فطرت سے ہم آہنگی ضروری ہے

1,286

سال 2020کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے، انفرادی سطح سے لے کر ملکی و بین الاقوامی سطح کے تمام تر اہداف  کے حصول میں تعطل آ چکا ہے، ایسا تعطل جس کی کوئی حد نہیں ، اگرچہ معاشی سرگرمیاں بحالی کی  جانب مائل ہیں مگر سماجی سطح پر وہ چہل پہل، وہ رونق  ابھی بڑے شہروں میں دکھائی نہیں دے رہی۔ معلوم نہیں مکمل بحالی میں کتنا وقت درکار ہے اور یہ بھی کہ کیا دنیا کی رونقیں پھر اسی طرح بحال ہو سکیں گی؟ یہ دیکھنا باقی ہے کہ انسان بعد از کورونا دنیا میں جینے کا ڈھنگ کیا اپناتا ہے اور اس میں وہ اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کتنی کوشش کرتا ہے۔ کیا کسی نے گذشتہ ایک صدی کے دوران کبھی بھی ایک لمحےکو یہ سوچا تھا کہ دنیا اس طرح رک جائے گی؛  ایک نہ نظر آنے والی مخلوق مریخ و مشتری سے بھی پرے دوسری کہکشاؤں کو مسخر کرنے والے ذہین انسانی کی تمام تر سرگرمیوں  کو معطل کر کے رکھ دے گی۔

برسہا برس تک موسموں کے تغیر  اور ہوا کے رخ اور دریاؤں کی روانی اور درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ کی خبر رکھنے اور اسے اپنے حق میں استعمال کرنے والا انسان پیش آمدہ بیماریوں  کی خبر نہیں رکھ سکتا، ان سے نمٹنے کی ترکیب و تدبیر کرنے کے قابل نہیں ہے۔ تسخیرِ کائنات کی دھن میں مگن کائنات کے اخفا رازوں کی کھوج میں غلطاں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی لامتناہی خواہش کی پیروی میں آدمی  نےنظمِ دنیا کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے ؛ تسخیرِ کائنات کی یہ جدوجہداگر محض  اپنے شوقِ سفر  کی تسکین، ایک مجموعی بھلائی اور تلاشِ حق کی ازلی جستجو کے سبب ہوتی تو اور بات تھی، تب  شاید کرہِ ارض کی حالت یہ نہ ہوتی جو اب ہے، زمین اس سے مختلف ہوتی اور اسی طرح سرسبز و شاداب اور اسی طرح خزانے اگلتی ، جیسا کہ شروع میں تھی اور جس کی ہلکی سی جھلک ان ایام ِ مقفل میں  انسانی سرگرمیوں کے بند ہو نے کے سبب دکھائی دے رہی ہے۔ بدقسمتی مگر یہ کہ کائنات کو مسخر کرنے کے اس سفر کا محرک اپنی برتری میں دوام اور اپنی طاقت میں استحکام کی نفسیات ہے،  زعم برتری میں بدمست  اور طاقت کے نشے میں دھت حضرتِ انسان  جہاں اس سفر میں اپنے ہم جنسوں کو  ہی تر نوالہ سمجھتا ہے، وہاں اجناسِ دگر کسی گنتی میں کہاں آتی ہیں۔

صنعت و حرفت کے کارخانوں، چم چم کرتی لمبی اجلی اور سرپٹ دوڑتی گاڑیوں، بادلوں کا سینہ چاک کرتے ہوائی جہاز، سمندر میں تیرتے بحری بیڑے، گھروں اور دفتروں  میں درجہ حرارت کو موافق کرتے ہوئےاے سی ، خوراک کی حفاظت کےلیے بنائے گئے ریفریجریٹرز، وہ تمام کی تمام اشیا جو انسانی زندگی کو سہل کرنے کے لیے وجود میں لائی گئیں، جنہوں نے انسانی زندگی کو تیز تر اور ذہین بنایا، انسان نے سوچا کہ شاید وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کی قوت اور اس کے لیے مطلوب ذہانت سے آراستہ ہے، اور وہ ترقی کے اس سفر میں کامیابی سے بلا رکاوٹ آگے بڑھ سکتا ہے لیکن یہ سراب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔

رچل کارسن   اپنی کتاب ‘خاموش بہار ‘ کے آغاز میں کہانیِ فردا کے عنوان کےتحت اس سراب کی حقیقت سے  ہمیں روشناس کراتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ” یہ امریکا کےدل میں واقع  ایک قصبہ ہے ، یہاں کبھی زندگی اپنے جوبن پر تھی اور اپنے گردو پیش سے ہم آہنگ بھی۔  یہاں طرح طرح کے چہکتے پرندے دور دراز کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتے، بہار کے موسم میں مہاجر پرندے رونق میں مزید اضافہ کر دیتے ۔ سڑکیں گھنے درختوں سے ڈھکی رہتیں۔ پہاڑوں کے دامن سے پھوٹنے والے چشمے اور ندیاں اور ان کا شفاف پانی، جس میں رنگ رنگ مچھلیاں تیرتی نظر آتی تھیں۔” وہ آگے لکھتی ہیں کہ” پھر یوں ہوا کہ  جیسے کسی نے کالا جادو کردیا ہو، ہر طرف موت منڈلانے لگی، نہ صرف جانور، بلکہ خود انسان بھی  موت کے منہ میں جانے لگے، یہ ایک خاموش بہار تھی جہاں ہر سو سراسیمگی، انجانا خوف اور تاریکی طاری تھی، وہ صبحیں جن کا آغاز چڑیوں، نیل کنٹ، فاختاؤں، بلبلوں، لالیوں،  گربانگوں اور دیگر رنگ برنگے پرندوں کے خوبصورت دلربا نغموں سے ہوتا تھا وہ اب خاموش تھیں ؛  خشک لکڑیوں، ویران کھیتوں اور دلدلوں میں اب سکوتِ مرگ طاری تھا۔ موجودہ صدی میں کائنات کی ایک ہی  نوعِ حیات، یعنی انسان  نے دنیا کی فطرت کو بدلنے کی خاطر خواہ طاقت حاصل کر لی ہے۔ ہمارے لاپرواہ اور تباہ کن اقدامات نے کائنات کے بنیادی دائروں میں رخنہ ڈال دیا ہے اور وہ وقت آن پہنچا ہے کہ تمام فاضل مادے ہماری ہی طرف لوٹنے لگے ہیں۔” اسی طرح کورماک  میکارتھی  کے ‘ سڑک’ میں بیان کردہ منظرنامہ ہماری  فطرت پر ہماری فتوحات  کا عکاس ہے، جہاں انسان دنیا کے تمام تر وسائل و ذرائع کو  اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کر کے دھندلی،  بے رنگ، خالی  خاک اڑاتی زمین پرحقیقی طور پر آدم خور بن جاتا ہے۔

ایک طرف کارسن اور میکارتھی  کی بیان کردہ دنیا ہے جس کے ہم ذمہ دار ہیں اور  جسے اسٹیفن ہاکنگ جہنم یا ہالہِ نار سے تعبیر کرتے ہیں، اور دوسری جانب  انتظار حسین کے کسی ناول کا خوبصورت  منظر ہے یا پھر عجب خان یا میکائیل آوکی کوئیدلنشین تصویر؛ ہمیں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ طے کرنے سے پہلےلازم ہے کہ ہم  موجودہ دنیا کو محض معاشی اور سیاسی طاقت و قوت کے عدسہ کی بجائے سماجی و نفسیاتی اور ماحولیاتی زاویہ سے دیکھیں ۔ فطرت سے ہم آہنگ مستقبل کی طرف پیش رفت  کے لیےایک ایسی دنیا کو وجود میں لانے کی سعی ضروری ہےجہاں ہم فطرت سے دوبدو ہونے کی بجائے  فطرت سے ہم آغوش ہوں؛ ایک ایسا طرزِ حیات جو سر سبزپودوں، سایہ دار درختوں، چہچہاتے پرندوں، خوبصورت چوپائیوں، نرم اور صاف ہواؤں، شفاف پانیوں، زرخیز زمینوں ، اجلے آسمانوں سے لگاؤ رکھتا ہو، جو ان کا خیال کرتا ہو،  جو ان سے ہم آہنگ ہو۔ اپنی ضروریات  کے لیے قابلِ تجدید وسائل اور ماحول دوست ذرائع پر انحصار اہم ہےتاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے  خوبصورت، سرسبز، شاداب اور کشادہ دنیا چھوڑسکیں  ۔

مگر کیا ہم اپنا روایتی طرزِ عمل تیاگنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم اپنی توانائیوں کو جنگ و جدل، معاشی مسابقت و مقابلہ بازی اور  برتری و سیادت کی اندھی خواہشوں کی تکمیل کی بجائے مجموعی بھلائی، شراکت دارانہ ترقی،  اتصال و اتفاق  اور امنِ عالم اور معاشی ہمواری و برابری  کے لیے استعمال میں لا سکتے ہیں؟ کیا  ہم تسخیرِ کائنات، ترقی اور جدت  کے محرک روایتی فرسودہ  زاویوں کو بدل کر انسان کی مادی اور اخلاقی ضرورتوں کے مابین ربط پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں ؟  اگر ہاں تو تبھی ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ ہم اپنے وسائل و ذرائع کو ماحولیات اور محیطِ زیست  کی بہتری کے لیے بروئے کار لاسکیں اور فریڈرک اینگلز کے الفاظ میں  ہم فطرت کے انتقام سے بچ سکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...