مسلم سماج میں انسانی حقوق کی تحریکیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

725

مغرب میں ویسے تو انسانی حقوق پر بحث کی دو سو سالہ تاریخ ہے لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے سامنے آنے کے بعد عالمی سیاست میں اس کا اثر نمایاں ہوا۔ انسانی حقوق کی زبان آزادی اور طاقت کی زبان خیال کی جاتی رہی ہے۔ مسلم ادب میں اس موضوع پر گفتگو کی تاریخ سو سال پرانی ہے، لیکن عوامی سطح پر آزادی اور طاقت کی نمائندہ زبان کے طور پر اس اصطلاح کا زیادہ استعمال 80 سے دہائی شروع ہوا۔ اس مرحلے کے دوران مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی کافی تنظیمیں بھی وجود میں آئیں، خصوصاََ مارشل لا کے ادوار میں۔

مسلم سماج کا تشخص دینی ہے اور مذہبی طبقے کی زبان فقہ کی ہے جس کا محور حقوق اللہ و حقوق العباد ہے۔ اس میں حلال وحرام اور وجوب و اطاعت بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس میں آزادی کا مطلب غلام نہ ہونا ہے۔ لیکن عالمی اور مقامی سطح پر انسانی حقوق کی اصطلاح کے نفوذ اور اثر کی وجہ سے سیاسی اسلام کے ادب میں بھی اس کا استعمال ہونے لگا۔ تاہم اس کی تعبیر مختلف رکھی گئی۔ گویا یہ اس اصطلاح اور اس کی اقدار کی اسلامائزیشن تھی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی شرح اور بعض جزئیات سے کئی غیرمسلم ممالک کو بھی اختلاف ہے، لیکن مسلم سماج کا مسئلہ ان سے تھوڑا الگ ہے۔ اس کا اختلاف ابتدائی درجے کا ہے کہ وہ اسے تسلیم کرنے سے ہی ہچکچاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف تہذیبی تصادم پر پرزور آمادگی اور میلان کا دروازہ کھلا رہتا ہے تو دوسری طرف داخلی سطح پر بھی چند مسائل پیدا ہوئے۔ مثلاََ

ملک کے اندر انسانی حقوق کی تنظیموں اور نمائندگان کو مغرب کا ترجمان اور اس کا چہرہ متصور کیاگیا۔ اس طرح ملک کے اندر بھی ایک محاذ کھلا۔

ریاستوں نے اس سے جبر کا جواز حاصل کیا۔ ان کا مذہبی کارڈ کا استعمال کرنا بھی واضح ہے۔

سماج جدید عہد میں داخل نہیں ہوسکا جس کا پہلا قدم انسانی حقوق ہے۔

مسلم معاشرے میں انسانی حقوق کی اصطلاح کو سیکولر یا دین مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس اصطلاح کو ہمارے ہاں کوئی احترام اور مقام حاصل نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقابلے میں مسلم ممالک اور بعض مذہبی تنظیموں نے مختلف اوقات میں انسانی حقوق کے اسلامی چارٹر متعارف کرائے۔ جن میں قاہرہ، ایران، پیرس اور لندن کے اعلانات مشہور ہیں۔ اعلان قاہرہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔ 2008 میں یوگنڈا میں ہونے والے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ایران کی طرف سے پیش کردہ یہ قرارداد منظور ہوئی کہ مسلم ممالک 5 اگست کو اسلامی حقوقِ بشر منانے کا اہتمام کریں گے۔ اگرچہ اسے منایا تو نہیں جاتا لیکن اس سے یہ واضح ہے کہ مسلم دنیا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے کے باوجود حقیقت میں اسے مسترد کرتی ہے۔

کئی مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی مذہبی تنظیمیں بھی وجود رکھتی ہیں، جیسا کہ مصر اور ترکی میں۔ ان کی تعبیر مختلف تو ہے لیکن انہوں نے متعدد مواقع پر ریاستی جبر کے خلاف انسانی حقوق کی سیکولر تنظیموں کے ساتھ مل کر مشروط کام بھی کیا، تاہم پاکستان میں مذہبی حلقہ ایسی باقاعدہ تنظیمیں نہیں رکھتا، نہ ایسا رویہ۔ یہ بالعموم ریاست کو سہارا دیتا ہے

یہ درست ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ عملاََ انتظامی اور ریاستی عملداری کا قضیہ ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ انتظامی وریاستی عملداری کا مسئلہ ہونے کے ساتھ جس طرح سے اسے مسترد کیا گیا یہ شناخت کا مسئلہ بھی ہے، بلکہ یہ پہلو زیادہ اثرانداز ہے۔ مولانا زاہدالراشدی لکھتے ہیں ’جو غزو فکری مغرب اور مسلمانوں کے مابین قائم ہے اس کی بنیاد اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہے‘۔ تشخص کا مسئلہ بن جانے کے بعد جدید عہد میں پیش قدمی کا عمل مزید الجھ جاتا ہے اور ہم انتظامی سطح کے بہت سے بنیادی مسائل بھی حل نہیں کرپاتے۔

ہمارے ہاں مذہب، ریاست  اور سماجی کی اکثریت کی انسانی حقوق کے والے سے رائے ایک جیسی بن گئی ہے، چاہے ان کے ردعمل کے عملی مظاہر چھوٹے اور بڑے پیمانے پر ایکدوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ اب ان میں سے کسی ایک پر ذمہ داری عائد کرنا مشکل ہے اور ساتھ ہی نظرثانی کی دعوتِ فکر بھی بے اثر رہتی ہے۔

کئی مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی مذہبی تنظیمیں بھی وجود رکھتی ہیں، جیسا کہ مصر اور ترکی میں۔ ان کی تعبیر مختلف ہے لیکن انہوں نے متعدد مواقع پر ریاستی جبر کے خلاف ساتھ مل کر مشروط کام بھی کیا، تاہم پاکستان میں مذہبی حلقہ ایسی تنظیمیں نہیں رکھتا، یہ بالعموم ریاست کو سہارا دیتا ہے۔

مذہبی حلقوں کی طرف سے انسانی حقوق اور اس کی تعبیر کو مسترد کرنے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ اس کی اقدار کو عالمی انسانی خیال نہیں کرتے۔ اس لیے وہ ان کی اپنی تعبیر پیش کرتے ہیں جس میں اہم پہلو مغرب پر فوکس رکھنا اور اس کا رد کرنا ہے۔ وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں کس طرح مختلف ہیں اور مغرب کیسے غلط ہے۔ اس طرح انسانی حقوق کا مسئلہ داخلی انسانی کے بجائے خارجی محسوس ہوتا ہے۔ یہ تعبیرات انسانی مسائل کے حل کی بجائے ہتھیار زیادہ نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظری دعووں کے باوجود ہم عملاََ پرامن معاشرہ تشکیل نہیں دے سکے اور انسانیت کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ اقلیتوں کی حالت اور فرقہ واریت کی طاقتور جڑیں اس کی بڑی مثال ہیں۔ یہ تعبیرات محض مغرب کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں۔ انسانی حقوق کے اسلامی اعلانات کی زبان انہیں عالمی بھی نہیں بناتی ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر بعض روایتی فقہی احکامات کی ہوبہو تنفیذ سے متصادم ہے۔ مذہبی حلقے بھی صرف اسی کو ہائی لائٹ کرتے ہیں۔ جیسے ارتداد، حدود، عورت کی برابری، وراثت میں حصہ اور شہادت وغیرہ کے مسائل۔ لیکن اس موضوع پر مقاصد شریعت کے تحت بہت سارے علما گفتگو کرچکے ہیں اور اس کی جدید دور کے انسانی تقاضوں کے مطابق شرح پیش کی گئی ہے جسے اپنانے کی ضرورت ہے۔ مذہبی معاشروں کی اپنی ساخت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے انسانی حقوق کے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے ہمیں کسی روایتی مذہبی حکم کا انکار کرنے، اس کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے یا یکسر مسترد کردینے کی بجائے اس کا حل مذہبی اساسوں پر ہی تلاش کرنا زیادہ مفید وکارآمد ہوگا، جس کا ذریعہ احیائی فکر ہے۔

بعض سیکولر کہلانے والے افراد بھی انسانی حقوق کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ مذہب مخالف ہو۔ یہ تأثر زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق عالمی انسانی اقدار ہیں۔ اس کا کوئی بھی محدود تشحص بعض طبقات کے اندر اس کی قبولیت کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔

مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی تحریکوں کو اس کے اپنے دائرے میں بھی صحت مند تعاون اور ماحول میسر نہیں آسکا۔ مثال کے طور پر مغربی طاقتوں نے مسلم ریاستوں کے جبر کے مقابل انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی اور معاونت نہیں کی، خصوصاََ مارشل لا کے ادوار میں، یا جیسا کہ خلیجی بادشاہتوں کی پشت پناہی کی۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں میں باہمی اعتماد کا فقدان بھی ہے۔ یہ مختلف سیاسی ونسلی نظریات کی حامل اور تقسیم کا شکار بھی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ عوامی سطح پر مؤثر قوت بن کر سامنے نہیں آسکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...