بلوچستان: نیشنل ازم، شورش، مذہب اور ترقی کے نئے رُجحانات

2,027

بلوچستان وسائل ومحل وقوع کے اعتبار سے اہم، اورامن وسیاسی حرکیات کے لحاظ سے پیچیدہ صوبہ ہے۔ لیکن وہاں رفتہ رفتہ کیا تبدیلیاں رُونماہورہی ہیں، اس بارے ذرائع ابلاغ میں بہت کم بات کی جاتی ہے اور قومی سیاست کے ایوانوں میں بھی اس کا ذکر مفقود ہوتا ہے۔ مذہب و فرقے، سرداری نظام، ایرانی عنصر، ترقیاتی منصوبے اور شہرکاری کے متحرک مگرجداجداعوامل جو منظرنامہ تخلیق کررہے ہیں اس کی صورت کیا ہے اور مستقبل پر اس کے کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، زیرنظر مضمون میں محمدعامر رانا نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اس میں تبدیل ہوتے بلوچستان کے اندر اثرانداز عناصر کاجائزہ لینے کے علاوہ عام لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ مضمون انگریزی روزنامہ ’ڈان‘سے ترجمہ کیا گیا ہے

ملک بھر کی شاہراہوں کے کنارے مختلف مذہبی مسالک کی مساجد، مدارس اور دیگر چھوٹی بڑی عمارتیں نظر آنا معمول کی بات ہے۔کراچی سے طورخم، اسلام آباد سے گلگت اور پشاور سے کوٹری تک پھیلے ہوئے مختلف مذہبی ادارے ملک کے اندر مذہبی تمدن کی موجودگی کا واضح مظہر ہیں۔ تاہم ان مساجد و مدارس اور مذہبی مراکز کا طرز تعمیر ایسی مذہبی قوتوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتاہے جو ایک طرح سے قومی ہم آہنگی پیداکرنا چاہتی ہیں۔

مذہبی اداروں کی باقاعدہ تشکیل کے عمل سے استفادہ کرنے والوں کی زیادہ تعدادکم آمدن والے طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ پنجاب میں یہ عمل سماجی ڈھانچے کوواضح طور پر تبدیل کر چکا ہے جب کہ سندھ میں بھی بتدریج ایسی تبدیلی آرہی ہے۔ملک بھر کی طرح ایسی عمارات اب بلوچستان کی بڑی شاہراہوں اور بین الاضلاعی سڑکوں پر بھی دیکھنے کوملتی ہیں۔تاہم بلوچستان میں اس طرح کی تبدیلی کئی وجوہات کی بنا پر زیادہ پیچیدہ بن کر سا منے آتی ہے۔

بلوچستان کے مختلف حصوں میں شہر کاری کا بڑھتا ہواعمل اور متوسط طبقے کے حجم میں اضافہ صوبے میں بڑھتی ہوئی مذہبیت کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے بلوچ افراداور سرحدی و ساحلی علاقوں میں عمانی و ایرانی اثر و رسوخ بھی صوبے کی سماجی و معاشی بنُت کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اداکر رہے ہیں۔ان سب عوامل کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیادوں پر قومی یکجہتی کا ریاستی منصوبہ بھی ایک اہم عامل کے طور پر کام کررہا ہے۔یہ منصوبہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو مذہب کے ساتھ جوڑتے ہوئے مذہبی تشخص کوزبان و نسل سمیت باقی تمام تر شناختوں سے برتر قرار دیتاہے۔ سماج اور ریاست کو مذہبی بنیادوں پر استوار کرنے کا تاریخی عمل اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔

قوم پرست بلوچ محقق نصیر دشتی اپنی ایک کتاب میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں میں بلوچ معاشرے میں قابلِ ذکر تبدیلی رُونما ہوئی ہے۔روایتی سماجی و قبائلی ڈھانچے تبدیل ہوئے ہیں، خانہ بدوشی ختم ہوئی ہے اور بلوچستان کے سماجی و سیاسی اُفق پر متوسط طبقے کا ظہور بھی ہوا ہے۔نصیر دشتی کہتے ہیں کہ اس سماجی تبدیلی کے اثرات قوم پرست قیادت پر بھی پڑے ہیں اور اب قبائلی سرداروں کی بجائے متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوان اس میدان میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔

روایتی مذہبی ڈھانچے، جو کبھی صرف سیاسی و سماجی رسوم و عبادات کی ادائیگی کا مرکز اور معاشرے کے قدامت پسندانہ رُخ کا عکس ہوا کرتے تھے، اب ایک حقیقی سماجی و سیاسی قوت کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے مذہبی ادارتی بندو بست اور اثرو رسوخ کے باعث قوم پرست رجحانات کے حامل بلوچ مذہبی رہنماؤں میں ایک طرح کا احساسِ قوت جنم لے رہا ہے، جبکہ روایتی مذہبی ڈھانچے میں انہیں اس نوعیت کا مقتدر یا اہم مقام حاصل نہیں تھا۔ جمعیت علماے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں میں سے بھی مخصوص افرادہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے پسندیدہ ہیں، تاہم ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ قبائلی سرداروں پر زیادہ اعتماد کرتی ہے کیوں کہ وہ بلوچ علیحدگی پسند رجحانات کے خاتمے کے لیے مذہبی رہنماؤں سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔

تاہم مختلف مذہبی مکاتبِ فکر کے اندر بھی جغرافیائی حوالے سے واضح تقسیم نظر آتی ہے۔کالعدم فرقہ پرست اور عسکریت پسند جماعتیں بھی سیاسی طور پر اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاسی حلقوں سے وابستہ بتاتی ہیں۔اس طرح کے گروہوں کا اثرو رسوخ کوئٹہ، قلات، نصیرآباد، جھل مگسی اور پختون علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس دیگر اضلاع، گوادر، تربت، پنجگور، واشک، چاغی، خاران، کچ، نشکی اور اواران سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں میں قوم پرست رجحانات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان علما کوقوم پرست سیاسی جماعتوں اور قوم پرست مزاحمتی گروہوں کے اثرورسوخ سے نمٹنا ہوتا ہے۔ان مزاحمتی قوتوں میں مذہب پسند بھی ہیں اور بائیں بازو کے نظریات کے حامل گروہ بھی۔پاکستانی بلوچ قوم پرست مزاحمتی تنظیمیں، مثلاً بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی زیادہ تر پاکستان میں فعال ہیں اور بائیں بازو یا سیکولر نظریات کی حامل ہیں۔ایرانی بلوچ مزاحمتی تنظیمیں، بالخصوص جیش العدل مذہب کی طرف میلان رکھتی ہیں۔ یہ جماعت ان اضلاع کے سرحدی علاقوں میں برسرِ پیکار ہے اورایرانی صوبے سیستان کے بلوچوں پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنی مذہبی شناخت کو استعما ل میں لاتی ہے۔

بلوچستان میں سی پیک سے متعلقہ شعبے کے سربراہ اور ماہرِ بشریات حفیظ جمالی کہتے ہیں کہ ”مسئلہ اس قدر سادہ ہے نہیں، جتنا اکثر اوقات سمجھا جاتا ہے۔“ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے وسطی اضلاع خان آف قلات کے دور سے ہی نسبتاً زیادہ مذہبی رجحانات کے حامل رہے ہیں۔ کیوں کہ خان آف قلات ریاستی سطح پر مذہب کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ بعد ازاں افغان جنگ کے دوران بھی یہ علاقے مذہبی اداروں کے پھیلاؤ کی وجہ سے زیادہ متأثر ہوئے۔وہ کہتے ہیں ”تاہم مشرقی اور مغربی علاقے شروع ہی سے مذہب کی طرف کم میلان کے حامل رہے ہیں۔اب جبکہ ان علاقوں میں بھی مساجد اور مدارس کی تعداد بڑھ رہی ہے، یہاں وسطی اضلاع کی نسبت ابھی تک مذہبی اثرو رسوخ کے نفوذ کی رفتار انتہائی کم ہے۔“

جمعیت علماے اسلام(ف) کے مقامی رہنما اور مدرسہ معلم حافظ زبیر احمد کہتے ہیں کہ ”دنیاوی اور مذہبی، دونوں طرح کی تعلیم بلوچ سماج کو بدل رہی ہے۔“ وہ دعویٰ کرتے ہیں مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نہ صرف شرح تعلیم بلند ہورہی ہے بلکہ نچلے متوسط طبقے کی ایک نئی کھیپ بھی جنم لے رہی ہے جو اپنے سیاسی حقوق کے لیے زیادہ حساس ہے۔بلوچستان کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مدرسہ معلمین اور صحافیوں نے یہ بات بتائی کہ بلوچ فضلا مدارس میں مضبوط نسل پرستانہ احساس پایا جاتا ہے اور وہ قبائلی و سرداری نظام کے سخت مخالف ہیں۔

طاقتور قبائلی یا سرداری نظام اپنے آپ کو بلوچ ثقافت و سماج اور سیاسی تمدن کا وارث سمجھتا ہے۔ماضی میں روایتی مذہبی ڈھانچہ سرداری نظام کے ساتھ کسی حد تک ہم آہنگ تھا اور شاذہی ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے کی حیثیت کو چیلنج کیا تھا، لیکن بڑھتی ہوئی مذہبیت کے باعث اب یہ رُجحان بدل رہا ہے۔

اگر فکر کے ان نئے دھاروں کے اثرات کو بلوچستان کی شاہراہوں کے کنارے قائم مذہبی مراکز یا مدارس کی تعداد کے حساب سے ماپنا چاہیں تو انتہائی مایوس کن تصویر سامنے آتی ہے۔مدارس میں چھوٹے بڑے مدارس کی مجموعی تعداد10000 سے زائد ہے۔ایک تخمینے کے مطابق ہر1200سے 1300 افراد کے لیے ایک مدرسہ موجود ہے۔ اس کے برعکس سند ھ اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب 45000 سے 50000 اور10000 سے 12000 افراد کے لیے ایک مدرسہ موجود ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ مدرسہ انقلابی افکار و نظریات کاکوئی نیا مرکز ہے،بلوچستان کے مدارس طالبان کی تنظیم و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرچکے ہیں۔ ان مدارس نے انہیں نہ صرف افرادی قوت فراہم کی بلکہ نظریاتی و سیاسی مدد بھی فراہم کی۔

بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو اُبھارنے میں بھی مدارس کا کردا ر انتہائی کلیدی رہا ہے۔صوبے کا مجموعی سیاسی ماحول،تعلیمی مباحث میں بلوچ قوم پرست نظریات کا غلبہ اور عسکریت پسندی کے خاتمے کی ریاستی پالیسیوں پر غصہ جیسے عوامل کو طلبہ مدارس میں قوم پرستانہ رجحانات کی نمو کا باعث کہا جا سکتا ہے۔جماعتِ اسلامی سے منسلک ایک معروف مدرسہ، مرکزِ اسلامی پنجگور کے مہتمم قاری سیف اللہ کہتے ہیں کہ ”طلبہ کے غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان میں یہ احساسِ محرومی پایا جاتا ہے کہ ریاست نے انہیں تنہا چھوڑدیا ہے“۔ تاہم کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں۔ان کے مطابق مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ تعداد پختونوں پر مشتمل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ”ان میں پائے جانے والے یہ قوم پرستانہ رجحانات قوم پرست سیاسی جماعتوں یا مزاحمتی تحریکات کو کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے، کیوں کہ یہ طلبہ اپنی مذہبی سیاسی جماعتوں اورفرقہ وارانہ تنظیموں کی حمایت کریں گے۔“

مقصد جو بھی ہے، بلوچ قوم پرست مزاحمتی تحریک، جوبائیں بازو کے نظریات کی طرف میلان رکھتی ہے اور بائیں بازو کی عالمگیر انقلابی تحریکوں یاخود اپنے تاریخی پسِ منظر سے متأثرہے، اسے اب اُبھرتی ہوئی قوم پرست مذہبی قوتوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔

بلوچستان میں مذہبی قوم پرستی کا وجود

سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان میں ایسی مذہبی قوتوں کا کوئی وجود ہے جو قوم پرست رجحانات کی مالک ہیں؟ مذہبی تعلیمی ادارے اگرچہ طلبہ کے ذہن سے مکمل طور پر قوم پرست رجحانات کو کھرچنے میں کامیاب نہ ہو پائے ہوں لیکن اتنا ضرور کیا ہے کہ ان کے اندر پاکستان کی دیگر قومیتوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر ربط وتعلق کے احساسات مہیا کیے ہیں۔ایسی تنظیمیں جنہوں نے بلوچ طلبہ کو بڑے پیمانے پر قومی، مذہبی اور سماجی مباحث کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے ان میں تبلیغی جماعت کافی اہم ہے۔الرحمت ٹرسٹ اور جماعۃ الدعوہ جیسی کالعدم دہشت گردتنظیموں نے صوبے بھر میں، بالخصوص مزاحمتی تحریکوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں تک اپنا نیٹ ورک بڑھانے کی ہمت کی۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سماجی رہنما علی بابا تاج کہتے ہیں کہ ”اگر یہ تنظیمیں قومی یکجہتی کی پرچارک ہیں تو انہیں قوم پرستانہ رجحانات میں نرمی لانے کے لیے چند مزید برس درکار ہوں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان میں متوسط طبقے کا حجم مزید پھیلے۔“

تاہم یہ انتہائی اہم سوال ابھی تک تشنہِ جواب ہے۔ ایران میں کام کرنے والی تنظیم جیش العدل کامختصر جائزہ اس سوال کی تفہیم میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

بلوچ علیحدگی پسند اور عسکریت پسند سرحدپار ایران کے خلاف تسلسل کے ساتھ چھاپہ مار کاروائیاں کرتے ہیں جس کے باعث ایرنی صوبہ سیستان کافی عرصے سے ایک شعلے کی مانند بھڑک رہا ہے۔اکتوبر2018ء میں سیستان کے دارالحکومت زاہدان کے جنوب مشرق میں 150 کلو میٹر دُور ایک گاؤں سے 12سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کرلیا گیا۔اس کاروائی کی ذمہ داری سیستان میں سرگرم ایران مخالف سنی عسکریت پسند گروہ جیش العدل نے قبول کی۔بنیادی طور پر ایران میں سرگرمِ عمل ہونے کے باوجود انہیں پاکستانی علاقوں میں رہنے والے بلوچ قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ پاکستان سے بھی کاروائیاں کرتے ہیں۔

جیش العدل کو ایک قوم پرست مذہبی عسکریت پسند گروہ کہا جا سکتا ہے جس کی بنیاد سنی شدت پسند تنظیم جند اللہ  کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی ایران کی جانب سے گرفتاری اور بعد ازاں پھانسی کے بعد رکھی گئی۔جیش العدل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران میں سنیوں اور بلوچوں کے حقوق کے لیے برسرِ پیکار ہے۔اس تنظیم نے سکیورٹی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے دیگر کچھ مطالبات کے ہمراہ ایران میں سنی مسلمانوں اور بلوچوں کو برابر کے حقوق دینے کا مطالبہ بھی کیا۔

اس مطالبے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ جند اللہ کے برعکس ایران میں بلوچ اکثریتی صوبوں کے حقوق کی جدوجہد کررہا ہے، اس کے پیشِ نظر ان علاقوں کی آزادی نہیں ہے۔تاہم زمینی حقیقتیں کوئی اور کہانی کہتی ہیں۔ پنجگور اور نوشکی کے مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ جیش العدل علیحدگی پسند رجحانات کی حامل ہے اور وہ پاکستانی بلوچ گروہوں، بی ایل اے اور بی ایل ایف کی طرح ایران، افغانستان اور پاکستان کے بلوچ علاقوں پر مشتمل متحدہ بلوچستان کے قیام کی داعی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کے نوجوانوں میں اس گروہ کی جانب رغبت پیدا ہوئی اور وہ اس کا حصہ بن گئے۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اکبر نوتے زئی کا خیال ہے کہ ”اس کی وجہ بے روزگاری بھی ہوسکتی ہے۔“ اس تنظیم کا حصہ بننے والوں میں زیادہ تعداد ان سنی بلوچ نوجوانوں کی ہے جو فرقہ وارانہ اورمذہبی سنی تنظیموں سے متأثر ہیں۔جیش العدل کی مرکزی قیادت کی اکثریت ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔اس تناظر میں یہ گروہ ایک بین العلاقائی علیحدگی پسند مذہبی تنظیم کے طور پر سامنے آتا ہے۔

جیش العدل بمقابلہ بلوچ راجی اجوئیو سانگر(BRAS)

جیش العدل اور پاکستان کے دائیں بازو کے نظریات کے حامل بلوچ مزاحمتی گروہوں کے مابین اکثر نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔بلوچ راجی اجوئیو سانگر(براس) بی ایل اے، بی ایل ایف اور بلوچستان ری پبلکن گارڈز(بی آرجی) پر مشتمل اتحادکانام ہے۔پاک ایران سرحدی علاقوں میں براس اور جیش العدل کے مابین مسلح کشمکش اکثر و بیشتر جاری رہتی ہے۔

بی ایل اے اور بی ایل ایف کے لیے ایران کوئی پریشانی پیدا نہیں کرتااور ایران کے اس رویے سے انہیں کافی سہارا ملتا ہے جبکہ براس سے وابستہ باغیوں کا کہنا ہے کہ جیش العدل پاکستان کے نرم رویے اور بعض خلیجی ممالک کی حمایت کے سبب اپنی کاروائیاں کرنے میں کافی سہولت محسوس کرتی ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ جیش العدل کے باعث قوم پرست مزاحمت کمزور پڑرہی ہے۔تاہم جیش العدل میں پاکستان بلوچ نوجوانوں کی موجودگی سے محسوس ہوتا ہے کہ مسئلہ اس قدر سادہ نہیں ہے۔

پاکستانی مزاحمت کاروں کے ایران کے ساتھ کوئی قریبی تعلقات استوار نہیں تھے تو ان گروہوں میں سابقہ جنداللہ کے لیے برداشت کا مادہ پایاجاتا تھا لیکن حالات اب کافی مختلف ہیں۔براس کے حامی چند نوجوانوں کی جانب سے لکھے گئے بلاگز سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ پاکستانی بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان ایران میں سرگر م اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ اتحاد کی بات چل رہی ہے، اگرچہ اس میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے مزاحمت کاروں کی قیادت میں سے بعض ایسے قوم پرست رہنما، جو بلوچ قوم پرست مزاحمت کے سیکولر اور بائیں بازوں کے نظریات سے تعلق پر فخر کرتے ہیں، ان کے نزدیک جیش العدل کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بلوچ مزاحمت کاروں کی قیادت کرے۔ ان کے خیال میں یہ گروہ اپنی جدوجہد کو مذہبی رنگ دے کربلوچ مزاحمتی تحریک کی قوت کو تقسیم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ان کا موقف ہے کہ ایرانی حکومت درحقیقت سنی مخالف نہیں ہے،وہاں اہلِ سنت مساجد و مدارس فعال ہیں، اہلِ سنت کی کتب ایران میں چھپ رہی ہیں،اہلِ سنت مسلمان ایرانی مجلسِ قانون ساز کے رکن بھی ہیں۔اپنے اس موقف کی حمایت میں وہ مولانا عبد الحمید کا نام پیش کرتے ہیں جو ایرانی بلوچستان کی سنی کونسل کے سربراہ ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ایرانی حکومت دراصل نسلی اقلیتوں، یعنی بلوچوں، عربوں اور کردوں کے خلاف ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت ابھی تک بلوچ اکثریتی صوبہ سیستان میں بلوچ ثقافتی مرکز کا قیام عمل میں لائی ہے نہ وہاں بلوچی زبان میں کتب شائع ہو سکتی ہیں۔ایک سیکولر بلوچ ایرانی انتخابات میں حصہ تک نہیں لے سکتا۔یہ نقطہِ نظر ان مزاحمت کاروں کا مقبول ترین نقطہِ نظر ہے، لیکن کئی ماہرین کی رائے میں ایران کی جانب سے بلوچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی بنیاد مذہبی ہے اور جیش العدل اسی کے جواب میں سامنے آئی ہے۔

اگرچہ ایران کے حوالے سے براس میں شامل گروہوں کا نقطہِ نظر مثبت نہیں ہے اور وہ آزاد بلوچستان کے علمبردار ہیں،لیکن ایران کی جانب سے انہیں ملنے والی فوجی حمایت انہیں ایران پر انحصار کرنے پر مجبور کیے رکھتی ہے۔اس طرح ایران ان مزاحمتی گروہوں کو چھتری فراہم کررہا ہے اور انہیں ایران مخالف سنی گروہوں کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔مقامی افراد کے مطابق براس قیادت کے اہلِ خانہ کو ایرانی فورسز پناہ اور تحفظ فراہم کرتی ہیں جس کے بدلے میں یہ پاکستان میں ایران کے کہنے پر جیش العدل کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں اورایرانی فوج اور ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کا پتہ فراہم کرتے ہیں۔

بلوچستان کے ذِکری

ذِکری مسئلہ بلوچستان کے پیچیدہ مذہبی منظر نامے کا ایک اور مظہرہے۔ صدیوں سے ذکری (ایک فرقہ) ضلع کچ کے علاقے تربت میں واقع کوہِ مراد میں عبادت کررہے ہیں۔ ہر سال 27 رمضان المبارک کو اس چھوٹے سے مسلمان فرقے کے افراد مزار میں ایک روحانی محفل کا انعقاد کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ لوگ مکران کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی زیادہ تعداد ضلع خضدار کے علاقوں ماشکے اور گریشا، مکمل اواران اور ضلع سبیلا کے کئی حصوں میں آباد ہے۔کئی تاریخ نگاروں کا کہنا ہے کہ ذکری بلوچ نسل سے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صدیوں پہلے ایران کے راستے فاطمی مصر سے آئے تھے اور یہاں آکر مکران کی ساحلی پٹی میں آباد ہو گئے تھے۔ ان کی تاریخ جو بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ ذِکری بلوچستان سے کافی لگاؤ رکھتے ہیں اور قوم پرست جذبات کے حامل ہیں۔

عربی لفظ ذِکر کی نسبت سے یہ دیگر مسلمانوں کی نمازِ پنجگانہ کی بجائے جونماز اداکرتے ہیں، اسے ذِکری کہتے ہیں اور اسی نام سے اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی مستند معلومات میسر نہیں ہیں کہ ان کی کل تعداد کیا ہے، تاہم ایک تخمینے کے مطابق ان کی کل آبادی 6سے 7 لاکھ کے درمیان ہے جن میں سے ایک لاکھ کے قریب افراد کراچی میں رہائش پذیر ہیں، جبکہ اندرون سندھ میں بھی ان کی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے۔ بلوچ کمیونٹی برسوں سے نمازی بلوچوں (سنی بلوچوں) کے ساتھ پر امن طریقے سے رہتی آرہی تھی، یہاں تک کہ مذہبی قتل و غارت کا مکروہ سلسلہ شروع ہوگیا۔

جب حکومت نے سلفی مکتبِ فکر کے مذہبی رہنماؤں کو مکران میں رہنے کی اجازت دی تو ذکریوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز شروع ہو گیا۔بعد ازاں کراچی کے دیوبندی رہنما اور پنجاب کے فرقہ وارانہ گروہوں نے بھی اس مہم میں حصہ لیناشروع کردیا۔1978ء میں جنرل ضیاء الحق نے بطور صدرِ مملکت اس علاقے کادورہ کیا اور مقامی مذہبی رہنماؤں سے مشاورت کی، اس کی تفصیلات مولانا عبد الحق نے اپنے کتابچہ”ذکری مسئلہ“ میں نقل کی ہیں۔وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’علما‘ نے ضیا الحق سے مطالبہ کیا کہ وہ ذکریوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں، جس پر ضیاء الحق نے یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ مستقل حل کے لیے اس مسئلہ کو عدالتِ عظمیٰ میں بھجوائیں گے۔جنرل ضیا ء نے مذہبی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اس مسئلہ کے بارے میں عوام کوآگاہی فراہم کریں۔

مکران اور بلوچستان میں ملاؤں نے عام مسلمانوں کو بھی اس بات پر اُکسانے کی کوشش کی کہ وہ ذِکریوں کے ساتھ سماجی تعلقات محدود کردیں اور انہیں معاشرتی طور پر تنہا ئی کی طرف دھکیل دیں۔ایک مذہبی جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت نے سپاہِ صحابہؓ کے ساتھ مل کرٹھیک اسی دن شہر میں کوہِ مراد سے کچھ دور جلسہ منعقد کروایا جس دن وہ عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان مذہبی رہنماؤں نے پاکستان بھر سے اپنے کارکنوں کو وہاں مدعو کیا تاکہ ذِکریوں کو ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے روکا جاسکے۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران مقامی حکومت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی مذہبی گروہ عبادت کے وقت ذِکریوں کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہ کرے۔ لیکن یہ قدم اٹھانے میں حکومت نے بہت دیر کردی۔بلوچوں کے مابین اس وقت ایک واضح فرقہ وارانہ خلیج جنم لے چکی ہے۔ذِکری ابھی تک دہشت گرد گروہوں اور مذہبی جنونیوں کے نشانے پر ہیں۔2014ء میں مکران کے ایک ذکرخانہ میں 6 ذکری افراد کو قتل کردیا گیا تھا، اسی برس بلوچستان کے ضلع خضدار میں ذکریوں کی ایک بس پر حملہ کردیا گیا جس میں 7 افراد زخمی ہو گئے تھے۔2016ء میں کچ کے علاقے میں ایک ذکری روحانی رہنما کو قتل کردیا گیا تھا۔

ذکریوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں ان کے سیاسی نظریات کی بنا پر نشانہ بنایا جاتاہے کیوں کہ وہ مضبوط قوم پرست نظریات کے حامل ہیں اور صوبے میں قوم پرست جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔مولانا عبدالحق اپنے کتابچہ میں بھی اسی بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ذِکریوں کے سیکولر قوم پرست سیاسی نظریات کے باعث حکومت کو اس مسئلہ میں دلچسپی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس صورتِ حال کے ردِ عمل میں کئی ذِکری نوجوان مزاحمتی گروہوں، بالخصوص بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچ مزاحمتی گروہوں میں ذکریوں کی شمولیت ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستانی سیکولر قوم پرست مزاحمتی تنظیموں اورایران کی قوم پرست مذہبی تنظیموں کے مابین شراکت کاری کا عمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپایا، باوجود اس کے کہ ان تمام گروہوں میں بلوچ قوم پرستی کے مشترک رجحانات پائے جاتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی بلوچستان کے امیر عبد الحق ہاشمی اسی نقطہِ نظر کی توثیق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ذکری نوجوانوں میں غم و غصے کے جذبات تو پہلے سے ہی موجود تھے، لہٰذا جب حالیہ مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو اتو وہ فوراً اس کا حصہ بن گئے۔وہ کہتے ہیں کہ ”ذِکری ہی شاید ایک ایسا عامل ہے جو سیکولر قوم پرستوں اور مذہبی قوم پرستوں کے مابین تعاون اور شراکت کاری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔“بی ایل اے اور بی ایل ایف کے بیشتر اہم کمانڈر اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ذِکریوں کو شناخت کے بحران کے ساتھ ساتھ اب سکونت اور رہائش کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔حالیہ دنوں میں ذِکری فرقے کو میگا منصوبوں کے سبب اپنی زمینوں اور گھروں کے انہدا م اور ان پر قبضے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔صحافی اکبر نوتے زئی کہتے ہیں کہ کئی ذِکریوں کو خطرہ ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل سڑکوں کی تعمیر سے انہیں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنا پڑے گی، کیوں کہ اس کمیونٹی کے لوگوں کی اکثریت ان جگہوں پر آباد ہے جہاں سے اقتصادی راہداری منصوبے کی شاہراہیں اور سڑکیں گزرنی ہیں۔ایک طرف گوادر سے لے کر تربت کے مشرق میں حوشاب(M8)، اور دوسری طرف گوادر سے لے کر لسبیلا اور اواران، M8 تربت کو حوشاب سے ملاتی ہے جہاں کوئی بھی باآسانی دیکھ سکتا ہے کہ ذکریوں کی اچھی خاصی تعداد سکونت پذیر ہے۔جن علاقوں میں ذکریوں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے، ان میں گوادر اور گردو نواح، تربت شہر، کساک،ککن، شاہ راک،شاپوک، سمی، کرکی، حوشاب اور ڈنڈیر و کوہلوا کے کچھ حصے شامل ہیں۔

فرقہ واریت کا جال

مشرقی و مغربی بلوچستان کی منڈیا ں اوربازار ایرانی اشیا اور ایرانی پٹرو ل ڈیزل سے اٹے پڑے ہیں۔ایران سے درآمد شدہ اشیا نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب اور سندھ کے سرحدی قصبوں کے بازاروں میں چھائی ہوئی ہیں۔نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹراسحق بلوچ کہتے ہیں کہ”سرحدی قصبے ایران سے تجارت کے بغیر نہیں رہ سکتے اور یہ تجارت سیاسی فائدے کے لیے استعمال کی جاتی ہے“۔ایران کو جب مذہبی حمایت میسر نہیں آسکتی تووہ معاشی ترغیب کو بطور آلہ استعمال کرتا ہے۔سرحدی علاقوں میں رہنے والے کئی بلوچ ایران اور پاکستان کی دوہری شہریت کے حامل ہیں اورکئی افراد کوپٹرول اور دیگر اشیاے ضروریہ کی تجارت اور کاروبار کے لیے سرحدی اجازت نامے جاری کیے گئے ہوتے ہیں۔

پاکستانی بلوچوں کے ساتھ تجارت کی مدد سے منڈی میں معاشی اجارہ داری قائم کرنا جہاں ایران کے لیے انتہائی آسان ہے، وہاں مذہبی حوالے سے اپنے مفادات کا حصول انتہائی مشکل ہے کیوں کہ اطراف کے بلوچ مزاحمت کار سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ایران نے کوشش کی تھی کہ وہ سرحدی علاقوں میں شیعہ اسلام کی نشرو اشاعت کرے لیکن سنی عسکریت پسند گروہوں اور شدت پسند تنظیموں کی جانب سے شیعہ آبادی کو نقصان پہنچانے کے خوف کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ایران کے حامی شیعہ علما تبلیغی مشن پر بلوچ علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔کوئٹہ کے معروف مذہبی اسکالر اکبر زیدی کہتے ہیں کہ مکران میں ایک بھی شیعہ نہیں ہے، جبکہ خضدار اور گرد ونواح غیر بلوچ شیعہ خاندانوں کا مسکن ہے لیکن فرقہ وارانہ قتل و غارت کے پیشِ نظر یہاں کی آبادی کوکوئٹہ بلا لیا گیا جن میں سے کافی تعداد بعد ازاں پنجاب میں آگئی اور یہیں رہائش اختیار کر لی۔

دوسری طرف سنی علما اورفرقہ وارانہ مذہبی گروہ بھی ایرانی اثرو روسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس صورتِ حال سے صوبے کے اندر فرقہ وارانہ خلیج میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔کوئٹہ، قلات اور مستونگ کے اضلاع فرقہ وارانہ تنظیموں اور عالمی دہشت گرد تنظیموں کے دھڑوں کی موجودگی کے سبب انتہائی حساس قرار دیے جاتے ہیں۔ابھی تک یہ گروہ ایران مخالف سرگرمیوں کے لیے جیش العدل کے ساتھ مضبوط شراکت کاری نہیں رکھتے، لیکن باقاعدہ طور پر اگرا یسا ہو جاتا ہے تو اس سے صوبے میں فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہو جائے گی۔ بلوچ اکثریتی اضلاع میں چونکہ فرقہ وارانہ تقسیم کی شکل کافی مختلف ہے، لہٰذا اس طرح کی سنی شیعہ تقسیم صوبہ سندھ کے قریبی اضلاع اور کوئٹہ کو بری طرح متأثر کرے گی۔

کئی بلوچ قوم پرست رہنما ہنوز اس بات سے انکاری ہیں کہ مذہبی ادارے بلوچ سماج میں تبدیلی کا موجب بن رہے ہیں۔ڈاکٹر اسحق بلوچ کہتے ہیں کہ ”بلوچ سیکولر پیدا ہوتے ہیں، ان کی عورتیں زیادہ آزاد اور پر اعتماد ہیں اور اپنے گھروں کے اندر اور باہر کام کررہی ہیں۔“جب ان کی توجہ اس جانب دلائی گئی کہ جمعیت علماے اسلام (ف) بلوچستان سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے انتخابات جیت جاتی ہے، جواباً ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف  جنرل ضیا ء کی اسلامیانہ پالیسیوں کی بدولت ممکن ہو پایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مولوی بلوچ سماج میں کوئی بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

تاہم یہ بات حقیقیت ہے کہ مذہب صوبے کے سماجی و سیاسی تمدن کو بدل رہا ہے اور ریاست بھی متحارب گروہوں کو ملانے کے لیے مذہب کو بروئے کارلانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دیگرطبقات کو اپنے ساتھ کیوں نہیں ملاتی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ”اسٹیبلشمنٹ مذہبی کرداروں کو استعمال کرنے میں سہولت محسوس کرتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ وہ اس فن میں طاق ہوچکی ہے“۔لیکن باقی ماندہ پاکستان پہلے بھی اس بات کا تجربہ کر چکا ہے کہ جب مذہبی طبقہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے طفیل قوت حاصل کرلیتا ہے تومقتدر اشرافیہ پر دباؤ ڈالنا شروع کردیتا ہے۔

سماجی اتصال و ہم آہنگی کا عمل انتہائی پیچیدہ اور سست رو ہے۔اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا، کوئی بھی فرد اس کا محض اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھناباقی ہے کہ اس عمل سے بلوچ نوجوانوں میں قوم پرست رجحانات باقی ہیں یا ختم ہو چکے ہیں۔لیکن ایک بات مسلم الثبوت ہے کہ کسی بھی قسم کی نظریاتی خورا ک ایک جامع سماجی معاہدے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

اُمید کی شاہراہیں

نئی تعمیرشدہ گوادرپنجگور ہائی وے پہ سفر کرتے ہوئے جسے M-8 کے نام سے بھی جاناجاتا ہے،مسافر کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی ہالی وڈفلم میں ہے۔ اس میں مغربی فلم کی منظرنگاری کے تمام اجزاء موجود ہیں۔ تاحدنگاہ پہاڑ،ویران صحرا،تپتا ہوا سُورج اور پس منظرمیں تشدد کاشائبہ۔ ماسوائے اس کے کہ اِس منظرمیں مسافر گھوڑوں پر سوار ہونے کے کاروں پر سفر کرتے ہیں، اور بخلاف اُنیسویں صدی کے امریکا کے ہم آج کے بلوچستان میں ہیں۔

سڑک کنارے لگے نئی بننے والی رہائشی کالونیوں کے تشہیری بورڈبدلتے ہوئے بلوچستان کی کہانی بتا تے ہیں، یا پھر کم ازکم شہرکاری کی خواہش کی نشاندہی تو کرتے ہی ہیں۔ M-8 کے ساتھ بنائی گئی آرام گاہوں پرنوجوان خو انچہ فروش تربو زکے بیج اور انڈے بیچ رہے ہیں۔ پنجگور بائی پاس پر واقع ایک ریستوران کے مالک نے بتایا کہ یہ شاہراہ آس پاس کے کم آمدنی والے افراد کومعاشی مواقع فراہم کررہی ہے۔اس نے کہا کہ ”پنجگور میں انڈے بیچنے والا ایک لڑکا سردیوں کے دوران ایک دن میں درجن بھر انڈے بیچ لیتا ہے، اگر ایک چھوٹی فیملی میں دو خوانچہ فروش لڑکے ہوں تو اس سے اس خاندان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور گھر والوں کا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے“۔سڑک کنارے بنی آرام گاہیں بھی چھوٹے پیمانے کے کاروبار، مثلاً زراعت اور دستکاری وغیرہ میں بہتری کا کافی اچھا موقع فراہم کرتی ہیں۔

بلوچستان کے جنوبی اور ساحلی علاقوں میں نئی شاہراہوں کی تعمیر کا منصوبہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ زمینی رابطے میں بہتری لائی جائے اور شہرکاری کے عمل کو فروغ ملے۔تاہم ان شاہراہوں کی بدولت دیہی آبادی نقل مکانی کر کے ان کے گردو پیش کے علاقوں میں آکر آباد ہو رہی ہے۔پنجگور اور بسمہ انہی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ پھیل رہے ہیں۔مکران کوسٹل ہائی وے (قومی شاہراہ 10)اور M-8، جو بالترتیب 2004ء اور 2016ء میں مکمل ہوئیں، ان دونوں شاہراہوں نے جنوبی بلوچستان کی معیشت اور سماجی و سیاسی صورتِ حال پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ان شاہراہوں کے قریبی علاقوں میں ایک نیا متوسط طبقہ جنم لے رہا ہے، جو شہرکاری کے عمل میں نمایاں طور پر حصہ لے رہاہے۔گوادر سے تعلق رکھنے والے صحافی بہرام بلوچ کہتے ہیں کہ ”ساحلی شاہراہ کے بننے سے نہ صرف ساحلی علاقوں کے مابین زمینی رابطے میں بہتری آئی ہے بلکہ اس نے تجارت و کاروبار کے مواقع کو بھی مہمیز دی ہے“۔

یہ صورتِ حال اس تصور کے بالکل برعکس ہے جس کے مطابق خانہ بدوش بلوچ، جو زراعت اورمویشی پالنے جیسی معاشی سرگرمیوں پر انحصار کیا کرتے تھے، ان کے نزدیک جنگ کے علاوہ کوئی بھی دوسرا کام کرنا اپنے مقدس قبائلی مرتبے کی توہین تھی۔یہ تصور بالکل لغو اور ان کی کاروباری و تجارتی صلاحیتوں سے صرفِ نظر کرنے کا باعث ہے۔پنجگور کے ایک ریستوران مالک اور پھل فروش نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے یہ چھوٹے چھوٹے کاروبار ان کے خاندانوں میں اس قدر آسودگی لائیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم نجی اسکولوں میں داخل کرانے کے قابل ہو سکیں گے۔تاہم نئے کاروباری و تجارتی مواقع سے ان کو اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں مدد ملی ہے۔

سڑک پر گڑھے

نئی تعمیر شدہ M-8، جو ثوراب میں گوادر کوتربت، حوشاب، پنجگور اور بسیمہ کے راستے پرانی آر سی ڈی شاہراہ سے ملاتی ہے، 2007 ء سے زیرِ تعمیرتھی، سکیورٹی حالات اور مالی مشکلات کے باعث اس کی تکمیل 2016ء میں آکر ہوئی۔اس شاہراہ کی تعمیر کے دوران پنجاب اور سندھ کے درجنوں مزدوروں نے مزاحمتی حملوں میں اپنی جانیں گنوائی ہیں۔

اب اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ آس پاس آباد لوگوں کے لیے معاشی سرگرمیوں کے نئے راستے کھلے ہیں، تاہم ایسے صوبے میں جہاں ترقیاتی منصوبوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی تاریخی روش پائی جاتی ہے، اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اس منصوبے کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ شاہراہ، سی پیک ہائی وے کہلاتی ہے، جبکہ حقیقتاً یہ شاہراہ چینیوں نے بنائی ہے نہ ہی اس کا سی پیک منصوبوں سے کوئی تعلق ہے، بلکہ اس کی تعمیر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے کی ہے اور یہ شاہراہ آر سی ڈی ہائی وے کے ذریعے مشرقی بلوچستان کو کوئٹہ اور دیگر پاکستان سے ملاتی ہے۔یہاں کے مقامی افراد میں سے بعض کا ماننا ہے کہ چین اس شاہراہ کوگوادر سے ژن جیانگ تک تیل اور دیگر تجارتی اشیا کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لائے گا۔ان کو خطرہ ہے کہ بھاری مال بردار گاڑیوں کی آمد ورفت کی وجہ سے یہ ہائی وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور اس پر مقامی افراد کے سفر کو مشکل بنا دے گی۔حالیہ بارشوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا، صرف دو برس قبل مکمل ہونے والی شاہراہ مختلف جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ گئی اور مقامی افراد کے ذہنوں میں یہ خدشہ مزیدگھر کر گیا کہ بڑی مال بردار گاڑیاں تو اس شاہراہ کا بھرکس نکال دیں گی۔دیگر افراد کا کہنا ہے کہ یہ سڑک معیاری بنی ہوئی ہے، لیکن صرف ایک روڈ ہونے کے باعث جب پانچ دس بڑی گاڑیوں کا قافلہ اس پر سے گزرے گا تو سڑک بند ہوکررہ جائے گی۔لیکن یہ ساری باتیں تو تبھی معلوم پڑیں گی جب شاہراہ پر بوجھ پڑے گا۔  تاہم یہ صرف مقامی افراد نہیں ہیں جنہیں ان ترقیاتی منصوبوں سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔

ایک شہری بلوچستان کا خواب

پاکستان کی سول اور ملٹری انتظامیہ ایک شہری بلوچستان کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے، لیکن یہ خواب دیکھنے کی دونوں کی وجوہات الگ ہیں۔سول انتظامیہ سمجھتی ہے کہ شہر کاری کی بدولت صوبے میں بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کافی سہولت پیدا ہو جائے گی۔ نیم شہری، قصباتی اور خانہ بدوش بلوچستان میں یہ کام انتہائی کٹھن ہے۔ دوسری طرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ شہرکاری بلوچ مزاحمت کے علاج میں ممد ومعاون ثابت ہو گی۔

تاہم اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے تاحال کچھ زیاد ہ کام نہیں کیا گیا۔ اگرچہ اس مقصد کے لیے شہری تنظیم و ترقی کے شعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن ایک منصوبہ بند شہری پھیلاؤ کے لیے فی الحال کوئی فریم ورک سامنے نہیں آیا۔پالیسی ساز حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کام میں تاخیر کی وجہ مقتدر اشرافیہ کے مفادات بن رہے ہیں کیوں کہ ان میں سے بعض کے مفادات بلوچستان کی غیرر سمی معیشت سے وابستہ ہیں۔لیکن ایک بات قابلِ غور ہے کہ اس وقت صوبے میں بے ہنگم شہر کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے جو مستقبل قریب میں مسائل کا باعث بن سکتا ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ وقت پر شہرکاری کی جامع منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچائے۔

بلوچستان میں ایک عمومی تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ صوبے بھر میں غیر منظم شہرکاری کا رجحان قحط سالی اور مزاحمتی تحریکوں کی وجہ سے جنم لے رہا ہے۔اس دفعہ بلوچستان میں بارشوں کے طویل سلسلے سے صوبے بھر میں اطمینان کی لہر دوڑی ہے اور مقامی افراد کا اندازہ ہے کہ کنوؤں او ر جوہڑوں میں محفوظ پانی کا ذخیرہ آئندہ چند ماہ تک کی ضرورتیں پوری کرنے میں مددگارثابت ہوگا۔لیکن جنوبی بلوچستان میں 2013ء سے 2018ء کے درمیان بارشوں میں 74 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اس صورتِ حال نے پانی کی تنظیم، زراعت، لائیو اسٹاک اورصحت کے شعبوں کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک ریلیف اسسمنٹ کے مطابق چاغی، نوشکی، خاران اور واشک کی 35 فیصد آبادی گوادر، تربت، کوئٹہ، پنجگور اور قلات کی جانب نقل مکانی کر چکی ہے۔یہ نقل مکانی مستقل بھی ہے اور عارضی بھی۔جو لوگ مویشی بانی کی صنعت سے وابستہ ہیں، وہ حالات موافق ہو جانے پر اپنے آبائی علاقوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ تاہم شہروں میں صحت اور تعلیم کی بہتر سہولیات کئی مہاجرین کویہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پر آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

حالیہ مزاحمتی تحریک کے باعث بھی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو ا ہے، لوگ کھیڑوں سے نکل کر دیہاتوں اور دیہاتوں سے نکل کر شہروں کا رخ کررہے ہیں۔بہرام بلوچ کہتے ہیں کہ مزاحمت کی وجہ سے نقل مکانی کی واضح لہر پیدا ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ”عدمِ تحفظ کے احساس کی بنا پر لوگ چھوٹے قصبوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔تاہم وہ ان شہروں کے معیارِ زندگی اور سہولیات کی موجودگی و عدم موجودگی کے مدِ نظر شہروں میں مستقل سکونت اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔“

تربت: شہرکاری کا نیا مرکز

رئیل اسٹیٹ کاروبار کے حیران کن حد تک بہترین مواقع فراہم کرنے والے شہروں میں گوادر کے ساتھ اب تربت کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔تربت میں رئیل اسٹیٹ کاروبار نہ صرف مکران، بلکہ دیگر علاقوں کے کاروباری حضرات کوبھی یہاں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کر چکا ہے۔اس صورتِ حال نے شہر بھر کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔اِن دنوں تربت شہربلوچ قصبوں میں شہرکاری کی علامت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔

تربت شہر اب آگے بڑھ رہا ہے۔ہائی وے پر تربت یونیورسٹی کی خوبصورت عمارت اور نئی رہائشی کالونیوں کے بل بورڈز شہری پھیلاؤ کی نشاندہی کرتے ہیں جو ملحقہ علاقوں کے سینکڑوں افراد کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔تربت یونیورسٹی سے الحاق شدہ 5 ڈگری کالج پنجگور،اواران اور گوادر کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کررہے ہیں۔تربت یونیورسٹی کے علاوہ مکران میڈیکل کالج، چھوٹے ایلیمنٹری کالجزاورتعلیم و صحت کے دیگر نجی و سرکاری اداروں نے تربت کو کوئٹہ کے بعد بلوچستان کا دوسرا بڑاشہری مرکز بنا دیا ہے۔یہ سہولیات پنجاب اور سندھ کے بڑے شہروں جتنی نہیں ہیں لیکن اس عمل کے سبب اب یہاں کے لوگ ملازمتوں اورتعلیم کے لیے خود کفیل ہیں، انہیں اس کے لیے کراچی یا کوئٹہ نہیں جانا پڑتا۔

ان ساری تبدیلیوں کا سہرا سابق وزیرِا علیٰ بلوچستان داکٹر عبد المالک بلوچ کو جاتا ہے جنہوں نے فنڈز کا رُخ علاقے کی طرف موڑنے اور نئے شہروں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں دلچسپی لی۔تربت کے سیاسی کارکن، عبد الحمیدبلوچ کہتے ہیں کہ ”مکران کے چھوٹے قصبوں میں بڑھتے ہوئے عدمِ تحفظ اور تربت میں تیزی سے جاری معاشی سرگرمیوں میں بڑھوتری کی وجہ سے لوگ تربت شہر میں رہائش اختیار کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔اگر گوادر بھی تربت کی طرح آگے بڑھتا ہے تو یہ دونوں شہر اس قابل ہو جائیں گے کہ پورے بلوچستان کی نہ سہی، صوبے کے مغربی و جنوبی حصوں کی تقدیر بدل کر رکھ دیں۔نیشنل ہائی وے30 کے قریب واقع پنجگور اور بسیمہ، آہستہ سہی مگر تربت کی پیروی کررہے ہیں اور یہ دونوں قصبے بھی بڑے شہری مراکز میں تبدیل ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

تربت جنوبی بلوچستان کے لیے شہری تبدیلی کے ایک نمونے کے طور پر سامنے آیا ہے،اس مقام تک شہر کو پہنچانے میں اپنی رضا مندی یا مجبوری، کسی بھی طرح سے نقل مکانی کرکے یہاں آکر بسنے والے مہاجرین کا بھی حصہ ہے۔یہ تبدیلیاں شہر میں ایک شہری ثقافت کو جنم دے رہی ہیں اور حکومت سے اس بات کا تقاضہ کررہی ہیں کہ وہ صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات اور معاشی مواقع کی فراہمی کا موزوں بند وبست کرے۔مکران کے علاقے میں آنے والی یہ تبدیلی صوبے میں بڑے پیمانے پر سماجی، معاشی اور سیاسی کایاکلپ کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں مکران کے اندرپہلے ہی زراعت اور مویشی بانی جیسی قبائلی و روایتی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر چھوٹے موٹے کاروبار اور تجارت وغیرہ کے لیے گنجائش پیدا ہو چکی ہے۔طبقاتی تقسیم سے بالاتر سماج میں اب نچلے متوسط طبقے کی ایک قابلِ ذکر تعداد جنم لے رہی ہے، جس کی اخلاقی قدر یں اور معیارات روایتی بلوچ سماج سے کسی بھی طرح ہم آہنگ نہیں ہیں۔

امریکا میں مقیم بلوچ صحافی ملک سراج اکبر کا یقین ہے کہ سکیورٹی کی دگرگوں صورتِ حال اورسیاسی تناؤ کے باوجود، بلوچستان میں ایک بڑی سماجی تبدیلی دبے پاؤں سرایت کررہی ہے۔لوگ اب اپنے آباء کی نسبت بہت بہتر جگہ پر رہ رہے ہیں: وہ تعلیم یافتہ ہیں، زیادہ روپیہ کما رہے ہیں اور اچھے طرزِ زندگی سے حظ اُٹھا رہے ہیں۔وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”ان تبدیلیوں کے لانے میں شہرکاری کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس سے لوگوں کو صحت اور رہائش کی بہتر سہولتیں میسر ہوئی ہیں، لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے، اور وہ بہتر زندگی گزاررہے ہیں۔ سیاسی کارکن اس مشاہدے کو معلوم نہیں کس نظریے سے دیکھیں گے، وہ اسے پاگل پن سمجھیں یا جو بھی، لیکن یہ بات حقیقیت ہے کہ خالصتاً معاشی و شماریاتی زاویے سے دیکھا جائے تو یہ ایک کامیاب داستان ہے۔“

اس نقطہِ نظر سے مختلف رائے بھی اس علاقے میں پائی جاتی ہے کہ شاہراتی نظام میں ترقی اور سڑکوں کی تعمیر سے مزاحمت کاروں کو بھی آمد ورفت اور کاررائیاں رُو بہ عمل لانے میں سہولت ہوئی ہے۔گذشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملے زیادہ تر مکران ساحلی شاہراہ اور M-8 کے آس پاس کیے گئے ہیں۔اس طرح دہشت گردوں کومختلف ہدف مل گئے ہیں جن میں سکیورٹی چیک پوسٹس، فوجی قافلے، پُل، مزدور اور دیگر شہروں و ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔گوادر میں اقتصادی راہداری منصوبے کو سکیورٹی خطرات بھی لسبیلا، اواران اور کچ جیسے ہمسایہ اضلاع اور مکران کی ساحلی پٹی کی جانب سے لاحق تھے۔ تاہم عوام میں جو تأثرغالب ہے وہ زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے۔ یہاں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ نئی

شاہراہوں کی تعمیر سے نہ صرف دُور افتادہ اور نظر انداز شدہ علاقوں سے رابطے اور وہاں تک سفر میں سہولت ملی ہے بلکہ سڑکو ں اور شاہراہوں کے اس سلسلے نے بلوچ مزاحمتی عناصر کو دُوردرازدیہی علاقوں کی طرف دھکیلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایران کا مسئلہ

بلوچستان اس وقت غیر قانونی طور پردرآمد شدہ، نان ڈیوٹی پیڈ اشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال ہے۔ان سرحدات پر تقریباً 35 ایسے راستے ہیں جہاں سے ٹرک گزر سکتے ہیں،دیگر چھوٹی چھوٹی راہداریاں اس کے سوا ہیں جن کی تعداد250کے قریب ہے۔دُور دراز علاقے ہونے کے باعث یہاں حکومتی عملداری قائم رکھنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ سے روکنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔جنوبی بلوچستان کی شاہراہوں پر نظر آنے والے نیلے ایرانی ٹرک یہاں کی امتیازی علامت ہیں جنہیں لوگ زمیاد کہتے ہیں۔ان ٹرکوں کی یہاں موجودگی اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ نئی سڑکوں نے کس طرح غیر رسمی معیشت کے حجم کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔نیلے رنگ کے زمیاد، جو اکثر نان کسٹم پیڈ ہوتے ہیں، ایران سے تیل اور ڈیزل کے ساتھ ساتھ دیگر ایرانی اشیا، کھانے پکانے کا تیل اور صابن وغیرہ کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

نیلے رنگ کے بیرلز اپنے اوپر لادے ہوئے یہ ٹرک صوبے بھر میں کہیں بھی پہچانے جاتے ہیں۔M-8شاہراہ نے ایرانی سرحدی علاقوں کی پاکستان تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے کیوں کہ اس شاہراہ کا قابلِ ذکر حصہ سرحدی پٹی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔یہ ٹرک شاہراہ کے دونوں اطراف دکھائی دیتے ہیں، گویا یہ ان ہی کے لیے بنائی گئی ہے۔ صحرائی اور پہاڑی راستوں میں بھی یہ ٹرک دکھائی دیتے ہیں۔ ان ٹرکوں کے ڈرائیور ان راستوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ ایسے راستے استعمال کرتے ہیں جہاں انہیں پولیس چیک پوسٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

شہزادہ ذوالفقارکہتے ہیں کہ ”ان شاہراہوں کی تعمیر کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہوا ہے، اس سے اس نے اپنے تیل اور اشیا کی دُور دراز علاقوں تک رسائی کو ممکن بنایا ہے۔“لیکن بلوچستان کے ہر قصبے میں یہ بات واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے کہ ایرانی اشیا منڈیوں پرمکمل طور پرچھائی ہوئی ہیں۔ پنجگور کے ایک دوکاندار نے کہا کہ ”اس کا ہم دونوں کا فائدہ ہوتا ہے، ایران کو نقد روپیہ چاہیے اور لوگوں کو اشیاے ضرورت تک آسان رسائی۔“

ایف سی کے علاوہ کسٹم ڈیپارٹمنٹ،لیویز اور پولیس کی چیک پوسٹ بھی ان شاہراہوں پر موجود ہیں جہاں سے ان ٹرکوں کی آمد ورفت ہوتی ہے۔کبھی کبھار صوبائی حکومت تیل کی اسمگلنگ پر پابندی عائد کردیتی ہے۔ اسمگلر اکثر اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ انہیں اپنی آدھی کمائی ارباب کو دینی پڑتی ہے۔ انہی صفحات پرشائع شدہ ایک کہانی میں ارباب کے کردار کی وضاحت اس طرح کی گئی تھی: ”ارباب دراصل سرحد کے دونوں اطراف کے بلوچ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں۔ جب کوئی پاکستانی ارباب کسی ایرانی ارباب کا آرڈر وصول کرتا ہے تو وہ اپنا زمیاد سرحد پر بھیج دیتا ہے۔پاکستانی ارباب تیل سے بھرے ایک زمیادسے40000 روپے تک کما لیتا ہے۔“

صوبائی حکومت گاہے گاہے غیر قانونی تجارت اور تیل و دیگر اشیا کی اسمگلنگ پر پابندی عائد تو کرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی اکثریتی آبادی انہی اشیا پر گزارا کرتی ہے۔2018ء میں اسی طرح کی ایک پابندی کے خلاف نہ صرف ٹرانسپورٹرز بلکہ عوام کی طرف سے بھی شدیداحتجاج کیا گیا تھا۔ایرانی سرحد پر باڑ لگانے کا حکومتی اعلان بھی مقامی عوام کے اندر اسی لیے کافی بے سکونی کا باعث بنا تھا۔تاہم حکومت کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ مکمل سرحد پر باڑ لگانا علاقے کی جغرافیائی ساخت کی بنا پر جی جوکھوں کا کام ہے۔سکیورٹی اداروں کی جانب سے صرف ان مخصوص مقامات پر باڑ لگائی گئی جہاں سے عسکریت اور مزاحمت کار عناصر کی آمد ورفت کی اطلاعات تھیں۔اگر سرحد پر باڑ لگانے والی بیل منڈھے چڑھ جاتی ہے تو نقل مکانی میں اضافہ ہونا ایک یقینی امر ہے، کیوں کہ شہری علاقوں سے دور رہنے والے دیہی افراد اسمگل شدہ اشیا کی عدم موجودگی میں اشیاے ضروریہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔

اگرچہ یہ شاہراہیں غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ میں اضافے کا باعث بنی ہیں، لیکن یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ان کے توسط سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے،جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اورنوجوانوں میں علیحدگی پسند، قوم پرست مزاحمتی وعسکریت پسند بیانیوں سے عدمِ دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ان مثبت تبدیلیوں کے اثرات نہ صرف ان شاہراہوں سے ملحقہ علاقوں میں، بلکہ صوبے کے جنوبی، جنوب مغربی اور سندھ کے سرحد ی علاقوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

حتیٰ کہ صوبے کے وسطی اضلاع، بالخصوص مستونگ پر بھی اس سماجی و معاشی تبدیلی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ایک وقت میں یہ ضلع نہ صرف بلوچ علیحدگی پسندوں، بلکہ دہشت گردوں اور فرقہ پرست عسکریت پسندوں کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوا تھا، لیکن اب یہاں حالات کافی بہتر ہوچکے ہیں۔ مقامی افراد اسے ”پیشہ بناتے مصروف نوجوانوں“ سے تشبیہ دیتے ہیں۔

روپیہ آنے سے خوشحالی آئی ہے۔ مستونگ کے عدیل بلوچ، جو بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ”اس کے اثرات گھروں کے طرزِ تعمیر پر بھی پڑے ہیں۔ دُور دراز دیہی علاقوں میں بھی گارے سے بنے گھروں کی بجائے پکی اینٹوں سے بنے مکان دکھائی دیتے ہیں۔“

باوجود اس کے کہ یہاں بنیادی ڈھانچے اور سڑکوں کی تعمیر و ترقی کے ساتھ غیر قانونی تجارت اورغیر رسمی کاروبار میں اضافہ ہواہے لیکن ابھی تک یہاں رسمی کاروبار شروع نہیں کیا جاسکا۔یہاں ابھی بھی سکیورٹی مسائل کی وجہ سے بڑے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی جانب راغب نہیں کیا جاسکا۔

تفتان سرحد پر تجارتی توازن ایران کے حق میں ہے۔پاکستان صرف چاول اور موسمی پھل ہی برآمد کرسکتا ہے لیکن ایران کی جانب سے برآمد شدہ اشیا میں پٹرولیم، ایل پی جی گیس، کھجوریں، ٹائلیں اور سیمنٹ بھی شامل ہوتی ہے۔تفتان کے علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں ایل پی جی گیس کے ٹینکر کھڑے دکھائی دیتے ہیں جنہیں پاکستان بھیجا جانا ہوتا ہے۔ان ٹینکرزکی زیادہ تعداد پنجاب میں بھیجی جاتی ہے اور سردیوں کے دوران پاکستان میں گیس کی قلت کی وجہ سے یہ کاروبار مزید بڑھ جاتا ہے۔

آگے کیسے بڑھا جائے؟

اس حقیقت کے باوجود کہ شاہراہوں کی تعمیر سے بلوچستان میں کافی تبدیلی واقع ہوئی ہے، ماہرین ان منصوبوں کو ’ترقی‘ سے تعبیر نہیں کرتے۔یہاں کے مقامی کمیونٹی راہنما ؤں کا کہنا ہے کہ صرف سڑکوں کی تعمیر سے کسی علاقے کی قسمت تبدیل نہیں ہو سکتی۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کی تعمیر وترقی، بالخصوص ایسی پالیسی سازی کی ضرورت ہے جس میں تعمیرو ترقی پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔

بہرام بلوچ کہتے ہیں کہ ”ان شاہراہوں نے جو مواقع پیدا کیے ہیں، ان سے مکمل استفادہ نہیں کیا جاسکا۔مثال کے طور پر ساحلی پٹی میں شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر سے سیاحت کے شعبے کو فروغ دیا جا سکتا تھا، لیکن حکومت کی ترجیحات میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں ہے۔“ 2008ء میں شہری تنظیم و ترقی کے شعبے(Urban Planning and Developmnet Department) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، اس شعبے پر کسی حد تک ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت میں توجہ دی گئی، اس کے علاوہ یہ ادارہ تقریباً غیر فعال ہی رہا ہے۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ کہتے ہیں کہ حکومت کی خواش تو یہ ہے کہ شہر کاری کا یہ عمل جلد ا ز جلد پایہِ تکمیل کو پہنچے، لیکن اس کی تکمیل کے لیے مطلوب لائحہِ عمل اور انتظامی طریقِ کار مقفود ہے۔

منظم شہرکاری کے لیے ترقیاتی منصوبہ سازی درکار ہوتی ہے۔ بلوچستان حکومت کے دعویٰ کے مطابق اقتصادی مراکز کی تعمیر، زیرِ زمین وسائل کی تنظیم،کشتی بانی کی صنعت کے فروغ، شعبہ سیاحت کی ترقی اور بالخصوص کوئٹہ اور گوادر جیسے بڑے شہروں کی تعمیر و ترقی کا ماسٹر پلان ان منصوبوں میں شامل ہیں، جن کی ترتیب وتشکیل پر وہ کام کررہی ہے تاکہ شہروں کی ترقی اور ان کے مابین زمینی رابطوں کو بہتر کیا جا سکے۔موجودہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ جام میر کمال خان کہتے ہیں کہ صورتِ حال کی بنیادی وجہ گڈ گورننس کا نہ ہونا ہے۔انہوں نے مارچ میں راقم کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”میری تمام ترتوجہ گورننس کی بہتری پر مرکوز ہے۔“انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ سیکرٹریٹ صوبے بھر کے گورننس ماڈل میں انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں اس سیکرٹریٹ کو ایک پیشہ ورانہ شکل دینا چاہتا ہوں، میری کوشش ہے کہ گورننس کا روایتی ڈھانچہ بدل دوں اور صوبائی بیوروکریسی اور نظام کی استعدادِ کار کی بڑھوتری پر توجہ مرکوز رکھوں۔ہم نے ضلعی سطح پرمالی معاملات کی مرکزیت ختم کر کے ان کاموں کا آغاز کردیا ہے۔“

دریں اثنا رفیع اللہ کاکڑ نے جوکہ ایک پبلک پالیسی کے شعبے سے وابستہ ماہر ہیں اور بلوچستان حکومت کی تکنیکی معاونت کررہے ہیں، ان کی رائے کے مطابق نہ تو نئے آباد ہونے والے شہری علاقوں میں کوئی سیاسی ملکیت لی جارہی ہے اور نہ ہی باقاعدہ منصوبہ بند معیشت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔اُنہوں نے مزیدکہا کہ بغیرکسی منصوبہ بند سیاسی معیشت کے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کی متوازن سطح کو مستحکم رکھنا ممکن نہیں ہوگابلکہ انسانی وسائل کی بڑے شہروں جیسے کہ کوئٹہ،تربت اور گوادرکو نقل مکانی جاری رہے گی۔سچ یہ ہے کہ سیاسی سرمائے میں اضافہ مقامی افراد کی شمولیت سے ہوتا ہے لیکن لگتا ہے کہ ریاستی ادارے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں سنجیدہ نہیں ہیں اگرچہ یہ عمل صرف شہرکاری کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔

شاہراہوں کی تعمیر بلوچ عوام کے طرزِ زندگی، اقتصادیات اور شہرکاری پر جس طرح بھی اثر انداز ہوئی ہو، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس عمل سے اسلام آباد کے پالیسی ساز حلقوں میں پایا جانے والا یہ تصور راکھ بن کر اڑ گیا ہے کہ بلوچ عوام ترقی کے مخالف ہیں۔جنوبی بلوچستان کے سیاسی کارکن، کاروباری حضرات، ماہرین،محققین اورصحافی اسی نقطہِ نظر کو دہراتے نظر آتے ہیں۔

تربت یونیورسٹی میں اقتصادیات کے ایک لیکچرر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ”اگر ایک شاہراہ اتنی بڑی تبدیلی پیدا کرسکتی ہے تو منظم شہرکاری اور منصوبہ بند ترقی صوبے بھر کو کیوں کر نہ مکمل طور پر بدل کررکھ دے گی۔لیکن یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک بدلا ہوا بلوچستان طاقتوراشرافیہ کو موافق آئے گا؟“

مترجم: حذیفہ مسعود

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...