سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تاریخ کا اخفاء اور پروٹسٹنٹ تطہیری گروہ

سیم ھاسیلبی

602

صرف عربی زبان ہی نہیں امریکی سرزمین پر 1492ء کے آس پاس دین اسلام بھی پہنچ چکا تھا، یعنی مارٹن لوتھر کی تحریک کے ظہور سے بھی بیس برس قبل۔ جب یورپین اور امریکی باشندوں کے مابین تعلق کی ابتدا ہوئی تو سب سے پہلے جس زبان میں ان کی بات چیت ہوئی وہ اسلام کی مقدس زبان عربی تھی۔ کرسٹوفر کولمبس نے جب ایشیا کا رخت سفر باندھا تو وہاں کی روایتی عدالتوں میں جس زبان میں گفتگو کی تیاری کی وہ بھی یروشین تجارتی زبان عربی تھی۔ کولمبس کا ترجمان جو ایک ہسپانوی یہودی تھا، نے ہسپانیولا جزیرے کے باشندوں سے عربی میں گفتگو کی تھی۔

مُور (عرب و افریقی مسلم) 711ء میں آئیبیریا جزیرے کے اکثر حصے پر قبض ہوچکے تھے جہاں انہوں نے اسلامی ثقافت کی بنیاد رکھی جو آٹھ صدیوں تک زندہ رہی۔ 1494ء میں فرڈینینڈ اور ازابیلا نے غرناطہ سے مسلم سلطنت کا خاتمہ کیا تو اس وقت تین سے آٹھ لاکھ مسلمانوں اور ستر ہزار یہودیوں کو مسیحیت قبول کرنے پر مجبور کردیاگیا تھا۔ غالب گمان یہ ہے جبر کے ماحول میں بہت سارے مسلمان اپنے سینوں میں اسلام چھپائے کولمبس کے ساتھ بحری سفر پر روانہ ہوگئے تھے۔

ہسپانیہ میں آٹھ سوسال تک مسلم ثقافت و تہذیب کے رسوخ نے بعد میں میں وارد ہونے والے مسیحیوں پر بھی اثرات مرتب کیے۔ یہ اثرات ان ہسپانوی مسیحیوں کے تعامل میں بھی ظاہر تھے جنہوں نے امریکا پر قبضہ کیا تھا۔ مؤرخ برنال دیاز کاستلو کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ مسلم رقاصاؤں کے لباس کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہسپانوی مسیحی امریکا میں مذہبی عبادت گاہوں کو ’مسجد‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ مؤرخ کاستلو لکھتے ہیں کہ انہوں نے Anahuac (موجودہ میکسیکو اور ٹیکساس) میں سفر کے دوران چار سو کے قریب مساجد دیکھیں۔

مسیحی ہسپانویوں کے لیے مہموں کے دوران نئی دنیا و باشندوں کے ساتھ تعامل کے لیے اسلامی تاریخ و ثقافت کے طور طریقے اور اصول خاصے اہمیت کے حامل رہے۔ وہ جب نئی آبادیوں میں داخل ہوتے تو اسی طرح کا طرزعمل اپناتے جیسے مسلمان ایسی صورتحال میں اختیار کرتے تھے۔ ان پر عربوں کا اثر نمایاں تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک علاقے کو فتح کیا تو اس کو ’کیلیفورنیا‘ کا نام دیا جو عربی تلفظ سے ملتا جلتا ہے۔ اصل میں انہوں نے یہ نام 1535 میں رکھا تھا اور اسے 1510 میں شاثع ہونے ہونے والی ایک کہانی سے حاصل کیا۔ یہ ایک جنگلی قبیلے کے ان لڑکوں کے رومانس کی کہانی ہے جس پر ’کالافیا‘ نامی ملکہ حکمران تھی۔ یہ کہانی اشبیلیا میں شائع ہوئی تھی جہاں کئی صدیوں تک مسلمان حکمران رہے۔ (Caliph,Calafia اور California کے مابین لفظی تشابہ محسوس کیا جاسکتا ہے)۔

ہسپانوی فاتح جب امریکا میں داخل ہوئے تو انہوں نے سیاہ فام امریکی باشندوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ یا مسحیت قبول کرو، یا پھر ہونے والے نقصان کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ مسلمان اپنے جہادی معرکوں میں یہی طرزعمل اختیار کرتے تھے۔ ہسپانویوں نے مسلم ثقافت کے کئی امور کو مسیحیت کا چولا پہنا دیا تھا۔

ہسپانوی فاتح جب امریکا میں داخل ہوئے تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ یا مسحیت قبول کرو، یا پھر ہونے والے نقصان کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ مسلمان اپنے جہادی معرکوں میں یہی طرزعمل اختیار کرتے تھے۔ ہسپانویوں نے مسلم ثقافت کے کئی امور کو مسیحیت کا چولا پہنا دیا تھا

1503ء کی شروعات میں مغربی افریقا کے مسلمانوں کو بھی ایک نئے جہان سے متعارف کرادیا گیا تھا۔ ثبوت یہ ہے کہ اسی سال ہسپانیولا جزیرے کے حاکم نے ملکہ ازابیلا کو خط لکھ کر مزید غلاموں کی ترسیل سے منع کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا ’یہ غلام ہمارے لیے عار کا باعث ہیں، یہ بار بار مالکوں سے بھاگ جاتے ہیں‘۔ 1522ء میں کرسمس کے موقع پر کماد کے کھیتوں میں کام کرنے والے 20 غلاموں نے بغاوت کردی تھی اور اپنے آقاؤں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ ان باغیوں کی اکثریت مسلم عقیدے کی حامل تھی اور تعلق سنگالیا سے تھا جہاں لوگوں نے گیارھویں صدی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ افریقی مسلم باقی غلاموں کے برعکس پڑھے لکھے تھے، تب یہ خوبی ان کے مالکوں میں بھی شاذ تھی۔

اس  کا مطلب ہے کہ 1607ء میں جب استعماری کمپنی ورجینیا کی طرف سے جیمز ٹاؤن کی بنیاد رکھی گئی اس سے سوسال سے زائد کے عرصے سے پہلے مسلمان امریکا میں موجود تھے۔ 1630ء میں جب میساچوسٹس کی بنیاد رکھی گئی مسلمان امریکا میں ایک صدی گزار چکے تھے۔ نہ صرف یہ کہ مسلمان پروٹسٹنٹ فرقے کے وجود میں آنے قبل وہاں رہتے تھے بلکہ کیتھولک مسیحیت کے بعد دین اسلام امریکا میں دوسرا بڑا مذہب تھا۔

آج جب پڑھے لکھے افراد بھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ مسلمان امریکا میں نووارد ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی تاریخ کیسے لکھی گئی ہے۔ خصوصاََ اس امر کا اندازہ کہ مؤرخین نے کیسے جدید نیشن سٹیٹ کے تصور کا والہانہ استقبال کیا، گویا امریکی تاریخ یہیں سے شروع ہوتی ہے، اور یورپی موجودگی والے تین سو سال کے متنوع سماج کی تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے لپیٹ دیا گیا۔

امریکی تاریخ کی تدوین میں پیوریٹن (پروٹسٹنٹ تطہیری گروہ) اداروں کی فکر کا غلبہ بہت زیادہ رہا ہے۔ اب یہ بات شاید درست تسلیم نہ کی جاسکے جیساکہ سو برس قبل مؤرخ یو بی فلپ نے شکوہ کیا تھا کہ امریکہ کی تاریخ ریاست بوسٹن نے لکھی ہے اور زیادہ تر غلط لکھی ہے۔ تاہم اگر امریکا کے مذاہب کی تاریخ کا ذکر کیا جائے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ریاست بوسٹن کے پیوریٹن اداروں (ہارورڈ یونیورسٹی) اور نیو ہیون شہر (ییل یونیورسٹی) میں مدون کی گئی۔ مذاہب کی تاریخ کی تفہیم کا پیوریٹن نظریہ ایسا ہے جو اسے مسخ کرنے پر یقین رکھتا ہے، اس پر اعتماد ایسے ہے کہ جیسے ہم بیسویں صدی کی یورپین سیاسی تاریخ کو ٹراٹسکیوں کی عینک سے دیکھیں۔

امریکی مسلمانوں کی تاریخ کا اخفاء محض کسی پراسرار راز کی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ اس کے اثرات ان کی آج کی سیاسی شناخت کے مضمحل ومشوک ہوجانے کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ تاریخ مردہ تابوت نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں نے ایک مذہب کی پانچ سوسالہ تاریخ پر دبیز پردہ ڈال دیا جس کی وجہ سے اس سوال کا جواب حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ امریکی ہونے کا اطلاق کس پر ہوگا اور کون اس سرزمین سے وابستگی کا حق رکھتا ہے؟

مسلم عنصر ابتدا سے ہی عظیم ترین امریکا کا حصہ رہا ہے ان تمام علاقوں میں جسے آج ریاست ہاے متحدہ امریکا کا نام دیا جاتا ہے۔ 1527ء میں غلاموں کی تجارت کی ہسپانوی مہم کے دوران مصطفیٰ رموزی فلوریڈا پہنچا۔ باوجود تمامتر مشکلات کے، میکسیکو کے ساحلوں سے امریکا کے جنوب مغربی علاقوں تک سفر کرتے ہوئے  رموزی اپنی آزاد اور خودمختار زندگی کی بنا رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔

نہ صرف یہ کہ مسلمان پروٹسٹنٹ فرقے کے وجود میں آنے قبل وہاں رہتے تھے بلکہ کیتھولک مسیحیت کے بعد دین اسلام امریکا میں دوسرا بڑا مذہب تھا

کابیزا دی واکا اُن چار غلاموں میں سے ایک تھا جو اس بدنام زمانہ غلامی کی تجارتی مہم میں سروائو کرتے ہوئے خود کو بچانے میں کامیاب ہوا تھا، اس نے 1542ء میں کتاب تصنیف کی تھی جو Adventures in the Unknown Interior of America کے نام سے معروف ہے۔ اس میں کابیزا نے قید اور مشقت کے آٹھ سالوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ اس میں ایک نام رموزی کا بھی آتا ہے، اس نے بتایا ہے کہ کیسے ’’یہ شخص اُن کے لیے ناگزیر بن گیا تھا‘‘ یہ اُن سے ہر وقت بات چیت کرتا اُنہیں سکھاتا تھا۔ ’اُن‘ سے مراد اصلی امریکی باشندے ہیں جنہیں اس نے بہترین زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا تھا۔ لیلیٰ لمانی نے بھی اپنی کتاب The Moor’s Account میں یہ تذکرہ لکھا ہے۔

1675ء سے 1700ء کے درمیان چساپیک حکومت نے ورجینیا اور میری لینڈ میں افریقا سے چھ ہزار غلام برِآمد کرنے کا اجازت نامہ جاری کیا تھا۔ اس سے قبل 1668ء میں سفید فام غلام پانچ بمقابلہ ایک سیاہ فام کی شرح کے ساتھ اکثریت میں تھے لیکن 1710ء میں جب مزید آٹھ ہزار غلام لائے گئے تو عددی برتری کی شرح اُلٹ ہوگئی۔ ان افریقی غلاموں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اٹھارویں صدی کے مشنری مبلغ حلقوں کو یہ شکایت تھی یہ مخصوص غلام ان کے مذہب کی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ دین اسلام تمام امریکی غلاموں کی کمیونٹی میں پھیل جائے گا۔

ایوب سلیمان دیالو اٹھارویں صدی میں شمالی امریکا کی مشہور شخصیت تھی، جسے برطانوی تاجر نے افریقا سے لاکر میری لینڈ میں فروخت کیا تھا۔ ایک مشنری نے دیکھا کہ دیالو عربی میں کچھ لکھتا رہتا ہے، اسے شک ہوا کہ یہ مسلم ہے تو چیک کرنے کے لیے اس کو شراب پینے کو دی، معلوم ہوا کہ مسلم ہے تو اس کا نام ایوب سے جوب کردیا گیا  سلیمان کو Solomon میں بدل دیاگیا۔  فرنچ مصنفہ موریسن ڈریو نے اپنے ناول Song of Solomon (1977ء) کے چوتھے باب میں اشارہ کیا ہے کہ امریکا میں افریقی غلاموں کے نام کیسے تبدیل کیے گئے۔ ناموں کی تبدیلی بعض اوقات جبری ہوتی تھی۔ 1791ء میں جارجیا کے ایک اخبار میں ایک غلام کے بھاگنے کی خبر کا اعلان لگایاگیا تھا جس کا نام جیفری (یا ابراہیم) لکھا گیا تھا۔ وہ نام کی تبدیلی کے لیے مالک کے تشدد کی وجہ سے فرار ہوگیا تھا۔

ایک کتاب Practical Rules for the Management and Medical Treatment of Negro Slaves in the Sugar Colonies (1803) میں بتایا گیا ہے کہ مسلم امریکی غلام بکریاں اور گھوڑے چرانے میں مہارت رکھتے ہیں اور گھر کے کام بھی بخوبی انجام دیتے ہیں۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی زبان عربی ہے۔

سترہویں صدی میں تطہیری پروٹسٹنٹ کی تعداد اکیس ہزار تھی جو اٹھارویں صدی کے وسط میں ستر ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ اگرچہ اتنی بڑی تعداد نہیں تھی لیکن انہوں نے خود کو نیوانگلینڈ کے پڑھے لکھے اساتذہ و برتر افراد کے طور پہ ثابت کیا تھا۔ انہوں نے ادارے بنانے کی روایت بھی ڈالی۔ دو صدیوں تک فکری برتری کے غلبے کے اثرات نے امریکا میں بہت کچھ بدل دیا۔ ایک ایسی تاریخ لکھی گئی جس میں صرف ایک قوم اور ایک مذہب کی تصویر کشی ہے۔ آج امریکا میں تمام مسلمان اجنبی اور نووارد خیال کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ اسی طرح ان کا ملک بھی ہے جیسے مسیحیوں کا۔

ترجمہ وتلخیص: شفیق منصور، بشکریہ: ایان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...