گلگت بلتستان میں غذائی قلت کے بڑھتے خدشات
سکردو میں حسب سابق اس سال بھی عالمی یوم خوراک اور غربت کے خاتمے کے عالمی دن خاموشی سے گزر گئے۔ محکمے کی بے حسی اور ناقص کا رکردگی کا نتیجہ ہے کہ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے رسک زون ہونے کے باوجود یہاں ابھی تک فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ یہاں کی آبادی اپنی خوراک اور راشن کے لیے مارکیٹ پر انحصار کرتی ہے۔ ایک مخصوص کوٹے کے تحت یہاں سال بھر کی گندم آتی ہے جو فلور ملوں کو جاری کر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ آٹا مختلف وارڈز میں نامزد کردہ ڈیلروں کے پاس ہی دستیاب ہوتا ہے اور کئی روز بعد ایک ڈیلر کو اپنی باری پر آٹا ملتا ہے جس کے لیے خواتین اور مرد دن کا بیشتر حصہ اپنا کام چھوڑ کر لائنوں میں لگ کر آٹا حاصل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے کُل رقبے کے صرف اور صرف 2 فیصد رقبے پر کاشت ہورہی ہے۔ مگر ان میں بھی گندم کی کاشت کی شرح بہت کم ہے۔ لوگ فوری نقدی اور یومیہ ضروریات پوری کرنے کے لالچ میں گندم کی جگہ دیگر پھل اور سبزیاں اُگا رہے ہیں۔ بنجر زمینوں کو آباد کرنے یا پہلے سے زیر کاشت زمینوں پر گندم سمیت دیگر زرعی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے محکمے کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا۔ حکومت نے ’ایفاد‘ منصوبے کو اسی ضرورت کے پیش نظر گلگت بلتستان میں متعارف کرایا تھا جس کے تحت گلگت علاقے کی 8 لاکھ کنال بنجر اراضی کو زیر کاشت لایا جانا ہے۔ لیکن یہ پروگرام بھی کچھ اضلاع میں ہی پھنس کر رہ گیا ہے۔ جن اضلاع میں زمینون کی گنجائش زیادہ موجود ہے ابھی تک یہ منصوبہ وہاں نہیں بڑھایا گیا۔
گلگت بلتستان کے کُل رقبے کے صرف 2 فیصد رقبے پر کاشت ہورہی ہے۔ مگر اس میں بھی گندم کی کاشت کی شرح بہت کم ہے۔ لوگ فوری نقدی اور یومیہ ضروریات پوری کرنے کے لالچ میں گندم کی جگہ دیگر پھل اور سبزیاں اُگا رہے ہیں
اگر ہنگامی بنیادوں پر بلتستان میں خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو کسی بھی لمحے خطے میں خوراک کی قلت کا سنگین سامنا ہوسکتا ہے۔ بلتستان وفاقی دارالحکومت سے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سارا راستہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جو سلائیڈینگ زون بھی ہے۔ اس پہ وقتاً فوقتاً مٹی کے تودے گرنے سے راستہ بند ہوتا رہتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب خطے میں بارشوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ جس کی روشنی میں شاہراہ بلتستان اور شاہراہ قراقرم پر تودہ گرنے کے امکانات کئی گنا بڑھ رہے رہیں۔ گذشتہ دنوں سکردو کے ایک محدود حصے میں ایک گھنٹہ بارش کیا آئی تقریباً ایک کروڑ روپے کی لاگت سے دو ماہ قبل بننے والی سڑک کی حفاظتی دیوار زمین بوس ہوگئی۔ ویسے بھی شاہراہِ بلتستان جو زیر تعمیر ہے اور اس دوران سینکڑوں مقامات پر پہاڑ کاٹنے کے لیے بلاسٹینگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے باعث پہاڑوں میں اتنی ٹوٹ پھوٹ ہوگئی ہے کہ ماہرین کے مطابق آئندہ 25 سے 30 سالوں تک اس رُوٹ پر کسی بھی لمحہ بڑے پتھروں کے گرنے کا سلسلہ جاری ہو سکتا ہے۔ یوں جب بھی سڑک چند روز کے لیے بند ہوئی سکردو شہر سمیت دیگر اضلاع میں سب سے پہلے گندم اور پٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ ماضی میں روندو کے علاقے میں پہاڑی کا بڑا حصہ گرنے سے دو ہفتے سے زیادہ عرصہ کے لیے سڑک بند رہی تو گندم، چاول، آلو اور دالیں مارکیٹ سے ختم ہوگئے تھے۔
ہمیں سبسڈی گندم کے لیے زیادہ شور مچانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ گندم اُگانے کے منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں زیادہ شدت سے جو سوال اُبھرتا ہے وہ یہ کہ متعلقہ اداروں کے حکام خطے میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟
پچھلے 72 سالوں میں محکمہ زراعت اس سطح پر نہیں آسکا ہے کہ زرعی اجناس، پھل، سبزی یا پروسیسینگ شدہ کسی بھی شے کی محدود پیمانے پر ہی سہی، مارکیٹ کرسکے۔ سابق ڈائریکٹر زراعت حاجی عبدالکریم بلغاری مرحوم نے بلتستان بھر میں جتنی نرسریاں اپنے دور میں قائم کیں اُنہیں میں جا کر سیلفی تصویریں لے کر موجودہ حکام اپنی بریفینگ سلائیڈز میں رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ کوئی قابل ذکر نرسری کا اضافہ اُن کے بعد کئی عشروں میں نہیں ہوا۔ اس کے مقابلے میں ان کے ذاتی باغات اور نرسریاں دیکھیں تو وہاں نمایاں تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔
محکمے نے اب تک ایک بڑا منصوبہ شگر میں بلتستان بھر سے جمع شدہ خوبانی کو سکھانے کے لیے ایک بڑا ڈیہایڈرشن یونٹ تعمیر کرایا تھا۔ اس میں ہیوی مشینری بھی لگ گئی مگر بتایا جاتا ہے کہ مشینری کے ناقص ہونے کےباعث اب تک یہ یونٹ بند پڑا ہے اور سرکاری خزانے سے ساڑھے تین 3کروڑ روپے سے زائد صَرف ہونے کے باوجود مشینیں بے کار پڑی ہوئی ہیں جو محکمے کے حکام کی روایتی سستی اور نااہلی کو ثابت کرتا ہے۔ ان حالات کا نوٹس نہ لیا گیا تو بہت جلد یہ علاقہ غذائی قلت کا کے شکار خطوں میں شامل ہو سکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے