کیا جمہوریت ترقی کی ضمانت ہے؟

597

بیت جانے والی دہائی پاکستان کے لئے بہت اہمیت  کی حامل تھی۔ گزشتہ 72 سال کی ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک پوری دہائی جمہوری دور میں گزری( کل کیا ہویہ اللہ جانتا ہے)۔ یہ بذات خود کرب ناک ماضی سے چھٹکارے کی ایک علامت ہے اور اس امر کا حق دار ہے کہ اسے منایا جائے۔

تاہم کئی سوالات باقی رہ جاتے ہیں مثلاََ  کیا جمہوریت کا غیر منقطع دور اپنے وعدے پورے کرسکا؟ آزادی اظہار رائے اور ترقی کی فراہمی؟ کیا اس کی وجہ سے لوگوں کی معاشی مشکلات کم ہوئیں اور انہیں ایک متناسب فائدہ مند زندگی نصیب ہوئی جس سے وہ ایک باعزت زندگی گزار سکتے؟

ہم سبھی ان سوالوں کے جواب سے واقف ہیں۔

تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی مواقع حاصل کرنےکے لئے فضاء سازگار ہوئی ہے اور معلومات کے حصول میں زیادہ بہتری آئی ہے۔ اسی اثناء میں جبکہ سرکاری معاملات میں ڈیجٹل دور آیا ہے تو بابوؤں کے ہاتھوں درپیش مشکلات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور نوسربازوں کے لئے مختلف روپ دھارکر دھوکے دینا ذرا مشکل ہوگیا ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی ممکنہ طور پر بہتری یا ابتری آئی ہوگی مگر اس کا جائزہ لینا ماہرین کی صوابدید ہے۔  تجارتی امور کی صحافت کرنے والے صحافی کے لئے یہ تقریباََ ناممکن ہے کہ وہ تبدیلی کی تمام جہات کا جائزہ لے سکے کیونکہ واضح سیاسی فوائد سے ماسوا اس دہائی کی معاشی خصوصیات کی نشاندہی ایک تحقیقی اعداد وشمار پر مبنی جائزے کی متقاضی ہے۔ تاہم اس مضمون میں گزرجانے والی دہائی کے چند نمایاں معاشی رواجوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  اس دہائی کے دوران 2010 سے لے کر 2019 تک ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مرحلہ وار مسند اقتدار پہ براجمان رہی ہیں۔ صرف پاکستان مسلم نواز کا دورا حکومت اس دہائی میں پورا ہوتا ہے۔(2013تا2018) بقیہ کے پانچ سال پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اگر معیشت کے  زاویئے سے دیکھا جائے تو یہ دہائی کوئی بہت خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اس صدی کے دوران رہنے والی اوسطََ 3 فیصد معاشی شرح نمو اس سے پچھلی دہائی سے بھی ایک فیصد شرح نمو کم تھی۔ دوہزارویں دہائی کے دوران ملک کی شرح نمو اوسطََ 4۔4 فیصد تک  برقرار رہی جبکہ ملک اس دہائی کے زیادہ تر عرصے میں براہ راست فوجی آمریت کے سائے تلے تھا۔ 2010 کی دہائی کے دوران بھی معیشت کی حالت دگرگوں رہی اگرچہ اس دوران پاک چین معاشی راہداری کا دوطرفہ معاہدہ ہوا جس پر 2014 میں دستخط ہوئے اور اس کے نتیجے میں پاکستان  کی شکستہ معیشت اور تعمیراتی ڈھانچے میں 28 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔

جمہوری حکومتیں بہرحال گزشتہ دس سالوں کے دوران مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں کسی قدر کامیاب رہیں اگرچہ اس گزری دہائی کے آخر میں تحریک انصاف کی حکومت کے آنے پر مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ گزر جانے والی دہائی میں مہنگائی کی شرح 2 اعشاریہ 5 فیصد رہی تھی جبکہ دوہزارویں دہائی میں یہ شرح 7 اعشاریہ 9 فیصد رہی تھی۔ اگرچہ تینوں سیاسی حکومتوں کی ترجیحات مختلف رہی ہیں تاہم آزادنہ پالیسیوں اور مارکیٹ پر بڑھتے ہو ئے انحصار کا رجحان تمام حکومتوں میں مشترک ہے۔  پیپلز پارٹی حکومت کی توجہ کا مرکز دیہی ترقی رہا جس کے سبب  سرمائے کی ترسیل شہری سے دیہی مارکیٹ کی جانب رہی یوں کاروں، موٹرسائیکلوں اور دیگر تیزرفتار گاڑیوں کی دیہی علاقوں میں فروخت میں اضافہ دیکھا گیا۔  دوسرے اور تیسرے درجے کے شہروں میں جائیداد کی قیمتیں بڑھ گئیں اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں لیز پر دی جانے والی زمینوں میں اضافہ دیکھا گیا ۔ جب سال 2013 میں مسلم لیگ نواز نے حکومت سنبھالی تو اس رجحان میں تبدیلی آئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے متعلق کچھ تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ہرچند اس پوری دہائی کے دوران اس امر کا بارہا زبانی کلامی اظہار کیا جاتا رہا کہ نجی شعبے کو ترجیح دی جائے گی تاہم  صنعتی شعبے میں ایسی کوئی گرانقدر ترقی دیکھنے میں نہیں آئی جس قدر اس میں گنجائش تھی اس کے سبب ایکسپورٹ محدود ہی رہیں۔ سرمائے کی تشکیل کے مراحل بھی کمزور ہی رہے۔

خارجی شعبے کی کمزوری خاص طور پر بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے نے تین حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کی پناہ لیں۔ ملکی معیشت کو 23 مہینوں کا معاشی سہارا پہنچانے کی خاطر تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف سے 7اعشاریہ 6 ارب ڈالر کا حالیہ قرض لیا ہے۔ مسلم لیگ نواز نے تین سالوں کے لئے ای ایف ایف کی مد میں 6 اعشاریہ 2 ارب ڈالر قرض لیا جبکہ تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں تین سالوں کے لئے 6 ارب ڈالر کا اس طرح کا فنڈ  حاصل کیا ۔

آئی ایم ایف نے پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ کئے گئے طے شدہ معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے آدھے رستے میں ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے وعدے کے مطابق 7اعشاریہ 6ارب ڈالر دینے کے 4ارب ڈالر پہ ہی اکتفا کیا۔ مسلم لیگ نواز نے یہ پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ۔ حالیہ ای ایف ایف کے تحت یہ اندازہ ہے کہ دوسری قسط جلد ہی ملک کو موصول ہوجائے گی۔ ترقیاتی منصوبے اور غریب نواز حکمت عملی گزر جانے والی  جمہوری دہائی میں  بھی کہیں زیادہ  نظر نہیں آئی ۔تجارتی پالیسی کے سبب وسائل کی تشکیل کا کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔ سرمائے کی حاصل شدہ مقدار اخراجات کی نذر ہوگئی اور قومی بچت کے اعداد وشمار مایوس کن رہے۔ حالیہ تجارتی خسارے کے سبب حکومت انسانی ترقی اور وسائل کے شعبے میں کوئی قابل قدر سرمایہ کاری کرنے سے قاصر رہی۔

جمہوری روایات کے دکھاوے کے لئے کسی حد تک سوشل سیکورٹی کی مد میں کچھ رقم صرف کی گئی۔  چند دن پہلے ختم ہونے والی دہائی میں غرباء کی فلاح پر جتنی رقم خرچ کی  گئی اتنی رقم اس سے پہلے ملک کی قومی تاریخ میں خرچ نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے شہرہ آفاق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نامی  شروع کیا جو غرباء کو براہ راست مالی امداد دیتا ہے، مسلم لیگ نواز نے اس منصوبے کو جاری رکھا اور اب تحریک انصاف کی حکومت بھی اس منصوبے کو احساس پروگرام کے تحت جاری رکھے ہوئے ہے۔ کم ازکم آمدن کی مقدار گزری دہائی میں 17ہزار 500 روپے مقرر کی گئی۔ یہ اضافہ دوہزارویں دہائی سے دوگنا سے بھی زیادہ تھا ،سال 2010میں کم ازکم آمدن 7 ہزار روپے تھی۔ تاہم اس سب کے باوجود عوام کی توقعات پوری نہ ہوسکیں جس کی ایک وجہ امیراورغریب کے درمیان خلیج کا مسلسل وسیع ہوتے جانا تھا ۔ لوگوں کوایسا لگتا ہے کہ یہ نظام قطع نظر اس کے کہ کون سی جماعت حکومت میں ہے ان کے ساتھ سختی اورعدم مساوات سے ہی پیش آئے گا۔ تاہم اس کے بھی باوجودکہ انہیں معیشت سے باہر رکھے جانے کا احساس لاحق تھا مگر یہ ان کی معاشی خواہشیں ختم نہ کرسکا اورانہوں نے حاصل شدہ مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی۔ تینوں سیاسی حکومتیں سرمائے کے درست استعمال سے سماجی خلیج کو ختم کرنے میں، سماجی اعداد و شمار میں بہتری لانے اور اداروں کو مضبوط بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ فرسودہ نظام میں کمزوری آئی مگر یہ کسی بہتر منصوبہ بند متبادل کے سبب نہیں بلکہ اس نظام کی فرسودگی کے سبب ہوا۔

مقامی سرمایہ کار کا رویہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ جیسا کہ پاکستانی تجارت میں ایک بڑے وقفے کےبعد سرمایہ کاروں نےبیرون ملک پیسہ رکھنے کی بجائے  بنیادی شعبہ جات مثلاََ انڈسٹری اور زراعت میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پھر وہی بات کہ یہ تبدیلی حکومتی پالیسیوں کے سبب نہیں آئی بلکہ اس کی وجہ عالمی سطح پرآنے والی تبدیلی ہے جس کے تحت فنڈز کی منتقلی میں شفافیت کا تقاضا بڑھ گیا ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ تمام ترمشکلات اور شدید معاشی دباؤ کے باوجود اس جمہوری دور کی دہائی میں پاکستانی عوام خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آج کے عہد کا پاکستانی زیادہ باشعور اور حکومتی معاملات میں زیادہ بہتر طریقےسے اپنا کردار ادار کررہا ہے۔

عالمی سطح پر بہت سے ماہرین دنیا بھر کے مختلف ممالک میں عوامیت پسند حکمرانوں کےعروج پر فکرمند ہیں اور جمہوری نظام کی کمزوریوں کا جائزہ لے کر اس کی اصلاح کا مطالبہ کررہے ہیں جو بہرحال دیگر سیاسی نظاموں کی نسبت ایک بہتر نظام سمجھا جاتا ہے۔

سال 2019 کی عالمی جمہوری صورتحال پر سٹاک ہوم میں واقع ایک سرکاری ادارے انٹرنیشنل آئیڈیا کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر کیون کیسسز نے اپنے خطاب میں کہا ہمیں جمہوریت پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے عہد کو اس کی خامیوں کے باوجود زندہ رکھنا چاہیئے اس کا احیاء کرنا چاہیئے۔ تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت انسانی افتخار کے لئے بہترین طرز حکمرانی ہے۔ ہمیں اس حوصلہ پکڑنا چاہیئے۔ چاہیئے اس کے لئے ہماری کوشش کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہوہمیں نمائندہ اداروں کو مضبوط بنانا چاہیئے۔ مضبوط سول سوسائٹی قائم کرنی چاہیئے۔ کرپشن کے خلاف کام کرتے ہوئے آزاد میڈیا کو یقینی بنانا چاہیئے۔ یہی تمام عناصر ایک توانا جمہوری معاشرے کی بنیادیں ہیں۔

مصنف: افشاں صبوحی

بشکریہ: روزنامہ ڈان

مترجم: شوذب عسکری

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...