افغان طالبان دوراہے پر

1,025

افغان طالبان ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہیں۔ انہیں افغانستان میں اپنی عسکری قوت کھوئے بغیر مستقبل کی سیاسی حکمت عملی تشکیل دینی ہے۔ ابھی تک تو طالبان کی قیادت کو یہ یقین تھا کہ امن مذاکرات ان کی فتح پر منتج ہوں گے۔ درحقیقت طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کا آغاز ہی فتح کے احساس کے ساتھ کیا تھا اور انہوں نے امن عمل کے دوران خود کو سخت مذاکرات کار ثابت بھی کیا۔

طالبان کابل کی گلی بازاروں میں ایک فاتح فوج کی حیثیت سے داخل ہونے کے لئے مکمل طور پر تیار بیٹھے تھے مگر صدر ٹرمپ نے آخری لمحات میں طالبان قیادت سے کیمپ ڈیوڈ میں اپنی خفیہ ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کر کے ان کا یہ خواب چکناچُور کردیا۔ کہا جا رہا تھا کہ اس ملاقات میں امریکہ طالبان معاہدے کا حتمی اعلان ہونا تھا۔ شاید یہ طالبان قیادت کے لئے کمزور ترین لمحات تھے کہ ان کو فتح کے بالکل قریب جا کر پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا جس سے یقیناََ ان کی تشویش اور غصہ میں اضافہ ہوا۔

کئی ماہرین پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ بات چیت کا یہ عمل درمیان میں تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔ طالبان نے اس کے بعد ماسکو اور بیجنگ سمیت اپنے تمام حمایتی عناصر سے رابطہ کیا، اور سب سے اہم اسلام آباد سے، انہیں ہر طرف سے یہی مشورہ دیا گیا کہ وہ بہرصورت امن مذاکرات کی بحالی کا راستہ اختیار کریں۔ مشورہ کارگر رہا اور افغانستان کے صدارتی انتخابات میں پہلے کی طرح بہت زیادہ خون خرابہ نہیں ہوا۔ یہ اس امر کی طرف واضح اشارہ تھا کہ اگر بات چیت کا عمل بحال ہوتا ہے تو طالبان کی طرف سے پرتشدد کاروائیوں میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔

بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک طالبان نے، بعداز امن مذاکرات کے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی کہ عسکری ڈھانچے کو سیاسی قوت میں تبدیل کرنے کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ اب تک انہوں نے اپنی تمام تر توجہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغانستان کے اندر سٹیک ہولڈرز سے پاور شیرنگ کا فارمولا طے کرنے پر مرکوز کیے رکھی تھی۔ وہ پراعتماد تھے کہ وہ آسانی کے ساتھ اس مرحلے کو عبور کرکے طاقت میں حصہ دار بن جائیں گے۔ اس کے بعد  اپنے مسلح دھڑوں کو دیہی علاقوں سے شہروں میں لے آئیں گے۔ تاہم سیاسی عمل اور اس کے پراسس کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں جس میں کچھ یقینی نہیں ہوتا۔

طالبان کے وفد نے ملا برادر کی قیادت میں اسلام آباد میں اعلیٰ سطح ملاقاتوں میں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ مذاکرات میں نرم لب و لہجہ اختیار کرنے پر تیار ہیں۔ افغان طالبان کے وفد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کی ہیں۔ مگر افغان امور کے خصوصی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی خبر قدرے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ گو امریکی حکام نے یہ واضح کر دیا ہے کہ زلمے خلیل زاد کی اسلام آباد میں طالبان وفد سے ملاقات کا مطلب مذاکرات کی بحالی نہ سمجھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذاکرات کی بحالی کب ہو پائے گی، یہ امریکہ کی اپنی صوابدبد پر منحصر ہے۔

ابھی تک تو یہ بھی واضح نہیں کہ اگر مذاکراتی عمل بحال ہوتا ہے تو یہ سلسلہ وہیں سے شروع ہو گا جہاں پر ختم ہوا تھا یا پھر بعض مخصوص شرائط پر ازسر نو بات چیت ہو گی۔ امریکہ کا بہرحال یہ اصرار ہو گا کہ وہ طالبان کو سیز فائر پر آمادہ کرے اور یہ بھی کہ افغان حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم کر کے اسے تنازعہ کا فریق تسلیم کیا جائے۔ جبکہ طالبان کی کوشش ہوگی کہ بات چیت کی سابقہ شرائط اور دائرہ کار پر نظرثانی نہ ہو۔ کیا پاکستان طالبان کو ازسرنو مذاکرات شروع کرنے پر راضی کر لے گا؟

ممکن ہے ٹرمپ کی طرف سے مذاکرات ختم کرنے کا اقدام سوچا سمجھا ہو جس کا مقصد طالبان کو دباؤ میں لانا ہو، اس میں یقینا امریکی صدر کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ تاہم امریکہ کے پاس افغانستان میں محدود آپشنز ہی ہیں۔ امریکہ کے یک طرفہ انخلا کی صورت میں افغانستان میں مختلف گروہوں کی طرف سے فسادات کے سر اٹھانے کے خدشات موجود ہیں اور اس سے بیرونی طاقتوں کو افغانستان میں اپنی اپنی پراکسیز کو مضبوط کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔ گو سٹیٹس کو کابل کے مفاد میں ہے مگر اس سے افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے افغان حکومت کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ افغانستان کے دیگر سٹیک ہولڈر بشمول طالبان سے مذاکراتی عمل کی راہ اپنائے۔

پاکستان کی طرف سے بلاتفریق تمام مسلح گروہوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ برتنے کے باعث بھارت کا عالمی فورمز پہ پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کا موقف کمزور ہوا ہے

اسی طرح امریکہ کے لئے بھی طالبان کو دباؤ میں رکھنے کی غرض سے معاملات کو بہت زیادہ طول دینا بھی ممکن نہ ہو گا۔ ہاں البتہ پاکستان کی پوزیشن خاصی نازک ہو گی کیونکہ بدلتے عالمی تناظر اور کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو امریکی مدد و حمایت کی ضرورت ہے، جس کا انحصار پاکستان کی افغان امن عمل میں معاونت پر ہو گا۔ اس تعاون کے بدلے پاکستان کی خواہش ہوگی کہ اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات معمول پر آئیں جس سے بھارت کے مقابلے میں اسے خطے کے اندر تزویراتی اور معاشی استحکام کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سیاسی فورم پر اجاگر کرنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پہ بڑا تعاون درکار ہے۔ اگر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کو تسلسل کے ساتھ دہرایا جاتا رہا تو اس سے بھارت پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔

اسلام آباد کے بعض پالیسی ساز حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بلاتفریق تمام مسلح گروہوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ برتنے کے باعث بھارت کا عالمی فورمز پہ پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کا موقف کمزور ہوا ہے۔ بھارت معاشی، سیاسی اور تزویراتی حوالے سے  یقیناََ مضبوط حیثیت کا مالک ہے اور دنیا کی اکثر اقوام بھارت سے تجارتی مراسم چاہتی ہیں لیکن پاکستان کی کشمیر کے تناظر میں نئی پالیسی اس کے لیے تکلیف دہ ہے۔

بھارت ردعمل میں محدود جارحیت کا مرتکب ہو سکتا ہے جس سے پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ ایسا احساس محض خوف کی بنیاد پر ہے لیکن پاکستان کا افغان امن عمل میں مثبت کردار امریکہ کو بھارت کو کسی قسم کی مہم جوئی سے دور رکھنے پرمجبور کر سکتا ہے۔

پاکستان کی اپنی مجبوریاں اور تخفظات ہیں لیکن چین بھی افغانستان کے منظرنامے پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان سے یک طرفہ امریکی انخلا اس کے لیے بھی سخت مشکلات کو جنم دے گا، یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ امریکہ کے امن مذاکرات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ چین افغان تنازعہ کے حل میں کوئی مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسے یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگر امن پراسس ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات افغانستان سے متصلہ صوبے سنکیانگ کو بھی زد لگائیں گے۔

افغانستان میں عدم استحکام سے پورا خطہ متأثر ہوگا اور بدیہی طور پہ اس میں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہوگا، لیکن چینی حکام سی پیک کے بارے میں زیادہ تشویش کا شکارہیں۔ خطے میں پیدا ہونے والا کسی بھی قسم کا عدم استحکام اس منصوبے کے لیے نقصان دہ ہوگا اور اس صورتحال میں پاکستان مجبور ہوجائے گا کہ وہ اپنی جغرافیائی تزویراتی ترجیحات کو خطے کی ابھرتی ہوئی نئی جیو اکنامکس ترجیحات پر مقدم رکھے۔

چین کی خواہش ہے کہ امریکا اپنا امن مشن انجام کو پہنچائے۔ البتہ ناکامی اور کسی بری صورتحال کے ظہور کی حالت میں وہ مذکراتی مقاصد کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم جیسے کسی علاقائی پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کو ترجیح دے گا۔

وزیر اعظم عمران خان آئندہ ہفتے چین کے اہم دورے پر جا رہے ہیں جس میں وہ سی پیک کے حوالے سے بات چیت کے علاوہ چینی حکام سے افغان امن عمل کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ دورے میں کابل کی ممکنہ طور پہ تشکیل پانے والی نئی انتظامیہ اور مذاکرات کے بارے میں اس کا رویہ بھی زیربحث آسکتا ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں ہی افغان طالبان کو امن مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیں گے۔

اگر طالبان عارضی فائر بندی پر بھی رضا مند ہو جاتے ہیں تو یہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ یہ الگ بات ہے طالبان کو ایک اور چیلنج بھی درپیش ہوگا، اور وہ ہے مذاکراتی عمل کے پہلے مرحلے میں فتح کے دعوے کے بارے میں اپنے مسلح کمانڈرز کو اعتماد میں لینا۔ یہ درست ہے کہ طالبان نے اب تک کچھ خاص کھویا نہیں ہے لیکن ان کے مسلح ونگ کی قسمت کا فیصلہ مستقبل کی حکمت عملی کے ساتھ مربوط ہے۔

بشکریہ: روزنامہ 92

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...