یومِ اقبال پر گلگت بلتستان کی نمائندگی
پچھلے دنوں حکومت پاکستان کی جانب سے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں ’پانچ روزہ تقریبات بسلسلہ یومِ اقبال‘ منعقد ہوئیں۔ اِن تقریبات میں تصوّرات ِاقبال کے مختلف رنگ اُجاگر کرنے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر تعلیم و فنی تربیت شفقت محمود نے اس سلسلے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فیض احمد فیض کو اقبال سے بہت زیادہ عقیدت تھی۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ فیض احمد فیض آڈیٹوریم کی پہلی تقریب اقبال کے حوالے سے ہو رہی ہے، یقیناً فیض کی رُوح کو آج خوشی محسوس ہو رہی ہو گی۔ پروگرام کے اِن سلسلوں میں روزانہ صبح 5 سے شام 6 بجے تک گوشہِ ذکر اقبال کا اہتمام ہوتا رہا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے ماہرین اور قلم کار فکر اقبال پر گفتگو کرتے اور شرکاء اُن سے سوالات کرتے۔
اقبالیات کے ماہر پروفیسر فتح محمد ملک سمیت چاروں صوبوں کی ممتاز ادبی شخصیات مجلس صدارت میں تھیں۔ اِن پانچ دنوں میں جو مختلف پروگرام منعقد کیے گئے اِن میں اقبال سیمینار، بچوں کا اقبال، گوشہ ذکر اقبال، کتاب میلہ، کتابوں کی نمائش، سفیرانِ اقبال کانفرنس،علامہ اقبال اور پاکستانی زبانیں، اقبال کے حوالے سے تصویری اور خطاطی نمائش، کلامِ اقبال ساز و آواز، اقبال مصوری اور خطاطی ورکشاب، علامہ اقبال اور فنون لطیفہ شامل تھے۔ اِن تقریبات کی وساطت سے ملک بھر سے اقبالیات پر کام کرنے والی شخصیات ایک جگہ جمع تھیں، انہوں نے اپنے اپنے انداز سے فکراقبال کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
کانفرنس میں ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی موجود تھی۔ اس میں کئی مذاکرے بھی منعقد کیے گئے تھے جن میں پنجابی شعر و ادب پر اقبال کے اثرات، علامہ اقبال اور عشق رسولؐ، پوٹھوہاری شعر و ادب پر اقبال کے اثرات، اقبال اور گلگت بلتستان، اور ہندکو شعر و ادب پر اقبال کے اثرات جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔ جبکہ شعراء نے بھی محفلِ مشاعرہ میں اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
علامہ اقبال پر گلگت بلتستان میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے، لیکن قومی فورمز پر نمائندگی نہ ملنے کے باعث سارا کام وہاں کی بلند چوٹیوں کے حصار میں بند ہوکر رہ گیا ہے
خطاطی کے ذریعے فکرِ اقبال کو اُجاگر کرنے کے لیے ”اقبال روایتی خطاطی کے آئینے میں“ کے عنوان سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس دوران ”اقبال کا کشمیر بنے گا اقبال کا پاکستان“ کتاب کی رونمائی بھی کی گئی۔
اکادمی استقبالیہ میں ’علامہ اقبال کینوس‘ میں تصویری و خطاطی نمائش دن بھر جاری رہتی۔ آڈیٹوریم میں روزانہ بچوں کو فکر اقبال سے آگہی دلانے کے لیے پروگرام ہوتے جن میں خصوصی طور پر راولپنڈی اسلام آباد کے سکولوں و کالجوں کے طلبہ و طالبات نے حصہ لیا۔ کتابوں کی نمائش اور لکی بک ڈرا بھی تقریبات کے مستقل سلسلوں کا حصہ تھے۔ لکی بک ڈرا میں حصہ لے کر روزانہ ایک ہزار روپے تک کی کتابیں حاصل کرنے کا موقع حاصل کیا جاسکتا تھا۔
یوم اقبال پر چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرسے بھی مندوبین کو شرکت کی دعوت دے کران خطوں میں اقبال پرہونے والے کام کو اُجاگر کرنے کا پہلی بار موقع دیا گیا۔ گلگت بلتستان کے لوگ علّامہ اقبال کو صرف مصوّر پاکستان کی حیثیت سے نہیں جانتے کیونکہ یہ علاقہ اُن خطوں میں سے نہیں جو تحریک پاکستان کے نتیجے میں آزاد ہوئے۔ تحریک پاکستان کی حدودِ کار سے باہر ہونے کے باوجود یہاں کے لوگوں نے علّامہ کے فکرو فلسفے سے متأثر ہوکر گلگت بلتستان میں ڈوگرہ ریاست سے آزادی کی جنگ شروع کی اور قربانیاں دے کر پاکستان میں شامل ہوئے۔ چونکہ علّامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین ِ تحریک ِ آزادی نے کلمہ طیبہ کو قیام پاکستان کی اساس قرار دیا تھا لہٰذا گلگت بلتستان کے لوگوں نے اسلام اور پاکستان دوستی کی بنیاد پر اس آزاد شُدہ خطے کا پاکستان سے غیر مشروط الحاق کر دیا۔
اِس سے ہٹ کر بھی گلگت بلتستان والے اقبال کو اپناعلمی و اَدبی پیشوا مانتے ہیں اور اُن سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے علّامہ کے کلام کا بلتی زبان میں تیزی سے ترجمے کا عمل جاری ہے۔ بلتستان کے شاعر فدا حسین شمیم کا کیا ہوا کلام اقبال کا بلتی ترجمہ ”برق شنگ“ کے نام سے اقبال اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ نوجوان شاعر احسان علی دانش نے علامہ صاحب کی گیارہ نظموں کا بلتی زبان میں منظوم ترجمہ کیا جسے اکادمی اَدبیات نے زیور ِطبع سے آراستہ کیا ہے۔ پروفیسر حشمت علی کمال الہامی نے بھی علّامہ کے اردو کے کلام کے بہت بڑے حصے کو بلتی میں ڈھالا۔ انہوں نے اردو میں بھی علامہ صاحب کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
علامہ اقبال پر گلگت بلتستان میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے، لیکن قومی فورمز پر نمائندگی نہ ملنے کے باعث سارا کام وہاں کی بلند چوٹیوں کے حصار میں بند ہوکر رہ گیا ہے۔
فیس بک پر تبصرے