مشرق وسطیٰ کا الاؤ اور پاکستان کی مجبوریاں

625

مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے ایران امریکا تناؤ کے ماحول میں پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں غیرجانبدار رہے گا اور اپنی زمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دے گا۔

گزشتہ سال کی ابتداء چند خلیجی ریاستوں کی امداد اور ان کے قطر و ایران کے ساتھ بحران میں غیرجانبدار رہنے کی کوششوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ درمیان میں کئی دفعہ شرق اوسطی ممالک کے مسائل میں پاکستان مشکل حالات سے دوچار رہا اور سال کا اختتام اس طرح ہوا کہ کوالالمپور سمٹ کے موقع پر ایشیائی دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے۔ اب نئے سال کی شروعات پر مشرق وسطیٰ میں ایک اور بحران منہہ کھولے کھڑا ہے۔ جنرل سلیمانی کی موت کے بعد سے اب تک سعودی عرب نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ وہ یہ تأثر دینا چاہتا ہے کہ وہ اس حادثے میں فریق نہیں ہے۔ لیکن ایران بلاشبہ اسے ایک فریق خیال کرتا ہے اور اس کے اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے جس کا سعودی عرب کو بخوبی احساس ہے۔ پاکستان کی معاشی کمزوریاں اور خارجہ محاذ پر مجبوریاں بہت زیادہ ہیں مگر اس کے ساتھ چند خلیجی ریاستوں اور چین کے علاوہ دنیا میں کوئی اور مؤثر تعاون موجود نہیں ہے۔ حالات ایسے رخ پر جانے کی صورت میں امریکی دباؤ سے قطع نظر بھی پاکستان کے لیے مکمل غیرجانبدار رہنے کے فیصلے پر برقرار رہنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

پچھلے چالیس برسوں سے مشرق وسطیٰ کے اہم اور بنیادی مسائل میں فرقہ وارانہ عداوت سرفہرست رہی ہے اور ان ملکوں کی خارجہ پالیسی میں اس مسئلے کو خاصی اہمیت حاصل رہی۔ لیکن اب کچھ عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے ساتھ چند نئے عوامل بھی شامل ہوگئے ہیں جن میں دہشت گردی سمیت عرب نسلی و طبقاتی تنازعات، جغرافیائی حدبندیوں کے جھگڑے اور اقتصادی معاملات کی آپسی کھینچاتانیاں نمایاں ہیں۔ لہذا ان کے خارجہ تعلقات میں ان مسائل کے اثرات اور متعلقہ امور حاوی رہتے ہیں۔ پاکستان ماضی میں غیرجانبدار رہنے کی کوشش کرتا آیا ہے لیکن دن بدن بڑھتی ہوئی اس کی داخلی کمزوریوں اور مجبوریوں کی بنا پر مشکل ہوتا جائے گا کہ اسے ان بحرانوں سے لاتعلق رہنے دیا جائے۔

ماضی کے برخلاف اب مشرق وسطیٰ مختلف ملیشیاؤں اور خوفناک مسلح تنظیموں کا گڑھ بن گیا ہے۔ یہ جن تنازعات میں گھرا ہے اتنی جلدی حل ہونے والے نہیں ہیں۔ ان تنازعات سے وابستگی انتہائی نقصان دہ ہے۔ خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان بحرانوں نے سعودی عرب اور امارات کی معیشت کو متأثر کیا ہے اور آنے والے وقت میں اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ مستقبل میں پاکستان کو خلیجی ممالک سے مشکل اوقات میں ملنے والی مالی امداد کا سلسلہ بھی متأثر ہوسکتا ہے۔ یہ خطہ مسلسل جس الاؤ میں گھرتا جارہا ہے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ و معاشی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے تاکہ وہ حقیقت میں غیرجانبدار رہ سکنے کے لیے خودمختار ہوسکے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت متبادل دیگر معاشی راہیں اور دوست اپنائے۔ 2019ء کے اختتام پر ہمارے دوست ممالک میں مزید کمی ہوئی۔ ملک کو نئے سال میں نئی پالیسیوں کے ساتھ نئے مستحکم تعلقات بنانے کی حاجت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...