سماجی دماغ: جدید ذہن کی تشکیل میں تنوع کے مثبت کردار کی اہمیت

رچرڈ کرسپ کی کتاب پر تبصرہ

1,283

سوشل برین آج کے علم نفسیات کا سلگتا موضوع بن گیا ہے۔ یہ دراصل سماجی شناخت کا ذیلی موضوع ہے جو جدید معاشروں میں تنوع میں اضافے سے پیدا پیچیدہ مسائل کے مطالعے کا نام ہے۔ بیسویں صدی میں زبان، نسل اور ثقافت میں تنوع کو خوش آمدید کہا گیا۔ کئی مغربی ممالک نے ملٹی کلچر کو اپنایا بھی۔ لیکن اکیسویں صدی میں ہر سیاسی، معاشی، اصلاحی اور سماجی ناکامی کا ملبہ سماجی تنوع پر ڈالاجارہا ہے۔ عالمی دہشت گردی، قومی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ، فکری انتشار، معاشرتی بے چینی، اوراقتصادی بحران بلکہ ہر بحران کا سبب تنوع ہی بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ ملٹی کلچرلزم کا نظریہ ناکام رہا اور تہذیبوں میں تصادم ناگزیر ہے۔

رچرڈ کرسپ کی کتاب ’’سوشل برین، جدید ذہن کی نشو ونما میں تنوع کا کردار‘‘ یہ سوال اٹھاتی ہے کہ تہذیبوں میں تصادم کو ناگزیر کیوں سمجھا جارہا ہے؟ کیا تنوع واقعی اس کا سبب ہے؟ کیا تصادم اور جنگ و جدال انسان کی فطری خصوصیت ہے؟ کیا انسان جبلی طور پر خونخوار اور جنگجو ہے؟ کیا امن اور مل جل کر رہنے کی کوششیں اسی لئے کامیاب نہیں ہوتیں؟ امن انسان کے نصیب میں کیوں نہیں؟ تنوع اور اختلاف اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ کیوں  ہے؟۔ یہ کتاب تفصیلی نفسیاتی  تجزیوں اور انسانی تاریخ کے ناقدانہ مطالعے کی بنیاد پر استدلال کرتی  ہے کہ تنوع  جنگ و جدال کا سبب نہیں۔ یہ اس سوچ کا مداوا ہے جو جنگ کو ناگزیر بتاتی ہے۔

رچرڈ کرسپ برطانیہ کے جانے مانے ماہرین نفسیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ڈرہم یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں۔ نفسیات کے میدان میں انسانی معاشرتی رویوں خصوصاً تعصب کی نفسیات اور اس کی اصلاح پر اہم تحقیقات کی وجہ سے معروف ہیں۔ علم نفسیات میں ان کا ’ذہنی رابطے کا نظریہ‘ (ایمیجنڈ کونٹیکٹ ہائی پوتھیسیز) اہم پیش رفت شمار ہوتا ہے۔ یہ نظریہ بہت سے ایسے افراد کے نفسیاتی تجزیے سے اخذ کیا گیا ہے جن کا سماجی تنوع سے مثبت اور منفی واسطہ رہا ۔ اس مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنے سماجی ماحول سے باہر کے لوگوں سے مثبت سماجی میل جول مثبت سوچنے کی اہلیت پیدا کرتا ہے، اس میل جول سے تعصبات دور کرنے اور رابطے بڑھانے کی مہارت اور صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ باہمی افہام و تفہیم بہتر ہونے سے ذہن میں وسعت آتی ہے جو مشکل اور متنوع مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

کتاب کا ٹائٹل

مغرب کو پہلی مرتبہ ایسے سماجی تنوع  کا سامنا ہے جس کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھا اور اب بھی نہیں۔ مغربی ملکوں میں ایسی معاشرت وجود میں آئی ہے جس میں مختلف رنگوں، نسلوں، مذہبوں اور زبانوں کے لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ انسانی ذہن یکسانیت کا عادی ہے اور اسی میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ سماجی تنوع تشویش کا باعث  بنتا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ پچھلی دو صدیوں میں استعمار، جنگوں، معاشی عدم استحکام اور دوسرے اسباب کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہوئی تو اکثر نے مغربی ملکوں کا رخ کیا۔ بیسویں صدی میں قومی ریاستوں کے قیام سے سرحدوں اور قومی شناخت  کے  تصورات کو مرکزی اہمیت ملی تو اجنبی اور غیر کے الفاظ کو قانونی اور سماجی وجود ملا۔ قومی ریاستوں نے معیشت، معاشیات اور مذہب کی سرحدیں تشکیل دیں تو مہاجرین بھی اجنبی کہلائے۔ مہاجرت سیاسیات، سماجیات، اور نفسیات کے مطالعے کا موضوع بن گئی۔ اکیسویں صدی میں مہاجرین کی تعداد میں نمایاں طور پر اضافہ تنوع کی شکل میں روزمرہ  مشاہدہ میں آنے لگا۔ کارکنان سیاست و اقتدار نے کساد بازاری، بے روز گاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تکلیف دہ صورت حال کا ذمہ دار مہاجرین اور سماجی تنوع کو ٹھہرایا۔ مغربی ممالک پر مسلمان دہشت گردوں کے حملوں اور مسلمان مہاجرین کی جانب سے مذہبی حقوق کے مطالبات نے قدامت پسند گروہوں کو عوام میں اسلام کا خوف پھیلانے کا موقع فراہم کیا۔ مہاجرین کو غاصب اور دشمن سمجھا جانے لگا۔ مسلمان نفرت اور خوف کا نشانہ بننے لگے۔ معاشرت کی سطح  پر نسل، زبان اور مذہب کا تنوع سلگتا مسئلہ بن گیا۔ رچرڈ کرسپ نے اسی خوفناک مرض کا تجزیہ پیش کیا ہے۔

کرسپ کے مطابق تنوع کا خوف نفسیاتی مسئلہ ہے۔ خوف کی نفسیاتی تحلیل کے لئے انہوں نے سگمنڈ فرائڈ  کے تجزیاتی طریقے کو آگے بڑھایا۔ فرائڈ نفسیاتی امراض کی تشخیص کے لئے مریض کے بچپن  کے حالات کا تجزیہ کرتے تھے۔  بچپن میں پیش آئے حادثات اور واقعات انسانی ذہن پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں یا یوں کہئے کہ ذہن بناتےہیں۔ دبی خواہشات لا شعور میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ محبت، مسرت، نفرت، طیش اور انتقام کے رویے انہی یادوں سے تشکیل پاتے ہیں۔ پروفیسرکرسپ کا کہنا ہے کہ فرد کی طرح معاشرے کا بھی ذہن ہوتا ہے۔ وہ اسے سوشل برین کا نام دیتے ہیں۔ سماجی     دماغ پیدائش کے وقت سے ہر فرد میں موجود ہوتا ہے اور معاشرتی تجربات سے نشو و نما پاتا ہے۔ بچہ سماجی دماغ سے  جب زبان سیکھتا ہے تو معاشرت کی تربیت بھی پاتا ہے۔ انسان کے معاشرتی رویے اسی سماجی  ذہن کے تابع تشکیل پاتے ہیں۔ جس طرح فرد کی نفسیاتی تحلیل کے لئے اس کے بچپن کے واقعات اور حادثات کا مطالعہ ضروری ہے اسی طرح انسانی معاشرتی رویوں کو سمجھنے کے لئے نسل انسانی کے ابتدائی ادوار کا مطالعہ ضروری ہے۔

ڈاکٹر کرسپ ارتقا کے قائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے حیوانات کی طرح انسانی زندگی  کی ابتدا بھی باہم مل جل کر رہنے سے ہوئی۔ بقا کی جنگ میں ہر وقت جان کا خطرہ  ہوتا  تھا۔ ہر نامعلوم موت کا فرشتہ نظر آتا تھا۔ جان کی حفاظت کے لئے نباتات میں کھا نے والی اور زہریلی چیزوں اور حیوانات اور انسانوں میں دوست اور دشمن کا فرق لازم تھا۔ دشمن سے نقصان کا خطرہ تھا اس لئے زندگی کے تجربے نے سکھایا  کہ ہر اجنبی اور نامعلوم کو دشمن سمجھنا، حملے میں پہل کرنا اور اسے موت کی نیند سلانا پہلا رد عمل ہونا چاہیے۔ ایسا نہ کرنا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ یہ ردعمل عادت بن گیا۔ کرسپ کا کہنا ہے کہ سماجی ذہن کا یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔ ارسطو سے لے کر جدید دور تک ہر فلسفی نے اسے فطری بتایا ہے بلکہ صرف  اسی رویے کو فطری بتا یا ہے۔ باقی سارے رویے کسبی ہیں جو انسان تربیت سے سیکھتا ہے۔ ماہرین اخلاقیات بھی جن فطری رویوں کو حیوانی بتاتے ہیں ان میں نفرت، خوف، جنگ و جدال شامل ہیں۔ وہ ان کو قابل مذمت بتاتے ہیں لیکن وضاحت کرتے ہیں کہ ایسا کرتے وقت انسان کے اندر کا حیوان جاگ اٹھتا ہے۔ کرسپ کا  کہنا ہے کہ یہ سماجی دماغ  کے ارتقائی عمل کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ وہ اسے پریمی ٹیو یا بدوی دماغ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی معاشروں میں اجنبیوں سے خوف کارویہ اسی بدوی سماجی دماغ کا رد عمل ہے۔

کرسپ ان فلسفیوں اور سیموئل ہنٹنگٹن اور ایسے سینکڑوں مفکرین سے اختلاف کرتے ہیں جو تصادم اور جنگوں کو  فطری اور ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ لوگ سماجی دماغ  کی نشوو نما کے اس کردار کو نظرانداز کرتے ہیں جو مثبت ہے۔ کرسپ کا کہنا ہے کہ تصادم کی طرح تعاون بھی فطری رویہ ہے اور ارتقا کے ابتدائی دور سے ہی سماجی دماغ کے کردار کا حصہ رہا ہے۔ ارتقائی تاریخ میں شروع میں ہی انسان سیکھ  گیا تھا کہ بقا تعاون میں ہے تصادم میں نہیں۔ اسی لئے انسانی زندگی کا آغاز مل جل کر رہنے سے ہوا۔ تصادم اور تعاون دونوں انسان کی جبلت میں ہیں۔ معاشرت اور تہذیب انسان کو امن سے رہنا سکھاتی ہے۔ زندگی کا اصل اصول امن ہے جنگ  نہیں۔ کلاسیکی فلسفے اور اخلاقیات کی طرح قرون وسطیٰ اور ماضی قریب تک نیکی اور بدی کی جدلیات نے تضاد، تصادم اور اختلاف  کو اتحاد، امن اور اتفاق رائے کے مقابلے میں کھڑا رکھا گیا۔ دور جدید میں اسی سوچ نے دوئی اور دوقطبی سیاست کو جواز بہم پہنچایا۔

سائنس جو معروضی حقائق کی تلاش کا نام تھا اس میں بھی کسی عمل کے ایک سے زیادہ  سبب سامنے آئے تو سائنس کو قطعی، یکساں اور ناقابل تبدیل رکھنے کے لئے طریق تحقیق کو اس طرح محدود کیا گیا کہ ایک ہی سبب دریافت ہو سکے اور اسی ایک سبب پر سائنسی نظریات تعمیر ہو سکیں۔ قانون کے ایک سے زیادہ مصادر اور نظامات سے واسطہ پڑا تو قوانین کے ضابطے تشکیل دیے تاکہ جزا و سزا کا معیار یکساں ہو۔ یکسانیت اور قطعیت کی تلاش میں سائنس نے اسباب کے تنوع اور ان کی افادیت کو نظرانداز کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حقیقی زندگی میں زبانوں میں  تنوع، اسباب کی کثرت، آرا میں اختلاف اور کسی بھی سوال کے ایک سے زیادہ جوابوں، فیصلوں اور راستوں کا سامنا ہوتا ہے    تو جدید ذہن ماوف ہو جاتا ہے۔ لوگ بدوی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں۔ ہر طرف دشمن نظر آنے لگتے ہیں۔ خود کو اجنبیوں میں گھرا پا تے ہیں تو بدوی سماجی ذہن انہیں نفرت، فوبیا، شور شرابا، گالم گلوچ جو اسلحہ ہاتھ لگے اٹھا کر  میدان میں نکل آنے پر اکسانے لگتا ہے۔

کرسپ لکھتے ہیں کہ مایوسی اور کساد بازاری میں لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی سماجی زندگی سادہ اور آسان ہو۔ کسی پیچیدگی کا سامنا نہ ہو۔ تاریخ کی نصابی کتابیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد  کو جب بھی پیچیدگی کا سامنا ہوا  انہوں نے اسے بقا کی جد وجہد سمجھ  کر اسں دشمن کا سامنا کیا۔ جنگیں لڑیں۔ دشمن پر فتح پائی۔ بقا کی جدو جہد کی کہانی میں مصالحت اور تعاون کی کوششوں کا ذکر نہیں ملتا۔ دوسری معاشرتوں سے رابطوں  کی بات نہیں کی جاتی۔ یہ تذکرہ نہیں کیا جاتا کہ ماضی میں ٹکنالوجی کی ایجاد، ادویات کی دریافت اور بیماریوں کے علاج  اورر ہن سہن، خوراک، ادب اور موسیقی کے علمی اور سماجی ارتقا میں دوسری قوموں اور تہذیبوں میں باہمی رابطوں کی سوچ نے کتنا اہم  کردار ادا کیا۔

’’تنوع (ڈائیورسٹی) کے خلاف آج کی سیاست میں یہ تضاد پایا جاتا ہے کہ ہم  آج جس تنوع  کی ہر شکل سے بریت کا اظہار کر رہے ہیں، ماضی میں اسی تنوع نے ہماری بقا میں مرکزی کردار ادا کیا  تھا اور یہی تنوع مستقبل میں کامیابی  کی کلید بھی ہے۔ اس تضاد کا سبب سماجی دماغ کے دو کرداروں سے لاعلمی  ہے۔ ایک کردار حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے اور دوسرا نئی دریافت اور ترقی کے امکانات کی عملی تشکیل کا ضامن  ہے۔ ایک مقابلے اور مسابقت میں مدد دیتا ہے، دوسرا تعاون اور امداد باہمی میں، پہلا جبلی ہے، کسی تیاری کی ضرورت نہیں، دوسرا پیچیدہ ہے ، منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ  معاشرتی ترقی اور درپیش مشکلات کا سامنا  کرنے کے لئے سماجی دماغ کے اس   کردار کی صلاحیت کو بڑھانا لازمی ہے جو تعاون، دریافت اور رابطوں کے کام میں مدد دیتا ہے۔ ترقی، ایجاد اور تسخیر  کے انسانی امکانات کا انحصار سماجی دماغ کے اسی دوسرے کردار پر ہے لیکن جدیدعلم  نفسیات اس کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دے پائی۔ تنوع محض اخلاقی یا سماجی تقاضا نہیں، یہ اقتصادی اورسماجی ترقی کی ارتقائی شرط بھی ہے‘‘۔

ہمارے خیال میں یہ کتاب پاکستان میں تعصب، منافرت اور انتہاپسندی کی افہام اور تفہیم میں بہت مدد دے سکتی ہے۔ مغربی سماج کو جن تضادات کا آج سامنا ہے وہ ہمیں یہ انیسویں صدی میں درپیش تھے۔ انگریزی زبان، انگریزی لباس، انگریزی رسم و رواج  کے شرعی جواز کی بحثیں، تشبہ بالکفار،  الولا وا لبرا، انگریزی حکومت کی  نوکری، دار الاسلام اور دارالحرب اور اس قسم کے سوالات سے ہمارا واسطہ بھی پڑا۔ مسلمان روایت میں تنوع اور اختلاف  کو رحمت سمجھا  جاتا تھا۔ علما اور  فقہا نے سماجی تنوع کو اپنانا سکھایا۔ بدعات، تشبہ اور سیاسیات کے مسائل میں دینی اور غیردینی معاملات میں فرق کرنے پر زور دیا۔ اختلاف کے آداب بتائے، تعصب، منافرت اور تکفیر کی انتہاپسندی سے بچنے کی نصیحت کی۔ تاہم غرض مندوں نے باہمی رواداری اور تعاون کی بجائے تصادم کی راہ پر ڈالا۔ آج ہم تعصب اور خوف کی  اسی ابتلا کا شکار ہیں جس میں مغربی معاشرے مبتلا ہیں۔ ہم بھی مایوسی کا شکار ہیں۔ ہم بھی خود کو دشمنوں میں گھرا  سمجھتے ہیں۔ رچرڈ کرسپ کی یہ کتاب ہمارے لئے بھی تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ سوشل برین کا نظریہ ہمارے لئے اجنبی نہیں۔ سماجی ذہن کی جدید تشکیل میں تنوع منفی نہیں مثبت قدر ہے۔ تصادم کی بدوی سوچ تنوع کو منفی قرار دیتی ہے تعاون کی سماجی سوچ  تنوع کو مثبت سمجھتے ہوے  بین الاقوامیت کی راہ کو آسان بناتی ہے۔ یہ کتاب  ہمیں مثبت تجزیے کی دعوت دیتی ہے جو سماجی  ذہن کی جدید تشکیل کے لئے لازم ہے۔

رچرڈ کرسپ، سوشل برین: ہاو ڈائیورسٹی میڈ دی ماڈرن مائنڈ، لندن: رابنسن، ۲۰۱۵۔ صفحات ۱۷۱۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...