16 دسمبر کا قرض

864

آج آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے پانچ سال پورے ہوگئے ہیں جس میں 150 کے قریب بچے نہایت سفاکی کے ساتھ شہید کردیے گئے تھے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ نقصان اُٹھایا اور اس عفریت نے ہزاروں شہریوں کی جانیں بھی نگلیں لیکن 2014ء کا حملہ ایسا سیاہ دن ہے جس کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوپائیں گے۔ یہ ملک کے ہر باسی کو گہرے دکھ کے احساس میں مبتلا رکھتا ہے اور ڈیڑھ سو خاندانوں پر ہر صبح سکول کا وقت ایک قیامت بن کر گزرتا ہے۔

اس سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نیا موڑ شروع ہوا، شدت پسندی کے حوالے سے سماج میں موجود تقسیم ختم ہوئی اور پوری قوم اس کے خلاف متحد ہوئی۔ سکیورٹی و سول اداروں نے مل کر کچھ بڑے اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی۔ اس کا خطرہ تو ختم نہیں ہوا لیکن اس عنصر کا دائرہ محدود کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں قدرے استحکام آیا۔

اے پی سی کا واقعہ ریاست پر اور ہم سب شہریوں پر بطور قوم ایک قرض رکھتا ہے۔ یہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اس سرزمین سے تشدد کے تمام بیج ختم ہوں اور یہ امن کی مثال بنے۔ ملک سے مسلح دہشت گردی کا خطرہ تو محدود کردیا گیا ہے لیکن شدت پسندی کی فکر ابھی تک مضبوطی سے قائم ہے۔ فرقہ واریت آزاد ہے، اقلیتوں سے زیادتی ہو رہی ہے، سماج میں ایک دوسرے کے خلاف عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح سکول سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف دوٹوک موقف اپنایا گیا اسی طرح تشدد کی ہر قسم کے خلاف صف آراء ہوا جائے۔

یہ سانحہ اس بات کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ ریاست وہ غلطیاں دوبارہ نہ دہرائے جس کا انجام اس طرح کے گھاؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ ہم سب شہریوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم ہر صبح یہ عہد کریں کہ تشدد کی کسی شکل کا حصہ نہیں بنیں گے اور اپنے آس پاس کو پرامن بنانے کے لیے کوشش بروئے کار لاتے رہیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...