پاکستانی ادب کی تاریخ ہے کہ اس میں ہمیشہ ایک حلقہ ایسا رہا ہے جس نے عوامی مسائل کو اُجاگر کرنے اور جمہوری قدروں کے تحفظ کو اپنے فن کا حصہ بنائے رکھا۔ لیکن ماضی قریب سے ملک کے ادبی حلقے سے ایسی آوازیں سنائی دینی بند ہوگئی ہیں۔ ڈاکٹرمزمل حسین کہتے ہیں کہ ہمارا موجودہ ادب کارپوریٹ کلچر کے زیراثر تشکیل پارہا ہے اور اب ملک کے شاعر وادیب سماج کے بجائے ریاست کے بیانیے کے ترجمان ہیں، یا پھر خاموش ہیں۔ادبِ عالیہ کی نظیریں اب دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ انہوں نے مضمون میں اس کے اسباب پر بات کی ہے۔ڈاکٹر مزمل حسین گورنمنٹ ڈگری کالج لیہ میں پروفیسر ہیں اورفنِ شاعری میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
شاعر اور ادیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو روحِ عصر سے الگ نہیں رکھ سکتا۔ تاریخِ عالم پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کسی بھی عہد میں شاعر اور ادیب نے معاصر سیاسی، سماجی اور معاشی رویوں سے خود کو غافل نہیں رکھا بلکہ اس وقت زیادہ فعال ہوئے جب قوموں پر کڑا وقت آیا۔ قدیم یونان سے لے کر لمحہ موجود تک شاعروں اور ادیبوں کا ایک فعال اور نمایاں کردار رہا ہے۔عالمی سطح پر سارتر، پابلونوریدا، میکسم گورکی، رسل،ملٹن اور ٹینی سن، نجیب محفوظ جیسے ادیب ہوں،یا 1857کے بعدکی؛ برصغیر میں سرسید احمد خان، الطاف حسین، محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور قراۃ العین حیدر جیسی بڑی تخلیقی شخصیات،سب نے وقت کی ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے شعر و ادب کو تبدیلی کی خاطر استعمال کیا اور معاصرحالات وواقعات کو اپنے اپنے تخلیقی بیانے کا حصہ بنایا۔ ان لوگوں کے بعد بالخصوص پاکستان میں کوئی ایسی شخصیت پیدا نہ ہوسکی جو وقت کی آواز بنی ہو۔
اس تناظر میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کی صوفیانہ شاعری کے بڑے خالق اس وقت سامنے آئے جب ہر طرف مایوسی اور بے یقینی کا دور دورہ تھا۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ سے لے کر حضرت خواجہ غلام فریدؒ تک (ان میں سچل سرمست، مست توکلی، خوشحال خان خٹک، عبدالطیف بھٹائی بھی شامل ہیں) نے اپنے اپنے کلام میں مظلوم، محروم اور مایوس لوگوں کے جذبات اور حقوق کی حوصلہ افزائی کی اور وقت کے آمراور ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی، جس سے کمزوروں کو اعتماد ملا۔ دنیا کے بڑے بڑے انقلابات کے پیچھے کسی نہ کسی شاعر کی تخلیقات کا کردار بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ شعراء اور ادباء تحریکوں کو فکری توانائی بخشتے ہیں تو ان میں جان پڑتی ہے۔
1857ء میں ہندوستان برطانیہ کی باضابطہ اور قانوناً کالونی بن گیا۔ ایک سو برس تک وہ بلا شرکت غیرے یہاں کا حکمران رہا۔ 1857ء کے بعد انگریز کی حکومت بنتے ہی سماج میں اندر ہی اندر اس کے خلاف رد عمل آنا شروع ہو گیا تھا۔ یہ ردعمل یہاں کے اخبارات، شاعری اور نثر میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سرسید احمد خان اور ان کے رفقانے جو راستہ اختیار کیاوہ بظاہر مصالحانہ تھا مگر اس کے باطن میں جو اصلاح کی مساعی شامل تھیں، در اصل وہ بھی ایک مزاحمت تھی جس کا مقصد قوم کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے تیار کرنا تھا۔ اس جدوجہد نے آنے والے دور میں بڑے اہم نتائج دیے اور آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ دیکھا جائے تو تحریکِ پاکستان سے وابستہ تمام مشاہیر سیاست دان بھی تھے اور بڑے قلمکار بھی۔ ’اودھ پنج‘ اور اسی قبیل کے کئی اخبارات نے شعور و آگہی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جعفر زٹلی سے لے کر اکبر الہٰ آبادی تک تمام ادیب وشاعر؛ حکومت وقت کے بڑے ناقد تھے۔ ان کے عقب میں میر وسودا کے دور کے تمام نامور شعراء غالب و مومن کے دور سے وابستہ تخلیق کاروں اور نظیر اکبر آبادی نے اپنے اپنے کلام میں عوامی رائے ہموار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
انیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا آغاز مزاحمت کاری سے مملو ہے۔ اقبال کی وہ تمام شاعری جو انہوں نے یورپ جانے سے قبل کی تھی وہ دراصل پورے ہندوستان کی آزادی کے گیت تھے۔ بعد میں انھوں نے مسلمانان پاک و ہند کی آزادی کے لیے جو کام کیا اسے تاریخ نظر انداز نہیں کر سکتی۔ اقبال کی وفات کے بعد یہاں ایک بڑا خلا پیدا ہو ا جسے فیض، ن۔م راشد، غلام عباس، انتظار حسین، ناصر کاظمی اور انہی کے قبیل کے لوگوں نے کسی حد تک پر کیے رکھا۔یہ لوگ پرانی روایت کا تسلسل رہے۔اس لیے ان کے یہاں خود کو معاصر رویے سے الگ رکھنا مشکل تھا۔ ناصر کاظمی اور فیض کے کلام تواب بھی مجالس میں گنگنایا جاتا ہے:
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
اور
کیسے سنسان ہیں آسمان جپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا اجنبی اجنبی سو رہو سو رہو
(ناصر کاظمی)
اور فیض نے کیسے کیسے سخت حالات کا سامنا ومقابلہ نہیں کیا،ان کے یہ شعر تو زبان زدعام ہیں:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے!!
نظم چرا کے چلے، جسم وجاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ وحشت مقید ہیں اور سگ آزاد
اور
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
ان لوگوں کے بعد گاہے بگاہے اس مزاحمتی ردعمل سامنے آتا رہا مگر ان جیسی کوئی شخصیت پید ا نہ ہوسکی، جس کے اثرات تبدیلی کا سبب بھی بنتے۔اس کا مطلب ہے کہ تخلیق کی وہ صلاحیت نہیں رہی،یا شعراء و ادباء اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھانے سے کتراتے ہیں۔لمحہ موجو د تخلیقی حوالے سے ایک طرح بانجھ پن کا شکار ہے۔ہمارے شعروادب میں سیاسی ومعاشرتی سطح پر گھمبیر ہوتی صورتحا ل کی کہیں عکاسی دکھائی نہیں دے رہی۔شاعروں اور ادیبوں کو اشرافیہ بننے کا خبط سوار ہوچکاہے۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر ہونے والی ادبی کانفرنسوں میں شمولیت،فائیو سٹار ہوٹلز اور پروازیں ان کی زندگیوں کا مقصد بن چکا ہے۔ بڑے اور نامور شعراء اورادباء ہمہ وقت سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مراسم بڑھانے اور عہدے پانے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔کتنے ہی ایسے معروف نام ہیں جنہوں نے مجال ہے کبھی ارباب اقتدار کے کج رویوں کواپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔اس ذہنیت کے ساتھ آج کے ادیب سے یہ توقع رکھناکہ وہ فکری آبیاری اور کسی بڑی تبدیلی کے لیے کردار اداکریں گے، چہ معنی؟ بڑا تخلیقی ذہن اپنے گردو نواح سے غافل نہیں رہ سکتا۔ اگر وہ غافل رہتاہے تو پھر اس کے کام میں ”تخلیقیت“ کا آنا مشکل ہے۔
اس المناک صورت حال کے فروغ میں پاکستان کی ریاستی پالیسیوں، سیاسی عدم استحکام اور علاقائی تعصبات کا کرداربھی شامل ہے۔ہماری ریاست نے جینوئن اور اہل شخص کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہی بڑے تخلیقی لوگ یہاں سے انڈیا یا پھر یورپ میں جابسے، مثال کے طور پر ساحر لدھیانوی،قراۃ العین حیدراورن -م راشد پاکستانی ماحول سے دور چلے گئے۔ بات پھر شعر و ادب تک محدود ہوتی تو شاید دکھ کی کیفیت کم ہوتی مگر یہاں پرانی روایت سے جڑے گلوکار،موسیقار،مصور یا فنون لطیفہ سے وابستہ شخصیات کی وفات کے بعد کوئی بڑافنکار بھی پیدانہیں ہوسکا۔اس کی وجہ ریاست کی عدم توجہی یا ہمارا عمرانی ماحول ہے جو فنون لطیفہ کی بے قدری کا ذمہ دارہے۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور سماج پر ہمیشہ جبر کی کیفیت طاری ہی ہے۔جس نے تحریر و تقریر کی آزادی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالیں لیکن شاعر،ادیب اور دانش وراسی جبر کے دور ہی میں تو لوگوں کو مزاحمت کے حوصلے بخشتے ہیں۔استاد دامن،حبیب جالب،فیض اور فراز بھی تو اس جبر کے سائے میں بات کرتے رہے اور آج ان کی یاد عزت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ شایدوہ پرانی روایت کے فارغ التحصیل لوگ تھے۔ آج کا پاکستانی شاعر اور ادیب تخلیق کار بننے کی بجائے بیوروکریٹ یاپھر وڈیرا بننا چاہتاہے۔ یہ عجیب ثنویت کا شکارہے۔ یہ اس وقت تک انقلابی یا باغی ہوتاہے جب تک کسی بڑے سرکاری عہدے تک نہیں پہنچ پاتا۔
اردو ادب کی ہر تحریک بطور خاص رومانوی تحریک،ترقی پسند تحریک یا بعد کی حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کے عقب میں عالمگیر تصورات کار فرماتھے۔رومانوی تحریک کے پیچھے روسوکے نظریات جبکہ ترقی پسند تحریک کے پس منظر میں اینگلز اور کارل مارکس کے تصورات نے ہمارے ادیبوں اور شاعروں کوفکری توانائی عطاکی اور ان نظریات کے زیر اثر یہاں پر موجود جو بھی شاعری، فکشن یا تنقید لکھی گئی اس میں انسانی سماج ساتھ ساتھ زیر بحث آتارہا۔تخلیقی ادب کا یہی کمال ہوتاہے کہ وہ قارئین، سامعین اور ناظرین کو صحیح سمت میں متاثر کر تاہے۔ گزشتہ روایت سے جڑے ہمارے شعراء اور ادبا کے پاس ذرائع ابلاغ نہ ہونے کے برابر تھے مگر انھوں نے رائے عامہ بنانے میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ آج کا اردو ادب وہ نتائج نہیں دے رہا تویقیناًاس کے پیچھے کوئی خلا یا خرابی ضرور موجود ہے، جسے سمجھنا اشدضروری ہے۔ اس وقت پاکستان کو معاشی،سیاسی،سماجی اور روحانی سطح پر کئی مسائل کا سامناہے۔ ہمارے عمومی رویے غیر منطقی اور غیرمہذب بنتے جارہے ہیں۔لیکن ہمارے ادب میں ان رویوں کے بارے میں کوئی واضح بیانیہ دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک عجیب سی بیگانگی اوراجنبیت ہے۔اکثر شعراء نیٹ سے خوب صورت چہروں کی تصاویر لگاکر ”تک بندی“ کی شاعری کر رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ تبصروں کی صورت میں ان کی تعریف بھی کی جائے۔ایسے شعراء نے اردو شاعری کی بے قدری میں بڑا کردار ادا کیاہے۔خود خرچ کر کے اپنے نام کی شامیں منوانا اور اپنے بارے میں مضامین لکھوانا،جامعات میں اپنے اوپر مقالات لکھوانا؛یہ الگ ارزانی کا باب ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو پاکستان کوورثے میں ملی تہذیب تباہ ہوجائے گی۔
ہمارا شعروادب کا رپوریٹ کلچر کے زیر اثر پنپ رہاہے۔اس مایوس کن صورتحال سے باہر بھی شاعر وادیب ہی نکال سکتے ہیں،اگر ان میں سے کچھ لوگ فن وآرٹ کی اپنی روایت وتہذیب کی لاج رکھ لیں۔شعروادب کی موجودہ حالت ریاست کے تو مفاد میں ہے کیونکہ ادب عالیہ شعور کی آبیاری کرتا اور جبرکے آگے مزاحمت کرنا سکھاتا ہے۔ ریاست کے بیانیے کی ترجمانی کو تو ادب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
فیس بک پر تبصرے