مذہبی سیاست اور کرنے کا کام

939

پاکستان میں مذ ہبی جماعتوں کی سیاست کا مستقبل گاہے بگاہے زیر ِبحث آتا رہتا ہے۔ اب تک کی سیاست کے بارے میں سیاسی امور کے ماہرین اس بات پر اتفاق کر تے ہیں کہ مذ ہبی سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنا عوامی اثرو رسوخ قائم کرنے میں ناکام ہوئی ہیں اور ایک مؤثر سٹریٹ پاور کے باعث اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوتی آئیں ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو اقتدار کے قریب لا سکتی ہے جیسا کہ 2002ء کے انتخابات میں جزوی طور پر یہ ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ مذہبی جما عتوں کے پاس عوام کے لیے کو ئی پر کشش ایجنڈا نہیں ہے۔ مذ ہبی جماعتیں اپنے ایجنڈے کو عوام دوست بنانے کے لیے مرکزی دھارے کی جماعتوں کے ایجنڈے اور ان کی انتخابی سیاست کی نقالی کر کے دیکھ چکی ہیں جیسا کہ قاضی حسین احمد نے ایسا تجربہ1993ء کے انتخابات میں پاکستان اسلامک فرنٹ بنا کر کیا تھا مگر اسے کامیابی نہ مل سکی۔2002ء کے انتخابات کے نتائج میں نائن الیون کے واقعات کے بعد اُبھرنے والی صورتحال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا خاص طور پر متأثر ہوئے تھے۔

حالیہ برسوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ رجحانات کو بہ امر مجبوری اپنایا ہے،اس کی وجہ دہشت گردی کے خلاف حکومتی اقدامات اور مذہبی طبقات اور اداروں کو ہدف بنانے کا احساس ہے۔ مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ایک نئے طبقے کو جنم دے رہا ہے، جس کے ذرائع آمدن محدود ہیں اور سیاسی شعور کے حامل ہونے کے سبب ان میں محرومی کا احساس بھی زیادہ ہے۔ ان کے غصے کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ سیاسی مذہبی جماعتوں کی مجبوری ہے کہ وہ ان احساسات کی ترجمانی کریں۔ جبکہ قرائن سے واضح ہے کہ ان کی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے ہر طرح کے سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ اکتوبر اور نومبر کے آزادی مارچ اور دھرنے کے اچانک خاتمے کے بعد اعلان کیا تھا کہ حکومت بہت جلد جانے والی ہے اور اس سلسلے میں معاملات طے پاجانے کا اشارہ دیا تھا۔ ممکن ہے انہوں نے یہ اعلان اچانک دھرنا ختم کرنے پر حمایتوں اور کارکنوں کی طرف سے ردِعمل آنے سے بچنے کے لیے کیا ہو، لیکن ان پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

بنیادی طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کو دو نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ایک اندرونی ہے جس کی ایک جہت کی طرف اشارہ ہواجبکہ دوسرا بیرونی ہے۔یہ بیرونی چیلنج مقبول عام رجحانات کا تمام سیاسی جماعتوں پر دباؤ کا ہے،اسے پاپولزم جانیے یا سستی مقبولیت کے لیے سستی جذباتیت پر مبنی بیانیوں کے ذریعے قبول عام حاصل کرنے کا طریقہ۔دنیا کے کئی خطوں میں اس نوع کی سیاست میں اُتار چڑھاؤ سامنے کی بات ہے۔ پاکستان میں حکمران تحریک انصاف نے کسی حدتک اسی ماڈل کو اپنایا ہے اور سروسز سیکٹر سے وابستہ متوسط طبقے میں اپنے سیاسی اثرورسوخ کو بڑھایا ہے۔ظاہر ہے مذہبی سیاست کے لیے یہ بیانیے مذہبی اور فرقہ وارانہ ہوسکتے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے گزشتہ انتخابات میں اُنیس لاکھ کے قریب ووٹ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں کے لیے کرنے کا کام کیا رہ جاتا ہے جو عمومی سیاسی جماعتیں نہیں کرسکتیں؟ خود مذہبی جماعتوں میں اس موضوع پر بحث مکالمہ جاری رہتا ہے لیکن اس کے کوئی ایسے نتائج برآمد نہیں ہوسکے جس کی بنیاد پر مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کا تعین کرسکیں۔

اس کا ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے لائحہ عمل اور پروگرام پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنے مقاصد کو سماجی بہتری اور مذہب سے متعلق چیلنجز سے وابستہ کریں۔ مرکزی دھارے کی سیاست کے اطوار اور بہاؤ پاکستانی مذہبی سیاست کے لیے کبھی معاون نہیں رہے۔پاکستان کو شدت پسندی، مذہبی عدم رواداری،فرقہ وارانہ کشمکش، عمومی اخلاقی پستی اور سماجی ابتری کا سامنا ہے۔اگر مذہبی جماعتیں فرد اور سماج کی تطہیر اور کردارسازی کو اپنا مطمع نظر بنالیں تو ایک متوازن اور انصاف پر مبنی سماج کے مقصد کو حاصل کرسکتی ہیں جو بظاہر ان کے سیاسی لائحہ عمل کا بھی حصہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...