جامعہ بلوچستان کے ویڈیو سکینڈل کا جائزہ

دانش مراد

601

جامعہ بلوچستان کا پس منظر

جامعہ بلوچستان صوبے کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے یہاں مختلف شعبوں میں 10ہزار سے زائد طلباء و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ جن میں صوبے کے مختلف اضلاع سے آنے والے طلباء و طالبات شامل ہیں۔ جامعہ میں طالبات کے مقابلے میں طلباء کی تعداد زیادہ ہے ۔بلاشبہ گزشتہ چند سالوں کی محنت سے جامعہ میں تعلیم کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات میں خواتین کو نمائندگی بھی دی گئی ہے جن میں ایڈمن بلاک سرفہرست ہے۔اس ادارے کو صوبے کی ”مدر یونیورسٹی“ بھی کہا جاتا ہے جو کہ ون یونٹ کے خاتمے اور بلوچستان کو صوبے کی حیثیت ملنے کے بعد قائم کی گئی۔ اس جامعہ سے بلوچستان کے نامور سیاستدان، صحافی،بیوروکریٹس سمیت دیگر اعلی حکام اپنی تعلیم مکمل کرکے آج  ملکی ترقی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز اس یونیورسٹی کا صوبے کی ترقی میں بڑا کردار ہے۔

ویڈیو اسکینڈل کے خلاف تحقیقات کیسے شروع ہوئیں؟

بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک شخص نے جامعہ میں میرٹ  کےخلاف ملنے والی ترقیوں کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پرتحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس دوران اس امر کا انکشاف ہوا کہ جامعہ بلوچستان میں کیمروں کےذریعے فوٹیج بنا کر طالبات کو بلیک میل کیا جاتا ہے جس پر بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پروفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے)نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ایف آئی اے کو تحقیقات کے دوران کیا ملا؟

تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کے دو افسران سے بات کرنے کی کوشش کی گئی جن میں سے ایک نے صرف اتنا بتایا کہ معزز عدالت کے حکم پر جامعہ میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور معاملے پر جو حقائق سامنے آئیں گے اس سلسلے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔ دوسرے افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر راقم کو بتایا کہ جامعہ کے جن لوگوں سے تفتیش ہوئی ہے ان کی بیانات میں تضاد ہے  جبکہ ایسے چیزیں بھی برآمد ہوئی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ کی طالبات کو بلیک میل کیا جاتاتھا۔ اس افسر نے یہ بھی بتایا کہ تفتیش کے دوران حاصل شدہ حقائق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ میں ویڈیو اسکینڈل کے پیچھے بڑا گروہ ملوث ہے جن کا کام طالبات کو ہراساں کرنا ہے۔

جامعہ بلوچستان کے ذمہ داران کیا کہتے ہیں؟

مبینہ ویڈیو اسکینڈل کے حوالے تحقیقات کے دوران  معلوم ہواہے کہ جامعہ میں اس سے پہلے بھی ہراسگی کی بازگشت سنائی دی ہے جبکہ اس پر کبھی تحقیقات نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق ایک سال قبل ایک طالبہ کی جانب سے سریاب پولیس اسٹیشن میں ایک طالبعلم کیخلاف اطلاعی رپورٹ بھی داخل کی گئی تھی جسے بعد میں جامعہ کے ایک افسر کے نام پر غلط رنگ دیا گیا۔دیگر ذرائع سے بھی بات کی گئی تو انہوں نے بھی کہا کہ جامعہ کے افسران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کی تحقیقات سے خوش نہیں اور جب سے تحقیقات کا آغاز ہوا ہے تب سے اعلی پوسٹوں پر بیٹھے افسران میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔  طلباء تنظیم کے ایک نمائندے نے بتایا کہ متعدد متاثرہ طالبات نے طلباء تنظیموں سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کو انصاف مل سکے۔ اس کے علاوہ چند طلباء تنظیموں کی خواتین ارکان نے بھی بتایا کہ اکثر طالبات جامعہ کے افسران کی شکایات کرتی ہیں کہ ان کا رویہ درست نہیں ہے۔

جامعہ کا اکیڈمک اسٹاف کیا کہتا ہے؟

اکیڈمک اسٹاف جامعہ بلوچستان کے ممبران کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی افسران کی سربراہی میں طالبات کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین میں بڑی تعداد انٹرن ملازمین کی ہے۔ ان انٹرنیز کو مختصر مدت کی عارضی ملازمتوں پر رکھا جاتا ہے جب ان کی ملازمت کا وقت ہونے ختم ہونے کے قریب آتا ہے تو جامعہ کے اعلی حکام انہیں مدت ملازمت میں توسیع دینے کے نام پر  بلیک میل کرتے ہیں۔ اکیڈمک اسٹاف نے بتایا کہ سب سے زیادہ طالبات اور خواتین، ملازمت میں توسیع، ٹورز، لیپ ٹاپ سمیت دیگر معاملات پر ہراساں اور بلیک میل ہوتی ہیں۔اکیڈمک اسٹاف نے مبینہ ویڈیو اسکینڈل کی صاف و شفاف تحقیقات کیلئے وائس چانسلرکے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

یو او بی ہنز نامی تنظیم کیا ہے؟

یو او بی ہنز (UOBanz) یہ جامعہ بلوچستان کی ایک تنظیم ہے جس میں جامعہ کے طلباء و طالبات اپنے فارمز جمع کرکے اس تنظیم کے رکن بنتے ہیں۔یو او بی ہنزکے ارکان مختلف مواقعوں، تقریبات، شہروں، ٹورز میں جامعہ بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یو او بی ہنز کے حوالے سے طلباء سے بات چیت کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جامعہ میں یو او بی ہنزکے ارکان کو عام طلباء سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جو کہ طلباء کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ایسے طلباء سے بھی بات چیت ہوئی جو یو او بی ہنز کے ممبر ہیں  لیکن وہ بھی مایوسی کا شکار تھے ان کاکہنا تھا کہ یو او بی ہنز کی تقریبات میں اپنی پسند کے لوگوں کو بلایا جاتا ہے۔ طلباء نے بتایا کہ یو او بی ہنز کے ممبران کو مختلف شہروں میں ٹورز، لیب ٹاپس، اسکالرشپ، جامعہ میں عارضی ملازمتیں بھی دی جاتی ہیں۔

چانسلر اور وائس چانسلر جامعہ بلوچستان کا موقف

چانسلر جامعہ بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کا کہنا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں طالبات کو ہراسگی کے واقعات کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس معاملے پر  جس  شخص کو  بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے طلباء اور اساتذہ تنظیموں سے کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک بیان بازی سے گریز کیا جائے۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کسی کو بھی ذمہ دار پایا گیا تو نہیں چھوڑا جائےگا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ مبینہ ویڈیو اسکینڈل سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں جبکہ ایسے الزامات جامعہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کیلئے لگائے جارہے ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق جامعہ بلوچستان پر سول سوسائٹی کا بھروسہ بحال کردیا  تھا یہی وجہ ہے کہ  ہمارے بی ایس پروگرام کی چار ہزار نشستوں پر 12ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں بھی مبینہ ویڈیو اسکینڈل پر تشویش

ارکان بلوچستان اسمبلی نے بھی اس مبینہ ویڈیو اسکینڈل کے بعد تشویش کا اظہار کیا۔ مبینہ ویڈیو اسکینڈل اور وائس چانسلر کے خلاف اسمبلی میں ارکان کی جانب سے مختلف نوعیت کے احتجاج بھی کئے گئے۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے متاثرہ خواتین سے بات کرنے کے لئےارکان اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی جو متاثرہ طالبات کا موقف  سنے گی۔ اس کمیٹی میں  خواتین اور مرد ارکان  اسمبلی شامل  ہیں۔

طلباء تنظیموں کا احتجاج

مبینہ ویڈیو اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد سے مختلف طلباء تنظیموں کی جانب سے کئی سالوں بعد جامعہ کی حدود میں احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ طلباء تنظیموں کے دو مطالبات سرفہرست ہیں کہ وائس چانسلر کو فوری طور پر برطرف کیا جائے جبکہ مبینہ ویڈیو اسکینڈل میں ملوث افراد کو منظر عام پر لاکر سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ان احتجاج کی خاص بات یہ ہے کہ ان مظاہروں اور دھرنوں میں طالبات کی بھی بڑی تعداد شریک تھی جو ناصرف جامعہ کی انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کررہی تھیں بلکہ واقعہ میں ملوث افراد کو بھی منظر عام پر لانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔

اس اسکینڈل کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟

مبینہ ویڈیو اسکینڈل کا فیصلہ جو  بھی آئے وہ الگ بات ہے لیکن اس کے اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ والدین اپنے بچیوں کو جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے نہیں دے رہے جبکہ ہاسٹل میں رہنے والی اکثر طالبات  کو بھی ان کے والدین نے واپس بلا لیا ہے۔ طالبات کے ہاسٹل ذرائع  سے معلوم ہوا ہے کہ جب سے مبینہ ویڈیو اسکینڈل کا شور شروع ہوا ہے تب سے طالبات ہاسٹل میں رہنے سے کترارہی ہیں۔ وہ ہر وقت خفیہ کیمروں کے خوف میں رہ رہی ہیں جبکہ ایسی طالبات  کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اب ہاسٹل سے باہر اپنے رشتہ داروں،نجی ہاسٹلزاور دیگر جگہوں پر منتقل ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں قدیم فرسودہ روایات کی وجہ سے پہلے ہی خواتین کو نہیں پڑھایا جاتا تھا اب مبینہ ویڈیو اسکینڈل کے بعد تو والدین اپنی بچیوں کو پڑھنے بھی نہیں دیں گے جس کے باعث بلوچستان میں خواتین کی شرح خواندگی مزید کم ہوگی جو کسی المیہ سے کم نہیں ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...