انسداد دہشت گردی …. چند گزارشات
ایک تاثر یہ ہے کہ ریاستی ادارے سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی اس طرح باہم متحد الخیال نہیں ہوئے، جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک کی سیاسی طاقتیں متحد و متفق ہوگئی تھیں
سانحہ لاہور کے بعد پنجاب میں ایک مرتبہ پھر پکڑ دھکڑ اور ماردھاڑ کا آغاز کردیا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے خصوصی ادارے سی ٹی ڈی نے مختلف جگہوں پر کارروائی کی ہے اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا ہے، جبکہ درجنوں پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی یہی کچھ کیا گیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ سینکڑوں دہشت گردوں کے مارے جانے، ملک سے فرار ہوجانے اور گرفتار ہوجانے کے باوجود ملک میں امن قائم کیوں نہیں ہوا؟ فروری کے دوسرے عشرے میں دہشت گردی کا جس انداز میں آغاز ہوا ہے، اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم 2017ءمیں نہیں بلکہ ایک بار پھر 2009ءمیں چلے گئے ہیں۔ دہشت گردوں نے ملک کو چاروں صوبائی مقامات پر اور اردگرد حملے کرکے اپنے وجود اور اس کے مضبوط ہونے کا واضح پیغام دیا ہے۔ یہ واقعات بتارہے ہیں کہ ابھی ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ جامعیت کے ساتھ کیا جائے تو کامیابی ممکن ہے، ورنہ یہی حالات، یہی طرزِ کار اور یہی طور طریقے رہے تو خدشہ ہے کہ ہم دوسال بعد بھی اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متعلقہ قومی اداروں کو اپنی تدابیر اور حکمتِ کار کا از سرِ نو جائزہ لے کر اس میں مناسب تبدیلی عمل میں لانی چاہیے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اس ضمن میں ہم چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
1۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد نیشنل سیکورٹی سے دلچسپی رکھنے والے ہرفرد نے جس چیز کو شدت سے محسوس کیا وہ ریاستی اداروں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد تھا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ریاستی ادارے سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی اس طرح باہم متحد الخیال نہیں ہوئے، جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک کی سیاسی طاقتیں متحد و متفق ہوگئی تھیں۔ ہماری رائے میں اداروں میں باہمی اعتماد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ حکومت کا بعض اداروں کو اپنا”خاص“ ادارہ سمجھنا اور اسی بنیادپر انہیں نوازنا اور دوسرے اداروں کو ان کا جائز حق بھی نہ دینا ہے۔ ریاستی اداروں کا باہمی اعتماد بہت ضروری ہے اور اس اعتماد کے قیام کے لیے حکومت کو بلاتفریق بھرپور کردارادا کرنا چاہیے۔
2۔ دہشت گردوں اور مشکوک افراد کی گرفتاریوں کا کریڈٹ لینے کے لیے اداروں کے مابین ”جنگ“ کی فضا نے بھی دہشت گردی کو باقی رہنے میں مدد فراہم کی ہے۔ اس ضمن میں سیکورٹی اداروں میں نظری اور اخلاقی تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
3۔
فورتھ شیڈول کی لسٹ کا جائزہ لینے کے لیے کئی کمیٹیاں بن چکی ہیں مگراس لسٹ میں اضافہ ہی ہورہا ہے، کمی کبھی نہیں ہوئی۔ سینکڑوں لوگ اس میں ایسے شامل ہیں جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ مسجد کے امام، خطیب یامؤذن ہیں یا جن کے چہرے پر داڑھی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی جرم نہیں، ان کا کسی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، وہ افغان تربیت یافتہ تو درکنار کبھی افغانستان گئے ہی نہیں مگر اس لسٹ میں شامل ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج اسے اس لسٹ سے نکالنے کا حکم دیتے ہیں مگر محکمہ داخلہ ہائی کورٹ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد فورتھ شیڈول سے متعلق ایک پالیسی تشکیل دی گئی تھی کہ ہر ضلعی سطح پر فورتھ شیڈول میں موجود لوگوں کا جائزہ لیا جائے اور انہیں اپنی صفائی دینے کا موقع دیا جائے۔
4۔ یہ درست ہے کہ ملک کے اندر دہشت گردی کی بنیاد پر کالعدم ہونے والی تنظیمیں کسی رعایت کی مستحق نہیں ہیں مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر کالعدم ہونے والی تنظیمیں اگر فرقہ واریت اور تکفیری نعروں کو چھوڑ کر آئین پاکستان کے تحت پر امن اور جمہوری انداز سیاست کو اپنا کر مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہوں تو انہیں یہ موقع دیاجانا چاہیے۔
5۔ سہولتوں سے محروم اور سماجی اعتبار سے پسماندہ علاقوں میں صرف آپریشن نہ کیے جائیں، بلکہ ان کی محرومیاں ختم کرنے کی بھی کوشش کی جائے۔ فاٹا پر اپنا فیصلہ مسلط کرنے کی بجائے وہاں کے لوگوں کی بات سنی جائے اور دلیل کے ساتھ ان سے بات چیت کی جائے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی محرومیاں تھی۔
ہمیں اگر ایک بہتر، محفوظ، مستحکم اور پر امن پاکستان درکار ہے تو پاکستان کے عوام، پاکستان کے سول وملٹری تمام اداروں کو اپنے اندر اجتماعیت، اعتماد، محبت، سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ ۔ آج پاکستان کو ضرورت ہے کہ سیاست، مذہب، سول وملٹری کے تمام ادارے پاکستان کے تحفظ اور اس کے مستقبل کو پر امن بنانے کے لیے ایک صفحے پر جمع ہوجائیں کیونکہ دہشت گردی کی باقیات کا مقابلہ ہم متحد ہوکر ہی کرسکتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے