پاکستان کے لیے اگلی دہائی کا سب سے بڑا چیلنج
جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کے مطابق2019ء کے عالمی ماحولیاتی اشاریے میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں کیا گیا ہے جو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں. پاکستان کا محلِ وقوع اور جغرافیہ جو نمایاں ترین خوبی بھی تصور کیا جاتا ہے، یہ اس کے لئے مسئلہ بھی بن گیا ہے اور پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید ترین اثرات کی زد پر لے آیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات ہمارے لیے اتنا ہی بڑا بحران ہیں جتنا معیشت، بیروزگاری، کرپشن، صحت، تعلیم اور دفاع کے مسائل ہیں۔ شاید یہ ان سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ سارے مسائل کہیں نہ کہیں ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات موجودہ مسائل کے بڑھاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق مستقبل میں موسم کی شدت میں اضافہ ہونے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں قدرتی آفات کے حجم، تعداد اور معاشی نقصانات میں اضافہ ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے براہ راست اور بالواسطہ دو قسم اثرات کے ہیں. براہ راست اثرات میں قدرتی آفات، شدید بارشیں، سیلاب، سائکلون اور خشک سالی کی صورت میں نقصانات (اموات، معاشی نقصانات اور املاک کی تباہی) ہیں۔ یاد رہے ہر ایک قدرتی آفت بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ سالوں کی ترقی کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ بالواسطہ اثرات میں خطرہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئے قدرتی آفات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری، نقل مقانی، خوراک کی کمی، قابل کاشت اراضی میں کمی، متأثرین کی بحالی اور صحت جیسے اضافی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔
بقول گریٹا تھنبرگ ’’ہمیں ماحالیوتی تبدیلی کے لیے اس تندہی اور سنجیدگی سے کام کرنا ہے جیسے کہ ہمارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہو‘‘۔ پاکستان کے پاس نہ ہی مغربی ممالک جیسی تکنیکی مہارت اور وسائل ہیں اور نہ ہی قومی سطح پر اس طرح کی ایمرجنسی جیسی صورتحال نظر آتی ہے جس سے مستقبل کی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نبر آزما ہوا جاسکے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں یہاں پر ہم چار طویل مدتی اقدامات پر گفتگو کریں گے۔
شہری منصوبہ بندی:
دنیا بھر کے شہر اس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ منصوبہ ساز اور سرکاریں ان کے دیرپا اثرات کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ہمارے شہر اور سرکاری منصوبہ ساز بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ پاکستانی شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح، اربن فلوڈنگ اور اربن ہیٹ آئلینڈ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے. فضائی آلودگی کی وجہ سے ملک میں ہلاکتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اربن ہیٹ آئلینڈ کی وجہ سے 2015ء میں کراچی میں چودہ سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں. اربن فلوڈنگ کی بڑی وجہ شہروں میں ناقص نکاسی آب کا نظام کا ہے۔
مقامی حکومتوں کی شمولیت کے بغیر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نبرد آزما کسی طویل مدتی منصوبہ بندی کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ جبکہ اس وقت صرف ایک چوتھائی پاکستان میں لوکل گورنمنٹ موجود ہے، وہ بھی مالی وسائل و اختیارات سے محروم
پاکستان میں شہری منصوبہ بندی کا نہ صرف فقدان ہے بلکہ اس کی اہمیت سے پوری طرح واقفیت کی بھی کمی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی بڑے یا چھوٹے شہر کا سٹی ماسٹر پلان منظور نہیں ہے. لاہور اور کراچی کے ماسٹر پلانز کئی بار ہر فورم پر بحث سے گزر چکے ہیں مگر ابھی بھی منظوری سے بہت دُور ہیں. پاکستان کے پچاس سے زیادہ شہر ہیں جن کی آبادی ایک سے دس لاکھ کے درمیان ہے جو فوری توجہ کے منتظر ہیں۔ سب سے پہلے ان چھوٹے اور درمیانے درجے کے شہروں کو بدلتے ہوئے موسمی حالات، آبادی کے پھیلاؤ اور مستقبل کی ضرویات کے مطابق ماسٹر پلان بنانے اور ان پر مکمل عمل کرنا ہے. تیزی سے بڑھتے شہر ایک قابل عمل پلان جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ایک مرکزی نقطہ کے طور پر موجود ہوں، کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
مقامی حکومتوں کا کردار:
پاکستان میں آج سندھ اور وفاقی دارالحکومت میں مقامی حکومتیں مالی وسائل اور انتظامی اختیارات سے محروم ہیں. جبکہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں لوکل گورنمنٹ موجود ہی نہیں۔ بلوچستان میں جنوری 2019ء، پنجاب بھر میں مئی 2019ء اور خیبر پختونخوا میں بھی اگست 2019ء کے بعد سے لوکل گونمنٹ موجود نہیں ہے. ان تینوں صوبوں میں مہینوں گزرنے کے بعد بھی انتخابات کے آثار نہیں ہیں۔ مطلب یہ کہ اس وقت صرف ایک چوتھائی پاکستان میں لنگڑی لولی لوکل گورنمنٹ موجود ہے۔ مقامی حکومتیں عوام کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں اور عوام کے مسائل سے پوری طرح واقف ہوتی ہیں. مستقبل کی ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات میں مقامی حکومتوں کا مؤثر نظام عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔ مقامی حکومتوں کی شمولیت کے بغیر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نبرد آزما کسی طویل مدتی منصوبہ بندی کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔
مقامی حکومتوں کو زیادہ متأثرہ علاقوں میں کلائمیٹ ایمرجنسی کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے اور سارے ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیاتی تبدیلی کو فیصلہ سازی میں ترجیح دی جانی چاہیے۔ لوکل حکومتیں ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے مجوزہ اقدامات میں خودمختار ہوں اور ان کی موافقت پر زیادہ سے زیادہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے تعاون کا مطالبہ کر سکیں۔ اخبار ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق نئے اسلام آباد ایئر پورٹ کے لئے کشمیر ہائی وے پر بننے والی 25 کلومیٹر لمبی میٹرو لائن کی وجہ سے 960 کے قریب بڑے درختوں کو کاٹا جائے گا۔ دوسری طرف محکمہ جنگلات سندھ کی جانب سے سپر ہائی وے کے کنارے لگائے گئے تقریبا، 5،280 بڑے درختوں کو ہائی وے کی تعمیر کے لئے جگہ کو وسیع کرنے کے لئے کاٹا گیا.
مقامی حکومتیں ہی عوامی حمایت کے ساتھ ماحول دشمن منصوبوں کی راہ روک سکتی ہیں. پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی اور دوسرے ادارے سیاسی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں مگر مقامی حکومتیں عوام میں آگاہی پیدا کر کے کے مقامی ماحولیات کو تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔
نئی نسل کو قدرتی آفات کے خطرے میں کمی کے بارے میں آگاہی، بحالی کے پیچیدہ انتظام اور انسانی ہمدردی کے میدان میں مسائل کو اعتماد کے ساتھ حل کرنے کے لئے قائدانہ کردار کے لئے تیار کرنا ضروری ہے
ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے اور آفات کی روک تھام کے حوالے سے آگہی نصاب کا حصہ بنائی جائے:
ماحولیاتی تبدیلی اورآفات کی روک تھام کے امور پر تعلیمی مواد سکولز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل کرنا ایک اچھا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اسکول کی سطح پر نصاب میں ماحولیات اور جغرافیہ کے کورسز شامل کیے جائیں۔ اگرچہ پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے وفاقی اور صوبائی سطح پر مراکز قائم کرکے ادارہ جاتی تربیت اور تعلیم کا آغاز کیا گیا ہے. کچھ سال پہلے نسٹ یونیورسٹی نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں ایم ایس پروگرام شروع کیا جہاں سے اب تک، پانچ بیچوں نے گریجویشن مکمل کی ہے، جس میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے ستر سے زیادہ طلبہ شامل ہیں، مگر یہ ناکافی ہے. ملک کے کسی اور تعلیمی ادارے میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کورسز گریجویٹ لیول پروگرام میں شروع نہیں کیے جاسکے۔
ہمیں اپنی نئی نسل کو قدرتی آفات کے خطرے میں کمی کے بارے میں آگاہی، بحالی کے پیچیدہ انتظام اور انسانی ہمدردی کے میدان میں مسائل کو اعتماد کے ساتھ حل کرنے کے لئے قائدانہ کردار کے لئے تیار کرنا ضروری ہے. ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کی بارے میں تعلیم اور تربیت کو پرائمری سے لے کر یونیورسٹیز کے نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
نوجوانوں اور مقامی کمیونٹیز کے اشتراک کو بڑھانا:
پاکستان میں مقامی کمیونٹیز وہ بڑا طبقہ ہے جو تاریخی طور پر سماجی اور معاشی ترقی کے منصوبوں کے ہر شعبے میں نظرانداز کیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کو ان کی اصل مسائل کے بجاۓ انہیں سیاسی منصوبوں میں مصروف کرنے یا چند افراد کو فائدہ پہچانے پر زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے. مقامی کمیونٹیز کے اشتراک کو نہ صرف بڑھانا ہے بلکہ انھیں قائدانہ کردار بھی دینا ہے. کوئی اور حلقہ یا شراکت دار ایسا نہیں جو مقامی لوگوں سے زیادہ اپنے علاقه کے مسائل کا ادارک رکھتا ہو اور اس کے حل میں سنجیدہ ہو. ماحولیاتی تبدیلی کے لیے جدوجہد مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستانی طالب علموں میں ہر وہ صلاحیت ہے جو گریٹا تھنبرگ نے دنیا بھر میں دکھائی ہے. مقامی اور بین القوامی سطح پر پاکستان کے طالب علم اپنی قائدانہ صلاحیت دکھا رہے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں اسکولوں اور جامعات میں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ نوجوانوں کا اس مہم میں حصہ لینا کئی طرح سے اہم ہے۔ ایک تو اس سے حکمرانوں پر کام کرنے کا پریشر بڑھتا ہے اور دوسرا یہ مسئلہ اتنا بڑا اور گھمبیر ہے کہ صرف کانفرنسوں، سمیناروں، تحقیقی مکالمے لکھنے یا صرف درخت لگانے سے حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے معاشرے کے سارے طبقوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے، ورنہ کوئی بھی مختصر مدت یا طویل مدتی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوگی۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے یہی بچے، قوم کا مستقبل، آگے چند سالوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ اگر آج کے طالب علم ماحولیاتی تبدیلی کے لیے جدوجہد اور بیداری پھیلائیں گے تو مستقبل میں اس سے زیادہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ نوجوانوں کا یہ حق بنتا ہے کے وہ بڑوں سے پوچھیں وہ کیسی دنیا ان کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
ایک مقامی امریکن کہاوت کے مطابق ’’یہ زمین ہمیں اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں نہیں ملتی، بلکہ ہم اسے اپنے بچوں سے قرض لیتے ہیں۔‘‘ وراثت کو کسی بھی طرح سے استعمال کرنے کا ورثاء کو پورا حق حاصل ہوتا ہے. مگر کسی سے لیا گیا قرض یا امانت پورے کے پورے واپس کرنے پڑتے ہیں۔ کیا ہم اپنے بچوں سے قرض لی ہوئی یہ زمین انھیں اسی حالت میں واپس کر پائیں گے؟
فیس بک پر تبصرے