دینی و عصری اداروں میں ابتدائی سطح پر یکساں نصابِ تعلیم ضروری ہے
تعلیمی اداروں کے نصاب میں تخصیص کا ہونا کوئی بری بات نہیں، اگر ستر سال قبل ہی ایک بنیادی نصاب مقرر ہوجاتا تو آج تعلیمی میدان میں معاشرہ تفریق و تقسیم کا شکار نہ ہوتا۔ ویسے بھی ایسے معاشرے میں جہاں غربت اور ناخواندگی بڑھتی جارہی ہو وہاں یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ ہی معاشرتی تقسیم کے خاتمے کا سبب بننے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت‘‘(1966ء) کاایک حوالہ یاد آگیا جو آج بھی کارآمد ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک طبقہ جو علمائے کرام کا تھا۔ اس نے اپنی تما م تر توجہ قدیم نصاب درس کی تعلیم پر مرکوز کردی۔ اس مقصد کے لیے عربی مدارس قائم کیے گئے اور ان کے ذریعہ دینیات یعنی تفسیر، حدیث، فقہ اوراس کے ساتھ عربی زبان سے متعلق بعض عقلی فنون کی تعلیم کا ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج کل کی عام اصطلاح میں اس طبقہ کو قدیم تعلیم یافتہ گروہ کہتے ہیں، جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ گروہ علم اور عمل، وضع اور سیرت میں دونوں کے لحاظ سے بالکل قدیم ہے۔ اس کے بر خلاف دوسرا طبقہ متجدد دین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کی خیریت اسی سمجھی کہ مسلمان انگریزوں کی زبان اور ان کے علوم وفنون کو سیکھیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے بھی انہیں کے رنگ میں رنگے جائیں۔ اس گروہ کو عام بول چال میں جدید تعلیم یافتہ گروہ کہتے ہیں۔ اور اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ یہ لوگ چال ڈھال، وضع قطع اور فکر و دماغ کے اعتبار سے علما کے گروہ کی ضد ہیں۔ بہرحال اس طرح مسلمانوں میں تعلیم کی دو قسمیں ہوگئیں۔ ایک قدیم، دوسری جدید۔ ان دونوں قسم کی تعلیم کے لیے درسگاہیں بھی الگ الگ قائم ہوئیں، تعلیمِ جدید کی درسگاہ اسکول، کالج کہلائی اور قدیم تعلیم کی درسگاہ کا نام بھی وہی پرانا مدرسہ رہا۔ اگر چہ یہ دونوں درس گاہیں مسلمانوں کی تھیں اور ان کی ضروریات کی تکمیل کیا کرتی تھیں۔ لیکن یہ امر نہایت افسوس ناک تھا کہ دونوں میں ایک طرح کی رقابت اور چشمک زنی پیدا ہو گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قدیم تعلیم یافتہ حضرات کو جدید گروہ سے نفرت تھی اور اسی طرح جدید گروہ قدیم تعلیم کے اصحاب کی شکل دیکھنے کا روادار نہ تھا۔‘‘
مذکورہ بالا عبارت ایک درد ہے اور اس کا مطلب ہر گز یہ نہ ہیں کہ دینی مدارس ختم کر دیے جائیں۔ بلکہ جس طرح علی گڑھ اور ندوہ میں مدارس کے علما نے مسلمانوں کو نئی جہت سے روشناس کرایا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اگر انہی خطوط پر پاکستان کے مدارس کو بھی چلا جاتا تو آج دینی مدارس کے فاضلین کا مقام اور معیار مزید بہتر ہوتا۔ مولانا گیلانی کا بنیادی مقصد نہ صرف مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم کی اہمیت و افادیت کا بیان ہے بلکہ اس تعلیمی نظام کی تقسیم و تفریق کی طرف اشارہ بھی جو حالات کے سبب پیدا ہوئے۔
موجودہ حکومت بھر پور خواہش رکھتی ہے کہ پورے ملک میں بنیادی تعلیم کا ایک ہی سانچہ و ڈھانچہ ہونا چاہیے۔ ابتدائی خبروں کے مطابق پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کا یکساں نصاب تیار ہو چکا ہے جس کا نفاذ مارچ 2020ء سے شروع ہوجائے گا
اگر تمام تعلیمی اداروں میں پہلی جماعت سے دسویں اور بارہویں جماعت تک کا یکساں نصاب تیار ہوجائے اور رفتہ رفتہ نافذ العمل بنایا جائے تو یہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد طالب علم اپنی آزادی سے مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے ان اداروں کا رُخ کریں جہاں ان کی دلچسپی، مزاج اور رجحان مائل ہوں۔ اگر وہ عالم دین بھی بننا چاہیں تو کسی کو اختیار نہیں کہ انہیں روکا جائے کیونکہ اس میدان میں بھی مہارت حاصل کرنا معاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ اس دینی علم کے ذریعے سے عوام میں دین کی اہمیت اور اس کا فہم کا اجاگر کیا جا سکے۔
مقصد مختلف نظام ہائے تعلیم یا نصاب کا تقابل ہر گزنہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ معاشرے کی تمام سماجی، اقتصادی، معاشرتی ضرورتوں، چیلنجز و مسائل کو ضرور مد نظر رکھا جانا چاہیے اور اسی کے مطابق اس شعبہ کے ماہرین تیار ہونے چاہیئں، ایک وقت تھا کہ جب کچھ علما یہ کہا کرتے تھے کہ ہم کسی بھی طور عصری علوم دینی مدارس میں پڑھائے جانے کو برداشت نہیں کریں گے اور ہر گز ایسے تعلیمی ادارے نہیں قائم کریں گے۔ مگر آج یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں باقاعدہ نہ صرف عصری علوم کو شا مل کیا گیا ہے بلکہ کچھ بڑے مدارس نے اپنے اسکولز بھی قائم کر لیے ہیں۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ وقت نے سب کچھ بدل دیا اوردو نسلوں کے بعد اب تیسری نسل ان سب تنقیدوں سے ماورا عصری علوم کی اہمیت کو جان چکی ہے۔ یہی وجہ ہے اب مدارس کے اسپیشل کورسز کے ذریعے، شعبہ فلکیات، شعبہ صحافت، شعبہ بنکنگ، شعبہ تحقیق کے علاوہ براہ راست یونیورسٹیز میں داخلے لے کر طلبہ بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ دینی مدارس کے طلبہ کی دلچسپی کے سبب خوش آئند قدم ہے۔
میرا خیال ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں دینی مدارس کے حضرات اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ مدارس میں عصری علوم کا پڑھایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اوریہی وجہ ہے کہ اب مدارس کے بے شمار فاضلین نے ایسے ادارے بھی قائم کر لیے ہیں اور کرتے جا رہے ہیں جن میں قرآن کی بنیادی تعلیم، ناظرہ و حفظ اور ساتھ میں عصری علوم پر مشتمل نصاب موجود ہے۔ بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ اب ایسے بھی تعلیمی ادارے قائم ہوگئے ہیں جہاں دینی علوم اور تربیت سازی کے ساتھ ساتھ باقاعدہ آکسفورڈ اور کیمبرج کا جدید تعلیمی نصاب (اے لیول، او لیول بھی زیرتدریس ہے۔ اس طرح کے تعلیمی اداروں کے قائم کرنے اور سرپرستی رکھنے والوں میں نمایاں علما کے نام آتے ہیں۔ تاہم ان اداروں میں ایک غریب یا متوسط بچہ تعلیم ہر گز حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ وہ مزاج ہے جس کے سبب پھر سے ایک تفریق نے جنم لیا ہے جو تشویش ناک ہے۔ حالانکہ معاشرے میں پہلے سے موجود بنیادی تعلیمی نظام میں تفریق پختہ ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد سب سے اہم مسئلہ صوبائی سطح پر اپنے اپنے نصاب کے انتخاب میں بااختیار ہونا ہے۔ موجودہ حکومت یہ بھر پور خواہش رکھتی ہے کہ پورے ملک میں بنیادی تعلیم کا ایک ہی سانچہ و ڈھانچہ ہونا چاہیے۔ ابتدائی خبروں کے مطابق پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کا یکساں نصاب تیار ہو چکا ہے جس کا نفاذ مارچ 2020ء سے شروع ہوجائے گا۔ اگلا مرحلہ چھٹی سے جماعت دہم تک یکساں نصاب کی تیاری کا ہے جس پر کام کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے چند اہم اور فوری اقدامات اٹھائے جانے کی ضروت ہے۔ سب سے پہلے تعلیمی امور کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک نئی جامع پالیسی وضع کی جائے جس میں جز وقتی کے بجائے طویل مدتی منصوبہ موجود ہو۔ اس کے بجٹ کا تخمینہ بھی واضح ہو۔ ابتدائی یکساں تعلیم کی تیاری میں مشاورتی کمیٹی کا قیام ہو جس میں ماہرین تعلیم، ماہرین امورِ دینی مدارس، اسکالرز اورعلمائے کرام پر مشتمل حضرات شامل ہوں۔ تاکہ باہمی مشاورت اور اعتماد سے معاملے کو آگے بڑھایا جاسکے۔ یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کے لیے 18ویں ترمیم کی اس مخصوص شق میں پارلیمان سے استثنا حاصل کیا جانا چاہیے۔ ان بنیادی اقدامات کے بغیر اگر کوئی اور قانونی راہ نکل سکتی ہو تو اسے بھی اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ ان سب امور کی انجام دہی میں مخلصانہ سوچ کا عمل دخل اہمیت کا حامل ہوگا۔
موجودہ حکومت پاکستان کے تعلیمی نظم میں یکساں تعلیمی نصاب کے نفاذ میں کامیاب ہوگئی تو یقیناََ اس کے پورے معاشرے پرمفید اثرات مرتب ہوں گے۔ یکساں نصاب تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جس کے سبب مدارس اور عصری سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے