مسلم قومی ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت، برصغیر کی مذہبی سیاسی فکر کا جائزہ
عمار خان ناصرماہنامہ ”الشریعہ“کے مدیر ہیں اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں درس و تدریس سے منسلک ہیں۔آپ کا شمار ملک کے مذہبی مفکرین کی توانا آوازوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے زیرنظر مضمون میں برصغیر کے مسلم عہد اور تقسیم کے بعد پاکستان میں غیرمسلموں کوحاصل ہونے والی حیثیت کے بارے میں گفتگو کی ہے۔مسلم کلاسیکی فکر میں غیر مسلموں کو ”اہل ذمہ“ کہا جاتا تھا اور انہیں مسلم شہریوں والے مساوی حقوق حاصل نہیں تھے۔بعدازاں جب استعماری دور ختم ہوا اور قومی ریاستیں وجودمیں آئیں تو اقلیتوں کے حقوق سے متعلقہ دستوری خدوخال کے حوالے سے جدیدتقاضوں کی رعایت تو رکھی گئی لیکن اس کے ساتھ یہ کوشش بھی کی گئی کہ اس کا ربط کلاسیکی فکری تصورات سے بھی باقی رہے۔اس کی وجہ سے اقلیتی برادریوں کے لیے سیاسی وسماجی حقوق کے کچھ مسائل پیداہوئے جو ابھی تک حل طلب ہیں۔
کلاسیکی اسلامی فقہ میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم باشندوں کی سیاسی حیثیت ”اہل ذمہ“ کے عنوان سے بیان کی جاتی ہے۔ اس تصور کے مطابق، غیر مسلموں کو مخصوص شرائط کی پابندی کے ساتھ اسلامی ریاست میں سکونت اختیار کرنے کی اجازت اور جان ومال اور مذہبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، تاہم ان کی حیثیت مسلمانوں کی محکوم رعایا کی ہوتی ہے اور وہ سیاسی وقانونی حقوق کے لحاظ سے مسلمانوں کے برابر تصور نہیں کیے جاتے۔ اس کے برعکس قومی ریاست کے تصور میں کوئی بھی خطہ زمین اصلاً اس ملک کے سبھی باشندوں کی مجموعی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور اپنے مغربی مفہوم میں تقاضا کرتا ہے کہ تمام باشندگان مملکت شہری وسیاسی حقوق کے لحاظ سے مساوی حیثیت رکھتے ہوں اور خاص طور پر عقیدہ ومذہب کی بنا پر شہریوں کے قانونی حقوق میں کوئی تفریق نہ کی جائے۔ اس کے برخلاف مذہبی ریاست ایک مذہب کے ساتھ وابستگی ظاہر کر کے اصولاً اس مذہب کے ماننے والوں کو دوسروں کے مقابلے امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔
جدید مسلم ریاستوں کا قیام قومیت اور جمہوریت کے جدید تصورات پر ہوا ہے، تاہم بیشتر ریاستوں میں اسلام کو ریاست کے سرکاری مذہب کی حیثیت بھی دی گئی ہے۔ یوں نظریاتی ریاست کے کلاسیکی تصور یعنی دار الاسلام کو قومیت وجمہوریت کے جدید مغربی تصورات کے ساتھ ملا کر ایک نیا امتزاجی نمونہ تیار کیا گیا ہے۔ اس امتزاج نے فطری طور پر بعض الجھنوں اور ابہامات کو جنم دیا ہے جو معاصر بحثوں میں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ الجھنوں کا منبع یہ سوال ہے کہ امتزاجی نمونے کی تشکیل میں دار الاسلام کا روایتی تصور اور وطنیت وقومیت کے جدید تصورات کس باہمی تناسب سے مؤثر ہوں گے اور اگر دونوں میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو رہی ہو تو کہاں کون سا اصول فیصلہ کن مانا جائے گا۔
آئندہ صفحات میں اس الجھن کے مختلف مظاہر کا جائزہ خاص طورپر بیسویں صدی میں برصغیر کی مسلم سیاسی فکر کے حوالے سے پیش کیا جائے گا۔
عقدِ ذمہ یا مساوی حقوق شہریت؟
مسلم سیاسی فکر میں غیر مسلموں کے لیے عقد ذمہ سے شہریت کے جدید تصور کی طرف انتقال کا آغاز خلافت عثمانیہ کے دور میں ہوا تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور سیاسی وقانونی تصورات کے تحت جہاں یورپی جمہوریت کے دوسرے بہت سے تصورات کو اپنے نظام میں جگہ دی، وہاں سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے لیے مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی شہری اور مذہبی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا حق بھی تسلیم کیا اور مختلف معاہدوں میں یورپی طاقتوں کو اس کی باقاعدہ یقین دہانی کرائی۔ (دیکھیے: الدکتور عبد العزیز محمد الشناوی، ’الدولۃ العثمانیۃ دولۃ اسلامیۃ مفتری علیہا‘، 1/96,98۔ ماجد خدوری، مقدمہ کتاب السیر للشیبانی۔ معاہدۂ پیرس کے متن کے لیے، جو30 مارچ 1856 ء کو طے پایا، ملاحظہ ہو:
( http://www.polisci.ucla.edu/faculty/wilkinson/ps123/trea)
عثمانی خلیفہ سلطان عبد المجید اول نے 18 فروری 1856ء کو ”خط ہمایوں“ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت ’جزیہ‘ کے پرانے قانون کو، جو غیر مسلموں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھتا تھا، ختم کر کے اس کی جگہ ”بدل عسکری“ کے نام سے ایک متبادل ٹیکس نافذ کیا گیا جو اقلیتوں کی مساوی شہری حیثیت کے جدید جمہوری تصورات کے مطابق تھا۔
(Norman Stillman, The Jews of Arab Lands in Modern Times, http://www.nitle.or g/)
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد دنیا کے سیاسی نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے مسلمانوں کے غلبہ اور تفوق اور اس کے تحت پیدا ہونے والے قانونی وسیاسی تصورات کو بالکل تبدیل کر دیا۔ اس تناظر میں 1940ء میں مسلم لیگ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے ایک الگ قومی وطن یعنی پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا اور اس کے امکانات واضح ہوتے گئے تو قدرتی طور پر یہ سوال بھی سامنے آیا کہ نئی ریاست کے دستوری خد وخال کیا ہوں گے اور خاص طور پر اس میں غیر مسلم اقلیتوں کی آئینی حیثیت کیا ہوگی۔
اس سوال کے جواب میں مذہبی سیاسی قائدین اور خاص طور پر مذہبی علما نے جدید جمہوری ریاست کے غیرمسلم شہریوں کی حیثیت کا تعین بنیادی طور پر ”اہل ذمہ“ کے کلاسیکی تصور ہی کے تحت کرنے، جبکہ جدیدیت کے تصورات کے لیے عملی حالات کے تناظر میں بس ناگزیر حد تک گنجائش پیدا کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ مثال کے طور پر قیام پاکستان سے پہلے بعض مسلم لیگی راہ نماؤں کے ایما پر بعض جید علماء (مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا سید مناظر احسن گیلانی، مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندوی وغیرہ) نے باہمی مشاورت سے اسلام کے راہ نما دستوری اصولوں کی توضیح کی جسے مولانا اسحاق سندیلوی نے ”اسلام کا سیاسی نظام“ کے عنوان سے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا۔ اس دستاویز میں غیر مسلموں کی آئینی حیثیت اور ان کے شہری وسیاسی حقوق کے مسئلے کو اسلامی فقہ کے روایتی تصورات کی روشنی میں دیکھا گیا اور اسلامی حکومت کی رعایا کو مسلمانوں اور ”اہل ذمہ“ میں تقسیم کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ ریاست کا نظم ونسق چلانے اور سیاسی، قانونی اور انتظامی امور سے متعلق فیصلے کرنے کا بنیادی اختیار مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، جبکہ ”ذمیوں کو حکومت کی مشنری میں حصہ لینے کا کوئی حق حاصل نہ ہوگا، یعنی وہ کسی ایسے عہدے پر نہیں مقرر کیے جا سکتے جو براہ راست اسلامی نظام حیات کے کسی شعبہ سے متعلق ہو، مثلاً ان کو سول سروس، فوج، پولیس وغیرہ محکموں میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔ اس کی وجہ اہل نظر پر ادنیٰ تامل سے واضح ہو جاتی ہے کہ وہ شخص جو اسلامی نظام حیات کو سرے سے اعتقاداً قبول ہی نہیں کرتا ہے، وہ اس کے چلانے میں صحیح حصہ کس طرح لے سکتا ہے۔“ (اسلام کا سیاسی نظام، ص 228)
https://www.rekhta.org/ebooks/islam-ka-siyasi-nizam-ishaq-sandhelvi- ebooks?lang=ur
اسی زمانے میں برصغیر کے ابھرتے ہوئے مذہبی مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ”حکومت الٰہیہ“ کے عنوان سے اسلامی ریاست کے اصولی تصورات اور اس کی پالیسیوں کا ناک نقشہ واضح کر رہے تھے۔ مولانا کے نقطہ نظر کے مطابق بھی حکومت الٰہیہ میں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مساوی سیاسی حقوق حاصل نہیں ہو سکتے، البتہ مولانا اس امتیاز کو سول سروس، فوج اور پولیس وغیرہ میں کلیدی عہدوں تک محدود رکھتے ہیں اور ان کی رائے میں ان محکموں میں غیر مسلموں سے بطور کارکن تو خدمات لی جا سکتی ہیں، لیکن ”کلیدی مناسب (Key Positions) اور وہ عہدے جو پالیسی کے تعین وتحفظ سے تعلق رکھتے ہیں، بہرحال اہل ذمہ کو نہیں دیے جا سکتے۔ …… اسی طرح جو اسمبلی شوریٰ کے لیے منتخب کی جائے گی، اس میں بھی اہل ذمہ کو رکنیت یا رائے دہندگی کا حق نہیں ملے گا۔“ (اسلامی ریاست، ص 549،550)
حکومت الٰہیہ کے تصور کے علاوہ مولانا مودودی وطنی قومیت کے جدید تصور کے بھی سخت ناقد تھے اور ان کے نزدیک حکومت الٰہیہ اور قومی ریاست دو متضاد تصورات کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا قومی ریاست میں تو اس کا امکان تسلیم کرتے تھے کہ جمہوری اصول اختیار کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کو ان کی تعداد کے تناسب سے حصہ دے دیا جائے، تاہم اسلامی ریاست اس حوالے سے لین دین یا معاملہ بالمثل کے اصول پر اپنی پالیسی طے نہیں کرے گی، اور ”ان اصولوں میں ذراہ برابر بھی کوئی تغیر نہ کرے گی جو ذمیوں سے معاملہ کرنے کے لیے قرآن وحدیث میں مقرر کر دیے گئے ہیں۔ …… آپ کا جی چاہے تو ہندو ریاست میں صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم اور کمانڈر انچیف سب ہی کچھ مسلمان باشندوں کو بنا دیں۔ بہرحال اس کے جواب میں کوئی ایک ذمی بھی کسی ایسی پوزیشن پر مقرر نہیں کیا جائے گا جو اسلامی ریاست کی پالیسی کی شکل اور سمت معین کرنے میں دخل رکھتی ہو۔“ (اسلامی ریاست، ص551)
تاہم پاکستان کے قیام کے بعد 1951ء میں مذہبی علماء کے ایک نمائندہ اجتماع نے 22دستوری نکات پر مبنی ایک دستاویز مرتب کی تو اس میں نہ صرف یہ کہ غیر مسلموں کے لیے ”اہل ذمہ“ جیسی کوئی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی، بلکہ واضح طور پر یہ قرار دیا گیا کہ تمام باشندگان مملکت، کسی امتیاز کے بغیر، جملہ شہری وسیاسی حقوق سے یکساں بہرہ ور ہوں گے جن میں ”حدود قانون کے اندر تحفظِ جان ومال وآبرو، آزادئ مذہب ومسلک، آزادئ عبادت، آزادئ ذات، آزادئ اظہار رائے، آزادئ نقل وحرکت، آزادئ اجتماع، آزادئ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق“ شامل ہیں۔ دستاویز میں صرف ایک ریاستی عہدے یعنی ”رئیس مملکت“ کے لیے مسلمان مرد ہونے کو ضروری قرار دیا گیا جس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ تھا کہ باقی حکومتی وانتظامی مناصب میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز مطلوب نہیں۔
بیسویں صدی کے ربع آخر میں اسلامی ریاست کے عملی ڈھانچے اور اس کے خط وخال کو موضوع بحث بنانے والے بہت سے اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا کہ جدید اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کی حیثیت ’اہل ذمہ‘ کی نہیں ہے۔ چنانچہ سید حامد عبد الرحمن الکاف معاصر تناظر میں ”اہل ذمہ“ کے روایتی قانونی تصور کے انطباق کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”معاصر اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ”ذمی“ ہیں اور انہیں ”جزیہ“ ادا کر کے فوجی خدمات سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔ یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدمِ ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلو خلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم وستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔
ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی ومفہوم کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ”آیت جزیہ“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔…….آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں، ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں، سیاسی فضا سازگار ہونے پر، اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔ جنگ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیر مسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ”ذمی“ قرار دے کر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال پر نہیں کیا جا سکتا۔“ (ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر2002ء، ص 65،66)
مولانا زاہد الراشدی کے ہاں اس سوال کے حوالے سے مختلف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ بعض تحریروں میں ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک معیاری اسلامی وشرعی حکومت میں تو غیر مسلموں کی حیثیت اہل ذمہ ہی کی ہو سکتی ہے، تاہم موجودہ دور میں چونکہ ایسی کوئی حکومت دنیا میں موجود نہیں اور مسلمان ممالک نے بین الاقوامی معاہدات کی پابندی قبول کر رکھی ہے جن کی نوعیت غیر مسلموں کی سیاسی حیثیت کے حوالے سے ”میثاق مدینہ“ کے مماثل ہے، اس لیے اسلامی خلافت کے احیاء اور شرعی حکومت کے قیام تک ان معاہدات کی پابندی ضروری ہے۔ (”دہشت گردی کے حوالے سے چند معروضات“، الشریعہ، اکتوبر2002ء) تاہم ایک حالیہ تحریر میں وہ برصغیر کے تناظر میں سیاسی تغیرات کی روشنی میں صورت حال کی نئی فقہی وقانونی تکییف کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
”جب برصغیر پر انگریزوں کا اقتدار قائم ہوجانے کے بعد دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا انتظامی و مالیاتی کنٹرول قائم ہونے پر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اور حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا اور اہل علم کے عمومی حلقوں میں اس فتویٰ کو قبول کر لیا گیا جس کے نتیجے میں فرنگی اقتدار کے خلاف مسلح جنگوں کا وسیع سلسلہ شروع ہوگیا تو میری طالب علمانہ رائے میں یہ سارے فقہی مباحث ماضی کا حصہ بن گئے تھے اور اس پورے خطہ کی شرعی حیثیت یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ اس سے قبل اس علاقہ میں مسلمان غالب اور غیر مسلم مغلوب تھے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری قائم ہونے کے بعد یہ پہلے کے غالب و مغلوب دونوں مغلوب ہوگئے تھے اور دونوں نے مل کر اس نئے غلبہ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اب ان کے درمیان غالب اور مغلوب کا تعلق نہیں رہا تھا بلکہ مستقبل کے معاملات میں یہ باہمی شریک کار بن گئے تھے اور اس طرح ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا جسے شرعی اور فقہی حوالہ سے نئی صورتحال کے طو رپر دیکھنا ضروری ہے۔ یہ میری طالب علمانہ رائے ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ جنگ آزادی اور اس کے بعد کے معاملات کے حوالہ سے اس خطہ کے مسلم اور غیر مسلم دونوں باہمی معاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے باہمی معاملات کو ان معاہدات کے دائرہ میں دیکھنا ہوگا جو حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتویٰ کے بعد جنگ آزادی میں یہاں کی مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان باہمی اشتراک عمل کی صورت میں وجود میں آئے تھے اور یہ عملی اور خاموش معاہدات ہی آئندہ کے سارے معاملات کی بنیاد بنتے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان بننے کے بعد اس ریاست کے تمام غیر مسلم طبقوں کی حیثیت معاہدین کی بنتی ہے اور ان پر ذمی کا اطلاق درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں یہ سب باہم شریک کار تھے جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد ”دستور پاکستان“ کی صورت میں ہمارے درمیان ایک سماجی معاہدہ تشکیل پا چکا ہے۔ اس لیے جو غیر مسلم حلقے پاکستان کے شہری کے طور پر دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی پابندی کا عہد کرتے ہیں، وہ ہمارے معاہدین ہیں اور ان کے ساتھ دستور میں ہمارے جو معاملات طے پائے ہیں، ان کی پابندی کرنا اور دستور کے مطابق وطن عزیز کے غیر مسلم باشندوں کو ان کے حقوق ادا کرنا بلکہ ان کی پاسداری کرنا ہماری قومی اور شرعی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ البتہ قادیانیوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے، اس لیے کہ وہ اس دستوری معاہدہ کو تسلیم نہیں کر رہے اور اس سے مسلسل انکاری ہیں۔ چنانچہ جب تک وہ ملک کی دیگر غیر مسلم آبادیوں کی طرح دستور پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اور اس پر عملدرآمد کی ضمانت نہیں دیتے، انہیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق نہیں دیے جا سکتے۔“ (”موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات“، ماہنامہ الشریعہ، مارچ 2018ء، ص24،25)
بعض دیگر اہل علم اس ضمن میں عملی حالات کی رعایت اور ’مصلحت‘ کے عمومی اصول کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس
نقطہ نظر کی نمائندگی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے یوں کی ہے:
”دور جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے اور اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔ موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا، البتہ یہ مجالس ازروئے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔ اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انہیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔“ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص 419)
”مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اور مدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دور جدید کی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیا ہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔“ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص 420)
جدیدیت کے تناظر میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات کے لیے ایک نیا فریم ورک وضع کرنے کی ضرورت کے پیش نظر معاصر اہل علم کی توجہ میثاق مدینہ کی طرف بھی مبذول دکھائی دیتی ہے۔ اس میثاق میں مدینہ کے مختلف یہودی قبائل سے اس شرط پر محالفت کی گئی تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بالاترین سیاسی اتھارٹی تسلیم کریں گے، انہیں مسلمانوں کے ساتھ مساوی سیاسی حیثیت رکھنے والا ایک گروہ مانا جائے گا اور بیرونی حملے کی صورت میں وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینہ کے دفاع کے ذمہ دار ہوں گے۔ اسلام کی سیاسی تاریخ میں یہ معاہدہ اس لحاظ سے منفرد نوعیت رکھتا ہے کہ اس کے بعد اہل کتاب کے جتنے بھی گروہوں سے سیاسی معاہدات کیے گئے، اس میں انہیں مساوی سیاسی حیثیت حاصل نہیں تھی، بلکہ انھیں جزیہ کی ادائیگی کی شرط پر مسلمانوں کی طرف سے امان دی گئی تھی۔ اسی وجہ سے کلاسیکی اسلامی روایت میں میثاق مدینہ کو غیر مسلموں کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے اسلام کے ریاستی قانون کا ماخذ نہیں مانا گیا اور اسے ابتدائی اور عبوری دور کا ایک وقتی معاہدہ قرار دے کر گویا منسوخ تصور کیا گیا ہے۔ چنانچہ امام ابو عبید لکھتے ہیں کہ یہ عہد نامہ جزیہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے لکھا گیا اور اسلام اس وقت ضعیف تھا اور ابتدا میں یہ حکم تھا کہ اگر یہود مسلمانوں کے ساتھ کسی غزوہ میں شرکت کریں تو مال غنیمت میں سے ان کو کچھ دے دیا جائے اور اسی وجہ سے اس عہد نامہ میں یہود پر یہ شرط عائد کی گئی کہ جنگی اخراجات میں ان کو بھی حصہ دینا پڑے گا۔ (ابو عبید، کتاب الاموال) یہی بات ابن القیم نے زاد المعاد میں لکھی ہے اور دور جدید میں بھی روایتی علما کا موقف یہی ہے۔ (محمد ادریس کاندھلوی، سیرۃ المصطفیٰ 1/458)
تاہم بہت سے اہل علم نے نئی تاریخی صورت حال میں مسلم اکثریتی ملک میں، غیر مسلموں کی یکساں شہری وسیاسی حیثیت کے لیے میثاق مدینہ کو ماخذ بنایا اور یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں بھی غیر مسلموں کو مساوی سیاسی وشہری حقوق دیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً جاوید احمد غامدی صاحب نے میثاق مدینہ اور دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم کی11/ اگست 1947ء کو کی جانے والی تقریر کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا:
”صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا لفظ لفظ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ”میثاق مدینہ“ کی پیروی میں صادر ہوا ہے۔ وہاں لکھا گیا: ”تمام نزاعات میں فیصلہ کن حیثیت اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگی“، یہاں اعلان ہوا: ”ریاست پاکستان کا دستور قرآن مجید ہوگا اور ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔“ وہاں رقم ہوا: ”بنی عوف کے یہود، سیاسی حیثیت سے مسلمانوں کے ساتھ ایک اُمت تسلیم کیے جائیں گے“، یہاں کہا گیا: ”اب یہاں سیاسی حیثیت سے نہ ہندو، ہندو رہیں گے، نہ مسلمان، مسلمان رہیں گے۔”وہاں ثبت ہوا: ”رہا دین کا معاملہ تو یہودی اپنے دین پر رہیں گے اور مسلمان اور ان کے موالی، سب اپنے دین پر“، یہاں وضاحت ہوئی: ”مذہبی اعتبار سے نہیں کہ وہ ہر شخص کا انفرادی عقیدہ ہے۔“ (ماہنامہ اشراق، 1987ء، ص)
غامدی صاحب نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ میثاق مدینہ میں یہودیوں کو جو سیاسی حیثیت دی گئی، وہ ایک عمومی اصول کے طور پر بھی مسلم ریاست کے لیے ”بہترین نمونہ“ کی حیثیت رکھتی ہے۔ (میزان، ص 491، طبع نہم، مئی2014ء)
میثاق مدینہ سے یہ استدلال، ذرا غور سے واضح ہوتا ہے کہ جزوی طور پر ہی درست ہے، کیونکہ اس میں بالاتر سیاسی اتھارٹی کی حیثیت بہرحال مسلمانوں ہی کو حاصل تھی اور یہودیوں کے لیے اقتدار میں کوئی شراکت تسلیم نہیں کی گئی تھی، جبکہ قومی ریاست کے جدید تصور میں کوئی بھی قوم بالاتر سیاسی حیثیت نہیں رکھتی۔ چنانچہ2015ء میں غامدی صاحب نے پاکستان میں دہشت گردوں کے بیانیے کے حوالے سے جاری بحث میں ایک متبادل بیانیہ پیش کیا تو اس میں ریاست کے قدیم تاریخی تصورات اور جدید قومی ریاست کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھاکہ ”دور حاضر کی قومی ریاستیں جن کے حدود بین الاقوامی معاہدات سے متعین ہوتے اور جو وجود میں آتے ہی اپنے باشندوں کے لیے بناے قومیت بن جاتی ہیں …… ان میں سے کوئی کسی کا حاکم یا محکوم نہیں ہوتا، بلکہ سب ہر لحاظ سے برابر کے شہری سمجھے جاتے ہیں اور اسی حیثیت سے کاروبار حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔“ (مقامات، ص 210) ریاست پاکستان کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ ”اسی نوعیت کی ایک ریاست ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اس کے لیے نہ کوئی فرمان آسمان سے نازل ہوا ہے کہ جزیرہ نماے عرب کی طرح یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے، نہ مسلمانوں نے اس کو فتح کر کے اس میں رہنے والے غیر مسلموں کو اپنا محکوم بنا لیا ہے اور نہ وہ ان کے ساتھ کسی معاہدے کے نتیجے میں اس ریاست کے شہری بنے ہیں۔ وہ صدیوں سے اسی سرزمین کے باشندے ہیں، جس طرح مسلمان اس کے باشندے ہیں اور ریاست جس طرح مسلمانوں کی ہے، اسی طرح ان کی بھی ہے۔“ (ایضاً، ص 210،211)
پاکستان کے ایک مستند روایتی عالم اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن صاحب نے تقریباً اسی زاویہ نظر کا اظہار اپنے اس موقف میں کیا ہے کہ ”ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہماری قانونی و سیاسی اصطلاحات اور روز مرہ محاورے میں لفظ اقلیت کے استعمال کو ترک کر دیا جائے اور تمام غیر مسلموں کو مساوی درجے کا پاکستانی تسلیم کیا جائے۔“ (روزنامہ دنیا)
جزیہ کا نفاذ
یہ بات اہم ہے کہ مذہبی علما ”اہل ذمہ“ کے کلاسیکی تصور کو معاصر تناظر مین من وعن اور پوری تفصیلات وجزئیات کے ساتھ نافذنہیں کرنا چاہتے، اور ان کے پیش نظر شہری وسیاسی حقوق میں امتیاز بنیادی طور پر ریاست کے کلیدی عہدوں کے حوالے سے مطلوب ہے۔ اس خاص نکتے سے سے ہٹ کر ذمہ کے کلاسیکی فقہی تصور کے بہت بنیادی نوعیت کے اجزا کو مذہبی فکر میں ترک کر دیا گیا اور اس اجتہادی انداز نظر کی علمی توجیہات پیش کی گئیں۔
مثال کے طور پر غیر مسلموں پر ”جزیہ“ کی ادائیگی کا لازم ہونا ذمہ کے روایتی تصور کا بہت بنیادی جزو تھا اور معاہدے کی لازمی شرائط میں یہ شامل سمجھا جاتا تھا کہ غیر مسلم جزیہ کی ادائیگی کی پابندی قبول کریں۔ تاہم اسلامی سیاسی تاریخ میں اس مسئلے کو سیاسی مصالح کے تناظر میں دیکھنے کی روایت موجود رہی ہے اور عہد صحابہ اور بعد کی اسلامی تاریخ میں مسلمان حکومتوں کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ اس کی عملی تنفیذ کو سیاسۃ کے دائرے سے متعلق سمجھا گیا اور مختلف سیاسی مصالح کی بنیاد پر غیر مسلموں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی گنجائش تسلیم کی گئی۔ (طبقات المحدثین باصبہان1/232؛ مصنف عبد الرزاق،10023؛ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ 1/144؛ فتوح البلدان، ص 166، 168، 228، 235؛ الاموال، ص174؛ یاقوت حموی، معجم البلدان،2/121؛ فتوح مصر واخبارہا، 1/287) ہندوستان میں باقاعدہ قائم ہونے والی مسلم حکومتوں میں بعض مخصوص ادوار مثلاً فیروز شاہ تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت کے علاوہ عمومی طور پر اہل اقتدار نے یہاں کے غیر مسلموں پر جزیہ نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ (ضیاء الدین برنی، تاریخ فیروز شاہی، مترجم: محمد فدا علی طالب، ص 260؛ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مقالہ ”جزیہ“، 7/247,248؛ اے بی ایم حبیب اللہ،ہندوستان میں مسلم حکومتوں کی اساس، مترجم: مسعود الحق، ص 323,324؛ شیخ محمد اکرم، آب کوثر، ص164) ہندوستان کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی کبھی جزیہ عائد کرنے اور کبھی اسے موقوف کر دینے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ مثلاً کشمیر کے فرماں روا سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے بارے میں مورخین بتاتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں سے جزیہ لینا موقوف کر دیا تھا اور گاؤ کشی بند کرا دی تھی۔ (”مسلمانوں کی علمی بے تعصبی“، مشمولہ: مقالات شبلی، ص 105۔ جاوید اقبال، زندہ رود 1/7)
اس تناظر میں برصغیر کی مذہبی سیاسی فکر میں عمومی طور پر جدید قومی ریاستوں میں جزیہ کے نفاذ کو غیر مطلوب قرار دیتے ہوئے مختلف فقہی توجیہات پیش کی گئیں۔ مثلاً ایک نقطہ نگاہ یہ پیش کیا گیا کہ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے باشندوں کے مدنی حقوق میں امتیاز کا رویہ مخصوص تاریخی اسباب کا نتیجہ تھا اور سیدنا عمر نے اس وقت کی معاصر اقوام میں محکوم ومفتوح قوموں کے لیے رائج قانونی نظام ہی کو اہل ذمہ پرنافذ کر دیا تھا۔ (سید سلیمان ندوی، ”کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟“، مشمولہ ”اسلامی تہذیب وثقافت“، 1/104، شائع کردہ خدا بخش اورئنٹل پبلک لائبریری پٹنہ)
فقہا کے ہاں، بنو تغلب کے نصاریٰ کے ساتھ کیے جانے والے معاملے کی روشنی میں، ایک رائے یہ موجود رہی ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے جس کی مقدار جزیہ کے مساوی ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (ابن قدامہ المغنی، 9/277۔ ماوردی، الاحکام السلطانیۃ،184) مولانا امین احسن اصلاحی نے اس معاملے میں مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے اسے ایک عمومی ضابطہ قرار دیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”اگر وہ اس بات پرمصر ہوں کہ ان پر بھی اسی طرح کے مالی واجبات عائد کیے جائیں جو مسلمانوں پر عائد ہیں تو حکومت ان سے اپنی صواب دید کے مطابق اس شرط پر بھی معاہدہ کر سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو یوں سمجھیے کہ اگر جزیہ کی ادائیگی میں وہ عار اور ذلت محسوس کریں تو ان کو اس سے مستثنیٰ کر کے ان کے لیے کوئی اور مناسب شکل اختیار کی جا سکتی ہے۔“ (تدبر قرآن، 5/561)
یہی نقطہ نظر الدکتور یوسف القرضاوی اور مولانا تقی عثمانی نے اختیار کیا ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ، مترجم: ساجد الرحمن
صدیقی، 1/136,138؛ تقی عثمانی، اسلام اور سیاسی نظریات، ص 315,316)
جزیہ کے عدم نفاذ کی توجیہ کے لیے اہل علم میں ایک اور نقطہ نظر یہ سامنے آیا کہ اس کا نفاذ صرف اس صورت میں ضروری ہے جب معاہدے میں باقاعدہ اس کی شرط طے کی گئی ہو۔ چنانچہ مولانا مودودی لکھتے ہیں:
”اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔“ (رسائل ومسائل،4/246)
سوات پر تحریک طالبان کے تسلط کے زمانے میں جب وہاں پر مقیم سکھوں پر جزیہ کے نفاذ کی اطلاع سامنے آئے تو مولانا زاہد الراشدی نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:
”صوبہ سرحد کے طالبان کی طرف سے اگر سکھوں پر جزیہ نافذ کیا گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ پاکستان کے دستور کے تحت ملک کے تمام غیر مسلم اقلیتوں کی حیثیت شرعاً ”معاہد“ کی ہے، یعنی وہ اقلیتیں جو ایک معاہدہ کے تحت ملک کی آبادی کا حصہ بنی ہیں اور یہ معاہدہ ملک کا دستور ہے۔ ان کے ساتھ وہی معاملات روا رکھے جائیں گے جو دستور میں طے کیے گئے ہیں اور اس سے ہٹ کر ان کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔“ (مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان، ماہنامہ الشریعہ، نومبر/دسمبر2009ء)
برصغیر میں مولانا حمید الدین فراہی کے مکتب فکر نے اس سارے معاملے کو فقہی وقانونی فریم ورک کے بجائے بعض سنن الٰہیہ کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فراہی نے رسولوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت کو قرآن مجید سے دریافت کیا اور اس کے روبہ عمل ہونے کے مختلف مراحل نصوص کی روشنی میں متعین کیے ہیں۔ اس بحث کو بعد میں ان کے طریقے پر قرآن مجید پر غور کرنے والے اہل علم، مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے مزید منقح کیا اور اس کی روشنی میں احکام قتال کی ایک نئی تعبیر پیش کی ہے۔ اس تعبیر کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو جہاد کے ذریعے سے اسلام کا غلبہ قائم کرنے اور اسلام قبول نہ کرنے والی محکوم قوموں پر جزیہ عائد کرنے کا جو حکم دیا گیا، وہ اتمامِ حجت کے اصول پر مبنی تھا جس کی رُو سے ”اللہ کی حجت جب ان رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہوتی ہے تو ان کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جس طرح ظلم وعدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔“ (میزان، ص 579،580) اس تعبیر کا نتیجہ غامدی صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے، اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔“ (میزان، ص601)
فقہ وقانون کے ممتاز معاصر اسکالر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بھی اس حوالے سے یہی رجحان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر قرآن مجید میں مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کی اساس اتمام حجت کے اصول کو مان لیا جائے جس کے قوی شواہد نصوص میں موجود ہیں تو ”اہل کتاب کے ساتھ جنگ کی نوعیت پر بھی فرق پڑے گا،کیونکہ اگر یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب سے خاص ہو کہ ان سے جنگ جاری رہے گی یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوں، تو بعد کے اہل کتاب کے ساتھ مسلسل جنگ کا نظریہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔“ (جہاد، مزاحمت اور بغاوت، ص 75)
ریاستی مناصب پر غیر مسلموں کا تقرر
کلاسیکی فقہی روایت میں عموماً غیر مسلموں کو اسلامی ریاست کے کاروبار حکومت میں شریک کرنے اور انتظامی وحکومتی مناصب ان کے سپرد کرنے کی گنجایش تسلیم نہیں کی گئی اور حکومتی عہدے پر تقرر کے لیے مسلمان ہونے کو اہلیت کی لازمی یا ترجیحی شرائط میں شمار کیا گیا ہے۔ تاہم اس ضمن میں فقہی ذخیرے کے نظری مباحث اور امت مسلمہ کے تاریخی طرز عمل کے مابین ایک تباین پایا جاتا ہے اور اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار اور بالخصوص خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت کے دور میں امور مملکت اور سماجی اداروں کے انتظام وانصرام میں غیر مسلموں کی شرکت اور بعض اوقات نہایت اہم مناصب پر ان کے تقرر کی مثالیں موجود ہیں جو ایک طرح سے عملی فقہی نظائر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ (ٹی ڈبلیو آرنلڈ،دعوت اسلام، ترجمہ: محمد عنایت اللہ81-82؛ سید صباح الدین عبد الرحمن، اسلام میں مذہبی رواداری 105، 128، 168، 180،244) قرون وسطیٰ کے معروف فقیہ اور سیاسی مفکر ابو الحسن الماوردی نے بھی اس حوالے سے ایک نسبتاً منفرد رائے یہ پیش کی تھی کہ تفویض مہام کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک کو انھوں نے وزارۃ التفویض کا نام دیا جس میں فیصلے کا اختیار خلیفہ کی طرف سے اپنے وزیر کو خود فیصلے کرنا کا اختیار دے دیا جاتا ہے۔ دوسری صورت وزارۃ التنفیذ ہے جس میں کسی طے شدہ فیصلے کو صرف عملاً نافذ کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ ماوردی کی رائے میں خلیفہ دوسری نوعیت کی ذمہ داری اہل ذمہ کو بھی دے سکتا ہے۔ (الاحکام السلطانیۃ، ص58، تحقیق: احمد جاد، دار الحدیث القاہرۃ،1427ھ)
بیسویں صدی کے وسط میں برصغیر میں مسلم قومی ریاست کے قیام کا امکان سامنے آیا تو، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، مذہبی مفکرین نے اسلامی حکومت کی رعایا کو مسلمانوں اور ”اہل ذمہ“ میں تقسیم کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ ریاست کا نظم ونسق چلانے اور سیاسی، قانونی اور انتظامی امور سے متعلق فیصلے کرنے کا بنیادی اختیار مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، جبکہ غیر مسلموں کو حکومت کی مشنری میں حصہ لینے کا یا اسمبلی میں رکنیت یا رائے دہندگی کا حق حاصل نہیں ہوگا اور سول سروس، پولیس اور فوج کے محکمے بھی ان کے لیے ممنوع ہوں گے۔ تاہم ان مفکرین (مولانا اسحاق سندیلوی، مولانا مودودی اور علامہ اسد وغیرہ) کے ہاں اس پابندی کی توجیہ عموماً اس نکتے کی روشنی میں کی گئی ہے کہ اسلامی ریاست ایک نظریاتی ریاست ہے جس میں فیصلہ سازی کی ذمہ داری انھی لوگوں کو دی جا سکتی ہے جو ریاست کے نظریے کو اعتقادی طور پر قبول کرتے ہوں۔ چونکہ کسی غیر مسلم سے اسلامی ریاست کے نظریاتی مقاصد کے ساتھ مطلوبہ کمٹمنٹ کی توقع نہیں کی جا سکتی، اس لیے کوئی کلیدی سیاسی یا انتظامی منصب ان کے سپرد کرنا اصولی طور پر درست نہیں۔
یہ اہل فکر اس بحث میں ولایہ کے اصول کا حوالہ نہیں دیتے جو کلاسیکی فقہی روایت میں غیر مسلموں کو کوئی حکومتی منصب سپرد کرنے کی ممانعت کی اصل بنیاد ہے۔ اس تصور کی رو سے اسلام اور مسلمانوں کو کفر اوراہل کفر پر بالادست رکھنا سیاست اسلامیہ کا ایک بنیادی تقاضا ہے، اس لیے مسلمانوں پر کسی غیر مسلم کی کسی بھی نوعیت کی اور بالخصوص قانونی بالادستی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ اس تصور کو کلاسیکی فقہی نظام کے بنیادی تشکیلی عوامل میں شمار کیا جا سکتا ہے اور کسی حد تک اس کے موثر ہونے کا رجحان آج بھی موجود ہے، (مثلاً افواج پاکستان کے سربراہ کے طور پر کسی غیر مسلم کے تقرر کے جواز یا عدم جواز کے حوالے سے ہونے والی ایک حالیہ بحث میں ڈاکٹر مشتاق احمد نے اسی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے یہ استدلال کیا کہ تصور ولایہ کی رُو سے کسی غیر مسلم کو ایسے کلیدی عہدے پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔(محمد مشتاق احمد، قادیانی آرمی چیف اور لبرل ازم کا پائے چوبیں، https://daleel.pk/2016/11/24/18778) تاہم عمومی طور پر اس استدلال کو متروک سمجھا جا سکتا ہے اور دور جدید کے مذہبی مفکرین کے ہاں عموماً اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا جس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ ولایہ کا تصور فقہی طور پر جن اطلاقات کو متضمن ہے، ان کے ساتھ وہ جدید جمہوری ریاست میں کسی طرح قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ اس کا دائرہ صرف حکومتی منصب تک محدود نہیں، بلکہ اس کی رو سے کسی مسلمان کے خلاف غیر مسلم کی گواہی بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم 15534؛ سرخسی، المبسوط26/38؛ ابن نجیم، البحر الرائق 5/169؛ ایضاً،7/95؛ فتاویٰ عالمگیری3/521)
اسی طرح جدید اہل فکر کے ہاں اس بحث میں کلاسیکی فقہا کا پیش کردہ ایک دوسرا اہم مذہبی استدلال بھی مفقود دکھائی دیتا ہے۔ یہ استدلال قرآن وحدیث کے بعض نصوص اور صحابہ کے بعض آثار کے حوالے سے ہے جن میں غیر مسلموں، خصوصاً یہود ونصاریٰ کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے ہوئے ان پر بھروسہ کرنے اور انھیں مسلمانوں کے داخلی معاملات میں رزادان بنانے کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ (دیکھیے: ابو الحسن علی بن محمد ابن الدریہم المصری، منہج الصواب فی قبح استکتاب اہل الکتاب، 57-97؛ ابو امامہ محمد بن علی ابن النقاش، المذمۃ فی استعمال اہل الذمۃ، 257-277، تحقیق: سید کسروی، دار الکتب العلمیۃ بیروت، الطبعۃ الاولی، 1422ھ) دور جدید میں غیر مسلموں کو مطلقاً اسلام دشمن قرار دینے کا تصور، جیسا کہ واضح کیا گیا، چونکہ اپنی جگہ نظر ثانی کے عمل سے گزر رہا تھا، اس لیے معاصر اہل فکر کے استدلالات میں اس کا بھی ذکر ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔
بہرحال قیام پاکستان کے بعد نئی ریاست کی جمہوری بنیادوں اور اقلیتوں کے حوالے سے ملک کی سیاسی قیادت کے زاویہ نظر کے تناظر میں مذہبی اہل فکر نے بھی ایک لچک دار طرز فکر اختیار کیا اور نظام ریاست میں غیر مسلموں کو شریک کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس ضمن میں علامہ محمد اسد نے ماوردی کی رائے سے استفادہ کرتے ہوئے، جو تنفیذی اختیارات غیر مسلموں کو سپرد کر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، یہ کہا کہ اگر غیر مسلموں کو محدود دائرے میں کچھ ذمہ داریاں تفویض کی جائیں جن میں ان کی حیثیت پالیسی ساز کی نہیں، بلکہ اولو الامر کے معاونین کی ہو تو ایسا کرنا ازروئے شریعت اعتراض کا باعث نہیں ہوگا۔ (محمد اسد، اسلامی ریاست اور مسلم طرز حکومت،
ترجمہ: محمد شبیر قمر 75- 76،102) مولانا مودودی نے بھی ایک نرم موقف اختیار کیا اور لکھا کہ ”علماء خود جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے مخصوص حالات اور تاریخی اسباب اس معاملے میں وسعت برتنے کے متقاضی ہیں اور اسلام کے احکام میں حالات کے لحاظ سے اس طرح کی وسعت کے لیے گنجائش موجود ہیں۔ غیر مسلموں کو حکومت میں حصہ دار بنانا قطعی حرام نہیں کر دیا گیا ہے۔“ (تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پرتبصرہ، ص 100، 101)
یہاں علما اپنے اصولی موقف میں جدید جمہوری تصورات کے دباؤ کے تحت کچھ گنجائش پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس کشمکش کے تناظر میں ہمیں علماء اور مذہبی سیاسی قائدین کے موقف میں دو ذہنی کی سی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ جہاں انھیں اصولی اور نظری سطح پر اسلام کے سیاسی تصورات واقدار وغیرہ کی وضاحت کے سوال سے سامنا ہوتا ہے اور وہ جدید ذہن کے مختلف اعتراضات واشکالات کے ازالے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں ان کا موقف
غیر مسلموں کے سیاسی حقوق کے حوالے سے لچک دار ہو جاتا ہے، لیکن جہاں وہ مذہبی سیاست کے نمائندے کی حیثیت سے ریاست اور دیگر سیاسی وفکری طبقوں کے مقابلے میں فریق ہوتے ہیں، وہاں ان کا موقف کافی restrictive ہو جاتا ہے۔ چنانچہ1951ء میں علما کے ایک نمائندہ اجتماع نے 22 دستوری نکات کی صورت میں اسلامی ریاست کے اصولی تصور کی وضاحت پر مبنی ایک دستاویز مرتب کی اور اس میں یہ قرار دیا کہ مسلم وغیر مسلم باشندگان تمام شہری وسیاسی حقوق سے یکساں بہرہ ور ہوں گے، جبکہ صرف ایک ریاستی عہدہ دار یعنی ”رئیس مملکت“ کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہوگا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد متعدد غیر مسلموں کو اہم ریاستی عہدوں پر فائز کیا گیا تھا اور علماء نے احمدیوں کے علاوہ عمومی طور پر غیر مسلموں کو حکومتی مناصب تفویض کرنے کو عملاً قبول کیا اور اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ تاہم1956ء کے دستور میں صدر جمہوریہ کے مسلمان ہونے کی شرط منظور کی گئی تو جمعیت علماء اسلام نے دستور کو مسترد کر دیا اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بتائی کہ اس میں صدر کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط ہے، لیکن وزیر اعظم، کمانڈر انچیف اور جج کے منصب پر مرزائی، عیسائی اور ہندو بھی مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ (ابو عمار زاہد الراشدی، قصہ1957ء کے دستور کا، http://zahidrashdi.org/1247)
22 دستوری نکات کی تدوین میں مولانا مودودی بھی شامل تھے، جس کا مطلب ہے کہ رئیس مملکت کے علاوہ انھیں بھی کسی ریاستی عہدے پر کسی غیر مسلم کی تقرری سے کوئی مسئلہ نہیں۔ جسٹس منیر کی مرتب کردہ انکوائری رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی مولانا نے لکھا کہ ہمارا مطالبہ تو صرف قادیانیوں کے لیے کلیدی مناصب کو ممنوع قرار دینے کا تھا، دوسرے غیر مسلموں کے حوالے سے ہم نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا (تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پرتبصرہ، ص 100)، لیکن1974ء میں پارلیمان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر مولانا نے یہ موقف پیش کیا کہ:
”جس طرح صدارت اور وزارت عظمی کے لیے مسلمان ہونا شرط لازم ہے، اسی طرح بعض دوسرے کلیدی مناصب مثلاً چیف آف دی سٹاف، عدالت ہائے عالیہ کے چیف جسٹس، اسمبلیوں کے اسپیکر، سفرا، صوبوں کے گورنر، پبلک سروس کمیشن کے صدر (چیئرمین) کے لیے بھی مسلمان ہونا قانونا لازم قرار دیا جائے۔“ (مکاتیب سید مودودی، مرتبہ پروفیسر نور ورجان، ص 119)
مذہبی اہل فکر کے موقف پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل کلیدی مناصب کی علامتی اہمیت اور اسلامی ریاست کے نظریاتی تشخص کو محفوظ رکھنے کے تناظر میں اس نوعیت کے امتیازی مناصب کو مسلمانوں کے ساتھ خاص رکھنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک خاص حساسیت اعلیٰ عدلیہ سے متعلق مناصب کے حوالے سے پیدا ہوتی ہے۔ روایتی فقہی تصور میں قاضی کا مسلمان ہونا اس منصب کے لیے اہلیت کی بنیادی شرائط میں شمار کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے منصب قضا پر فائز ہونے کی کوئی گنجایش تسلیم نہیں کی گئی۔ تاہم ”مجلۃ الاحکام العدلیہ“ میں قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۲۹۷۱- ۴۹۷۱) اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے (وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ 6/744) اور پاکستان میں بھی غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرر عملاً قبول کیا گیا ہے۔
تاہم مذہبی فکر کے سامنے اس حوالے سے ایک اہم اور قابل غور سوال یہ ہے کہ آیا کوئی غیر مسلم، اسلامی قانون کی تعبیر یا اس کے اطلاق کی ذمہ داری انجام دینے کا اہل ہو سکتا ہے؟ مذہبی قانون کا فہم اور اس کی تعبیر وتشریح، بہرحال ایک نازک اور حساس مسئلہ ہے، تاہم جلیل القدر اصولی عالم ابو اسحاق الشاطبی کی راے میں اگر کسی مسئلے میں اجتہاد کے بنیادی مقدمات سمجھ لیے جائیں تو ان کی بنا پر ایک غیر مسلم بھی اجتہاد کا عمل انجام دے سکتا ہے۔ (الموافقات4/111) دوسرے لفظوں میں شریعت کے احکام جن واضح عقلی اساسات پر استوار ہیں، شاطبی کے نزدیک ان تک کسی غیر مسلم کی رسائی اور ان کی روشنی میں قانونی واجتہادی مضمرات کا اخذ و استنباط نظری اور عملی اعتبار سے ممکن ہے۔ جدید قومی ریاستوں میں احکام شرعیہ کی تعبیر وتشریح اور قانون سازی کی اساسی ذمہ داری مقننہ اور اس کے معاون اداروں کے سپرد ہوتی ہے، جبکہ عدالتوں کا کام محض قانون کا اطلاق یا بعض جزوی امور میں ان کی تعبیر کرنا ہے۔ یوں یہ الجھن کافی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کچھ سال پہلے اپنی سفارشات میں غالباً اسی نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ راے قائم کی ہے کہ ”قانون کی باقاعدہ تدوین کے بعد جج کے مسلمان ہونے کی شرط غیر ضروری ہے۔ غیر مسلم جج بھی قانون کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد ہر نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔“ (”حدودوتعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ“، شائع کردہ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان، ص 9)
یہی سوال زیادہ حساسیت کے ساتھ ایسے عدالتی مناصب کے تناظر میں زیر بحث آتا ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں قانون کی اعلیٰ سطحی تعبیر وتشریح کے معاملے میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ مارچ 2007میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے معطل کیے جانے پر جسٹس رانا بھگوان داس نے قائم مقام چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تو یہ سوال سامنے آیا تھا کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ کا سربراہ بھی ہوتا ہے جس کی اصل ذمہ داری اسلامی احکام وقوانین کی تعبیر وتشریح اور ان کی بنیاد پر ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لینا ہے۔ اس صورت حال کی ناموزونیت پر مولانا زاہد الراشدی نے یہ یہ استدلال پیش کیا کہ برطانیہ کا بادشاہ ہونے کے لیے اس کا کیتھولک عیسائی نہ ہونا ضروری ہے، کیونکہ وہ ملک کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کا بھی سربراہ ہوتا ہے جو کیتھولک عقیدے کا پیروکار نہیں ہے۔
چنانچہ ”اگر اس نزاکت کا برطانیہ کے نظام میں لحاظ رکھا گیا ہے اور وہاں اس پابندی کا اہتمام ضروری سمجھا گیا ہے تو ہمارے ہاں بھی اس اصولی موقف کے احترام میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا جا نا چاہیے۔“ (ابوعمار زاہد الراشدی، ”عدالتی بحران اور وکلا برادری کی جدوجہد“، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، اپریل 2007، ص4)
اسلامی ممالک کی فوج میں غیر مسلموں کی شرکت
کلاسیکی اسلامی فقہ میں جہاد کا بنیادی مقصد چونکہ اعلاء کلمۃ اللہ ہے اور یہ جنگ ایک مذہبی جذبے کے ساتھ لڑی جاتی ہے، اس لیے اس میں شرکت یا عدم شرکت کے لیے عقیدے کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ فقہاء اس کو یوں تعبیر کرتے ہیں کہ غیر مسلم اپنے عقیدے کے لحاظ سے اصولاً جہاد کی انجام دہی کے ’اہل‘ نہیں، بلکہ ان کا عقیدہ انھیں اسلام او رمسلمانوں کی مخاصمت پر ابھارتا ہے اور اسی لیے قرآن وحدیث میں انھیں مسلمانوں کا دوست سمجھنے اور سیاسی معاملات میں اپنا رازدان بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس تصور کے تحت فقہاء مسلمانوں کی جنگ میں غیر مسلموں سے مدد لینے کو اصولاً ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک اس کی گنجائش مخصوص شرائط کے ساتھ کسی عملی مجبوری اور ضرورت کے تحت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
جدید قومی ریاستوں کے تناظر میں بعض مسلم مفکرین، مثلاً مولانا مودودی نے اس امتیاز کو برقرار رکھنے کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ مسلمان چونکہ ایک اصول اور نظریے کی بنیاد پر جنگ لڑتے ہیں جس کے لیے نظریے سے اتفاق ضروری ہے، اس لیے غیر مسلموں کو اس جنگ میں شریک کرنا گویا ایک غیر اخلاقی عمل ہوگا۔ مولانا لکھتے ہیں:
”اصولی حکومت کو چلانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس اصول پر یقین رکھتے ہوں۔ …… دوسرے لوگ جو اس اصول پر ایمان نہیں رکھتے، اگر حکومت میں شریک کیے بھی جائیں گے تو نہ وہ اس کی اصولی اور اخلاقی روح کو سمجھ سکیں گے نہ اس روح کے مطابق کام کر سکیں گے اور نہ ان کے اندر ان اصولوں کے لیے اخلاص ہوگا جن پر اس حکومت کی عمارت قائم ہوگی۔ …… اگر وہ فوج میں جائیں گے تو ان کی حیثیت کرائے کے سپاہیوں (Mercenaries)جیسی ہوگی اور وہ ان اخلاقی مطالبات کو پورا نہ کر سکیں گے جو اسلامی حکومت اپنے مجاہدوں سے کرتی ہے، اس لیے اصولاً اور اخلاقی اعتبار سے اسلامی حکومت کی پوزیشن اس معاملہ میں یہ ہے کہ وہ فوج میں اہل ذمہ سے کوئی خدمت نہیں لیتی بلکہ اس کے برعکس فوجی حفاظت کا پورا پورا بار مسلمانوں پر ڈال دیتی ہے۔“ (اسلامی ریاست، ص549)
دور جدید میں بعض مصنفین اس امتیاز کو غیر مسلموں کے لیے ”فوجی خدمات سے استثناء“ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں (Muhammad Hamidullah, Muslim Conduct of State, p. 99)؛ محمد تقی عثمانی، اسلام اور سیاسی نظریات) اور ان کی توجیہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جیسے یہ امتیاز مسلمانوں کے کسی مذہبی تصور یا اصول کی رعایت پر نہیں، بلکہ غیر مسلموں کے مذہبی جذبات اور عقیدے کی رعایت پر مبنی ہے۔ تاہم کلاسیکی اسلامی قانون کی یہ توجیہ امر واقعہ کے طور پر درست نہیں ہے۔ فقہاء اس امتیاز کی وجہ غیر مسلموں کے عقیدے کی رعایت نہیں، بلکہ ان کی اس جنگ کے لیے نظریاتی عدم اہلیت اور بطور ایک گروہ کے ان کی مسلمانوں سے وفاداری اور باہمی اعتماد کا فقدان بیان کرتے ہیں اور خود مسلمانوں کے مذہبی قانون نیز عملی مصلحت کے ایک تقاضے کے طور پر انھیں جنگ میں شریک کرنے کو اصولی طور پر غیر مستحسن قرار دیتے ہیں۔ گویا فقہ اسلامی میں اہل ذمہ کو ایک اصولاً عائد ہونے والی ذمہ داری سے ”مستثنیٰ“ نہیں کیا گیا، بلکہ انھیں سرے سے اس ذمہ داری کی اہلیت سے ہی محروم قرار دیا گیا ہے اور اس نکتے کو اہل ذمہ سے ”جزیہ“ کی وصولی کے قانونی جواز کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اہل ذمہ خود جہاد کی صورت میں دار الاسلام کی نصرت کے اہل نہیں اور ان کی طرف سے یہ ذمہ داری مسلمان ادا کرتے ہیں، اس لیے اس نصرت کے معاوضے کے طور پر انھیں بیت المال کو جزیہ ادا کرنا چاہیے۔
بہرحال جدید قومی ریاستوں میں، جیسا کہ واضح کیا گیا، جنگ کسی مذہبی عقیدے کے تحت نہیں، بلکہ وطن کے دفاع کے لیے لڑی جاتی ہے اور ریاست کا شہری ہونے کی حیثیت سے نہ صرف تمام باشندگان وطن کا یہ حق مانا جاتا ہے کہ وہ دفاعی سرگرمیوں اور اداروں کا حصہ بنیں، بلکہ اسے قومی ذمہ داری کا تقاضا بھی سمجھا جاتا ہے۔ قومیت کے جدید تصور کے تحت غیر مسلم بھی دفاع وطن کا اتنا ہی حق رکھتے بلکہ اس کے ذمہ دار ہیں جتنا کہ یہ ذمہ داری مسلمان شہریوں پر عائد ہوتی ہے۔ جنگ میں شرکت کا جذبہ محرکہ مختلف افراد میں مختلف ہو سکتا ہے۔ مثلاً غیر مسلم صرف دفاع وطن کے جذبے سے جنگ میں شریک ہو سکتے ہیں، جبکہ مسلمان اسے ایک دینی وشرعی تقاضا تصور کر کے مذہبی جذبے سے یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور اسے جہاد سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، تاہم اس سے معاملے کی عملی نوعیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسلامی تاریخ کی بالکل ابتدا میں میثاق مدینہ میں یہی صورت اختیار کی گئی تھی، چنانچہ مدینہ کے مسلمان اور یہودی، دونوں بیرونی حملے کی صورت میں مدینہ کے دفاع کے ذمہ دار تھے، حالانکہ یہ معلوم ہے کہ حملے کا خطرہ جس دشمن کی طرف سے تھا، اس کی اصل دشمنی مسلمانوں کے ساتھ تھی اور عقیدہ ومذہب کے اختلاف پر مبنی تھی۔ تاہم چونکہ مدینہ، یہود کا بھی وطن تھا، اس لیے وہ مسلمانوں کے ساتھ عقیدے کے اختلاف کے باوجود اپنے وطن کے دفاع کا پورا حق رکھتے بلکہ اس کے ذمہ دار تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف مذہب کو ایک مشترکہ قومی فریضے کی ادائیگی میں شرکت سے مانع نہیں سمجھا اور یہود کو برابر کی سطح پر مدینہ کے دفاع کی ذمہ داری میں شریک کیا۔ جدید قومی ریاستوں کی نوعیت اس پہلو سے میثاق مدینہ ہی کے مماثل ہے اور یہاں بھی دفاعی اداروں میں شمولیت کے حوالے سے عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر امتیاز کرنا کوئی جواز نہیں رکھتا اور نہ دور جدید کی بیشتر مسلم ریاستوں میں عملاً ایسا کوئی امتیاز روا رکھا گیا ہے۔
فیس بک پر تبصرے