جوگیندرا ناتھ منڈل، علامتی تکثیریت اور عملی مشکلات

1,464

قیامِ پاکستان کے مرحلے میں جوگیندرا ناتھ منڈل نئی ریاست کی تکثیریت کے پوسٹربوائے بن کر اُبھرے۔ دستورساز اسمبلی کی عبوری صدارت سے لے کر منڈل ڈے کی سرکاری تقریبات تک نوزائیدہ پاکستان نے مذہبی اقلیتوں کو تحفظ کا مثبت پیغام دیا۔ جوگیندراناتھ منڈل بانی پاکستان قائدِاعظم کا انتخاب تھے۔ بعدازاں یہ ہوا کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت ہی چھوڑ گئے۔آج بھی اکثر لوگ ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ کیا جوگیندرا ناتھ منڈل کوئی اور راستہ اپنا سکتے تھے؟ زیرِنظر تحریر میں اِس پہلو کا جائزہ لیاگیا ہے۔ مضمون نگار ظفراللہ خان پاکستانی جموریت، پارلیمنٹ اور آئینی اُمور کے ماہر ہیں۔وہ مئی 2016ء سے اپریل 2019ء تک پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہے ہیں۔

1947ء میں تقسیمِ برِصغیر کے بعد دو دلِت رہنما بھارت اور پاکستان کے منظرنامے پر توانا علامت بن کر اُبھرے۔ بھارت میں ڈاکٹر امباڈکر دستور بنانے کا اعزاز پانے کے باوجود آخرکار بُدھ مت اپنانے پر مجبور ہوگئے۔(1) جوگیندرا ناتھ منڈل 10 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں علامتی طور پر ’مذہبی تکثیریت‘ کی علامت بنے۔ سندھ اسمبلی کی عمارت میں منعقدہ اِس اجلاس میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے جوگیندرا ناتھ منڈل کا نام پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں عبوری صدر کے طور پر پیش کیا۔ اس طرح جوگیندراناتھ منڈل اسمبلی کے اراکین کے رجسٹر پر سب سے پہلے دستخط کرنے والی شخصیت بن گئے۔ اُن کے بعد بانی پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح نے اِس رجسٹر پر دستخط کیے۔

پاکستان کے پارلیمانی بانیان کا یہ تاریخی رجسٹر قومی اسمبلی کے آرکائیوز سے غائب ہے۔اِس کی توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ جب 1962ء کے دستور نے پاکستان کے دو دارالحکومت بنائے تو پارلیمانی دارالحکومت ڈھاکہ بنا اور عجیب عجلت میں تمام پارلیمانی ریکارڈ وہاں بھیج دیے گئے۔آج تک یونیسکو کے مشترکہ ورثہ کی ملکیت کے حوالے سے اس کو واپس حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے جوگیندراناتھ منڈل کو نہ صرف یہ اعزاز بخشا،بلکہ اُنہیں 1946ء کی متحدہ ہندوستان کی کابینہ میں نمائندگی دی اور 14 اکست 1947ء کے بعد پاکستان کا وزیرقانون بھی بنایا۔ وہ اِس عہدہ پر 15اگست 1947ء سے لے کر 16ستمبر 1950ء تک فائز رہے۔ قانون کے علاوہ اُن کے پاس لیبر اور ورکس کے محکمے بھی رہے۔(2)

جوگیندراناتھ منڈل کے پاس وزارتِ قانون کا قلمدان بھی اِس علامت کا اظہار تھا کہ بانی پاکستان ملک کے لیے ایسا دستور چاہتے تھے جو ان کی 11اگست 1947ء کی تاریخی تقریر کا مظہر ہو جس میں اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ”اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک عظیم ریاست بنے، خوش اور خوشحال ریاست بنے تو ہمیں لوگوں کی فلاح وبہبود پر توجہ دینا ہوگی، ماضی کوبھول کر باہمی رنجشوں کو ختم کرکے کامیاب ہونا ہوگا۔اگر آپ ماضی کو تبدیل کرنے کے لیے اکٹھے کام کریں، بھلے آپ کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل اور ذات سے ہو آپ سب سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ریاست کے شہری ہیں اور آپ کے برابر حقوق ہیں، برابر کی مراعات ہیں اور برابر کی ذمہ داری۔ اگر ایسا ہوگا تو ہماری ترقی کی کوئی حد نہیں ہوگی“۔ اِسی تاریخی خطاب میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ”آپ آزاد ہیں،آپ آزاد ہیں کہ اپنے مندر جائیں یا اپنی عبادت کی کسی بھی جگہ جائیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدہ سے ہوسکتا ہے۔اِس بات کا ریاست کے اُمور سے کوئی واسطہ نہیں“۔(3)

شہریت میں مساوات کے اِس اصول کے تحت آئین سازی کے لیے ڈرائیونگ سِیٹ بانی پاکستان نے جوگیندراناتھ منڈل کو بطور وزیرقانون دی۔ جوگیندرا ناتھ منڈل، قائداعظم محمدعلی جناح کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی برائے بنیادی حقوق اور اُمور برائے اقلیت کے ممبر بھی تھے۔(4) تاہم 8اکتوبر 1950ء کو جوگیندراناتھ منڈل وزارت سے استعفیٰ دے کر بھارت چلے گئے۔ انٹرنیٹ کے عہد میں آٹھ ہزار بیس الفاظ، 36 پیراگراف اور 14صفحات پر محیط اس استعفے کا خوب چرچا ہوا۔ اس استعفے کے متن کا تجزیہ کریں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ 36 میں سے آٹھ نکات کا تعلق قیامِ پاکستان سے پہلے کے واقعات سے ہے۔مثال کے طور پر پہلے نکتہ میں ہی یہ ذکر ہے کہ شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بنگال میں وزارتیں اُن کی رائے کے بغیر دی گئیں۔سالانہ پانچ لاکھ تعلیمی وظائف رکھے گئے تھے لیکن اُنہیں کچھ نہ ملا۔ نیز شکایتوں کا ایک انبار اس استعفے کے متن میں جابجا بکھرا ہے۔بنگال میں شیڈول کاسٹ کے علاقوں میں فسادات کے بعد جوگیندراناتھ منڈل کے تحفظات بڑھ گئے۔شیڈول کاسٹ کے لیے جداگانہ طرزِانتخاب برقرار نہ رکھنے پر اُنہوں نے احتجاج کیا۔ لیاقت_نہرو معاہدہ پر عملدرآمد نہ ہونے پر بھی انہیں غم تھا۔

شکایات میں 17 ایسی ہیں جومقامی نوعیت کی ہیں۔ گویا کہ زیادہ تر شکایات کا تعلق ریاست کے انتظامی امور اور افسرشاہی کے رویہ کے بارے میں ہے۔ اس استعفے کا متن گواہی دیتا ہے کہ جوگیندراناتھ منڈل دلتوں کے حقوق کے نام پر سیاست کرتے تھے اور انہی کی شیڈول کاسٹ فیڈریشن کی حمایت کی بدولت ڈاکٹر امباڈکر ممبئی سے جیتے تھے۔ اُنہیں ملک کے نوزائیدہ پارلیمانی اداروں سے بہت کم شکایات تھیں جبکہ ڈاکٹر امباڈکر دستور بنانے کے باوجود سیاسی اچھوت رہے۔

جوگیندراناتھ منڈل 1156دن پاکستانی رہے۔ اِس عرصہ میں پاکستان کی دستورساز اسمبلی کا اجلاس صرف 31 دن ہوا جن میں سے انہوں نے 22 دن شرکت کی۔جبکہ اس اسمبلی کے دوسرے رول یعنی لیجسلیٹو اسمبلی کی حیثیت سے اجلاس 91 دن ہوا۔ پارلیمانی اداروں کی ہر کاروائی باقاعدہ رقم ہوتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ سامنے آتی ہے کہ جوگیندراناتھ منڈل نے زیادہ تر کردار ”خاموش ممبر“ کا ادا کیا۔ حتیٰ کہ جب ستمبر 1950 ء میں پاکستانی شہریت کا مسودہ قانون متعارف ہونا تھا تو وہ بطور نگران وزیر غیر حاضر تھے اور یہ کام پیرزادہ عبدالستار کو کرنا پڑا۔(5)

شاید اسمبلی کی کاروائی سے لاتعلقی کی وجہ سے جب جوگیندراناتھ منڈل کا استعفیٰ منظرعام پر آیا تو اُس کے بعد 9اکتوبر 1950ء کو لیجسلیٹو اسمبلی کااجلاس ہوا اور 14اکتوبر1950ء کو دستورساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو ان کی کاروائی میں اس استعفیٰ کا ذکر تک نہ تھا۔ گویا نہ کسی نے جانے والے کو روکا اور نہ ہی اس پر کسی نے غم کا اظہارکیا۔ریاست کے ایگزیکٹوچہرے سے خائف جوگیندراناتھ منڈل نے ریاست کے پارلیمانی رنگ نکھارنے میں ڈاکٹر امباڈکر سے مختلف کردار ادا کیا،جسے محدود پارلیمانی کردار کہا جاسکتا ہے۔مارچ 1949ء کے جس اجلاس میں قراردادِمقاصد منظور ہوئی اُس اجلاس میں جوگیندراناتھ منڈل کہیں نظر نہیں آتے،باوجود اس کے کہ وہ وزیرقانون تھے۔حالانکہ یہ وہ موقع ہوسکتا تھا جب وہ اپنے دکھ کھل کر بیان کرتے اور فکرِقائد کو اُجاگر کرتے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تحقیق کا مقصد قطعاََ یہ نہیں ہے کہ جوگیندراناتھ منڈل کے تاریخی کردار کی نفی کی جائے، بلکہ اس کا پس منظر ایک سوال ہے۔ بلوچستان سے آئے ہوئے ایک یونیورسٹی طالب علم نے قومی اسمبلی آف پاکستان کے دورہ کے موقع پر مجھ سے سوال کیا کہ یہاں جوگیندراناتھ منڈل کب تصویر کیوں نہیں؟ پارلیمنٹ ہاؤس میں دستورساز اسمبلی کے صدور، قومی اسمبلی کے اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکرز،چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینٹ، قائدین حزبِ اختلاف کی تصاویر آویزاں ہیں۔ اُس لمحہ تو مجھے سمجھ نہ آیا کہ تاریخ کا یہ باب گمشدہ کیوں ہے؟ تاہم بعدازاں تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہاں اُن کے علاوہ جولائی_اگست 1955ء میں دوسری دستورساز اسمبلی کے اجلاس کی عبوری صدارت کرنے والے نواب مشتاق احمد گورمانی، 8جُون 1962ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی عبوری صدارت کرنے والے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر اختر حسین، 14 اپریل 1972ء کو اجلاس کی عبوری صدارت کرنے والے نورالامین، 20مارچ 1985ء اور 30نومبر 1988ء کے افتتاحی اجلاسوں کی صدارت کرنے والے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت کی تصاویر بھی نہیں ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ عبوری صدارت جمہوری ڈھانچہ کی تشکیل اور مارشل لاؤں کے بعد جمہوری ٹرانزیشن کا بندوبست ہے۔ جمہوری تسلسل کے زمانے میں سبکدوش ہونے والاسپیکر آنے والی اسمبلی کے اراکین سے حلف لیتا ہے اور نئے سپیکر کے انتخاب کے بعد اپنی سِیٹ خالی کردیتا ہے۔اس آئینی عہدے کے تسلسل کا اظہار قوم نے 26 مارچ 1977ء کو دیکھا جب جانے والے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان نے نئی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔بعدازاں ایسے مناظر میں 3 نومبر 1990ء کو جانے والے سپیکر ملک معراج خالد، 15اکتوبر1993ء کو گوہر ایوب خان، 15فروری1997ء کو سیدیوسف رضا گیلانی، 16نومبر2002ء کو الٰہی بخش سومرو، 17مارچ 2008ء کو چودھری امیرحسین، یکم جُون 2013ء کو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور 13اگست 2018ء کو سردار ایاز صادق اپنے جمہوری جانشین کو خوش آمدید کرتے نظر آئے۔

اِس طرح کہا جاسکتا ہے پارلیمنٹ ہاؤس کی دیواروں پر اگر جوگیندرا ناتھ منڈل کی تصویر نہیں ہے تو یہ کوئی ”امتیازی عمل“ نہیں۔ تاہم حیران کن بات پارلیمنٹ کی کاروائی میں اُن کا انتہائی محدود کردار ہے جو کئی سوالیہ نشان اُٹھاتا ہے۔مثلاََکیا جوگیندراناتھ منڈل واحد مذہبی اقلیت کے رکن تھے جنہیں نوزائیدہ مملکت پاکستان نے اعزاز بخشا؟ جواب نفی میں ہے، کیونکہ کامنی کمار دتہ 11اگست 1955ء کو پاکستان کے وزیرقانون بنے۔ مسٹر سی گیبن 12اگست 1955ء کو دستورساز لیجسلیٹو اسمبلی کے باقاعدہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ دوسرا یہ کہ کیا جوگیندراناتھ منڈل بھارت ہجرت کرجانے والے واحد سیاستدان تھے؟ یہاں بھی جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ چندرا چٹوپدھایہ اور کرن شنکر رائے بھی بھارت چلے گئے تھے۔اِس فہرست میں لالہ نرائین گجرال کا نام بھی آتا ہے۔لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں جاکر جوگیندرا ناتھ منڈل پر کیا بیتی؟

جوگیندراناتھ منڈل کی سیاست کی تفہیم کے لیے برصغیر میں دلتوں / شیڈول کاسٹ کی صورتحال کوسمجھنا ضروری ہے۔ہندودھرم کی ذات پات کی تقسیم سے عاجز دلِت آج بھی جدوجہد کررہے ہیں۔پاکستان میں 1956ء کے دستور میں ”اچھوت پن“ کی ممانعت کو بنیادی انسانی حقوق کے باب میں ایک حق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔(6) بانیانِ پاکستان کی نظر میں یہ پہلو اہم تھا،انہوں نے اس کی دستوری طور پہ نفی کردی، حالانکہ پاکستان نیشنل کانگریس کے 10 ارکان جو پہلی دستوساز اسمبلی میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے اس بات کا برملا اظہار کرچکے تھے کہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، اس کا دستوری حل شاید اتنا کارگر نہ ہو۔خیر پاکستان نے اِس مسئلہ کا دستوری حل تب نافذ کیا جب جوگیندرا ناتھ منڈل واپس مغربی بنگال کے شہر کلکتہ جاچکے تھے اور وہاں انہوں نے اپنی انتخابی قسمت کئی بار آزمائی مگر ہر بار ناکام رہے۔

جوگیندراناتھ منڈل کی تعلیم قانون تھی اور پہلی ملازمت صحافت میں رہی۔تاہم جب وہ اپنے آبائی علاقے بری سال گئے تو سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ان کی ساری سیاسی جدوجہد شیڈول کاسٹ کے حقوق کے لیے تھی۔ہندوستان واپس آجانے کے بعد انہوں نے ہندو مہاجرین کی آبادکاری پر کام کیا جو مشرقی بنگال سے مغربی بنگال آئے تھے۔وہاں انہوں نے کیمونسٹ پارٹی کے اشتراک سے کام کرنے والی یونائیٹڈ سنٹرل مہاجرین کونسل کو جوائن کیا، تاہم تھوڑے عرصہ بعد ہی چھوڑ دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر امباڈکر کی ریپبلکن پارٹی بھی جوائن کی۔وہ آخرکار  اکتوبر 1968ء کو اپنی انتخای مہم کے دوران مہاجرین کے کیمپ میں اِس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

جوگیندراناتھ منڈل کو اگر دلِت سیاست کے زاویہ سے دیکھا جائے تو اُن کا مشن آج بھی ادھورا ہے۔ تاہم آج بھی ان کی یاد میں دو سکول کلکتہ اور کلیانی میں چل رہے ہیں جہاں اُن کی یاد اور اُن کے افکار پر تقریبات ہوتی ہیں۔ ایک کالج ان کی یاد میں قائم ہے۔ ایک تنظیم بھی اُن کے افکار کی ترویج کے لیے کام کرتی ہے اور متعدد کتابیں شائع کرچکی ہے۔

پاکستانی تناظر میں تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اگر جوگیندراناتھ منڈل پاکستان میں ہی رہتے تو وہ اپنی فانی زندگی میں 1968ء تک کیا کچھ کرسکتے تھے۔ مارشل لاء کے بارے میں اُن کا نقطہ نظر کیا ہوتا اور اگر وہ زندہ رہتے تو 1971ء کے سانحہ کا ان پر کیا اثر ہوتا۔آخری سوال کو تو چھوڑ ہی دیتے ہیں کیونکہ 1962ء اور 1965ء کی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا ایک بھی ممبر نہیں تھا اور دلِت جوگیندراناتھ منڈل ”بنیادی جمہوریت“ کے نظام میں کیسے جیت سکتا تھاجبکہ اس نظام کے ہاتھوں تو بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطہ جناح بھی ہار گئی تھیں۔ پارلیمانی تاریخ پر کام کرتے ہوئے مجھے صرف اتنا دکھ ہے کہ جوگیندراناتھ منڈل نے ہمارے کمزور پارلیمانی نظام میں کچھ زیادہ شوروغوغا نہیں کیا حالانکہ اِس کمزور پارلیمانی نظام نے انہیں تاریخی حیثیت اور اہمیت دی تھی۔

وہ آخر کار وہاں گئے جہاں سیاسی نظام میں بھارت کا دستور بنانے والے ڈاکٹرامباڈکر کی بھی کوئی جگہ نہ تھی۔ اُنہیں تو عقیدہ تک تبدیل کرنا پڑا جبکہ جوگیندراناتھ منڈل آخری دم تک دلتوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔آج بھی اگر کوئی نیا جوگیندراناتھ منڈل یا امباڈکر پیدا ہوتو شاید ان کی جدوجہد اتنی ہی سخت اور تلخ ہو جتنی پہلے تھی، کیونکہ اِس خطہ میں سماجی برابری اور ارتقاء کی کئی منزلیں حاصل کرنا ابھی باقی ہیں۔19جُون 1949ء کو کراچی اور ڈھاکہ میں سرکاری طور پر’منڈل ڈے‘ منایاگیا تاکہ پاکستان کا تکثیریت پسند چہرہ اُبھرے،لیکن آج اُن پر کوئی اچھی ریسرچ بھی موجود نہیں۔

حوالہ جات

1۔ 13 اکتوبر 1956ء کو ڈاکٹر امباڈکر نے اپنے حامیوں سمیت بُدھ مت اختیار کی۔

2۔ دی فیڈرل کینٹ آف پاکستان، نعمانہ کرن عمران، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2016ء

3۔ قائدِاعظم محمدعلی جناح کا یہ خطاب پارلیمنٹ ہاؤس میں آویزاں ہے اور قومی اسمبلی کی ویب سائٹ www.na.gov.pk پر دستیاب ہے۔

4۔ مستحکم پارلیمانی روایت، پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق، ظفراللہ خان، سینٹ آف پاکستان، 2017ء

5۔ دستورساز اسمبلی کی کاروائی، 28ستمبر،1950ء

6آرٹیکل 20، دستورپاکستان 1956ء

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...