عالمی دہشت گردی 2019ء: ’طالبان نے داعش سے زیادہ کاروائیاں کیں‘

682

دنیا میں امن و امان کے لیے کام کرنے والے ادارے سال کے اختتام پر تفصیلی رپورٹ شائع کرتے ہیں جس سے انسداد دہشت گردی کے متعلقہ حلقوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کتنی کامیابیاں حاصل کی گئیں اور کیا خلا باقی ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں دوہزار اٹھارہ کی بہ نسبت دوہزار اُنیس کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں گیارہ فیصد کمی واقع ہوئی۔ جبکہ اس میں مرنے والوں میں کی تعداد چالیس فیصد کم رہی۔

عالمی سطح پر دہشت گردی کی بات کی جائے تو 2019ء میں مختلف واقعات کے دوران 15952 لوگ مارے گئے۔ یہ دوہزار اٹھارہ کے مقابلے پندرہ فیصد کم تناسب ہے۔ کاروائیوں اور اس کے نتیجے میں مجموعی نقصان میں کمی کے باوجود ایک منفی اشاریہ یہ سامنے آیا ہے کہ 2019ء میں شدت پسندانہ حملوں کے وقوع کا جغرافیائی لحاظ سے دائرہ وسیع ہوا ہے۔ اس سے قبل 77 ممالک مختلف النوع دہشت گردی کے اثرات کا شکار تھے جبکہ اکتوبر دو ہزار اُنیس تک یہ دائرہ 103 ملکوں تک پھیل گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ اموات و نقصانات میں کمی آئی ہے لیکن تشدد کی فکر اور اس کے اثرات کا پھیلاؤ زیادہ ہوا ہے۔

گزشتہ برس داعش کے نفوذ اور حملوں میں 69 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ سال کے آخر میں تنظیم کے سربراہ البغدادی کی موت اس کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ ستمبر میں اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن بھی ایک امریکی حملے میں مارے گئے جو القاعدہ کے نئے متوقع رہنما سمجھے جارہے تھے۔

دوہزار اٹھارہ میں اور اکتوبر دو ہزار اُنیس تک کے عرصے میں طالبان نے افغانستان میں داعش سے زیادہ کاروائیاں کیں۔ اس دوران دنیا کے 20 خطرناک ترین حملوں میں سے 16 افغانستان میں ہوئے۔ سفر کے لیے دنیا کے خطرناک ترین قرار دیے جانے والے ممالک میں افغانستان سرِفہرست رہا۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر خودکش دھماکوں میں خواتین کا استعمال بڑھا ہے۔ بالخصوص نائجیریا میں بوکوحرام نے 80 فیصد خودکش دھماکوں میں خواتین کا استعمال کیا۔

مغربی ممالک میں سفیدفام دہشت گردی اور سخت گیر دائیں بازو کی شدت پسندانہ کاروائیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ 2019ء کے واقعات میں 90 کے قریب افراد مارے گئے۔ سال کا سب سے بڑا سانحہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں پیش آیا جہاں پچاس مسلمان جاں بحق ہوئے تھے۔

دوہزار اُنیس میں داعش نے انٹرنیٹ پر اپنا حلقہ وسیع کرنے اور شدت پسند فکر کی ترویج پر پہلے سے زیادہ توجہ دی۔ یورپی یونین نے نومبر میں اس کی درجنوں ویب سائٹس کو بند کردیا تھا۔

نوٹ: یہ اعدادوشمار انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس،آسٹریلیا، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد اور شرفات سینٹر فار گلوبلائزیشن اینڈ ٹیررزم، عمان سے لیے گئے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...