’نسخہ کیمیاء‘ پاکستان میں سرکاری ملازمت کے حصول کا صحیح طریقہ
آپ کے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سرکاری نوکری کے معاملے میں اہلیت و قابلیت سے زیادہ طاقتور شے تعلقات اور رسائی کا فن ہے۔ سائل اپنے تعلقات کا بھر پور استعمال کرے تو ٹیسٹ میں بھی اچھے نمبرز، انٹرویو بھی کمال کا ہوجاتا ہے
پیارے سائل! امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے اور زندگی کے معاملات گھسیٹنے کی کو ششیں جاری و ساری ہوں گی۔ آپ سے چند باتیں کرنی تھیں اور کچھ اہم نصیحتیں بھی، تاکہ زندگی کی اس دوڑ میں جس منزل کی تلاش میں آپ سرگرداں ہیں اس میں کامیابی آپ کا مقدر ہوسکے۔
میری ایک صاحب سے دعا سلام ہے، یقینا آپ بھی انہیں جانتے ہوں گے جو تین سال سے بے روزگار تھے اور انہیں کسی مستقل ملازمت کی تلاش تھی۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھنے کی جسارت کی کہ آپ کی تعلیم کیا ہے؟ تو بتانے لگے میں نے ریگولر میٹرک، انٹر، بی اے اور پھر ڈبل ماسٹرز کیا ہے، ایک اسلامک اسٹیڈیز میں جبکہ دوسرا بین الاقوامی تعلقات عامہ میں۔ پھر قانون کی تین سالہ ڈگری لی، اس کے علاوہ اسلامک اسٹیڈیز میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔ تین سال قبل اپنی اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر ایک نوکری کے لیے اپلائی کیا، کنٹریکٹ پر تین سال رہے، کارکردگی بھی بہترین رہی مگر مزید تین سال مدت ملازمت میں توسیع اس لیے نہ ہو سکی کہ ان کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہ تھی۔ نہ وزیر صاحب سے بہترین تعلقات اور نہ کسی بیوروکریٹ سے۔ یہی وجہ تھی کہ جب تین سالہ مدت کی تکمیل کا وقت قریب آیا تو سسٹم نے انہیں اشارہ دیا کہ صاحب اگر آپ نے ان تین سال میں متعلقہ وزیر صاحب اور بیوروکریٹ صاحبان سے اپنے تعلقات بنائے ہوتے تو یقینا آپ کی مدت ملازمت میں توسیع کی فائل منظور ہوجانی تھی۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک روزآنہ کی بنیاد پر وہ اخبارات دیکھتا ہے اور مختلف جگہوں کے لیے اپلائی کرتا ہے۔ گر کہیں درخواست شرفِ قبولیت پا بھی لے توانٹرویو کے بعد مسترد ہوجاتی ہے، شاید وہ سمجھتے ہیں یہ صاحب ہمارے سسٹم کے لیے غیر ضروری ہے۔ یہ ایک فرضی کہانی نہیں بلکہ مروجہ سسٹم میں دکھ بھری اور زخم خوردہ سچائی ہے جس کا جابجا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو جان لینا چاہیئے کہ پاکستان میں اس وقت پڑھے لکھے بے روز گاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں صرف ماسٹرز کی ڈگریوں کے حامل ہی نہیں بلکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی والے بھی اپنی فائل لے کر جوتے چٹخاتے ملتے ہیں۔
پیارے سائل!
میں سمجھ سکتا ہوں کہ جب ایک سرکاری پوسٹ مشتہر ہوتی ہے تو سینکڑوں اور ہزاروں لوگ اپلائی کرتے ہیں اور عمومی طور پر سب ہی مصلوں پر بیٹھ کر دعائیں، ذکر و اذکار، وظائف و مجاہدہ کرنے میں مگن ہوجاتے ہیں۔ مگر اتنا نہیں جناب، مقصود تک پہنچنے میں بڑے مراحل آتے ہیں۔ بلکہ کچھ رد بدل کے ساتھ سسٹم یہ ہے کہ پہلے این ٹی ایس ٹیسٹ میں کامیابی ضروری ہے، کامیاب ہوگئے تو پھر تحریری ٹیسٹ کا مرحلہ ہے، اس میں بھی نکل گئے تو بند کمرہ اجلاس میں کئی بڑے بڑے قابل افسروں کے سامنے بیٹھ کر انٹرویو میں اپنی اہلیت و قابلیت کو سوالوں کی بوچھاڑ میں ثابت کرنا ہے۔ اس میں بھی اگر اطمینان قلب ہوتا ہے تو پھر انتظار فرمائیے۔ آخر میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ بند کمرے میں بیٹھے علم و فضل کی چٹانوں نے سائل کو نااہل قرار دے کر اٹھا کے پھینک دیاہے۔
پیارے سائل!
پڑھے لکھے صاحب اپنے سب دوستوں، عزیز و اقارب اور گھر والوں کو جب یہ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں جاب کے لیے اپلائی کیا ہے، آپ نے خصوصی دعا کرنی ہے تو بس پھر سائل کا ایک اور امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ سب یکے بعد دیگرے کہتے ہیں ہاں ہاں کیوں نہیں؟ خاص دعا کریں گے۔ فلاں کل عمرہ پر جا رہا ہے اُس سے بھی خصوصی دعا کروائیں گے۔ ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد سب باری باری پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بتاؤ تو سہی! ہوا کیا تھا؟ کیسا ہوا؟ وہ لوگ مطمئن تھے یا نہیں؟ سوالات کیا تھے؟ تم نے جواب صحیح دیے کہ نہیں؟ پڑھے لکھے صاحب کو تسلی ہوتی ہے کہ اب ان سب کی دعا ئیں ضرور میرے کام آئیں گی، لیکن وہ جب ناکام ہو جائیں تو پھر سوالوں کی ایک اور بوچھاڑ سر پر آن پڑتی ہے۔ ٹیسٹ میں نمبر کم ہوں گے، انٹرویو بے کار دیا ہوگا۔ یار یہ سب تو ٹھیک ہے مگر کوئی تعلقات کا جیک، کوئی پرچی ورچی بھی لگانا ضروری تھے نا، ایسے تھوڑی جاب مل جاتی ہے؟ سرکاری نوکری کوئی مذاق ہے کیا؟ ایسا نہیں کہ کوئی تسلی نہیں دیتا، یہ بھی ملتی ہے، کوئی بات نہیں اس میں کوئی بہتری ہوگی۔ کوشش کرتے رہو۔ مقدر، نصیب میں لکھا ہوگا تو ضرور ملے گی۔ ہماری نصیحت تو یہ ہے کہ اپنی کسی بھی جاب اپلائی کے بارے کسی کو بھی ہرگز نہ بتائیں تاکہ آپ کا تماشا نہ بنے۔
پیارے سائل!
آپ کے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سرکاری نوکری کے معاملے میں اہلیت و قابلیت سے زیادہ طاقتور شے تعلقات اور رسائی کا فن ہے۔ سائل اپنے تعلقات کا بھر پور استعمال کرے تو ٹیسٹ میں بھی اچھے نمبرز، انٹرویو بھی کمال کا ہوجاتا ہے۔ ہمارے سرکاری سسٹم کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر متعلقہ ادارے میں اپنے کسی خاص بندے کو لگانا مقصود ہے تو پھر اشتہار بھی اسی کی قابلیت کی بنیاد پر تیار کیا جائے گا۔ یعنی اللہ کے سارے بندے ایک جانب اور خاص بندہ ایک طرف۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ خاص بندہ بھی یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ اور سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔
پیارے سائل!
اب کرنا کیا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ اگر آپ کو سرکاری یا پرائیویٹ کسی بڑی کمپنی میں ملازمت درکار ہے تو سب سے پہلے جس کی حکومت ہو اُس جماعت کے ورکر بن جانے کو ترجیح دیجے۔ سیاسی بنیاد پر تعلقات بنانے کی کوشش کریں، مقامی سیاسی ذمہ داران کی دعوتیں کریں اور کچھ چھوٹے موٹے تحائف کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ انٹرویو کے لیے جو صاحبان بطور علم کی چٹانیں اور پہاڑ تشریف لائیں گے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیجئے اور انہیں کسی گیدڑ سنگھی سے فون کرائیے۔ یہ اہم نسخہ ہے، اس پر خصوصی توجہ دینی ہے۔ سب کام تسلی بخش ہوجائیں تو کچھ اوپر والے پر بھی اعتماد کیجئے کیونکہ وہ چاہے تو ساری بساط الٹ پلٹ کردے۔ اُمید تو یہی ہے ان قیمتی نصائح کے بعد نتیجہ آپ کے حق میں ہی ہوگا۔ پھر اس کے بعد سجدہ شکر بجا لائیے اور مٹھائیاں تقسیم کیجئےگا۔
اور ہاں جنابِ سائل!
اگر آپ کے تعلقات مضبوط و مستحکم ہوجائیں تو کچھ جگاڑ اس ناچیز کے لیے بھی لگائیے گا۔ اب دیکھئے نا! جب کسی صوبے کا وزیر تعلیم میٹرک پاس لگ سکتا ہے تو بھلا ہم کیوں دل چھوٹا کریں؟ امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے خصوصی تعلقات اور اخلاص کی بنیاد پر اس ناچیز کی بھی سی وی آگے بھجوائیں گے۔
آپ کے لیے دعا گو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط آپ کا مخلص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عامر طاسین
فیس بک پر تبصرے