دہشت گرد’’حشاشین ‘‘کے نقش قدم پر
آج کی جدید دنیا کے دہشت گرد بھی ہزار برس قبل گزرنے والے حسن بن صباح کے پیروکارفدائیین (جنہیں حشاشین بھی کہا جاتا ہے )کے نقش قدم پر چل رہے ہیں
حشاشین سے کون واقف نہ ہو گا؟ یہ وہی ٹولہ تھا جو معروف زمانہ حسن بن صباح کا پیروکار تھا ، مشہور ہے کہ صباح نے اپنے پیروکاروں کی برین واشنگ کے لیے منشیات کا اہتمام کر رکھا تھا اور کسی بھی مشن پر روانہ کرنے سے پہلے فدائیین کو حشیش پلا دیا کرتا تھا جس کے زیر اثر وہ اپنی جان پر بھی کھیل جاتے تھے۔
آج کی جدید دنیا کے دہشتگردوں کابھی برین واشنگ کا وہی پرانا ہتھیار ہے،اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آلہ کار بننے والوں کو منشیات کا عادی بنا دیا جاتا ہے اور پھر ضرورت پڑنے پر زیر استعمال نشہ کی مقدار میں اضافہ کر کے ٹارگٹ کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔
اس بات کا سب سے بڑا ثبوت القاعدہ کا دہشت گرد “ابو عبداللہ نجدی” ہے جو کہ 2007 میں القاعدہ کا فعال رکن تھا، ایک عرصہ تک وہ سیکیورٹی اداروں سے بچ کر نکل جانے میں کامیاب رہا کیونکہ ہر واردات کے بعد وہ اپنا حلیہ تبدیل کر لیتا تھا،کبھی داڑھی رکھ لیتا تو کبھی شیو کروا دیتا،تخریبی کاروائیوں کے بعد وہ جینز پہن کر یا سوٹڈ بوٹڈ ہوکر اس ٹھاٹھ باٹھ سےباہر نکلتا تھا کہ کسی کو شک تک نہ گزرتا کہ ایسا شخص کسی قسم کی تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہو سکتا ہے،جس کی وجہ سے اس کی گرفتاری کا عمل مؤخر ہوتا رہا،وہ آئے دن بھیس بدل کر اور خوب بن سنور کرمختلف ہوٹلوں میں جاتا اور دوشیزاؤں سے ملتا، لیکن آخر کب تک وہ پولیس کو دھوکہ دیتا؟ پولیس نے اس کا تعاقب جاری رکھا اور اسےایک دن ریاض کےایک پرائیویٹ کلینک سے گرفتار کر نے میں کامیاب ہو گئی،جس وقت اس کی گرفتاری عمل میں آئی وہ ایک لڑکی کے ساتھ تھا اور اس کی ٹیبل پر شراب کی بوتل پڑی تھی۔
2015 میں ریاض کے نواحی علاقے “لبن” میں ہونے والی تخریبی کارروائی میں ملوث دہشتگرد رامی الشمری کے بارے میں تحقیقات سے پتا چلا کہ وہ نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتا تھا، 2015 میں ہی کویت کی ایک مسجد میں خودکش حملہ آور سے متعلق بھی تحقیقات سے یہی ثابت ہوا تھا کہ وہ منشیات کی خطرناک ترین قسم کرسٹل کا عادی تھا۔
لندن سے شائع ہونے والےسعودی روزنامے “الحیاۃ” کے مطابق داعش کے سابق رکن احمد ثامر المطیری نے بتایا کہ وہ اس لیے تنظیم کو چھوڑ کر بھاگ آیا ہے کہ تنظیم کے سرکردہ افراد حشیش اور دیگر منشیات کے عادی تھے ، وہ روزانہ رات کو رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرتے اور دن کو بے گناہ مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں قتل کرتے تھے۔اخبار نے ان نام نہاد مجاہدین کی زندگی کے کچھ ایسے شرمناک گوشے بھی بیان کیے ہیں جو ناقابل تحریر ہیں۔روزنامہ “الحیاۃ” نے جدہ،قطیف سمیت سعودیہ کی مختلف عدالتوں میں چلنے والے متعدد مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تمام کیسز میں جو چیز مشترک تھی وہ حشیش کا استعمال،شراب نوشی یا دیگر منشیات کی عادت تھی۔
سعودی وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق مسجد نبوی میں تخریبی کارروائی کرنے والا شخص بھی نشے کا عادی تھا، جبکہ رواں ہفتے خانہ کعبہ کو آگ لگانے کی کوشش کرنے والے کے بارے میں ابھی تفصیلات آنا باقی ہیں لیکن ابتدائی رپورٹ یہی بتاتی ہے کہ اس کی حالت طبعی نہیں تھی،یا تو وہ نفسیاتی مریض تھا یا نشے میں دھت ہو کر یہ ناپاک جسارت کرنے کے لیے آیا تھا۔
خودکش حملہ آور بھی کارروائی سے قبل حشیش یا نشہ آور انجکشن کا استعمال کرتے ہیں، بلکہ ماہر نفسیات ڈاکٹر میسرہ طاہر کا کہنا ہے کہ دہشت گرد اپنی تنظیموں میں بھرتیوں کے لیے بھی منشیات کو ذریعہ بناتے ہیں، ان کے مطابق دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث گروہوں میں منشیات کا استعمال ایک عام سی بات ہے۔
یہ تمام رپورٹس یہ ثابت کرتی ہیں کہ آج کی جدید دنیا کے دہشت گرد بھی ہزار برس قبل گزرنے والے حسن بن صباح کے پیروکارفدائیین (جنہیں حشاشین بھی کہا جاتا ہے )کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، اور ارتقاء کے فطری عمل کا اثر دہشت گرد کے ظاہری ہتھیار پر تو پڑا ہے کہ خنجر یا تلوار کی بجائے گولی ،بم یا خودکش جیکٹ بن گیالیکن جو چیز اسے اتنے بڑے جان لیوا اور سفاکانہ اقدام پر آمادہ کر دیتی ہے وہ آج بھی وہی ہے جو گیارہویں صدی میں حشاشین کے فدائی حملوں کی بنیاد ہوا کرتی تھی،یعنی حشیش کا استعمال۔
اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ماضی میں حشاشین کے حشیش کے استعمال کو جو بعض لوگوں نے “مخالفین کامن گھڑت افسانہ “بتایا ہے(جیسا کہ کیرن آرم سٹرانگ نے “اسلام :آ شارٹ ہسٹری ” میں دعوی ٰکیا) یہ بالکل بے وزن دعوی ٰہے اور حشیش کا استعمال کوئی من گھڑت افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
فیس بک پر تبصرے