لوکل گورنمنٹ سے گھبرائی سیاست

1,221

پاکستانی سیاست میں جس واحد نکتے پر محمود و ایاز ایک پیج پر ہیں وہ 21 کروڑ عوام کو مؤثر لوکل گورنمنٹ کے نظام سے محروم رکھنا ہے۔ اگر پاکستان کی حقیقی تصویر دیکھی جائے تو یہ اصل میں وفاق، دفاع، ڈونرز اور عالمی ڈیبٹ اسٹیبلشمنٹ(قرضہ دینے والی) کی راج دھانی بن چکی ہے۔ صوبے تاریخی طور پر سیاسی نظریات کا اکھاڑہ اور اضلاع ڈی ایم جی(نیا نام پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)، پولیس اور پٹوار کی جاگیر ہیں۔ وفاق والے اچھی اور مؤثر سیاست کو اُوپر نہیں آنے دیتے جبکہ صوبے والے عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانے والے لوکل گورنمنٹ کے جامع نظام کو نیچے نہیں جانے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈسٹرکٹ میں اپنی من پسند پوسٹنگ اور ٹرانسفرز پر سارا زور لگاتے ہیں۔ کنٹرول اور مفادات کا یہ کھیل ٹوٹ پھوٹ کو جنم دے رہا ہے۔ اِس ذوقِ تھانیداری اور شوقِ ٹھیکیداری کے ماحول میں عوام کی غالب اکثریت تعلیم، صحت، صاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔

لوکل گونمنٹ اور لوکل باڈیز دو مختلف سیاسی تصورات ہیں۔ لوکل گورنمنٹ مؤثر مقامی حکومت کا نام ہے۔ آئین کے آرٹیکل 140۔اے میں یہ حق ہر صوبے کو دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق لوکل گورنمنٹ کا نظام بنائیں جس کے ذریعے وہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات نیچے منتقل کرسکیں۔ دستور کی منشا یہ ہے کہ یہ نظام منتخب ہو اور اِن انتخابات کا اہتمام الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ دستور اس حوالے سے خاموش ہے کہ لوکل گورنمنٹ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد الیکشن کتنے عرصے کے بعد لازم ہیں جیساکہ دیگر تمام انتخابات کے لیے واضح طور پہ درج ہے۔ تاہم اب الیکشن ایکٹ 2017ء میں اس مقصد کے لیے مدت کا تعین 120 دن کردیاگیا ہے۔ ماضی میں اعلیٰ عدالتوں کو بارہا ڈیڈلائنز دے کر لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کرانے پڑے۔ یہ بھی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ہوا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی حکومتوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔

وفاق والے اچھی اور مؤثر سیاست کو اُوپر نہیں آنے دیتے جبکہ صوبے والے عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانے والے لوکل گورنمنٹ کے جامع نظام کو نیچے نہیں جانے دیتے

ایک اور بیماری بھی دائمی ہے۔  ہر وفاقی وصوبائی حکومت اپنا لوکل گورنمنٹ کا قانون لاتی ہے۔خیبرپختونخوا میں تو پچھلا نظام خود پاکستان تحریک انصاف نے بنایا تھا لیکن آج کل اس کی بھی نوک پلک سنواری جارہی ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کا نظام ہمیشہ بچہ ہی رہے گا، کبھی جوان اور مضبوط روایات کا حامل نہیں بن پائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو اس نظام پر دیرپا اتفاقِ رائے کے لیے مکالمہ کرنا چاہیے۔ بعض سیاسی جماعتوں کو لوکل گونمنٹ سے اس لیے بھی بیر ہے کہ ماضی میں اس نے طالع آزماؤں کو استحکام کی سیڑھی بخشی۔ وقت بدل چکا ہے، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس نظام کو مستقبل کی قیادت کی تربیت کی نرسری تسلیم کرتے ہوئے مضبوط کریں۔

آج خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں لوکل گورنمنٹ موجود نہیں۔ فاٹا میں تو یہ نظام کبھی تھا ہی نہیں۔ سندھ اور وفاقی دارالحکومت میں یہ مالی وسائل اور انتظامی اختیارات سے محروم ہے۔ بلوچستان میں سابقہ لوکل گورنمنٹ 27 جنوری 2019ء کو اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوچکی، دس ماہ بعد بھی وہاں انتخابات کے آثار نہیں ہیں۔ 3 مئی 2019ء کو پنجاب بھر کی مقامی حکومتوں کو نئے قانون کے نام پر توڑدیا گیا اور آج سات ماہ بعد بھی نئے الیکشن کی فضا نظر نہیں آتی۔ خیبر پختونخوا میں بھی 28 اگست 2019ء کے بعد سے لوکل گونمنٹ موجود نہیں ہے۔ گویا اس وقت صرف 25 فیصد پاکستان میں لنگڑی لولی لوکل گورنمنٹ زندہ ہے۔ یہ صورتحال جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں۔

تمام وفاقی و صوبائی حکومتیں مؤثر لوکل گورنمنٹ کا نظام قائم کرکے عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی کا سامان پیدا کرسکتی ہیں۔ ملک میں مجموعی طور پہ پائیدار ترقی اور شہروں و دیہاتوں میں مستقبل بین منصوبہ بندی کے ساتھ ترقی کے حصول کے لیے لوکل گورنمنٹ کا قیام ناگزیر ہے۔ لندن، واشنگٹن سمیت دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اُس کے بنیادی معاملات تعلیم، صحت، صاف پانی غیرہ کے امور کوئی دوسرے شہر سے آکر چلاسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ باوجود آبادی کے دباؤکے یہ شہر کھنڈر نہیں بنے۔ جبکہ ہمارے سارے شہر کیا صورتحال پیش کرتے ہیں، یہ ہم روزانہ بھگتتے ہیں۔ کیا اچھی زندگی پاکستانیوں کا حق نہیں؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...