مدارس کے اساتذہ: پہلو دار مشکلات
یوم استاد پر مدارس کے اساتذہ کو عموماً بھلا دیا گیا۔ پانچ اکتوبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم استاد منایا گیا۔ استاد کو روحانی باپ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کا منایا جانا ظاہر کرتا ہے کہ پوری انسانیت کے نزدیک استاد کا مقام بہت بلند ہے۔ انسانی مقام اس کے علم سے جڑا ہوا ہے۔ کسی کا علمی مرتبہ اس کے مقام انسانی کا پیمانہ قرار پاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آدم کو علم میں تفوق کی وجہ سے فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی اور وہ مسجود ملائک قرار پایا جب کہ علم کے راستے عقل و بصیرت کی وجہ سے کھلتے اور ہموار ہوتے ہیں۔ انسان کو ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے ذریعے بلند منزلتیں حاصل کرتا ہے اسی لیے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے استاد کا درجہ انسانوں کے نزدیک بہت بلند ہے۔
یوم استاد کے موقع پر اگرچہ استاد کی عظمت کے گیت بہت گائے گئے اور لوگوں نے اپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا لیکن یہ دیکھ کربہت افسوس ہوا کہ مذہبی دنیا میں استاد کے حوالے سے تقاریب نہ ہونے کے برابر منعقد ہوئیں اور عموماً مذہبی اساتذہ کو ان کے طلبہ نے کم ہی یاد کیا اگرچہ پروفیسر محمد طفیل ہاشمی جیسے ہونہاد شاگردوں نے اپنے مذہبی اساتذہ کو ضرور خراج تحسین پیش کیا اور ان کا ذکر بڑے ادب سے کیا لیکن اگر یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں تیس لاکھ کے قریب مذہبی طلاب ہیں تو پھر یہ بات بھی درست ہے کہ مذہبی اساتذہ کے حضور اظہار ادب کے مظاہر ے کم ہی دیکھنے میں آئے۔
دوسری طرف خود مذہبی اساتذہ کے حوالے سے بہت سی باتیں کہنے کی ہیں۔ بعض اساتذہ تو اپنی خداداد بصیرت و قابلیت کی وجہ سے تعلیم و تعلم کے میدان میں اعلیٰ ہنر مندی کا اظہار کرتے ہیں اور لائق طلبہ کی کئی نسلیں ان کے ہاتھوں تربیت پاتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے عموماً ہمارے مذہبی مدارس کے اساتذہ کسی خاص تربیت سے گزر کر استاد کے منصب پر فائز نہیں ہوتے۔ سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کے لیے مختلف درجوں کے کورسز متعین ہیں جن سے گزرنا اور متعلقہ سرٹیفکیٹ یا سند حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن مذہبی اساتذہ کے لیے ایسے کسی تکلف کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشترافراد تعلیمی تکنیکوں، تعلیمی نفسیات اور روش تدریس سے نابلد ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے طلبہ میں وہ کسی فکری بالیدگی کا سبب نہیں بن پاتے۔ وہ ان کتابوں کو تو ضرور پڑھتے ہیں جن کی انھیں تدریس کرنا ہوتی ہے لیکن مقاصد تعلیم، نظام تعلیم کی باریکیاں اور تدریس کے جدید اسالیب عموماً ان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ان کا مبلغ علم بہت محدود ہوتا ہے۔ معاشرہ شناسی اور انسان شناسی ان کے نصاب میں شامل ہوتے ہیں نہ ان کی کتاب میں۔ وہ اپنے سامنے موجود طلبہ کو اعلیٰ انسان اور اعلیٰ مسلمان بنانے کا ہدف لے کر، کم ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ وہ عموماً جس کتاب کو پڑھا رہے ہوتے ہیں، اسی علم سے متعلق خارجی مطالعات کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ان کی پوری توجہ کتاب کے لفظوں اور عبارتوں کے حل کرنے پر مرکوز ہوتی ہے، اسی کو وہ اپنی قابلیت سمجھتے ہیں کیونکہ یہی کچھ انھوں نے ورثے میں پایا ہوتا ہے۔
مذہبی مدارس اور دیگر نجی تعلیمی اداروں میں معلمین اور معلمات کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ بھی المناک اور شرمناک ہیں۔ استحصال زدہ فرد سے اچھے نتائج پیدا کرنے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی
اگرچہ ایسی شکایات جدید تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے بارے میں بھی بہت ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ مذہبی مدارس کے اساتذہ کے مسئلے کوعصری تعلیم کے اساتذہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اساتذہ عام طور پر طلبہ کو رٹا لگانے پر اکساتے ہیں۔ اس سلسلے میں مارپیٹ، تشدد، گالم گلوچ اور زنجیروں سے باندھنے کے جو المناک واقعات سامنے آتے ہیں ان کے پس منظر میں اساتذہ کی عدم تربیت کا بہت بڑا حصہ ہے۔
اس وقت جب کہ حکومت دینی مدارس کو بھی ایک کلی تعلیمی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ ہے، تو پھر مذہبی مدارس کے نظام کا جائزہ لے کر اس کی خامیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ ابھی وقت ہے کہ معاملات کی اصلاح کر لی جائے ورنہ آئندہ نئے سرے سے کوئی اقدام کرنا مشکل ہو جائے گا۔
تنظیمات مدارس کو خود سے بھی اس سنگین مسئلے کی جانب توجہ دینا چاہیے۔ کسی کو استاد متعین کرنے سے پہلے تدریس کے اصولوں اور جدید اسالیب پر مشتمل ایک کورس ترتیب دے کر انھیں اس میں سے گزارنا چاہیے اور باقاعدہ سند یافتہ اساتذہ کو ہی تدریس کا موقع دینا چاہیے۔ یہ مناسب نہ ہوگا کہ ایسے موقع پر کہا جائے کہ ماضی میں ایسا نہ ہوتا تھا۔ ہر دور میں تجربات سے انسان کو سیکھتے ہوئے پیش رفت کرنا ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں استاد مقرر کرنے سے پہلے اس کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ اس کے تدریسی تجربے اور اسناد کا جائزہ لیا جاتاہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کا حال بھی، مذہبی تعلیمی اداروں جیسا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ مذہبی مدارس اور دیگر نجی تعلیمی اداروں میں معلمین اور معلمات کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ بھی المناک اور شرمناک ہیں۔ حکومت نے جو ایک مزدور کے لیے کم ازکم تنخواہ مقرر کی ہے ان تعلیمی اداروں میں قوم کے اس معمار کی تنخواہ اس سے بھی کہیں کم مقرر کی جاتی ہے۔ استحصال زدہ فرد سے اچھے نتائج پیدا کرنے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی لہٰذا مسائل دو طرفہ ہیں، انھیں سنجیدہ جان کر جامعیت کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ اگرچہ حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کے نصاب میں کچھ نئے مطالب شامل کرنے پر زور دیا جارہا ہے اور توقع ہے کہ تنظیمات مدارس کے ذریعے اس پر عمل بھی ہو جائے گا تاہم اس وقت رائج نصاب کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے اور اسے عصری تقاضوں کے مطابق نئے سرے سے مرتب کرنا ازحد ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عقائد کی بعض کتابیں غلط فہمیاں اور نفرتیں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں ان کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ تدریس کے نئے اسالیب کو سامنے رکھ کر کتابوں کو مرتب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے