تعلیمی کاروبار اور اس کی اخلاقیات
ہمارے ہاں عوام، جن میں تعلیم یافتگان کا بھی بڑا طبقہ شامل ہے، اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ تعلیم کو کاروبار بنا لینا کوئی قابل تحسین نہیں ہے۔ تعلیم کی اُجرت نہیں ہونی چاہیے یا اسے بہت کم ہونا چاہیے۔ گویا کراہت کے ساتھ اضطراری طور پر اسے گوارا کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے، بلکہ اسے پیغمبروں کا پیشہ باور کرایا جاتا ہے، اس بنا پرتعلیم کو کاروبار بنا لینا قابل مذمت ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیسوں کو اسی لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے ک تعلیم کو علی الاطلاق پیغمبرانہ پیشہ سمجھنا درست نہیں۔ پیغمبروں کا کام خدا کاپیغام لوگوں تک پہنچانا اور انہیں دین کی تعلیم دینا تھا۔ جب کہ عصری تعلیم سائنس، سماجی علوم اور پیشہ ورانہ تعلیم کا مجموعہ ہے جس کا سکھانا براہ راست مذہب اور اس کے مبلغین کی ذمہ داری میں شامل نہیں۔ اِس تعلیم کے لیے خود پیغمبروں نے بھی دوسروں سے مدد لینے کی حوصلہ افزائی کی۔ جیسے جنگ بدر کے غیر مسلم قیدیوں سے مسلم بچوں کو کتابت سکھانے کا کام لیا گیا۔ دوسرے یہ کہ پیغمبروں کی دینی مصروفیت کی وجہ سے وہ خدا کی طرف سے کسبِ معاش سے آزاد ٹھہرائے گئے تھے مگر ان کے معاش کا بندوبست بہرحال،دیگر ذرائع سے کیا گیا تھا،جیسے رسول اللہ ﷺ کو مال غنیمت سے پانچویں حصے کا حق دار ٹھہرایا گیا اور باغ فدک کی آمدنی آپ کے لیے مخصوص کی گئی جسے آپﷺ اپنے اہل خانہ اور دیگر ضرورت مندوں پر خرچ کرتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام لوگوں میں سے کچھ لوگ اگر دین کی تعلیم میں خود کو مصروف کریں گے تو ان کے معاش کا انتظام بھی ان کی ان کے علم سے فائدہ حاصل کرنے والوں کو کرنا ہوگا۔رہی عصری تعلیم، تو اس کو پیغمبرانہ فریضے سے جوڑنا ہی درست نہیں۔ اس لیے اس کے ساتھ کسی تقدس کا سابقہ لگانا بھی درست نہیں۔ یہ خالصتاََ دنیوی معاملہ ہے اور اسی لحاظ سے برتا جائے گا۔
تعلیم اوّل تو ریاست کے ذمہ داری ہے۔ جس طرح علاج معالجہ کی مفت فراہمی اس کے ذمے ہے اسی طرح مفت، سستی اور معیاری تعلیم بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں اس حدتک پوری کرنے کے لیے تیار ہو کہ تعلیمی شعبے کے تمام ضروری تقاضے پورے کرے اور ہرطرح کی ٹیکنیکل تعلیم وتربیت بھی مفت یا کم خرچے کے ساتھ مہیا کرے تونجی اداروں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ لیکن تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تعلیم کا حال پتلا ہے اور حکومت کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں۔ اس صورت حال میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ نجی شعبہ سے حوصلہ مند باصلاحیت لوگ عوام کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے آگے آئیں۔
ملک میں جہاں کھانوں اور کپڑوں کے مہنگے برینڈز کی چینز کھل رہی ہیں اور مقبولیت حاصل کر رہی ہیں وہاں معیاری کتابوں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں، مثلا آکسفرڈ کو ملک بھر میں اپنے متعدد آوٹ لٹس بند کر دینا پڑے ہیں
بلکہ دیکھا جائے تو سوائے چند کے باقی ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعلیم اب کافی مہنگی ہے۔اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا کے دس مہنگے ترین سمجھے جانے والے ممالک میں امریکہ، برطانیا، جاپان ، سنگاپور اور ملائیشیا شامل ہیں۔ سروے کے مطابق اگر سکالرشپ نہ ملے تو والدین کو اپنی سالانہ کمائی کا چالیس سے پچاس فیصد اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں اب اس پر بات ہورہی ہے کہ تعلیم کی کمرشلائزیشن اور پرائیوٹائزیشن کو نارمل سمجھا جائے۔ البتہ اس کے لیے حکومتوں کو کچھ اصول اور حدود مقرر کرنے ضروری ہیں۔
نجی کاروبار کرنا کوئی آسان کام نہیں، خصوصاً پاکستان میں جہاں کاروبار کے حالات حوصلہ افزا نہیں رہتے۔ ان حالات کے باوجود کاروبار کی ہمت کرنے والے داد کے مستحق ضرور ہیں۔ تعلیم بھی ایک کاروبار ہے ۔ تعلیم کے لیے بھی اسی طرح انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے جیسے کسی بھی دوسرے کاروبار کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔ عمارت کا کرایہ، لیبارٹری کا سامان، سپورٹس کا سامان، یوٹیلیٹی بلز، اور پھر اساتذہ کی تنخواہیں یہ سب اخراجات ہر علاقے اور ہر طبقے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ طبقات کا یہ فرق جیسے ریسٹورنٹس، کپڑوں کے برینڈز وغیرہ میں ظاہر ہوتا ہے، تعلیم کے مختلف معیارات میں اس کا ظاہر ہونا بھی بالکل فطری بات ہے۔ لیکن ناقدین کا سارا زور تعلیم پر اُٹھنے والے خرچ پر نکلتا ہے۔ حالانکہ یہ اعتراض شعبہ طب بھی وارد ہوتا ہے کہ مسیحائی کو کاروبار کیوں بنا لیا گیا ہے۔ وکلا کی فیسوں اور ججوں کی تنخواہوں پربھی کوئی قابل ذکر اعتراض موجود نہیں کہ انہوں نے انصاف کی فراہمی جیسے مقدس پیشے کو منافع بخشی کا ذریعہ کیوں بنا رکھا ہے۔ پیشے تو سارے ہی مقدس ہوتے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو البتہ ایسا مقدس پیشہ بنالیا جس پر خرچ کرنا گوارا نہیں۔ غور کیجیے تو تعلیم کو کاروبار بنانے کی مخالفت اس کے پیچھے وہی قومی مزاج کارفرما ہے جو کسی بھی دوسری چیز پر خرچ کر لینا تو گوارا کر لیتا ہے لیکن تعلیم پر خرچ کرنا اسے گراں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے ملک میں جہاں کھانوں اور کپڑوں کے مہنگے برینڈز کی چینز کھل رہی ہیں وہاں معیاری کتابوں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں۔ مثلا آکسفرڈ کو ملک بھر میں اپنے متعدد آوٹ لٹس بند کر دینا پڑے ہیں۔
البتہ اس سے انکار نہیں کہ ہر کاروبار کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں اور تعلیم کے کاروبار کی اخلاقیات بھی اسی طرح قابل لحاظ ہیں۔ ان اخلاقیات پر بات کی جا سکتی ہے، لیکن تعلیم کو کاروبار بنا لینے کی مذمت کرنا غیر حقیقی ہے۔ تعلیم کاروبار ہی ہے اور اس کے ساتھ کاروبار جیسا انصاف اور سنجیدگی برتنی چاہیے، البتہ اس میں تعلیمی کاروبار کی اخلاقیات کو ملحوظ رکھنا تعلیمی کاروبار کرنے والوں کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ یا عدالت کی طرف سے اگر ان اداروں کو حدود کا پابندبنایا جاتا ہے تو یہ اچھا اقدام ہے اور تعلیمی کاروبار کرنے والوں کو بھی تعاون کرنا چاہیے۔ یہ سوچ البتہ اپنی جگہ پہ غیرحقیقی ہے کہ کچھ ادارے مہنگے کیوں ہیں،یا یہ کہ تعلیم تو بالکل مفت یا سستی ہی ہوتی ہے، اس لیے تمام اداروں کو ایک جیسی فیسیں اور اخراجات مقرر کرنے چاہیئں۔
فیس بک پر تبصرے