خود اعتمادی اور بے اعتمادی کا فرق
کسی حادثے یا ناکامی کی صورت میں خود اعتمادی اور بے اعتمادی کے رد عمل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خود اعتمادی ایسے کسی منفی واقعہ سے سبق سیکھتی، اس کا سامنا کرتی اور اس پر قابو پاتی ہے، جب کہ بے اعتمادی ایسے کسی واقعے کے دوبارہ ہو جانے کے خوف کا شکار ہو کر بے عمل ہو جاتی اور ایسے کسی حادثے کا دوبارہ سامنا کرنے سے گھبراتی ہے۔
مثلاََ بچپن میں کسی کو بلی، کتے وغیرہ نے زخمی کر دیا ہو یا کسی تار سے کرنٹ لگ گیا ہو تو یوں بھی ہوتا ہےکہ وہ ساری زندگی اس کے اثر سےنہ نکل سکے۔ بلی، کتے کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو جایا کریں یا بجلی کا کام کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہوں۔ لیکن ایک دوسرا ردعمل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس خوف پر قابو پایا جائے، اس کے لیے اس کا سامنا کیا جائے۔ ایک حادثے کو فارمولا نہ بنا لیا جائے۔ ہر دن ایک نیا دن سمجھا جائے۔
رسول اللہ ﷺکے مبارک دور میں جب مدینہ کے منافقین نے مسلم خواتین کے خلاف مہم شروع کی، وہ انھیں چھیڑتے، تنگ کرتے، ان پر تہمتیں لگاتے اور جب پوچھ گچھ کی جاتی تو بہانے بناتے۔ ان حالات میں آپﷺ نے یہ نہیں کیا کہ خواتین کو گھروں میں بیٹھ جانے کی پابندی لگا دی ہو، اس کے برعکس ان اوباشوں کے عذر لنگ کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا کہ خواتین اپنے معمول کے لباس پر ایک بڑی چادر لے کر نکلا کریں تاکہ پہنچان لی جائیں کہ معزز خاندان کی خواتین ہیں اور انھیں چھیڑنے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کے ہی عہد کا دوسرا واقعہ ہے کہ فجر کی نماز کو جاتی ہوئی ایک خاتون کا ریپ ہوگیا، مگر اس کے باوجود خواتین کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ آیندہ گھروں میں رہیں، حالات بہت خراب ہیں، یا کم از کم اندھیرے کی نمازوں میں مسجد میں نہ آیا کریں۔ اس کے برعکس ریاست نے اس مجرم کی تلاش کیا اور اسے قرار واقعی سزا دی۔
بے اعتمادی کی ایک اور علامت، بےجا خود اعتمادی کا کھوکھلا اظہار ہوتا ہے
لیکن ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ جب کہیں بم دھماکا ہو جاتا ہے تو اس کے بعد تاحیات وہ سڑک یا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش آجائے تو ان کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی تعلمی ادارے میں کسی طالبہ کے نشے کا ایک کیس پکڑ لیا جائے تو باقی ساری طالبات پورے سماج کو اپنی صفائیاں دینے پر مجبور پاتی ہیں۔ راستے میں انھیں کوئی تنگ کر دے تو بے اعتماد مردانہ غیرت اگلے دن سے ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی کا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ یہ بے اعتمادی کی علامات ہیں۔
قومی سطح پر بھی ہمارا حال اس سے مختلف نہیں۔ ماضی میں کوئی جنگیں اگر ہم ہار ہی گئے ہیں تو نسلوں کے ذہن سے اسے محو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عذر لنگ تراشے جاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ غلطی کسی اور کی تھی اس لیے ہم ہار گئے ورنہ ہم ہارنے والے نہ تھے۔ حقائق سے نظریں چرانے کی قومی پالیسی اختیار کرنے اور ان حادثات پر بات نہ کرنا اور نہ کرنے دینا، یہ سب بے اعتمادی کے باعث ہوتا ہے۔
تدریس میں جو استاد سوال نہ پوچھنے دے، تو طلبہ سمجھ جاتےہیں کہ اس کے پاس جواب نہیں اور وہ اپنی کم علمی اور نالائقی چھپانا چاہتا ہے۔ جب ریاست آپ کو سوال نہ کرنے دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ خود کو اتنا مہان بنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر سوال پر آپ کی بے عزتی محسوس ہو، اتنا مہان کوئی نہیں ہوتا۔ اپنی غلطیوں سے خود بھی آگاہ ہونا چاہیے اور دوسروں کو بھی کرنا چاہیے تاکہ دوبارہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
بے اعتمادی کی ایک اور علامت، بےجا خود اعتمادی کا کھوکھلا اظہار ہوتا ہے۔ خود اعتمادی تن کر رہنے اور لب و لہجہ کو بارعب کر لینے سے نہیں، حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے آتی ہے۔ یہ ہیجان خیز نعروں اور لفظوں سے نہیں آتی، تجزیہ کرنے سے آتی ہے۔ خود اعتمادی سیکھنے سے آجاتی ہے، بے اعتمادی چھپانے سے کبھی نہیں آتی۔
فیس بک پر تبصرے