بھوک کی سیاست
ایسے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت فلاحی ریاست بارے بہت ہی سادہ تصور رکھتی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ جسے بارہا دہرایا جاتا ہے اور جو مذہبی بیانیوں اور غیرواقعاتی خیالات کا کوئی مرکب بن گیا ہے، بظاہرعوام کے سامنے زبانی جمع خرچ کے سوا اس کی کوئی بامعنی حیثیت نہیں۔
احساس سیلانی لنگر کا افتتاح ’تبدیلی‘ کا مظاہرہ دکھانے کی غرض سے منفرد نظر آنے والے ان اقدامات کا تسلسل ہے جو حکومت وقتاََ فوقتاََ اٹھاتی رہتی ہے۔ لنگر خانے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے لوگوں کی طرف سے ریاستِ مدینہ کے دعوے کی عملی مصداقیت کی ناکامی پر کیے جانے والے اعتراضات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ محض 13 ماہ کے عرصے میں میں ایسی کامیابی کا حصول مشکل ہے۔
اس نوع کی تنقید پر وزیراعظم کے شکوے کے پیرائے میں کچھ نیا نہیں تھا، نہ ہی غربت کے خاتمے کے لیے ان کی حکمت عملی اور طرزِ فکر کی جہت میں کوئی جدت یا پیش رفت ہے۔ غربت میں کمی لانے کے ہدف کے لیے ترقی پذیر ممالک، خصوصاََ پاکستان ناقص اور غیرثمرآور حکت عملیوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
مفت کھانا مہیا کرنے کی حکومتی سکیم کی تقریب کے ایک ہفتے بعد عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے تجرباتی حکمت عملی متعارف کرانے کی بنا پر بھارتی نژاد ماہر معاشیات ابھیجیت بینرجی، ان کی اہلیہ ایشتر ڈفلو اور ایک اور اکانومسٹ مکھیل کریمر کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ان کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے غریب ممالک ومعاشروں کی معیشت کو موضوع بنایا۔ ان کے مطابق عالمی غربت کے خاتمے کا خواب پورا نہ ہونے کا سبب اس کے متعلق فرسودہ اور روایتی طرزفکر کا معاشروں میں رسوخ ہے۔ انہوں نے غربت کے خاتمے کے روایتی نظریات کوچیلنج کرتے ہوئے غربت کی وجوہات جاننے کی کوشش ہے کہ غریب مراعات پر کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
ان ماہرین نے فیلڈ ورک کیا اور اٹھارہ ممالک کی غریب آبادیوں میں کچھ وقت گزارا، اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ترقی پذیر ممالک اس لیے ناکامی سے دوچار نہیں ہیں کہ وہ غریب ہیں یا تاریخی طور پہ کسی بدنصیبی کی زد میں ہیں، بلکہ ان اقوام کو جہالت،آئیڈیالوجی اور بے عملی کی سوچ سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اس تحقیقاتی مطالعے سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ غریبوں کو زیادہ روٹی یا پیسہ مہیا کردینا انہیں غربت کے چنگل سے باہر نہیں نکال سکتا۔
چین کا غربت ختم کرنے کا پروگرام جس سے عمران خان بھی متأثر ہیں، یہ اس کے مجموعی ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کے دی بائوDibaoپروگرام میں خصوصی طور پہ کم کرایوں پر گھروں کی فراہمی، شعبہ صحت میں اصلاحات، تعلیمی ایمرجنسی اور ناگہانی آفات کی صورت میں عارضی امداد کی یقین دہانی پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے
علامہ اقبال نے 1904ء میں اقتصادیات سے متعلقہ ایک کتاب کا تعارف لکھا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مسلمانوں کے معاشی امور کے متعلق نقطہ نظر کا ذکر کرتے ہیں جو پاکستان کے تناظر میں آج بھی قابل عمل ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ دولت کا علم (knowledge of wealth)انسان کو حریص بنانے اور اخلاقی طور پر تباہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنتا، بلکہ اس کا علم انسان کی جنگی جبلت کو کنٹرول کرنے اوردنیا میں امن قائم کرکے ہم آہنگی پید کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کتاب کے دیباچے میں اس امر کی وضاحت بھی ملتی ہے کہ سائنس اور علم الاقتصاد کو برصغیر کی مسلم فکری دانش سے کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ معیشت کے شعبہ میں کسی مربوط فکری پراسس کی عدم موجودگی کی بنا پر ریاستِ پاکستان ابھی تک قرون وسطیٰ عہد کی سوچ کے مطابق لنگر خانے کھول کر ملک سے غربت کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس قسم کے عارضی اقدامات سے ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
بھوک کے عالمی اشاریے میں 117 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 94 واں نمبر ہے اس انتباہ کے ساتھ کہ ملک کو بھوک کے حوالے انتہائی سنجیدہ نوع کی مشکلات کا سامنا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 24فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس سے ایک موثر و مربوط حکمت عملی مرتب کیے بغیر نبرد آزما نہیں ہوا جا سکتا۔
چین کا غربت ختم کرنے کا پروگرام جس سے عمران خان بھی متأثر ہیں، یہ اس کے مجموعی ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کے دی بائوDibaoپروگرام میں خصوصی طور پہ کم کرایوں پر گھروں کی فراہمی، شعبہ صحت میں اصلاحات، تعلیمی ایمرجنسی اور ناگہانی آفات کی صورت میں عارضی امداد کی یقین دہانی پر توجہ دی گئی ہے۔ دیہی علاقوں سے وابستہ افراد کے لیے مشروط طورپہ مفت خوراک کی فراہمی بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ لوگوں کو سرکاری پراجیکٹس میں کام کرنے کے بدلے کھانا اور تنخواہ دیے جاتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ابسے منصوبوں کی ترتیب اور ان کی فعالیت میں نچلی سطح کی لوکل باڈیز کا کردار بنیادی ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس اختیارات کی مرکزیت کی سوچ زیادہ مضبوط ہے۔
عالمی سطح پرغربت کے خاتمے کے لیے بھارتی حکومت کے اقدامات کو بھی سراہا جاتا ہے، تاہم اس کی تبدیلی کی رفتار ابھی سست ہے۔ بھارت بھوک کے عالمی اشاریے میں 117 ممالک میں 102 نمبر پہ آتا ہے اور غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد کے اعتبار سے اس کا شمار سب سے خطرناک ممالک میں ہوتا ہے۔ آنے والے چند برسوں میں بھارت ممکنہ طور پہ اپنی آبادی کے تین فیصد حصے کو خطِ غربت سے باہر نکال لے گا، لیکن اس کے غربت مٹاؤ پروگرامز کو ماہرین اس حوالے سے جانبدارانہ بھی خیال کرتے ہیں کہ ان میں مخصوص قوم پرست ماڈل کا فروغ مقصود ہوتا ہے۔ ان سے وہ حلقے ترجیحی بنیادوں پر استفادہ کرپاتے ہیں جہاں سے حکمراں جماعت نے کامیابی حاصل کی یا جہاں وہ اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔
ترقیاتی پروگرامز کے اس ماڈل کو ’بھوک کی سیاست‘ کا عنوان بھی دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سخت گیر ہندوتوا کی نمائندگی کرنے والے آر ایس ایس جیسے گروپ حکومتی ڈھانچے کے آلہ کار بن گئے ہیں اور وہ منظم طریقے سے اُن کچی بستیوں پر اس سیاسی حربے کو آزماتے ہیں جن میں نچلی ذات کے ہندو رہتے ہیں، تاکہ انہیں آئیڈیالوجیکل قوم پرست ہندو شناخت کے رنگ میں رنگا جاسکے۔ آر ایس ایس اپنے سکولوں، طبی کیمپس اور دیگر فلاحی خدمات کا نیٹ ورک وسیع کر رہی ہے، یہ کچی بستیوں کے باسی کمزور ہندوؤں کو مذہب کی تبدیلی کی اس لہر سے بچانا چاہتے ہیں جو ہندوتوا گروپس کے خیال میں ہندونیشنل ازم کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
پاکستان میں بھی بعض مذہبی خیراتی ادارے، خصوصاََ کالعدم تنظیموں کے ٹرسٹ، بھی انتہاپسند آر ایس ایس کے ماڈل کی پیروی کرتے رہے ہیں، انہوں نے سندھ اور پنجاب میں اقلیتی آبادیوں کے ساتھ اس طرح کے انتظامات کیے۔ تاہم پاکستان کے خیراتی نیٹ ورک کا دائرہ اتنا وسیع نہیں جتنا آر ایس ایس اور اس سے وابستہ عناصر کا ہے۔ اِن کے لیے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ان تنظیموں پرعالمی برادری کی طرف سے نگرانی کا شکنجہ سخت ہوگیا ہے۔
انتخابات کے دوران بی جے پی نے بھارت میں بھوک کارڈ کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان کے گزشتہ انتخابات میں غربت انتخابی سیاست میں بڑے مسئلے کے طور پر نمایاں نہیں رہی۔ حکمران جماعت نے بدعنوانی اور کرپشن کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا۔ کرپشن کا موضوع زبردست عوامی سپورٹ تو مہیا کرتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اس کا منظم و بامعنی سدباب اتنا آسان ہدف نہیں ہے۔ مزید براں علاوہ کرپشن مخالف نعروں پر مبنی سیاسی حمایت کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی۔
حکومتی پرفارمنس کے لیے بڑھتے عوامی دباؤ کی شدت کم کرنے اور حقیقی چیلنجز سے توجہ پھیرنے کے لیے حکومتیں لنگر کھولنے اور سستی روٹی فراہم کرنے جیسے پاپولسٹ اقدامات اٹھاتی ہیں، لیکن 200ملین سے زائد آبادی کے ملک میں ان کے نتائج صفر رہتے ہیں۔ نوبل انعام حاصل کرنے والے ماہرین کی تحقیق میں پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کے لیے سبق ہے: اگر وہ حقیقت میں بھوک کے آسیب سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو انہیں جہالت، آئیڈیالوجی اور بے عملی سے لڑنا ہوگا۔
بشکریہ: روزنامہ 92
فیس بک پر تبصرے