بادِ صبا کا انتظار کرو

655

بیماروں کی تضحیک نہیں، ان کی عیادت ہوتی ہے۔ مرنے  والوں کی تعزیت کی جاتی ہے، ان کا تمسخر نہیں اڑایا جاتا۔ ہم دشمنی و عداوت کے اُس دور میں نہیں جی رہے، جب تلواریں فیصلہ کرتیں اور دشمن کے مرنے پہ شادیانے بجائے جاتے تھے، انتقالِ اقتدار رائے اور مشاورت سے نہیں، زبردستی طاقت اور لشکروں سے حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب طاقت منہ زور گھوڑے کی طرح تھی اور ہر دوسرے مخالف کو کچل کر گزرجاتی تھی۔ جب انسان خود کو اجتماعی  دانش کا پابند خیال نہیں کرتا تھا۔ اُس دور میں، ناممکن تھا کہ دوگروہ، دو لشکر یا دو طاقتور ایک دوسرے سے رحم اور ہمدردی کا جذبہ بھی رکھیں۔ اب ہم جس دور میں رہ رہے ہیں، یہ وہ دور ہے جس میں انسان نے اپنے اجتماعی معاملات کو باہمی مشاورت و انتخاب سے حل کرنے کا طریقہ سیکھا ہے۔ اب انسان جمہوری دور میں سانس لے رہا ہے۔ اس کا یہی حُسن ہے جو اختلاف دشمنی اور عداوت کی صورت اختیار کر جاتا تھا اب وہ اختلاف اجتماعی وحدت بن کر معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اختلاف کاحل اجتماعی رائے سے تلاش کیا جاتا ہے۔ اس میں صرف خواص ہی نہیں بلکہ عوام بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح کوئی شخص طاقت ور نہیں بنتا اور  اختلاف اس سطح پہ نہیں جاتا کہ دو انسان آپس میں دشمن قرار پائیں۔ خاص طور پر دو سیاستدان۔

اب ایک دوسرے کا احترام اس بنیاد پہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے جسے عوام منتخب کرلے اقتدار اس کا حق ہے۔ کھیل کے میدان میں دو ٹیمیں جیتنے کے لئے آخری حد تک کوشش کرتی ہیں ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے لیکن کھیل کے میدان سے باہر وہ انسانی رشتے میں جڑے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں، دعوتیں اور دوستی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ حریف و مقابل کسی بھی میدان کا ہو وہ بزنس میں ہو، سیاست میں ہو، مذہب میں ہو یا کسی بھی شعبے کا ہو، اس کی خاندانی روایات اس کے اجتماعی معاملات سے ظاہر ہوتی ہیں۔

ان روایات کی گرتی عمارت کی فکر کسی کو بھی نہیں ہے۔ جہاں سے اس کا اظہار ہونا تھا وہ چشمے بھی اب سراب بن چکے ہیں

اگر اختلاف موجود ہے اور ماحول  میں سرد مہری ہے تو قدرت ایسے مواقع مہیا کرتی ہے کہ انسان اس ماحول کو خوشگوار بنا سکتا ہے اور تناؤ کو ختم کر سکتا ہے جیسے بچے کی کامیابی، شادی، سالگرہ، یا سیاسی حریف کے کسی عزیز کی وفات یا خود اس کا بیمار ہو جانا۔ یہ ایسے مواقع ہیں جب اس کے گھر پہنچ کر یا پیغام کے ذریعے دوریوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ زیرک اور خاندانی روایات رکھنے والے سیاستدان ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حالات کو ساز گار بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر معاشرہ اور ریاست کے سرکردہ افراد ان روایات اور رکھ رکھاؤ سے محروم ہوں، ان کی بلا سے ان کا مخالف بیمار ہو یا صحت مند، زندہ رہے یا مر جائے تو اس طور طریقے اور غیر مہذبانہ روش کے اثرات عوام تک جاتے ہیں۔ اگر عوام اس روش کو اختیار کرلے تو اس سے گھر، معاشرہ اور سماج چڑیا گھر یا پاگل خانہ بن کر رہ جاتاہے۔ وہ چڑیا گھر جہاں سب جانور رہتے ہیں لیکن علیحدہ علیحدہ پنجرے میں، ان کے باہمی رابطے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اگر کبھی وہ باہر آجائے تو اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ سب کو چیر پھاڑ کر رکھ دے یا وہ پاگل خانہ جہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا، ہر ایک اپنی سناتا ہے خواہ وہ دیوار کی طرف چہرہ کر کے ہی کیوں نہ بولتا جائے۔ ممکن ہے چڑیا گھر میں رہنے والوں کی کوئی روایات ہوں۔ لیکن ایسے بڑوں کی سرپرستی اور رہنمائی میں تیار ہونے والوں کی روایات ہوتی ہیں اور نہ خاندانی رکھ رکھاؤ۔

کل تک ہم بچوں کو ٹی وی دیکھنے سے روکتے تھے، کہیں وہ بے راہ روی کا شکار نہ ہوں۔ اب اس لیے روکتے ہیں کہ ان کے اخلاق و زبان خراب نہ ہوں۔ آج ہم دُہری مشکل میں ہیں۔ پہلے بچوں کا خیال کرتے تھے، اب اپنا بھی خیال کرتے ہیں اس خیال سے ٹی وی بند رکھتے ہیں کہ معلومات و علم کی جستجو میں ٹی وی لگایا تھا، وہ سیرابی کا سامان تو یہاں نہیں ہے۔

ہمارا سماجی نظام خطروں میں گِھرا ہے۔ ہم اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان روایات کی گرتی عمارت کی فکر کسی کو بھی نہیں ہے۔ جہاں سے اس کا اظہار ہونا تھا وہ چشمے بھی اب سراب بن چکے ہیں، واحد حل ان روایات کی نشاة ثانیہ کا یہی ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلائے رکھو اپنے حلقہ اثر میں رہنے والوں کو اس باد صرصر سے بچنے کی تلقین کرو اور باد صبا کا انتظار کرو۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...