ریاست کیسے ماں کے جیسی

1,006

’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ کا قدامت پسندتصور ایک خوش کن بیانیہ ہے جو خواب کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ ’’ہوگی‘‘ کا مستقبل کا صیغہ احتیاط کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے جس میں شروع سے شک کی گنجائش رکھ لی جاتی ہے۔

آج کل پاکستان میں اداروں کو مضبوط  کرنے کا کام بہت تیزی سے  ہو رہا ہے ۔ نکتہ چینوں کو فکر کھائے جارہی ہے کہ ادارے مضبوط ہوئےتو ریاست کمزور ہو جائے گی۔ دور سے دیکھنے والوں کو چیزیں ہمیشہ چھوٹی نظر آتی ہیں۔ کہتے ہیں نا دُور کے ڈھول سہاونے۔ ریاست کمزور انہیں لگتی ہے جو  رہتے ملک سے باہر ہیں لیکن جب بھی موقع ملتا ہے ریاست بچانے کا نعرہ لگاتے پاکستان چلے آتے ہیں ۔ ریاست کی مضبوطی کا ان سے پوچھئے جو حکومت میں ہیں۔ ریاست سے واسطہ پڑے تو پتا چلتا ہے لوہے کے چنے چبانا کسے کہتے ہیں۔ تاہم حکومت میں آ کر یہ  اہم حقیقت  بھی کھلتی ہے کہ پاکستان کا مسئلہ ریاست کی کمزوری ہے نہ مضبوطی ، یہ ریاست کا وزن ہے جو اسے معذور بنا رہا ہے۔

ریاست کی صحت کے لئے  اسے وقتاً فوقتاً ہلاتے جلاتے رہنا ضروری ہے۔ زیادہ وزنی ہو جائےتوحکومت بھی اسے ہلا جلا نہیں سکتی۔ ریاست سمارٹ ہو تو بیرونی سرمایہ کھنچا چلا آتا ہے۔  سرمایہ  سکھ کا سایہ ہے، خاص طورپرحکومت کے لئے ۔  سیانے  ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ جب ریاست کے وسائل پر پلنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے  تو ریاست پر وزن بڑھ جاتا ہے ۔ ماہرین امراض ریاست   کہتے ہیں کہ  اصل میں ریاست کا وزن  اس وقت بڑھتا ہے   جب اسے عوام کی فلاح و بہبود  اور عدل و انصاف  جیسے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں اورخون سفید ہونے لگتا ہے۔ خون میں سرخی واپس لانے کے لئے ریاست  کو قرضوں کے انجیکشن لگانے پڑتے ہیں۔ انجام کار ریاست کا جغرافیہ اور تاریخ دوںوں بدل جاتے ہیں۔

ان حالات میں “قرض اتارو ملک سنوارو” کی دیسی پھکی اور “خود انحصاری” کے  کاڑھے سے ریاست کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے تو ریاست کا وزن کم کرنے کی  یہ کوششیں  عارضی طور پر تو مفید ہو تی ہیں  لیکن تجربہ بتا تا ہے کہ جب تک عوام کا دودھ نہ چھڑایا جائے ریاست صحت یاب نہیں ہو پاتی۔ دودھ چھڑانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور مناسب  (کم از کم تیرہ سالہ) وقفہ ضروری ہے۔ تاکہ عوام  اور شیر خوروں کو ریاست سے دور رکھا جائے اور ریاست کے دل میں عوام  کی بجائے اپنی صحت اور حسن میں رغبت کا جذبہ  بڑھے۔ اس وقت مارکیٹ میں  “ریاست ہوگی ماں کے جیسی ” کا جو جذباتی نعرہ گردش کر رہا ہے وہ ریاست  کے حسن اور صحت دونوں کے لئے انتہائی مضر ہے۔ آج  ہم اسی  مسئلے پر روشنی ڈالنا چاہیں گے۔

” ریاست ہوگی ماں کے جیسی” کا قدامت پسند  تصور ایک خوش کن  بیانیہ ہے  جو خواب کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ “ہوگی” کا مستقبل کا صیغہ  احتیاط کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے جس میں شروع سے شک کی گنجائش رکھ لی جاتی ہے۔  کیونکہ خواب خواب ہی ہوتے ہیں۔ یہ نیند کی حالت میں ہی حقیقت لگتے ہیں۔ جاگے ہووں کوان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔   تھوڑی بہت مقبولیت ملے بھی تو  ہر خواب بہت جلد متضاد تعبیرات کا شکار  ہوجاتا ہے ۔  اس بیانیے میں کچھ بات تو ہے جو دانشور سیاست دان بھی اس کے قائل ہیں۔ بظاہرایک فائدہ تو یہی ہے کہ ماں سے تشبیہ سے ریاست کا جذباتی تصور جاگتا ہے اور یوں لوگوں کو ہمیشہ کے لئے شیرخوار بنا کر رکھنا ممکن ہوجا تا ہے۔ اکثرشیرخوارتو ہر وقت ماں کی چھاتیوں سے لپٹے رہتے ہیں، بہت سے اس کی گود میں دبک کر بیٹھے رہتے ہیں۔اور باقی اس کے پلو سے چمٹے رہتے ہیں ۔ جو کچھ بڑے ہو جاتے ہیں ۔ وہ شکوے شکایتیں شروع کر دیتے ہیں ۔ کوئی اسے سوتیلی ماں کا طعنہ دیتا ہے  اور کوئی  بیوہ سمجھ کراس پر حکم چلانا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی اسے کاندھے پر لاد کر ایدھی سینٹر چھوڑ آنے کی سوچنے لگتا ہے۔ تاہم  اس کا نقصان صرف بچوں یا ماں کو ہوتا ہے۔ باقی لوگوں کو فرق نہیں پڑتا۔ دوسرا فائدہ  یہ ہے کہ عوام یتیم، لاوارث اور نابالغ بچوں کی طرح اپنے بارے میں  ہی سوچتے رہتے ہیں۔ کبھی ماں پوچھ لیتی ہے کہ تم یہ سوال تو کرتے ہو کہ میں نے تمہیں کیا دیا، یہ نہیں سوچتے کہ تم نے ماں کو کیا دیا ہے۔ ماں سے جذباتی وابستگی کے سحر میں باپ  کسی کو دکھائی نہیں دیتا جس کے سامنے ماں بے اختیار اور لاچار ہوتی ہے۔ کوئی بچہ ماں کی اس بے چارگی  کا نہیں سوچتا۔ قدامت پسندوں میں یہ فلسفہ اس لئے مقبول رہتا ہے کہ  اس کے ذریعےہمیشہ ماں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ، باپ پر کوئی انگلی نہیں اٹھتی ۔

اس بیانیے  کا کمال ہے کہ قومی ریاست کے عہد میں بھی کامیاب جا رہا ہے ۔ ریاست  کو ماں کے روپ میں پیش کرکے بیٹوں اور بیٹیوں سے ہر قسم کی قربانی مانگی جا سکتی ہے۔ مدرلینڈ اورمادر وطن کے الفاظ سے اچھے اچھوں کے ذہنوں کو ماؤف کیا جا سکتا ہے۔ ماں کی تصویر میں شفقت بھری مسکراہٹ کے پیچھے بےچارگی کی بپتا نہیں دکھائی جاتی جو پدرسری معاشرہ ماں کی ممتا کا مقدر بتاتا ہے۔ ماں کا اختیار  تمام۔ ترباپ کا عطاکردہ ہے جو کسی بھی وقت معطل اور منسوخ  کیا جاسکتا ہے۔ ماں پر بچوں کا حق تو رہتا ہے لیکن محدود اور مشروط۔ ۔ ماں اور بچے دست نگر باپ کے ہی رہتے ہیں۔ اس غم میں ریاست کا وزن تو بڑھ سکتا ہے، لیکن  وہ نہ مضبوط ہو سکتی ہے نہ مستحکم۔

قصہ مختصر، خوشنما ہونے کے باوجود  یہ نظریہ حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ اس میں سارا فوکس ماں پر ہے۔ نہ باپ کا خیال آتا ہے نہ ماموؤں کا ۔  ریاست کو ماں سمجھنا ایسے قدیم معاشروں کے لئے تو مناسب تھا جہاں خواتین کا حکم چلتا تھا۔  اور مرد کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتے، بچے پالتے نظر آتے تھے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں  جہاں مرد حاکم اور عورت محکوم ہوتی ہے کنبے کی سربراہی ہو یا ملک کی حکومت یہ عورتوں کا نہیں مردوں کا حق ہے۔ چنانچہ “ریاست ہوگی ماں کے جیسی” کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریاست  ماں کی طرح باپ اور بچوں کی فرمانبردار رہے گی۔ سب کا کام کرے گی ایک پیسے کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ زندگی ہنسی خوشی سے گذرے گی۔

قدیم معاشروں میں ماں گھر کے کام کاج کے لئے بیاہ کر لائی جاتی تھی ۔ ماں بوڑھی  ہوتی تو گھر کے کام کاج کے لئےبہو لانے کا تقاضا  کرتی۔ جواز پیش کرتی  کہ اب اس کی بوڑھی ہڈیوں سے گھر کا کام کاج نہیں ہوتا۔ بہو آئے تو اسے آرام ملے۔ شادی بیاہ کی گفتگو میں پیار محبت کا تذکرہ شرم و حیا کے منافی سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے کام کاج کی اجرت کا تو تصور ہی ناممکن تھا۔

ترقی یافتہ معاشروں میں  بہو کی بجائےگھر میں کام کرنے والی  ملازم رکھی جاتی ہے اور اسے کام کی  باقاعدہ اجرت دی جاتی ہے۔ تاہم اسے ماں سی، ماسی، موسی یا خالہ کہ کے پکارا جاتا ہے تاکہ وہ گھر کے کام  کو عار نہ سمجھے۔  ماں اور ماسی میں فرق  اب بھی کیا جاتا ہے ۔ اسی لئے ماں  یا بیوی کو کام کے  معاوضہ  کا سوچنا بے مروتی اور بے غیر تی  قرار دے کر ان کو تین کپڑوں میں گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی لوگ ریاست کی ذمہ داری مرد کو ہی سونپتے ہیں۔ اس کی  مخالفت وہی لوگ کرتے ہیں جو ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو جائز نہیں سمجھتے۔ ترقی پذیر معاشرے زیادہ حقیقت پسند ہوتے ہیں۔

ریاست دراصل خاندان کی طرح ہے۔ ریاست کےاداروں کو خاندان کی طرح  تشکیل دیا جائے بلکہ  انہیں خاندان میں محدود رکھا جائے تو مزید  مضبوط ہوتے ہیں۔  خاندان کے افراد کو ادارے سپرد کرنے سے خاندان  اور ریاست  دونوں مستحکم رہتے  ہیں۔  در اصل خاندان صرف ماں اور بچوں کا نام نہیں، یہ رشتوں کا نظام ہے جس میں  رشتوں کی بنیاد پراختیارات اور مراعات  تقسیم ہوتی ہیں۔ پورے نظام کا مرکز  باپ یا بڑا بھائی ہوتا ہے جو  خاندان کا سربرا ہ ہوتا ہے۔ ماں کی حیثیت اطاعت گذار بیوی سے زیادہ نہیں ہو تی۔  تاریخ  کا مطالعہ بتاتا ہے کہ  ریاستیں خاندانی بادشاہت کی شکل  میں ہی کامیاب  رہی ہیں۔ رعایا  بلا وجہ بادشاہ کو باپ اور ملکہ کو ماں نہیں کہتی اور ان کی لمبی عمر کی دعائیں نہیں مانگتی ۔ اس نظام کے کامیاب اور دیر پا  رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں  عوام کو رعایا اور ریاست اور حکومت  کو مائی باپ  کا درجہ حاصل تھا۔ نہ کوئی تفریق تھی، نہ تناؤ ، نہ تصادم ۔

پرانے زمانے میں ذرائع پیداوار کو قوم کی ملکیت سمجھا جاتا تھا اور ریاست کو قوم کی نگہبان ۔ اسی لئے  زمین، کھیت، پانی ، قبرستان، مسجد وغیرہ سانجھے ہوتے تھے۔ ۔ قانون سازی، عدل و انصاف، اور سرحدوں کی حفاظت ریاست  اور اس کے اداروں کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ ہوتے ہوتے نظریاتی سرحدوں کی ذمہ داری بھی ریاستی اداروں کو دے دی گئی۔ یوں ریاست پر بوجھ بڑھتا گیا۔  شروع میں خاندان  کو بھی ذریعہ پیداوار سمجھا گیا ۔ تاریخ نے دیکھا کہ جب سے خاندان کو نجی ادارے کا درج دیا گیا یہ ادارہ مضبوط ہونے لگا۔ نجکاری کا دوسرا تجربہ خاندانی بادشاہت کا ادارہ تھا۔  ریاست کی نجکاری  اتنی کامیاب ہوئی کہ اقوام عالم نے اسے فطری طرز حکومت قرار دیا۔ اب نجکاری کو سب سے کامیاب اور ترقی پسند طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

آج ساری دنیا مانتی ہے کہ ادارے قومیانے سے  قوم کی ترقی رک جاتی ہے۔ صنعت، تجارت، زمین، حتی کہ تعلیم ، قانون اور انصاف کو بھی قوم کی ملکیت قرار دینے سے  بے چارے زمیندار، صنعتکار، تاجر ریاست  کے دست نگر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ تعلیم، قانون اور انصاف  جب سرمایہ کاروں کے مفاد کا تحفظ نہ کرسکیں  تو ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ اداروں  کی مضبوطی تو سرمائے سے وابستہ ہے۔ چنانچہ عائلی قوانین ہوں یا دیوانی اور فوجداری ، لوگ پہلے ہی ماورائے عدالت انصاف کے قائل ہیں۔  سرمایہ کاری کی راہ میں اخلاقیات اور قانون  ہمیشہ رکاوٹ بنتے ہیں کیوںکہ وہ کاروباری مفادات کے ترقی پسندانہ عزائم کا صحیح ادراک نہیں کر پاتے۔ انصاف کی نجکاری سے سرمایہ کار عدالتوں کے چکر سے بچ جاتا ہے۔ جرگے، پنچایتیں اور ثالث قانونی اور اخلاقی پیچیدگیوں میں پڑے بغیر ہمدردانہ غور کرکے راستے نکالتے ہیں۔ انہیں نہ اجتہاد کی شرائط پوری کرنے کے جھنجھٹ سے گذرنا پڑتا ہے نہ ضوابط کی پابندی کا۔ وہ خود قانون بنا سکتے ہیں، قانون میں گنجائش پیدا کر سکتے ہیں۔ ونی ، سوارہ،  اور جبری عصمت دری جیسی نئی نئی سزائیں ایجاد کر کے لوگوں کو عزت نفس سے محروم کرکے مطیع اور فرمانبردار بنا سکتے ہیں۔ عدالتیں قانون کی حکمرانی تو قائم کرتی ہیں لیکن قانون اور حکمران طبقے کا خوف جرگے اور پنچایتیں ہی پیدا کر سکتی ہیں۔ نجکار انصاف میں اندھیر ہو سکتا ہے دیر نہیں ۔۔

جرگوں کے خلاف شور صرف  وہ لوگ مچاتے ہیں جو ریاست کو ماں جیسا سمجھتے ہیں۔ جرگے اور پنچایتیں غیرت، شرم و حیا ، بزرگوں کی عزت، پگڑی اور چار دیواری کی اقدار کی رکھوالی کرتی ہیں۔ تاجر کے راستے سے روڑے رکاوٹیں دور کرتی ہیں۔ سرمایہ کا بہاؤ آسان بناتی ہیں۔ سماجی اونچ  نیچ کا احترام مستحکم کرتی ہیں تو نئی نسل کو راہ راست کی طرف لوٹنے میں مدد دیتی ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ نجکاری آتے ہی پاکستان میں ملوں، کارخانوں، وسیع و عریض شاہراہوں اور بلند و بالا عمارت میں ہی نہیں، مسجدوں، مدرسوں، یونیورسٹیوں، اور خانقاہوں کی رونقوں میں  بھی اضافہ ہوا۔ ساری دنیا پاکستان کی معاشی ترقی  کا اعتراف کر رہی ہے۔ قانون اور انصاف کی نجکاری باقی تھی۔ اب اس پر بھی کام شروع ہوا ہے تو امید ہے بہت جلد ترقی کی راہ میں باقی رکاوٹیں بھی دور ہو جائیں گی۔ پاکستان کی ریاست ماں کے جیسی  کیسے ہو سکتی ہے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...