ٹیکسلا کے دم توڑتے پہاڑ

671

قدیم جاپانی کہاوت ہے کہ ’’پہاڑ اور جنگل کبھی مرتے نہیں‘‘۔ اگست 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران مشہور جاپانی شہر ’کیوٹو‘ پر ایٹم بم گرانے کی منصوبہ بندی کی گئی لیکن عین وقت پر چیری کے مہکتے جنگل، حسین مناظر اور پہاڑوں کی ابدی معصومیت دیکھتے ہوئے ’کیوٹو‘ کو امان بخش دی گئی اور یہی بم ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرادیئے گئے۔

راولپنڈی کی شہ رگ پر واقع ٹیکسلا کا قدیم شہر جو صدیوں سے مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ رہا ہے کسی طور بھی ’کیوٹو‘ سے کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیاں جن کی ایک طرف ملک کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد واقع ہے تو دوسری جانب انہی پہاڑوں نے پھول اور پتیوں کی طرح وادی ٹیکسلا کو گھیر رکھا ہے۔ یہ وادی فطرت کے حسین مناظر سے بھری پڑی ہے اس کے دلنشیں لینڈ اسکیپ اور حد نگاہ تک پھیلے ہوئے دلفریب اور بلند و بالا پہاڑ دور سے ہی سیاحوں کے دلوں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ شاید انہی پہاڑوں کو دیکھ کر نامور فاتح سکندر اعظم کو دیوتائوں کا مسکن مشہور یونانی پہاڑ Mount Olympus یاد آیا اور پھر اس کے جرنیل یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یونانی یہاں ایک صدی تک حکمران رہے اور وادی ٹیکسلا کو سیراب کرنے والا رومانوی اہمیت یاحا مل دریامشہور یونانی تاریخ دان ہیرو ڈوٹس کے نام پر دریائے ہیرو کے نام سے منسوب ہوگیا یونانیوں نے ٹیکسلا میں Acropolis کے عجوبہ روزگار Parthenon Tample کی طرز پر ایک دلفریب عمارت تعمیر کی جو پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اقلیدسی نمونے پر ایک شہر بسایا جس کے آثار آج بھی ٹیکسلا میں محفوظ ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے سیاح یہاں آتے ہیں چنانچہ ٹیکسلا کی یہی تاریخی حیثیت ایک خطیر زر مبادلہ کا باعث بھی ہے۔

ٹیکسلا کی حسین وادی جو اطراف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے بد قسمتی ہے پچھلے کچھ عرصے سے اس کا فطرتی حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔ مارگلہ کا تاریخی پہاڑ جسے جرنیلی سڑک (Grand Trunk Road) کاٹتی ہوئی گزرتی ہے اور اس کے ایک سرے پر برگیڈیئر جن نکلسن کی یاد میں تعمیر ہونے والا بلند و بالا مینار بھی ایستادہ ہے۔ اس یادگار کے دائیں جانب بالعموم اور بائیں جانب بالخصوص تقریباً 500 سٹو ن کریشر ہمہ وقت اس دلفریب پہاڑ کو ’یاجوج ماجوج‘ (Gog Magog) کی طرح چاٹنے میں مصروف ہیں اور پہاڑ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہڑپ کر چکے ہیں چنانچہ اس عمل سے جہاں فطرت کے شاہکار ان پہاڑوں کا شکستہ و ریختہ ہونے سے قدرتی بنائو سنگھار متاثر ہوا وہاں پانچ سو سٹون کریشر ر کے دن رات چلنے اور بلاسٹنگ کے دوران استعمال ہونے والے بارود سے ماحولیاتی آلودگی نے بھی جنم لیا ہے جو بتدریج سنگین صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے۔ چونکہ یہ پہاڑی سلسلہ ایک معروف روڈ سے متصل ہے اس لیے یہاں سے گذرنے والا ہر فرد کی آنکھ کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ یہی وہ سڑک ہے جس پر چوتھی صدی قبل مسیح میںموریہ خاندان کے بانی چندر گپت نے دورویہ پھل دار اور سایہ دار درخت لگوائے اور کنوئیں کھدوائے تھے اور اسے Stone Pitching کر کے پختہ بھی کرایا تھا۔ قدیم سڑک کے آثار آج بھی نکلسن لاٹ کے پہلو میں موجود ہیں۔

ٹیکسلا کے آثار قدیمہ جنہیں یونیسکو نے World Heritage قرار دے رکھا ہے انہیں دیکھنے کے لیے ہر سال کثیر تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ سیاحت کی غرض سے آنے والے غیر ملکی عموماً ہر چیز کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں خصوصاً اس بے جا کریشنگ سے وہ پاکستان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں لیتے اس سلسلے میں جب ہماری گفتگو سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک غیر ملکی جوڑے سے ہوئے تو پتہ چلا کہ ان کریشنگ زدہ اور شکستہ و ریختہ پہاڑوں کو دیکھ کر وہ بھی بے حد رنجیدہ تھے انہوں نے اس موقع پر بڑا دلچسپ جملہ کہا کہ آئندہ آنے والے نسلیں آپ کو ’پہاڑ خور‘ کہیں گی۔

ماحولیات کو مہذب ملکوں میں بہت اہمیت حاصل ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً کئی بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد بھی عمل میں آتا رہتا ہے کیونکہ اب یہ حقیقت دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ فطرت کو بچانے سے ہی انسانیت کی بقا مشروط ہے۔ زندہ قوموں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے بہتر سے بہترین مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں لیکن من حیث القوم ہمارے اندر زندہ قوموں کی روایات مفقود ہیںشاید یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ماضی سے نا آشنا اور مستقبل سے بے خبر کسی انجانی منزل کی جانب گامزن ہیں اس بے راہ روی کی ایک جھلک مارگلہ کی یہ شکستہ و ریختہ پہاڑیاں ہیں جو کہ زوال پذیر قوم کا نوحہ لگتی ہیں اور کٹھی پھٹی یہ نوکیلی چٹانیں اب Dragon Teeth کی مانند خوفناک منظر پیش کرتے ہوئے معصوم بچوں کے اعصاب پر بھی سوار ہو چکی ہیں۔ ان پہاڑوں کی فطری ، جغرافیائی اور دفاعی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ اگر ایک طرف یہ پہاڑیاں Capital Territory Islamabad سے ملحق ہونے کی وجہ سے علاقے میں فطری حسن و بقا کی ضامن ہیںتو دوسری طرف دفاعی کارخانوں کے تحفظ کا قدرتی حصار بھی ہیں لیکن نجانے کیوں ہمارے ارباب اختیار ان حقائق سے جان بوجھ کر آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں۔

پہاڑوں کے کٹاؤ کی وجہ سے بہت سے دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ متاثرہ پہاڑوں پر سروے کے دوران مقامی لوگوں نے بتایا کہ ماضی میں کبھی ان پہاڑوں پر گھنا جنگل ہوا کرتا تھا جس میں بندر، ہرن، اڑیال اور کئی نایاب اقسام کے جنگلی پرندے بکثرت پائے جاتے تھے مگر آج وہ سب قصہ پارینہ کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ وہاں اب ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے حشرات الارض کا وجود بھی ناپید ہو چکا ہے۔

بلاسٹنگ کے دوران استعمال ہونے والے بارود اور کرشنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرد اور دھوئیں نے Health Hazard کی صورت حال پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے متعدد بیماریاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔ فضائی آلودگی میں گردو نواع کے عناصر نہایت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ پہاڑوں کے مضافات میں ماحولیاتی آلودگی مختلف قسم کی بیماریوں کے پھیلنے کا موجب بن چکی ہے جس سے روز افزوں متاثرہ مریضوں کی تعدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا ہی کے ڈاکٹر سید اصغر نقوی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکشاف کیاکہ یہ بات ان کے ذاتی مشاہدے میں آئی ہے کہ دوسرے علاقوں کی نسبت ٹیکسلا میں آلودگی سے پھیلنے والے امراض میں تیزی آئی ہے کریشنگ اور بلاسٹنگ کی وجہ سے ناک، کان، گلا اور آنکھوں کی کئی بیماریاں بھی نہایت سرعت سے پھیل رہی ہیں اگر یہی بیماریاں طول پکڑتی گئیں اور سانس کی نالیوں پر مسلسل اثر انداز ہوتی رہیں تو کینسر جیسے موذی مرض تک کی نوبت آسکتی ہے، گرد گلے کی جن بیماریوں کاموجب بنتی ہے ان میں Pharyngitis اور Tonsillitis شامل ہیں علاوہ ازیں پھیپھڑوں کی بیماریاں یعنی دمہ اور Chest Infection, ، Emphysema Bronchitis اور Viral Infection بھی عام مشاہدے میں آئی ہیں۔ آنکھوں کے وہ امراض جو گرد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ان میں Trachoma خاص طور پر قابل ذکر ہے جس عام فہم زبان میں آنکھوں میں ککرے پڑنا کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ Dust Alergy اور Conjunctivitis بھی عام ہیں جو آنکھوں میں سرخی، جلن، اور سوزش کا موجب بن کر حساس قسم کی بیماریوں میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اگر اس بڑھتی ہوئی آلودگی پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو مذکورہ بالا بیماریاں وبائی شکل اختیار کر جائیں گی اور اس صورت میں فضائی آلودگی سے متاثرہ مریضوں کے لیے ایک علیحدہ ہسپتال کی ضرورت ہوگی۔

گنجان آبادعلاقے میں ہونے والی اس کریشنگ سے اگر ایک طرف انسانی زندگی متعدد بیماریوں کی لپیٹ میں آچکی ہے تو دوسری طرف ایک زبردست خطرہ ہر وقت سر پر منڈلا رہا ہے کیوں کہ متاثرہ پہاڑیوں سے لاکھوں وولٹیج کی پانچ ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنیں بھی گذر رہی ہیں جو کسی وقت بھی بلاسٹنگ کی زد میں آکر کسی ناخوشگوار حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ مزید برآں ایک ریلوے سرنگ (Tunnel) بھی اس کریشنگ کی زد میں ہے جس میں کریشنگ کے دوران کی جانے والی بلاسٹنگ نے دراڑیں پیدا کر دی ہیں جن سے بدستور پانی رستا رہتا ہے۔قدرت کے شاہکار ان بلند و بالا پہاڑوں کو انسانی جنون نے کاٹ کر پاش پاش کر دیا ہے۔

متاثرہ پہاڑ پر سروے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہاں پر تقریباً 500 سٹون کریشر گذشتہ کئی دہائیوں سے شب روز کام کر رہے ہیں اور اب تک پہاڑ کا ایک تہائی حصہ ہڑپ کر چکے ہیں۔ اس بے دردی سے کی جانے والی کٹائی سے پہاڑ اپنے Angle of Repose سے بھی محروم ہو چکا ہے جو فنی نقطہ نظر سے کسی سٹرکچر کے زمین پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ خدا نے بھی پہاڑوں کو میخو ں سے تشبیہ دی ہے جو زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں اس کے علاوہ بھی یہ خطہ زیر زمین سسمک زون میں ہے اور آئے دن زلزلوں کی لپیٹ میں رہتا ہے ۔ چنانچہ اسی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی رہتی ہے جو کہ اکثر جان لیوا حادثات کا موجب بنتی ہے۔ایک سٹون کریشر ایک دن میں اوسطاً 300 مکعب فٹ پتھر نکالتا ہے اس طرح 500 سٹون کریشر ایک دن میں اوسطاً 1.5 لاکھ مکعب فٹ سے زائد پتھر روزانہ نکالتے ہیں ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بچا کھچا پہاڑ اب تھوڑے ہی عرصے کا مہمان ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کریشرز کے کام کرنے سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اگر ان مشینوں کو حویلیاں، حسن ابدال، فتح جنگ، برہان، اٹک اور چکوال کے پہاڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تو کافی حد تک اس مسئلے کا تدارک بھی ممکن ہے۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو بچانے کے لیے CDA اور حکومت پنجاب نے باہم مل کر ICT کی بائونڈری لائن جو کہ نکلسن کی یادگار کے قریب ہے، سے ہزار گز آگے تک ایک بفر زون قائم کیا اور اس زون میں کسی قسم کی کوئی لیز نہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں حکومت پنجاب کے اصرار پر CDA نے بفر زون ختم کر دیا اور اپنی حدود ICT تک واپس لے آیا۔ واضح رہے کہ وہ تمام کام جو سٹون کریشرز جاری رکھے ہوئے ہیں، مذکورہ ہزار گز کے علاقے میں بھی ہو رہا ہے۔ اور یہ ساری علاقہ ڈیفنس کے نیگٹو ایریا میں آتا ہے۔ یہاں سٹون کریشرز کو کسی مجاز اتھارٹی نے اجازت دی یا نہیں، فی الحال اس کا علم نہ ہو سکا۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم کی طرف سے متعلقہ حکام کے نام 20 اپریل 1991 کو جاری ہونے والے لیٹر نمبر 10/011PMDIR/IMP/J5 کو بھی مد نظر رکھا جا رہا ہے۔

الغرض اب یہاں جنگل ختم ہو چکا ہے اور پہاڑ بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے اس صورت حال میں جہاں علاقے کی فطری خوبصورتی ماند پڑی اور فضائی آلودگی کے بڑھنے سے وہاں محض سرخ گلاب کے پھولوں کی رنگت ہی نہیں بدلی بلکہ شاعرانہ مزاج میں بھی فرق آیا۔ ایک مقامی شاعر طالب انصاری نے اپنی نظم میں ماضی سے رابطہ جوڑ کر موجودہ حالات کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے۔نظم کا عنوان ہے ’’تکسی شیلا کے میوزیم میں‘‘

بدّھا!
آنکھیں میچے، شانت، کنول آسن میں بیٹھے بدّھا

وہ بھی کوئی دکھ تھے جن کو

دیکھ کے تو بے چین ہوا تھا

یعنی اک بوڑھے کے مرنے کا دکھ

یا پھر اک روگی کی مصیبت

لاٹھی کے سہارے چلتی بڑھیا دیکھ کے تونے

راج محل کو چھوڑا

آسائشوں کو تیاگ کے تونے

جوگی بننے کی ٹھانی

شیشے کے شوکیس میں بیٹھے

او ماٹی کے بدّھا

کیا ہوتا گر سن سکتا تو ہم لوگوں کی کہانی

ہم دکھیارے

شام سلونی امیدوں میں

دھوپ کنارے

خوابوں کے سہارے

عمر گذارا کرتے ہیں

بوڑھا تو اک بار مرا تھا

ہم روزانہ مرتے ہیں

بڑھیا صرف خمیدہ کمر تھی

سر تو اٹھا کر چل سکتی تھی

اور ہماری سر افرازی

گروی رکھ دی گئی ہے

سونا بنانے والے ہاتھوں میں

خیرات کی مٹی رکھ دی گئی ہے

ہم وہ کوزہ گر ہیں جن کے کوزے

آگ میں تپنے سے پہلے ہی

پانی بہا کر لے جاتا ہے

جوئے شیر تو ہم لاتے ہیں

اور ہماری شیریں

کوئی اور اٹھا کر لے جاتا ہے

بدّھا!
آنکھیں میچے، شانت، کنول آسن میں بیٹھے بدّھا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...