حیرانی کیسی؟

679

بدھ کے روز لاہور بار کونسل کے وکلاء نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے احاطے میں پرتشدد احتجاج کیا جس کے دوران ضروری طبی امداد نہ ملنے کے باعث تین مریض جاں بحق ہوگئے، صوبائی وزیر کو زدوکوب کیا گیا اور ہسپتال و انتظامیہ کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے نے عوام کو ایک بار پھر یہ احساس دلایا ہے کہ ملک میں قانون کی ارزانی اور اس کی بے حرمتی کے لیے آزادی موجود ہے اور اس پر قرار واقعی احتساب کا کوئی خوف نہیں ہے۔ پہلے عوام پولیس کے آزار کا شکوہ کرتے تھے، اب اس فہرست میں ڈاکٹرز اور وکلاء بھی شامل ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی چھوٹی عدالتوں میں وکلاء کی جانب سے ناروائی، بدسلوکی اور غیرقانونی رویوں کے اظہار کا سلسلہ پرانا تھا لیکن دوہزار سات کی تحریکوں کے بعد سے یہ بطور ایک جتھہ طاقت اور تشدد کی زبان استعمال کر رہا ہے۔ اپنے شعبے کے ججز کو کورٹ رومز میں بند کردینے سمیت متعدد ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جو انصاف کے شعبے کو دہشت ناک شکل دیتے ہیں۔ کل کے واقعے کے بعد اس میں شبہ نہیں رہا کہ ان کا اعتماد اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ ہسپتالوں پر بھی منظم حملے کرسکتے ہیں اور مریضوں کی جان تک خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

وکلاء کے مطابق انہیں ڈاکٹروں کے رویے سے شکایت تھی اور انہیں مفت دوائی فراہم نہیں کی جارہی تھی اس لیے وہ اس اقدام پر مجبور ہوئے۔ یہ عین ان دہشت گردوں والا جواز ہے جنہیں کچھ شکایات ہوتی ہیں تو وہ اپنا غصہ اپنی مرضی کے طریقوں سے نکالنے پر مطمئن نظر آتے ہیں۔ یقیناََ سب ایک جیسے نہیں ہوں گے لیکن ملک میں کوئی حادثہ ہوجائے، عوام میں ظلم و زیادیتی کا کوئی واقعہ رونما ہوجائے یہ بطورِ شعبہ احتجاج ریکارڈ کرانے کی زحمت نہیں کرتا اور کسی عوامی بہبود کے تعمیری منصوبے میں حصہ شامل نظر نہیں آتا البتہ اپنے مطالبات کے لیے یا طاقت کے مظاہرے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ 21 اکتوبر کو پاکستان کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے وکلاء کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے لاہور بارکونسل میں خطاب کے دوران میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ وکلاء کے بارے میں منفی رپورٹنگ نہ کرے۔ چند کالی بھیڑوں اور بعض واقعات کی وجہ سے پورا شعبہ بدنام ہوتا ہے۔ اسی نشست میں انہوں نے اسلام آباد میں وکلاء کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے جلد قیام اور صحت کی سرکاری سہولیات کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا۔ شعبہ انصاف کا حکومتی نمائندہ اپنے حلقے کے غیرذمہ دار رویوں پر سوال اٹھانے سے منع کرتا ہے، تاہم انہیں عوام کے ٹیکسوں سے زندگی کی سہولیات کی مفت یا سستی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ اس کے بعد اگر ایسے واقعات رونما ہوں تو حیرانی کیسی؟

1973ء کے بارکونسل ایکٹ میں ہر صوبائی بارکونسل کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ اپنے شعبے میں ہونے والی قانونی خلاف ورزیوں پر کاروائی کرے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ بارکونسل کی منتظمہ کمیٹی پر جو افراد قابض ہوتے ہیں وہ خود اس میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ حالیہ واقعے میں ذمہ داروں کا لائسنس منسوخ کرتے ہوئے کاروائی عمل میں لائے اور شعبے میں اصلاحات کے لیے درکار اقدامات کرے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...