تعلیم کامقصد :تنقیدی شعور کی آبیاری اور آزادی اظہار رائے

1,325

اساتذہ کا مقصد طلبہ میں تنقیدی شعور ،مثبت سماجی رویے اور اقدار کو فروغ دینا ہے۔ حصول علم کے لئےسازگار ماحول تنقیدی شعور کی فراہمی اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کو اس قابل ہونا چاہیئے کہ وہ نصاب تعلیم کے مندرجات کوبھی چیلنج کرسکیں اور اپنے طلبہ کو سوال پوچھنے کا فن اور خود سے جاننے کا ہنر سکھا سکیں۔

ان خیالات کا اظہار اسلام آباد میں واقع پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام لاہور کے نجی ہوٹل میں ہونے والی اساتذہ کی تربیتی ورکشاپ میں شامل مقررین کی جانب سے کیا گیا۔ فروری کی 24 تاریخ کو ہونےوالی اس تربیتی ورکشاپ کا عنوان ” تنوع اور مکالمہ کے فروغ میں اساتذہ کا کردار” تھا۔ جس میں پنجاب بھی کی سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں کے 30 اساتذہ نےشرکت کی۔ اس تربیتی ورکشاپ کا مقصد اساتذہ میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری جیسی سماجی اقدار کے متعلق حساسیت بیدار کرنا اور انہیں فروغ دینا شامل تھا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنے کلیدی خطبے میں جس کا عنوان “مسلم معاشروں میں بنیاد پرستی کی بدلتی ہوئی حرکیات” تھا، میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ تمام انسان اپنے اعمال  بشمول سماج اور ریاست کے ساتھ تعلقات میں اپنے آپ کے خود ذمہ دار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اساتذہ کا مقصد صرف اپنے آپ کو علمی و فلسفیانہ مباحث میں مشغول رکھنا نہیں ہے بلکہ ان کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو بہتر سماجی اقداراور مثبت رویئے کی تربیت فراہم کریں۔

نامور کارکن حقوق انسانی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ آئی اے رحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں اپنے آباء کی پیروی اور تقلید کی روایت بہت قدیم ہے جبکہ نئے علوم و فنون سیکھنے کے لئے لازم ہے کہ ناصرف گزشتہ عہد کے علوم و فنون کا تنقیدی جائزہ لیا جائے بلکہ تاریخ ،سماج ،روایات ،اقدار اورعقائد کو بھی تنقیدی شعور کے پیمانے پر جانچا جائے۔ انہوں نے اس دوران چند ایسی افسانوی توہمانہ ضرب الامثال کا ذکر بھی کیا جو پنجابی معاشرے کی لوک روایت کا حصہ ہیں جبکہ ان کے مفہوم دیگر نسلی گروہوں کے متعلق نفرت انگیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنوع کسی بھی سماج کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ کو ہر اس نصابی کتاب و مواد کو چیلنج کرنا چاہیئے جس کے متعلق انہیں یہ خیال ہو کہ وہ جھوٹ یا غلط  ہے۔

ادارہ فکر جدید کے سربراہ معروف مذہبی اسکالر صاحبزادہ محمد امانت رسول نے”سماج، انداز فکر اور اظہار رائے کے طریق “کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سماج میں ترقی یافتہ معاشرے تنوع اور رنگارنگی کو قبول کرکے قائم ہوئے ہیں۔  ہم جب ثقافتی، لسانی ، مذہبی، مسلکی اور نسلی تنوع کو پاکستان کی شناخت کا لازمی حصہ تصور نہیں کریں گے تب تک سماجی ہم آہنگی اور قومی ربط  کا حصول ایک خواہش کے طور پر باقی رہے گا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے معروف تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر یعقوب بنگش نے علم تاریخ کے مطالعہ کی اہمیت کو واضح کیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے سبب حکومتی سطح پر میٹرک ،انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے طالبعلموں کے لئے مطالعہ پاکستان کا مضمون لازمی قرار دیا گیا۔ انہوں نے مطالعہ پاکستان کے نصاب میں چند ایسے مندرجات کا بھی ذکر کیا جو کہ تاریخی حقائق سے ہٹ کر ہیں یا ان کی تشریحات حقائق کے منافی ہیں۔

معروف دانشور وجاہت مسعود نے پاکستان میں شرح خواندگی کے بحران  کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ پاکستان دنیا بھر میں واحد ملک ہے جہاں کی نصف سے زائد آبادی مکمل طور پر ان پڑھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے 72 سالوں میں ان پڑھ لوگوں کی تعداد کو 3 کروڑ سے 12 کروڑ کیا ہے۔انہوں نے ایسی سماجی برائیوں کا ذکر کیا جن کی جڑیں ناخواندگی میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو آزادی فکر اور آزادی اظہار رائے مہیا کریں۔ انہوں نے کہا سوال کی حرمت کا ہمیشہ لحاظ کرنا چاہیئے کیونکہ سوال کے نتیجے میں انسانی ذہن نئے تصورات اور نئی تخلیقات کے دریچے کھولتاہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے “سیاست، تاریخ اور سماجی  شعور ” کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی تحقیق اور تصنیف ان کی خصوصیات نہیں ہوتیں بلکہ یہ ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے 50 سال سے زائد تک مختلف یونیورسٹیز میں پڑھایا ہے لہذا انہیں یہ پسند ہے کہ انہیں استاد کے نام سے پکارا جائے اور یہی شناخت ان کے لئے قابل فخر ہے۔ انہوں نے افسوس ناک انداز میں کہا کہ سرکاری سطح پہ ہماری قومی تاریخ کا آغاز دوسری قوم سے نفرت سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے پہ قدغن اور جاننے کے حق سے محرومی ناصرف عالمی بلکہ ہمارے ملکی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...