جب تک جتھہ نفسیات پختہ ہے اضطراب باقی رہے گا
ایک سال پہلے کا واقعہ ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہوگا جب ایک مذہبی جماعت نے دھرنا دیا اور ان کے دیوانے سڑکوں پہ نکل آئے تھے۔ پورے ملک کو انہوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اس ملک کی پر امن عوام نے اپنے عزیزوں کے جنازے اٹھائے۔ مسلم لیگ کے دورِ اقتدار میں دیا جانے والے فیض آباد چوک دھرنے میں بہت لوگ ہلاک ہوئے اور حکومت بے بس دکھائی دی۔ بدھ کے روز وکلاء کے ایک جتھے نے سروسز ہسپتال کے ساتھ واقع پنجاب کارڈ یالوجی پہ حملہ کیا جس کی وجہ سے بہت سے دل کے مریض جان سے گئے۔ لوگ ایسے واقعات پہ افسوس کا اظہار کر تے ہیں اور حیران بھی ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے افسوس اور دلی دکھ تو ہوتا ہے لیکن حیرانی نہیں ہوتی۔ حیرانی تب ہو جب نتائج اعمال و تربیت کے برعکس ہوں۔ ہم جن نتائج اور صورت احوال کو بھگت رہے ہیں، یہ بالکل عین قیاس ہے۔ اس میں رتی بھر بھی فرق نہیں ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کینسر اپنی مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے۔ تحریکوں نے ہمیشہ تشدد کو جنم دیا ہے۔ پاکستان میں چلنے والی تحریکوں نے ہمیشہ پاکستان میں تشدد، نفرت اور انارکی کو پیدا کیا ہے۔
ہم وہ بد قسمت لوگ ہیں جس کا ہر طبقہ تنگ نظری، گروہی مفادات اور لاقانونیت کا عادی ہو چکا ہے۔ مذہبی طبقے سے امید لگائی جاتی ہے کہ یہ فرقہ واریت اور تشدد سے دور رہ کر دین کی تبلیغ کرے گا لیکن اس نے مذہب کو ہی تشدد کا ہتھیار بنا لیا۔ گالی گلوچ، بد تمیزی اور غیر انسانی رویوں کو اختیار کرلیا جس کا مظاہرہ ہم چند سالوں سے مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ سیاستدانوں سے امید لگائی جاتی ہے کہ یہ جمہوری طبقہ ہے لیکن گزشتہ دو سالوں میں ہم نے پاکستان میں اس طبقے کو جس طرح کی زبان استعمال کرتے ہوئے اور تہمت و الزام کا بازار گرم کرتے ہوئے دیکھا اس کے بعد انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ ہم نے کن لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی سیادت تھما دی ہے۔ یہ بازار ابھی تک گرم ہے۔
سال پہلے مذہبی طبقہ تھا، دو سال پہلے سیاسی گروہ تھا آج یہ وکلاء ہیں۔ کل کوئی اور متشددانہ رویے سے پاکستانی معاشرے کو اضطراب کا شکار کر دے گا۔ پاکستان کا پُرامن اور ذمہ دار شہری سڑکوں پہ ذلیل و رسوا ہوتا رہے گا اور دہائیاں دیتا پھرے گا
ڈاکٹروں نے پنجاب، خیبر پختونخوا میں یہی رویہ اختیار کیے رکھا جو اب بھی باقی ہے۔ وکلاء کا طبقہ جوقانون دان کہلاتا ہے، جسے قانون کی پیروی سب سے پہلے کرنی چاہیے وہ قانون شکن نکلا، اس کے مظاہر ہم ہر روز دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، کبھی کانسٹیبل کے ساتھ کبھی گارڈ کے ساتھ تو کبھی جج اور ڈاکٹرز کے ساتھ بدسلوکی۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایک وکیل غلط جگہ پہ اپنی کار پارک کرنے پہ مصر تھا اور پارکنگ والے کو دھمکی دے رہا تھا کہ میں ابھی فون کر کے اپنے ساتھیوں کو بلا لوں گا۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں قانون جاننے والے قانون کی پیروی کرنے کے بجائے قانون کی طاقت کو اپنے غیر قانونی ہتھکنڈوں میں استعمال کرتے ہیں۔
یہ ہیں وہ نتائج جس کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ سیاست دان اپنی سیاست، حکمران اپنی حکومت، تاجر اپنی تجارت، جج اپنی عزت کی فکر میں رہتا ہے۔ جب تک ہم ان مسائل کو پاکستانی سماج کا مسئلہ خیال نہیں کرتے، سیاسی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر اس کا حل تلاش نہیں کرتے اور لائحہ عمل نہیں بناتے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔
نظام تعلیم، نظام عدل، نظام جمہوریت، ان سب شعبوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ درحقیقت اصلاحات ہی اس مرض کا مستقل علاج ہے جس سے رویے، سوچ اور کردار تشکیل پاتے ہیں۔ سال پہلے مذہبی طبقہ تھا، دو سال پہلے سیاسی گروہ تھا آج یہ وکلاء ہیں۔ کل کوئی اور متشددانہ رویے سے پاکستانی معاشرے کو اضطراب کا شکار کر دے گا۔ پاکستان کا پُرامن اور ذمہ دار شہری سڑکوں پہ ذلیل و رسوا ہوتا رہے گا اور دہائیاں دیتا پھرے گا۔
اب ذمہ داری چیف جسٹس صاحب کے کندھوں پہ آ گئی ہے۔ وہ وکلاء کو اس جرم کی قرار واقعی سزا دیں جس سے پورے پاکستان کو پیغام جائے کہ قانون سے بالا کوئی نہیں ہے، یہاں تک کے قانون کے رکھوالے بھی نہیں۔
فیس بک پر تبصرے