کرونا وباء ،مذہبی عناصر اور عوامیت پسندوں کی حکومتی نااہلی

825

کرونا وائرس کی عالمی وباء نے دنیا بھر کے عوامیت پسند رہنماؤں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے ۔چاہے وہ امریکہ ہو برطانیہ ہویا پاکستان ، صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ ان رہنماؤں کے پاس نہ تو کوئی وژن ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی صلاحیت ہے کہ وہ اپنی اقوام کو اس مشکل موقع پر کوئی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ یہ صورتحال ان معاشروں ، ان کے اداروں اور نظام کے لئے ایک امتحان سے کم نہیں ہے ۔ ابھی تک یہ عوامیت پسند رہنماء وہی روزمرہ کا راگ الاپ رہے ہیں اور اناپ شناپ بیانئے کے ساتھ کھڑے ہیں اور جب وباء کے مقابلے کے لئے فوری ،جامع، موثر حکمت عملی  اور فیصلہ سازی ترتیب کا وقت آیا ہے تو ان کی نااہلی واضح ہوگئی۔

امریکہ اور برطانیہ بنیادی طور پر عملی جمہوری نظام ہیں جہاں پر عوامیت پسند رہنماؤں کو درست حکمت عملی اپنانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اس بحران کا مقابلہ کرسکیں۔ مگر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں جمہوری طرزاور آئینی حکمرانی تاحال تعمیری مراحل سے گزررہے ہیں یہاں عوامی حکومتیں سخت دباؤ کا شکار ہیں تاکہ وہ بہتر کام کرسکیں یا اگر وہ اس میں ناکام رہے تو طاقت کے توازن کا پلڑا کسی دوسری جانب ہوجائے گا۔

طاقت کے مراکز اس معاملے پر فکر مند ہیں کہ عوام کا اعتماد اور یقین کس طرح برقرار رہے ؟کیونکہ ان کے مطابق یہ ان کے مفادات کے لئے لازمی عنصر ہے۔ اگرچہ آئین میں بہت وضاحت سے درج ہے کہ ریاست اور سماج کے مابین تعلق کی نوعیت کیا ہوگی مگر طاقتور عناصر عوام کے اندر اپنی طاقت کو برقرار رکھنےکے لئے دیگر حربے اپناتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر عوام میں ابھرتا ہوا عدم تحفظ اور اس وباء کے بحران میں مذہب کا کردار، یہ وہ ذرائع  ہوسکتے ہیں جس کے تحت عوام کا اعتماد جیتا جائے۔

جمہوری حکومت عوام کو احساس تحفظ اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے فراہم کرسکتی ہے مگر مذہبی طبقات ا ن اقدامات  کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس معاملےکو مختلف انداز سے نمٹنا چاہتے ہیں۔

ایمان بہت سے ریاستی اداروں کا کمزور ترین پہلو ہوتا ہےتاہم کچھ ریاستی اداروں نے مذہبی طبقات سے معاملہ فہمی کے لئے اپنی صلاحتیں بہتر کرلی ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اس بحرانی صورتحال میں حکومت کی نبض پرکھنے میں مصروف ہیں۔ اس وباء نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ ریاست کے پاس سادہ سے مذہبی معاملات کو طے کرنے کا بھی اختیار نہیں رہا کہ وہ عوام کو ریاستی پالیسی کے تحت ایک متفقہ لائحہ عمل پر آمادہ کرسکے بخلاف اس کے وباء سے نمٹنے کے حکومتی اقدامات بھی مختلف نوعیت  کی مذہبی فتویٰ بازی کی نذر ہوئے ہیں ۔

طبی بنیادوں پر ثابت ہوچکا ہے کہ کسی بھی طرح کی اجتماعی محفل کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے۔ یہ اجتماع مذہبی بھی ہوسکتا ہے، باجماعت نماز بھی ، بڑے پیمانے پر ہجرت بھی ، سفر کے دوران بھی اور لاک ڈاؤن سے متاثرہ آبادیوں کو فلاحی خدمت مہیا کرنے کی مہم کے دوران بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ریاست کے اہلکار اس امر پہ متفق ہیں کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد اس طرح نہیں ہوسکا جس طرح توقع کی جارہی تھی اور اس کی بڑی وجہ مذہبی اجتماعات ہیں۔ نماز  جمعہ کی جماعتیں ، تبلیغی جماعت کی  سرگرمیاں اور ایران سے واپس آنے والے شیعہ زائرین پاکستان میں کرونا وائرس کی وباء کے پھیلاؤ میں بڑی وجوہات ثابت ہوئی ہیں۔

بہت سے دیگر ممالک چاہے وہ مسلم ہویا غیر مسلم اس مسئلے سے نبرد آزما ہیں ۔اجتماعات سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے جہاں بہت سی ایسی رسومات ہوتی ہیں مثلاَ کھانا بانٹنا، پانی پلانا وغیرہ یہ تمام سرگرمیاں سماجی قربت کا باعث ہیں۔ ملائشیاء، بھارت اور پاکستان میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کی وجہ سے کرونا کا پھیلاؤ بڑھا۔ ملائشیاء کے شہر کوالالمپور میں 27 فروری تا 2 مارچ کو ہونے والا تبلیغی اجتماع ملائشیاء میں موجود کرونا کے کل مریضوں کے نصف کی وجہ بنا۔ اس طرح کے ایک اجتماع کی وجہ سے دلی میں بھی کرونا کا پھیلاؤ بڑھا۔ پاکستان میں مارچ کے مہینے میں ہونےوالے رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع کی وجہ سے سینکڑوں مریض سامنے آئے۔ ملائشیاء اور پاکستان میں ہونے والے تبلیغی اجتماعات دیگر ممالک میں بھی وائرس  کے پھیلاؤ کی وجہ بنے ہیں جن میں فلپائن، کویت ، تھائی لینڈ ، انڈونیشاء اور تیونس شامل ہیں۔

بھارت اور پاکستان میں اس وباء نے سماجی اور فرقہ وارانہ تفریق کو بھی واضح طور پر عیاں کردیا ہے۔ اخبارات اور دیگر میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں کےسبب کہ دلی میں ہونےوالاتبلیغی اجتماع بھارت میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ میں اہم کردار کا حامل ہے ، انتہاءپسند بھارتی ہندوؤں نے اس وباء کا مکمل الزام بھارتی مسلمانوں کے سرتھوپ دیا ہے۔ یہ صورتحال پہلے سے ہی مصیبت کا شکار بھارت کی مسلم برادری کے لئے مزید پریشان کن ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک میں ہر لمحہ شدید تعصب کا سامنا کررہے ہیں۔

بھارت کے برعکس پاکستان میں مذہبی منافرت فرقہ وارانہ بنیادوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایران میں زیارات سے لوٹ کر آنے والے پاکستانی شیعہ زائرین کی ریاست میں وفاقی اور صوبائی سطح پراچھے طریقے سے دیکھ بھال نہیں کی گئی۔ اس دوران کئی ماہرین نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اگرچہ حکومتی نااہلی کے سبب یہ وائرس ملک بھر میں پھیلا تاہم اس دوران نفرت انگیزی پر مبنی انتشار پھیلانے والوں نے بھی اس معاملے کو فرقہ وارانہ سیاسی رنگ دیا ۔ جب تبلیغی جماعت والوں کے متعلق بھی اسی طرح کی خبریں آئیں  کہ یہ لوگ مرض کے پھیلاؤ کاسبب ہیں تو فرقہ واریت کے تاثر کو مزید تقویت ملی۔ ابتداََ یہ نفرت سماجی میڈیا ت محدود تھی پھر آہستہ آہستی کالعدم مذہبی جماعتوں نے بھی اس میں اپناحصہ ڈالنا شروع کردیا جو اس سے پہلے ریاستی حکام کی جانب سے دباؤ کا شکار تھیں۔ اب ایک بار پھر انہیں مسجدوں اور مدارس کے پلیٹ فارم سے فرقہ واریت اور نفرت کا درس پھیلانے کا موقع ملا ہے۔ کالعدم فرقہ وارانہ جماعتوں کا احیائے نو پہلے سے غیر فعال متشدد عناصر کو ایک نئی تحریک دینے کا باعث بن سکتا ہے۔

حکومتی سطح پہ مذہبی اجتماعات اور جمعے کی نماز پر پابندی کے فیصلے میں تذبذب  اور تاخیر بلاجواز تھی۔ حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ فوری طور پر دیگر ممالک (بشمول مسلم ممالک ) کی مانند ایک سرکاری حکم نامہ جاری کرتی مگر ہماری حکومت متذبذب رہی اور مذہبی عناصر کو خوش رکھنے کے لئے تاخیر کرتی رہی ۔ ظاہر ہے کہ اس حکومتی رویئے سے مذہبی عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے کرونا وباء کے خلاف حکومتی اقدامات  و ہدایات کو پوری قوت سے نظرانداز کیا۔ اس کے سبب فرقہ پرست اور انتہاء پسند عناصر کو بھی اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا۔

حکومت کے پاس ابھی بھی قابلیت ہے کہ وہ کروناکی وباء کے خلاف اپنے عزم کا اظہار کرے ۔ مگر اس مقصد کے لئے اسے ان عناصر پر نظر ثانی کرنا ہوگی جنہیں وہ اس مقصد کے لئے بطور تحریک استعمال کررہی ہے۔ کرونا وائرس کے بعد کی دنیا میں عوامیت پسند رہنماؤں کے لئے جگہ بہت کم ہوگی۔

اگرچہ چین کا نظام بہت مختلف ہے تاہم پھر بھی چینی حکام سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس وائرس سے نمٹنے کے لئے کیا حکمت عملی ترتیب دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ، جرمنی ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی مالی اور ادارہ جاتی کمزوریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں مگر حکومت کو کسی نے روک کر تونہیں رکھا ہوا کہ وہ مستقبل کے لئے کوئی پیشگی اقدامات نہ اٹھائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے “نیا پاکستان” بنانے کا وعدہ کیا ہے جو سماج کو تبدیل کئے بغیر ممکن نہیں  ہے ۔ اس مقصد کے لئے لازمی ہے کہ تعلیمی معیشت ، تعلیم ، صحت اور سماجی خدمات کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے اور جمہوری روایات و اقدار کا مکمل لحاظ رکھاجائے۔

حکومت اور ریاستی اداروں کو اپنی ان کمزوریوں کو بھی دور کرنا ہوگا جو انہیں مذہبی عناصر اوراداروں کےساتھ معاملات کے دوران لاحق رہتی ہیں۔ طاقت کے مراکز کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مذہب اور مذہبی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

ثانیاََ مذہب کے میدان میں ایک علمی مرتبے اور تحقیق کی ثقافت شروع کرنے کی ضرورت ہے اور تفرقہ بازی، مسلکی تنظیم سازی اور پارٹی بازی جیسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔

وباء کے بعد کے پاکستان کے پاس اپنے مستقبل کا ایک واضح لائحہ عمل ہونا چاہیئے۔

مترجم : محمدشوذب عسکری

بشکریہ: ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...