قومی و مذہبی اظہاریوں کا خلطِ مبحث اور مصنوعی بیانیہ
ڈاکٹر عرفان شہزاد فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اسلامیات میں استاد ہیں۔زیرنظرمضمون میں انہوں نے اس مصنوعی بیانیے کو موضوع بنایا ہے جسے اپنانے کی وجہ سے پاکستان میں مختلف مذہبی شناختوں کا حامل سماج ایک سرزمین پر رہنے کے باوجود تقسیم کا شکارہے۔یہ بیانیہ صرف عقائد کی بنیاد پر الگ الگ خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے اجنبی ہی نہیں بناتا بلکہ انجام کار انتہاپسندی کوبھی راستہ دیتا ہے اور مشترکہ ثقافتی دائرے کوبھی حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔مصنف نے برصغیر،بالخصوص پاکستان میں اس بیانیے کے پروان چڑھنے کے تاریخی مرحلے اور اس کے اثرات پر کلام کیا ہے۔
قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ جدیدقومی ریاست کی تشکیل میں جغرافیہ کوبنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جغرافیہ میں شامل مختلف رنگ و نسل کے لوگ نظریے اور عقیدے کے فرق کے علی الرغم قومی ریاستوں کا حصہ بنے۔ پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول پر عمل میں آئی لیکن سیاسی عمل میں مخصوص طبقات کے نفوذ کی وجہ سے مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہو گیا جو قومی شناخت کے اظہاریوں میں غلبہ پاتا چلا گیا۔ مذہبیت کے اس عنصر نے نومولود ریاست کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے اندراس کی ملکیت کا تصور پیدا کر دیا۔ یہ حقیقت لیکن نظر انداز کر دی گئی کہ جدید ریاست بادشاہتوں کے گزشتہ دور کی طرح کسی مسلم حکمران نے فتح نہیں کی تھی کہ فاتح کا مذہب ریاست کا مذہب اور اس کا دیا ہوا نظام سرکاری نظام قرار پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تشکیل میں یہاں کی تمام قومیتوں اور مذاہب کے پیروکاروں نے ووٹ ڈالا تھا جس میں اکثریتی ووٹ مسلم آبادی کا تھا۔ ریاست کے اس کثیر القومی تشخص کو بانی پاکستان نے 11 اگست 1947 کی اپنی سرکاری تقریر میں بالکل دو ٹوک انداز میں پیش کیا تھا۔
ریاست کے قیام کے بعد قرون وسطیٰ کے نمونے پر اسے مسلم قومی ریاست بنانے کا خیال یہاں کی مسلم اکثریت میں سرایت کر گیا۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم کارڈ کا استعمال اس دو شناختی قومیت کے لیے وجہِ جواز بنا۔ لیکن جغرافیائی وحدت کی اساس پر حصولِ ریاست کا اصول اس ساری ہمہ ہمی میں نظر انداز ہو گیا۔ یوں دو شناختی قومیت کی حامل ریاستِ پاکستان وجود میں آئی۔ اس کی یہی آئینی حیثیت پختہ کرنے کے لیے پہلے قرار داد مقاصد اور بعد ازاں 73ء کے آئین میں مسلمان کی تعریف اور دیگر اسلامی شقیں داخل کی گئیں۔ چنانچہ مسلم اکثریت کو اس ملک کا حقیقی وارث باور کرا دیا گیا جس میں غیر مسلم اقلیت کو صرف وہی حقوق ملے جومسلم اکثریت نے مرضی سے دینا چاہے۔ بلکہ مسلم بھی اسے مانا گیا جسے یہاں کی اکثریت نے مسلم ماننا قبول کیا۔ ریاست ایک مسجد کی طرح مسلم اکثریت کے زور پر ان کے مذہب کے نام پر رجسٹر ڈکرا لی گئی۔
قومی ریاستوں کے دور میں اسلام کے نام پر مذہبیت کی یہ پیوند کاری گھمبیر نتائج کی وجہ بنی۔ دین اسلام زندہ فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ فرد اگر حاکم ہو تو اس سے بھی مخاطبت کرتا، اسے ہدایات اور ذمہ داریاں دیتا ہے لیکن ریاست ایک غیر شخصی وجود تھا، دین کا مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا مگر اسے مذہب کا کلمہ پڑھوایا گیا۔ اس کے لیے عقیدہ (نظریہ پاکستان) وضع کیا گیا جس کی تعریف پر پورا نہ اترنے والوں کو غیر مسلم اور اسے تسلیم نہ کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا۔ بلکہ اختلاف عقیدہ کی بنا پر ان کے ملک میں رہنے بسنے کے استحقاق پر سوال اٹھا دیا گیا۔ صدیوں سے اس زمین پر آبائی حق سے رہنے والوں کے لیے نئے سرے سے استحقاقِ رہائش کی بحث پیدا ہو گئی۔ دین و ریاست کی ملکیت کا یہ تصور اس حد کو پہنچا کہ دینی شعائر پرمسلم ملکیت کا دعویٰ سامنے آیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ان کی سند کے بغیر خارج از ملت انہیں اختیار نہیں کر سکتے۔
یہی معاملہ مقامی شناخت پر اصرار کرنے والوں سے بھی برتا گیا۔ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی مقامی شناخت کو قومی شناخت کے تابع کر دیں اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے انفرادی، مقامی اور علاقائی مفادات سے دست بردار ہو جائیں۔ ایسا نہ کرنے پر ریاست نے ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا۔ ریاست کا یہ قومی مذہبی نظریہ یا عقیدہ اس قدر اہم گردانا گیا کہ ریاست نے اس کے تحفظ کو سرکاری کارِ منصب قرار دے دیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس ریاستی بیانیے کو تسلیم کرلیا اور جنہوں نے اس سے اختلا ف کیا ان کی وطنیت کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے انہیں غدار اور منافق مشتہر کرتے ہوئے ان سے بھی جلا وطنی کا مطالبہ کیا۔ یوں زمین کے ساتھ فرد کے رشتے کی فطری اور دیرینہ وابستگی نظر انداز ہو گئی اور ریاست کے نظریے سے وابستگی اس ملک میں رہنے کے لیے واحد معیار قرار پائی۔
مقامی شناختوں کو دبانے اور غیر نمایاں کرنے کے لیے مقتدرہ نے مقامی بولیوں اور ثقافتی مظاہر اپنانے سے گریز کیا۔ مقامی شناختوں کو تحقیر اور اجنبیت کی نظر سے دیکھا گیا۔ تعلیم اور سرکاری دفتری زبان اُردو اور انگریزی قرار دی گئی۔ کسی دوسری زبان کا استعمال ممنوع بنا دیا گیا۔ اس خطے کی تاریخ کے غیر مسلم مشاہیر کے تذکروں کو نصاب اور تاریخ سے محو کر دیا گیا۔ بلکہ مشترکہ تاریخ سے رشتہ ہی توڑ دیا گیا۔ تاریخ کی تشکیلِ نو ہوئی۔ اس میں سے ٹکڑے چن کر ماضی کو بھی حال کے قومی مذہبی بیانیے کا حامل ثابت کیا گیا۔ اس سارے عمل نے نوجوان مسلم اذہان کو مصنوعی شناخت کے حوالے سے بنیادپرست بنادیا۔
اس مصنوعی بنانیے نے ملک کے باسیوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ریاست کے قومی مذہبی ملی شناخت پر اصرار سے فرقہ واریت پیدا ہو رہی ہے۔ افراد کو ریاستی بیانیے پر مکمل ایمان لانے یا نہ لانے کی بنیاد پر محب وطن، منافق اور غدار کے زمرہ جات میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور یہ تقسیم روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سماج میں ایک طرف مذہبی
انتہا پسندی ہے جو اپنے فتویٰ کی قوت کے بل بوتے فرد سے اس کی آزاد دینی شناخت چھین رہی ہے تو دوسری طرف ریاستی انتہا پسندی ہے جو اپنی قوت کے زور پر ایسے تمام عناصر کو ریاست کا باغی قرار دے کر ان لوگوں کو عاق کر رہی ہے جو فرد کے مفاد پر ریاست کے غیر محدود مفادات کی فوقیت پر نقطہ اعتراض پیش کرتے ہیں، جو ریاست کی فرد کے خلاف زیادتیوں پر توجہ دلاتے ہیں، جواپنی قومی شناختوں پر اصرار کرتے ہیں اور تاریخ کی مصنوعی تشکیلِ نو کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ فرد اور اس کے حقوق کی بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ فرد کی ریاست سے شکایت کی داد رسی سے پہلے یہ بحث جاری کر دی جاتی ہے کہ فریاد کناں غدار اور منافق ہے۔ اس صورت حال میں ریاست اور اس سے معاشی مفاد پانے والے ایک گروہ اور اس سے محرو م افراد دوسرا گروہ بن گئے ہیں۔ یوں ملک کے اندر ایک خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے جو اگر یوں ہی جاری رہی تو باہمی نفرت اور خانہ جنگی کی آگ کو ہوا دے گی۔ یہ صورت حال سقوطِ ڈھاکہ جیسے کسی سانحہ پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔
بحران کی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں
قومی مذہبی شناخت سے پیدا ہونے والے اس بحران کی جڑیں متحدہ ہندوستان کے ماضی میں پیوست ہیں۔ مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کی مقامی آبادی نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ علما و فقہا نے مسلم کمیونٹی کو ہندو دھرم کے مذہبی رسوم و رواج سے بچنے کی تلقین کی۔ لیکن اس تلقین میں وہ مذہب و ثقافت کے فرق کو مسلسل دھندلا کرتے چلے گئے۔ ثقافتی ہم آہنگی کے راستے سے ممکنہ طور پہ حاصل ہونے والی مذہبی ہم آہنگی کاسدباب کرنے کے لیے مذہب کے ثقافتی امتیازات وضع کیے گئے۔ یوں دو قومی نظریہ کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔ دین، دعوت کی بجائے ایک پارٹی بنانے کا تأثر دینے لگا۔ اس کے لیے نو مسلموں کے”اسلامی نام“ رکھنے کی اختراع وضع کی گئی۔ ہندوستانی ثقافتی مظاہر میں سے ہی بعض کا انتخاب کرکے اوران میں کچھ ردوبدل کر کے انہیں مسلمانوں کے حلیے اور امتیازی اسلامی ثقافتی علامتوں کے طور پر جاری کر دیا گیا۔
عہد سلاطین میں محمد تغلق اور التمش جیسے متشرع سلاطین کے پاس اس وقت کے فقہا تشریف لائے اور انہیں ہندوؤں کو مشرک قرار دے ان کو گردن اڑانے کے قرآنی حکم پر عمل کی تلقین کی۔ ان سلاطین نے عملی مجبوریوں کی آڑ لے کر ان مطالبات کو نظر انداز کیا۔ اس پر فقہا کی طرف سے نصیحت کی گئی کہ ہندوؤں کو ذلیل کر کے رکھا جائے اور اُمور سلطنت میں ان کو شامل نہ کیا جائے۔ ادھر ہندوستان کے مسلم مؤرخین نے وسط ایشیا سے آنے والے مسلم حملہ آوروں کو محض اشتراک مذہب کی بنیاد پرغازی اور مجاہد بنا کر پیش کیا۔ یہ مسلم سلاطین اپنی سلطنت کی توسیع اور ترقی کا ذاتی ایجنڈا رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنی راہ میں آنے والے بادشاہوں اور راجاؤں سے بلا امتیاز دین و ملت جنگ کرتے تھے۔ اپنے مقابل مسلم بادشاہوں سے بھی وہ ایسے ہی برسر پیکار ہو تے جیسے غیر مسلم راجاؤں کے خلاف۔ لیکن مسلم مؤرخین ان کی اپنے معاصر مسلم حکمرانوں سے لڑائی کو تو جنگ لکھتے لیکن ہندو راجاؤں کے خلاف معرکوں کو جہاد قرار دیتے اور جنگ جوؤں کا لشکر، اسلامی لشکر قرار پاتا۔
مقامی قومیت کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر علیحدہ سیاسی شناخت کا یہ احساس عوام سے زیادہ اہلِ علم میں موجود رہا۔ عوام میں ایسے بیانیوں کو عموما ًعملی سطح پر پذیرائی نہ ملی۔ جب قومیت کا تصور مغرب سے درآمد ہوا تو یہاں کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے ہی اسے سب سے پہلے اپنایا۔ راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے ہندوؤں نے ہندو قومیت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تعلیم یافتہ مسلم متوسط طبقے نے مسلم قومیت کو فروغ دیا۔ برطانوی راج کی طرف سے ہندوستان میں جداگانہ انتخابات کا انعقاد ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے معاون ثابت ہوا۔ جمہوریت نے چونکہ حصول اقتدار کے لیے طاقت کا منبع عوام کو منتقل کر دیا تھا اس لیے عوام کو اس فرقہ وارانہ ایجنڈے پر قائل کرنے کی سیاست کا آغاز ہوا۔ وہ عوام جو اپنے معاشی مسائل، سماجی تعامل اور معاشرتی روابط کی بنا پر مذہبیت کے نام پر تقسیم جیسے بیانیوں کو قومی سطح پر کبھی پذیرائی نہ دے سکے اس سیاست بازی کی راہ سے اُس کا شکار ہوگئے۔ راشڑیہ سوامی سیوک سنگھ کو تو کانگریس کے متحدہ قومیت کے نعرے کے سامنے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، تاہم آل انڈیا مسلم لیگ اپنی الگ مسلم شناخت کو بہرحال برتنے میں کامیاب ہو گئی اور یوں ایک ثقافت اور ایک تاریخ کی حامل دو مختلف مذہبی شناختیں رکھنے والی دو قوموں، ہندو اور مسلم کو مشترکہ جغرافیہ کے باوجود ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ جو مسلم بھارت سے الگ نہ ہوئے وہ بھی مسلم شناخت کی سیاسی تقسیم کا شکارضرور ہوئے۔
مسلم لیگ کی کامیابی نے وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کو شکست دی جس سے ہندو قومیت کے احساس کو انگیخت ملی۔ یہ تأثر ہندوستان میں آنے والی دہائیوں میں بڑھتا چلا گیا۔ اس احساس نے بھارتی سماج میں بھی ہندو مسلم تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ بھارتی مسلمانوں کا اپنے مذہبی ثقافتی اظہاریوں پر مستقل اصرار اجنبیت کو گہرا کرتا چلا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں کا 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دینا بھی انہیں ہندوستان میں اجنبی بنا گیا۔ پاکستان کے ساتھ جنگوں نے اس احساس کو مزید ابھارا۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو قومیت اور ہندوتوا پر اصرار کرنے والی جماعت، آر ایس ایس، جسے تقسیم ہند کے دوران بھی مؤثر پذیرائی نہ مل پائی تھی آج اس کا ایک رکن، نریندر مودی بھارت کے اکثریتی ووٹ کی اساس پر دوسری بار انتخابات جیت کر ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے۔
مذہب کہاں کھڑا ہے؟
سیاسی جھگڑوں کے جھمیلے میں اسلام کا حقیقی بیانیہ بے صدا رہ گیا۔مذہب و ثقافت کے تعلق میں دین اسلام کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ فرد کے ثقافتی مظاہر کو موضوع نہیں بناتا سوائے اس کے کہ جب ان مظاہر میں شرک، فحاشی، ظلم یا عدوان جیسی کسی بد اخلاقی کا پہلو پایا جائے۔ ایک آفاقی پیغام رکھنے والے دین کو کسی مقامی ثقافت سے منسلک کرنا غلط ہے۔ اسلام فرد کے عقیدے اور اخلاق کو موضوع بناتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اسلام قبول کرنے والوں کے نام تبدیل نہیں فرمایا کرتے تھے سوائے یہ کہ نام میں کوئی شرک یا کسی اور برائی کا کوئی پہلو پایا جاتا تو تبدیل فرماتے۔ اسی طرح آپ نے پہلی مسلم کمیونٹی کے ظاہری حلیے میں کبھی کوئی ایسی امتیازی علامات قائم نہیں کیں جس سے عرب کے مشرک، یہودی اور مسلمان کے درمیان ظاہری فرق کاحصول ممکن ہو تا۔ در حالاں کہ ایک لحاظ سے یہ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی علامات قائم کی جاتیں تاکہ دوست دشمن میں پہچان ہو سکے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض صحابہؓ کے ہاتھوں دوران جنگ ایسے افراد بھی مارے گئے جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو کہنا پڑا جو تمہیں سلام کر دے اسے مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ سلام کے علاوہ کسی بستی سے آذان کی آواز آنا، کلمہ شہادت، نماز اور زکوٰۃ ادا کرنا کسی فرد یا قبیلے کے مسلمان ہونے کی علامت قرار پایا تھا۔ لیکن کہیں یہ نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت کے لیے ان کے حلیے اور لباس میں کوئی امتیاز برتا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نامعلوم لاش ملتی تو یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مسلم تھایا مشرک۔ مشرکینِ عرب مختون بھی ہوتے تھے۔ چناں چہ حلیہ اور لباس میں کوئی علامت موجود نہ تھی جس سے مذہبی شناخت ممکن ہو سکے۔
اسی فہم دین کے ساتھ صحابہؓ نے جب بیرون عرب فتوحات کیں تو لوگوں کے نام تبدیل کروائے، نہ ثقافتی مظاہر میں کوئی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ اس بارے میں مسلم ہیئت مقتدرہ کی بے تعصبی کا یہ عالم تھا کہ خالص مذہبی رسوم و رواج مثلاً صلوٰۃ و صوم کے مقامی زبان کے متبادلات یعنی نماز اور روزہ کو اختیار کرنے دیا گیا۔ دورِ جدید میں ان کے انگریزی متبادلات Prayer اور Fast کے اپنا لینے پر بھی کوئی قابل ِذکر اعتراض نہیں کیا گیا۔ عہد ِصحابہؓ میں مساجد کے لیے مینار بنانے کا خیال شام کے گرجا گھروں سے لیا گیا تھا، بلکہ مسجد کا منبر جسے منبر ِرسولﷺ کہا جاتا ہے، اس کی تعمیر کا خیال ایک صحابیؓ نے پیش کیا تھا جنہوں نے شام کے گرجا گھروں میں پادریوں کو اس کا استعمال کرتے دیکھا۔عربی ناموں کے ساتھ فارسی اور ترک نام جیسے شہریار، پرویز، چنگیز خان وغیرہ مسلمانوں میں عام رہے۔
برصغیر میں آکر یہ رواداری البتہ برقرار نہ رہی۔ شروع میں ہندی ناموں کو بھی گوارا کیا گیا لیکن جلد ہی یہاں عربی، فارسی اور ترک ناموں کو اسلامی نام سمجھ کر رکھا جانے لگا۔ مذہب سے ثقافت کو تبدیل نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ لوگ تبدیلیِ مذہب کے باوجود اپنے سماج سے نہیں کٹتے تھے۔ وہ مندر کی بجائے مسجد جانے لگتے تھے مگر بولی وہی بولتے تھے جو ان کے لوگ بولتے تھے، لباس وہی پہنتے تھے جو ان کے لوگ پہنتے تھے، نام ان کے وہی رہتے تھے جو ان پیدائشی ہوتے، جن کے ساتھ ان کی ثقافتی اور نفسیاتی وابستگی ہوتی تھی۔ یوں تبدیلی مذہب کے باجود دو مختلف مذہبی گروہوں میں اجنبیت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں پہلے راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر وسط ایشائی مسلم حملہ آوروں کے خلاف لڑا کرتی تھی۔ لیکن جب ثقافتی امتیازات برتے جانے لگے، نماز کو پوجا نہ کہنے دیا گیا، روزہ کو بھرت کہنے پر آمادہ نہ ہو پائے، جب آکاش اور پرکاش کو محمد یوسف اور عبد اللہ نام اختیار کرنا پڑے، بلکہ اس کے آگے بڑھ کر ان کے لیے مخصوص لباس اور حلیہ اختیار کرنے کی شرائط بھی عائد کر دی گئیں، تو لوگوں میں باہمی طور پر اجنبیت اور پھر نفرت پھیلی۔ انیسویں صدی عیسوی میں قومیت کا تصور برصغیر میں نو آبادیاتی دور میں متعارف ہوا۔ جس سے پہلے وطنی قومیت اور بعد ازاں وطنی مذہبی قومیت نے وجود پایا۔
”اسلامی ثقافت“کے نام پر ہونے والی امتیازی کارروائیوں نے درحقیقت ایک سماج کے لوگوں کو علیحدہ کیا، جس نے آگے بڑھ کر سیاست کی سطح پر گروہ بندی کاوطیرہ اپنایا۔ برصغیر میں ثقافتی تفریق کا عمل اس وقت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا جب 1905 ء میں بنگال کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وہ ہندو مسلم تقسیم دکھائی دی۔ 1909ء میں اس کی اساس پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اقتدار کی رقابت، سیاسی گروہ بندی کا لازمہ ہے۔ سیاسی رقابت کی منافرت نے مذہبی منافرت کا عنوان اختیار کر لیا۔ الزام پھر مذہب پر آیا کہ مذاہب انسانوں کو لڑاتے ہیں۔ سیاسی رقابت بنام مذہب سے پھر وہ نفرت پیدا ہوئی جس کا المناک نتیجہ تقسیمِ ہند اور اس دوران ہونے والے خون خرابے کی صورت سامنے آیا، اور جس کے اثرات پون صدی گزرجانے کے بعد اب بھی پھیل رہے ہیں۔
ہندو اور مسلمانوں کی مذہبی ثقافتی حساسیت کے رد عمل میں پاکستان کے مسیحیوں نے بھی یہی راہ اپنالی ہے۔ وہ بھی الگ مذہبی قومیت کے تصور سے متأثر ہو کر اپنے مقامی ثقافتی ناموں، جیسے اقبال، اختر، مبارک، شہریار کو چھوڑ کر ڈیوڈ، مائیکل، سائمن رکھنے لگے۔ یہ رجحان شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ مسیحیوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ دیہی علاقے کے مسیحی اب بھی زیادہ تر مقامی زبانوں کے نام ہی رکھتے ہیں، یہی نام مسلم بھی رکھتے ہیں۔ مسیحی افراد شناختی امتیاز قائم کرنے کے لیے گلے میں اور گھروں پر صلیب لٹکانے لگے۔ شناختی امتیازات قائم رکھنے کا یہ رویہ اس قدر بڑھا کہ مسلم اور مسیحیوں کے درمیان “مریم” جیسے مشترکہ نام کو اُردو میں ممکن نہ ہو سکا تو انگریزی کے ہجوں میں مختلف کر دیا گیا۔ مسلم اسے Maryam لکھتے ہیں اور مسیحی Marraim اور تلفظ بھی عام تلفظ سے مختلف کرتے ہیں۔ اہلِ تشیع تو بہت پہلے سے اپنی امتیازی شناختی علامتوں کے بارے میں حساس رہے ہیں جس سے وہ نہ صرف الگ پہچانے جاتے ہیں بلکہ اسی بنا پر ان سے امتیازی سلوک روا رکھنا بھی دوسروں کے لیے ممکن ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست یہ باور تسلیم کرے کہ قومی ریاستوں کے دور میں مذہبی ریاست کا تصور ایک بے جوڑ اضافہ ہے۔ یہ ملک یہاں بسنے والی تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا۔ اکثریت محض عددی برتری کے زعم میں ملک کی سرزمین کو اپنے نام رجسٹرڈ کرانے کا حق نہیں رکھتی۔ سیاسی نمائندگان کا چناؤ سماج کا آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ مسلم اکثریت کے ملک میں کسی غیر مسلم کا ملک کی سربراہی کے لیے چنے جانا ویسے بھی حد امکان میں نہیں تو اس معاملے میں بلاوجہ قانون سازی کرکے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا تأثر دینا عبث ہے۔
مسلمان حکومت میں ہوں گے تو مسلم اجتماعیت سے متعلقہ دینی احکام پر عمل کرنا ان کاذاتی فرض منصبی سمجھا جائے گا۔
سماجی سطح پر یہ بات مسلم کمیونٹی کو سمجھانے کی ہے کہ مذہب ثقافت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ پرویز، ڈیوڈ اور آکاش جیسے نام ایسے ہی قابل قبول ہیں جیسے محمد یوسف، عبد اللہ و عبد الرحمان؛ صلاۃ کے لیے ورشپ اور پوجا کا لفظ بھی ایسے ہی درست ہے جیسے نماز؛ کرتا پائے جامہ اور پینٹ شرٹ بھی ایسے ہی درست لباس ہیں جیسے عربی چغہ؛ ثقافتی اور موسمی تہوار بھی اسلامی اور غیر اسلامی نہیں ہوتے۔ دین میں ان چیزوں کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ دین کا موضوع فرد کے عقائد اور اخلاق کی اصلاح ہے۔ کسی مذہب کو اختیار کرنا کسی سیاسی پارٹی کو اختیار کرنے کی طرح نہیں ہے جس میں الگ بیج اور جھنڈے لگا کر اپنا امتیاز ظاہرکرنا ضروری ہو۔ مسلمان کی پہچان، سلام، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی بتائی گئی ہے، نہ کہ کوئی مخصوص حلیہ۔ ضروری ہے کہ مذہب و ثقافت کے درمیان حد فاصل کا شعور اُجاگر کیا جائے اور لوگوں میں منافرت کی خود ساختہ بنیادوں کو ختم کیا جائے۔
ریاست کے تصورمیں اصلاح کی ضرورت
ریاست کے اس تصور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کوئی ایسا مقدس ادارہ ہے جس پر تنقید سے اس کی توہین ہو جاتی ہے اور یہ کہ وہ فرد اور اس کے حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جدید ریاست بادشاہت کی جگہ پر آئی اور اسی وجہ سے اس کو بادشاہت والا اختیار اور تقدس دے دیا گیا۔ اسی بنا پر اس سے غیر مشروط وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بنیادی حقیقت کیسے نظر انداز ہو گئی کہ بادشاہتوں کی مطلق العنانیت اور غیر مشروط وفاداری کے مطالبے جیسی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے انسانیت نے جمہوریت کی طرف قدم اٹھایاتھا۔سیاسی عمل اور سماجی ڈھانچے میں تو حریت فکرکی پذیرائی کی گئی لیکن ریاست بادشاہت والی مطلق العنانیت سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں۔ مقدس اگر ہے تو وہ فرد کا جان، مال اور آبرو ہے۔ ریاست کا وجود فرد کا مرہون منت ہے۔ یہ ایک انتظامی بندوبست ہے جس کو فرد کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ وہ اپنا وجود اسی افادیت کے ثبوت پر برقرار رکھنے کا جواز رکھتی ہے۔ اس انتظامی بندوبست میں فرد کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے بشمول جغرافیہ دیگر تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ خود قومی ریاستوں کو ان سے قبل کی ریاستوں کی سرحدوں میں ردو بدل کر کے وجود دیا گیا ہے، اس بارے میں جمہور شہریوں کی رائے فیصلہ کن ہونی چاہیے۔ فرد ریاست کا خیر خواہ ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے وفاداری کا تصور پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وفاداری کا تصور ہی ریاست کو فرد کے استحصال کا لائسنس دیتاہے۔ فرد کی سلامتی، ریاست کی سالمیت پر مقدم ہے۔انسانی جان کو تقدس خدا نے دیا ہے، ایک شخص کے ناحق قتل کوپوری انسانیت کا قتل خدا نے قرار دیا ہے۔ ریاست کا تقدس بیسویں صدی کے آذروں کا تراشا ہوا بت ہے جس پر انسان کو قربان کرنے کا خود ساختہ عقیدہ انسان نے ایجاد کیا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
جبرمیں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایک ریاست میں بسنے والے مختلف قومی شناختوں اور مفادات کے حامل گروہوں کو جوڑ کر رکھ سکے۔ یہ محض سماجی انصاف کا حقیقی قیام ہے جوساتھ مل کر رہنے کا محرک بنتا ہے۔ حقوق،امن اور آزادی کی یقین دہانی اصل قوت ہے۔ ہمیں ریاست کے نظریاتی اور جابرانہ تصور کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے