عقل پر مردوں کی پڑ گیا
افسوس یہ ہے کہ مغرب زدہ خواتین کی جو تصویر ان کے دل کے نہاں خانے میں لٹکی تھی اور پری زاد مِس سے جو توقعات انہوں نے باندھ رکھی تھیں وہ سراسر یک طرفہ لگتی ہیں۔ اکثر مغرب زدہ ان کی توقعات پر پوری نہیں اترتی ہوںگی۔ مغرب زدگی کا جو تصور جاناں لئے وہ عمر بھر بیٹھے رہے .
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پر مردوں کی پڑ گیا
اکبر بھلے زمانے کے آدمی تھے جو خود زمین میں گڑ گئے۔ آج کا مرد مومن ہوتا توخود زمین میں نہ گڑتا بلکہ ان بیبیوں کو زندہ گاڑ دیتا ۔ کوئی غیرت مند مرد خواتین سے کب پوچھتا ہے کہ وہ پردہ کیوں نہیں کرتیں۔ لیکن جب مرد خود ہی زمین میں گڑا ہو تو اسے گلہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے سوال کا یہ جواب کیوں ملا۔ اس شعر سے اکبر کےایمان کی اور بھی بہت سی کمزوریاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ لگتا ہےوہ دل سے پردے کے قائل نہیں تھے۔ اسی لئے پردے کو حکم نہیں محاورہ سمجھ کر استعمال کیا اور اسے مردوں کی عقل پر ڈال کر بظاہر طنز کرنے کی کوشش کی۔ گویا کہنا چاہتے ہوں کہ عورتوں کی عقل پر تو پہلے سے ہی پردہ پڑا ہے اس لئے ان کے لئے چہرے کا پردہ کافی ہے۔ تاہم عورتیں پردہ نہ کریں تب بھی پردہ کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مردوں کی عقل پر ڈال دیا جاتا ہے۔ پردہ کے بارے میں چہرے اور عقل کی یہ تفریق بھی ایمان کی کمزوری ظاہر کرتی ہے۔ پردہ تو پردہ ہے ، عقل پر ہو یا چہرے پر۔
ہمیں تو اس شعر میں بھی کسی پردہ داری کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ اصل واقعہ جاننے کے لئے اکبر کی ساری سوانح کھنگال ڈالیں۔ علامہ گوگل آن لائن نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ ذرا غور کیا تو اصل واقعہ سمجھ میں آ گیا۔آپ بھی شعر کو بار بار پڑھیں تو سمجھ جائیں گے کہ اصل واقعہ کچھ اور تھا۔
ہوا یوں ہوگا کہ اکبر کو بے پردہ حسینائیں نظر آئیں تو وہ انہیں دیکھنے میں اتنے محو ہو گئے ہوں گے کہ سڑک پر کھلا مین ہول نظر نہ آیا اور دھڑام سے اس میں جا گرے ہوں گے۔ شرمندگی کے مارے ان حسیناؤں کو ان کی بے حیائی پرجلی کٹی سنانے لگے ہوں گے کہ پردہ کیوں نہیں کرتیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ ان کی حالت دیکھ کر ہنسی ہوں گی۔ کہ ہمیں کیا کہتے ہو۔ پردہ تمہاری عقل پر پڑا ہے جو راستہ دیکھ کر نہیں چلتے۔ بے بیوں کو تاڑوگے تو گٹر میں ہی گروگے۔ اکبر آخر شاعر تھے۔ اس واقعے کو غیرت قومی کا مسئلہ بنا کر اپنی خفت صاف چھپا گئے۔
اکبر کے کسی سوانح نگار نے تو کھل کر نہیں لکھا لیکن ان کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر بے پردہ کو مغرب زدہ خاتون بلکہ مِس سمجھتے تھے۔ اور جامے سے باہر ہو جاتے تھے۔ انہوں نے ایسی ہی ایک مغرب زدہ کو دیکھ کر یہ شعر کہا۔
ممکن ہے اے مِس ترا نوٹس نہ لیا جائے
گال ایسے پری زاد ہوں اور کِس نہ لیا جائے
ہم تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ آپ اس شعر سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس از خود نوٹس لینے پر پری زاد نے اکبر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔ لگتا ہے مغرب زدہ خواتین کو دیکھ کر اکبر کو ایسی اٹکھیلیاں بار بار سوجھتی تھیں۔ ۔ یہ شعر ایسے ہی ایک اور ناقابل فراموش واقعے کی یاد دلاتا ہے۔ گریجویٹ خواتین کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ زیادہ مغرب زدہ ہوتی ہیں۔اس لئے ایک ایسی ہی خاتون سے فوراً بے تکلف ہو گئے اور کہنے لگے
میں بھی گریجویٹ ہوں تو بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
اس واقعے کے بارے میں بھی تذکرہ نگار خاموش ہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ شعر ان کی شادی سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کا نکاح اسی گریجویٹ سے ہوا یا یہاں بھی ناکامی ہوئی۔ تفصیل ملتی تو پتا چلتا کہ اس زمانے میں فلرٹ کے لئے محض گریجویٹ ہونا کافی تھا یا اور بھی شرائط تھیں۔ یقیناً اکبر مذہبی آدمی تھے۔ شوق سے پارک میں جھولتے تھے۔ اللہ کو کبھی نہیں بھولتے تھے۔ اس لئے ان کے دل میں واہیات قسم کے وسوسے نہیں آتے ہوں گے۔ اگر کسی گریجویٹ کو بلا کرپاس لیٹنے کے لئے کہا ہوگا تو یقیناً محض علمی مباحثے کے لئے ۔
ہمیں احساس ہے کہ اس معاملے میں اکبر کی یہ سادگی بہت سوں پر گراں گذرتی ہو گی کہ انہوں نے علمی مباحثے کے لئے گریجویٹ ہونا ضروری کیوں قرار دیا۔ قدامت پسند نہ صرف اس شرط کو غیر شرعی کہتے ہوں گے بلکہ اس کیفیت میں یعنی آس پاس لیٹ کرعلمی مباحثے کی ثقاہت کو بھی مشکوک سمجھتے ہوں گے۔ ہم نہیں کہ سکتے کہ اس گریجویٹ حسینہ نے علمی مباحثے کی دعوت پر اکبر سے کیا سلوک کیا ہوگا ۔ البتہ ایسا لگتا ہے کہ اکبر کی بار بار ناکامیوں کی وجہ مغرب زدگی سے شدید نفرت ہی ہوگی۔ ان کی نہ نیت خراب تھی نہ نظر بری۔
افسوس یہ ہے کہ مغرب زدہ خواتین کی جو تصویر ان کے دل کے نہاں خانے میں لٹکی تھی اور پری زاد مِس سے جو توقعات انہوں نے باندھ رکھی تھیں وہ سراسر یک طرفہ لگتی ہیں۔ اکثر مغرب زدہ ان کی توقعات پر پوری نہیں اترتی ہوںگی۔ مغرب زدگی کا جو تصور جاناں لئے وہ عمر بھر بیٹھے رہے اس کا کچھ اندازہ اس شعر سے ہوتا ہے۔
پتلون میں وہ تن گیا، یہ سائے میں پھیلی
پاجامہ غرض یہ ہے کہ دونوں نے اتارا
پتلون میں تننے اور سائے میں پھیلنے کے اسرار و رموز پر اکبر نے روشنی نہیں ڈالی۔ یہ عقدہ عامر رانا صاحب نے بھی نہیں کھولا۔ عامر صاحب نے اپنے تازہ ناول “سائے” میں ہر قسم کے سایوں کی داستانیں بیان کی ہیں۔ توقع تھی کہ سائے میں پھیلنے کی کیمسٹری اور فزکس پر بات کریں گے۔ اس ناول سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ سائے کیسے پھیلتے ہیں۔ لیکن اکبر نے اس شعر میں “سائے میں پھیلنے” کی جو بات کی ہے وہ اس ناول میں بھی بیان نہیں ہوئی. شاید یہ سایہ کی کوئی ایسی قسم ہے جس کی تفصیل میں جانے سے رانا صاحب کو بھی فحاشی کا الزام لگنے کا خطرہ تھا۔ اس شعر میں پتلون اور سائے کو ایک جوڑے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ پتلون میں تننے اور سائے میں پھیلنے کو پاجامہ اتارنے سے مربوط بھی بتایا ہے لیکن یہ معمہ حل نهیں ہوا کہ پتلون اور سایہ پاجامہ کیسے بن سکتے ہیں جنہیں اتارا جا سکتا ہے۔ ہم اس معمے میں نہیں پڑتے کیونکہ پاناما ہو یا پاجامہ کسی کو بھی اتارنے سے پہلے بندہ غیرت قومی سے زمین میں گڑ سکتا ہے یا گاڑا جا سکتا ہے۔
ان اشعار کی تحقیق کے دوران ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اکبر الہ آبادی کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اور جتنا سمجھ میں آجائے وہ اتنی ہی مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ لہذا نئی اور مستند شرح کی فوری ضرورت ہے۔ عام طور پر لسان العصر علامہ اکبر الہ آبادی کی ظریفانہ شاعری کو مغرب زدگی پر طنز سمجھ کر پڑھا جاتا ہے۔ لیکن تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس میں خفت کا خفیف درد بھی پوشیدہ ہے۔ ان کی شاعری کو ظریفانہ سمجھ کر طنز کی چبھن سے بے نیاز خود پسندانہ قہقہے تولگاتے ہیں لیکن مغرب زدگی کا سامنا کرنے میں اکبر الہ آبادی کس کرب سے گذرے ہوں گے اس کا انہیں اندازہ نہیں۔ اب تو مغرب اور مغرب زدگی کے خلاف نفرت، غیرت، غصے اور انتقام کی آگ اب تمسخر کو کافی نہیں سمجھتی۔ وہ اس پھوڑے کو ہی نہیں بلکہ جسم کے اس حصے کو بھی کاٹ پھینکنا چاہتی ہے جس پر یہ پھوڑا نکل آیا ہے۔
فیس بک پر تبصرے