ہرجگہ ایک ہی ہے اور نتیجہ بھی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

نسل کشی کی پیش بندی اور اس کے لیے ہونے والی درجہ بندی کی علامات دنیا کے کئی علاقوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ جنوبی ایشیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بھارت تو تقریباََ خطرناک مرحلے پر کھڑا ہے۔ منافرت پر مبنی بیانیوں کی اٹھان کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے پاکستان میں بھی اس کی جڑیں موجود ہیں۔ اس صورتحال میں ریاست کا حقیقت کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے نتائج سے بے پروائی کا رویہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ وزیراعظم کا گھوٹکی واقعے پر ردعمل میں یہ کہنا کہ یہ دراصل ان کے آنے والے امریکی دورے اور اقوام متحدہ میں ان کی تقریر کو متأثر کرنے کی سازش ہے۔ یہ بیان حقیقت سے انکار پر دلالت کرتا ہے۔ ممکن ہے پاکستان میں ہندو برادری کے خلاف تشدد اور تخریب کاری کے واقعات دیگر اقلیتی اکائیوں کے مقابلے کم وقوع پذیر ہوتے ہوں، لیکن ردعمل میں اِس طرح کے بیانات سے جرم میں ملوث نام پس پردہ چلے جاتے ہیں اور ان کو تحفظ مل جاتا ہے۔

مذہبی شدت پسندی کا اگرچہ اپنا ایک تشکیلی ڈھانچہ اور عناصر ہیں لیکن حالیہ چند برسوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے تشدد کے بڑے سرچشموں سے روابط کی استواری کے بعد اس کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے توسط سے نوجوانوں کے انتہاپسند اور تفرقہ پرست نظریات کی زد میں آنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں میں شناخت کے حوالے حساسیت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ شناخت کا یہ بحران بنیاد پرست گروہوں کے مفاد میں ہے۔ اس بحران سے مبتلا افراد اپنی جذباتی تسکین اور اضطراب سے نکلنے کے لیے قریبی، فوری دستیاب اور ہم خیال گروہوں سے رابطہ کرتے ہیں۔

چھوٹے شدت پسند گروہ عموماََ بڑے اور بہتر طور پر منظم گروہوں سے متأثر ہوتے ہیں۔ یہ صرف نظریاتی اور سیاسی تعلق کی ہم آہنگی کا اظہار نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد ان سے تنظیمی مہارتیں سیکھنا بھی ہوتا ہے۔ گھوٹکی سے تعلق رکھنے والا بنیاد پرست مذہبی پیشوا میاں مٹھو اس کی ایک مثال ہے۔ اس کا ایک اپنا دائرہ کار اور آزادانہ نظام ہوگا لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ تحریک لبیک سے متأثر ہے۔ اور اسے الرحمت ٹرسٹ ولشکرطیبہ جیسی کالعدم جماعتوں اور کراچی کے سخت گیر دینی مدارس کی خیراتی تنظیموں کا اعتماد بھی حاصل ہے۔

یہ تمام جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ملک میں غیرمسلم طبقات پر دباؤ بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن میاں مٹھو مقامی طبقات پر اثرانداز ہونے کے لیے ثقافتی، مذہبی اور نسلی اعتبار سے تاریخی طور پہ زیادہ توانا پس منظر اور وسائل کا حامل ہے۔ اس بنا پر وہ انتشار اور تخریب کاری کو بھڑکانے کی بھرپور صلاحیت و طاقت رکھتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے ہماری ریاست ایسے انتہاپسندوں کو خطرہ ہی نہیں سمجھتی جو تسلسل کے ساتھ اس کا عملی مظاہرہ تو نہیں کر رہے لیکن وہ اپنے اندر تخریب کاری اور امن کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی شدت پسندی کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ اس کے لئے ایک مربوط فریم ورک اور بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کے تحت تمام شہریوں کے ساتھ ان کے مذہبی، نسلی اور علاقائی امتیازات کے بغیر یکساں سلوک کیا جائے۔ آئینی ہدایات کو بنیاد بناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں شہریت اور حقوق کے موضوع پر کورسز کروائے جائیں۔

پاکستان میں غیر مسلموں کو اس سرزمین کے لازمی جزو اور حصے کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ان کی ذات کو بھارت یا مغرب سے نتھی کرنے کا مطلب تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ غیرمسلم اسی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ ان کی ناقابل فراموش خدمات پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

بشکریہ: روزنامہ 92

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...