بشارالاسد کی بیماری کا معمہ
بشار الاسد کے دماغ میں رسولی کا شکار ہیں اور کچھ عرصے سے الشامی ہسپتال میں ہفتہ وار بنیادوں پر طبی معائنہ کروا رہے ہیں جس کے اثرات اب شدت کے ساتھ سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان اثرات پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ مختصر وقفوں کے ساتھ میڈیا میں نمودار ہوتے ہیں
شامی ڈکٹیٹر بشارالاسد کی صحت سے متعلق گزشتہ چند دنوں سے مختلف متضاد خبریں گردش کر رہی ہیں :
ایک خبر بشار پر دماغی فالج کے حملے کی ہے جو کہ گزشتہ ہفتے لبنان کے روزنامے “المستقبل” اور دیگر اخبارات نے دی ہے جس کے مطابق بشار الاسد دماغی سکتے سے متاثر ہیں اور دمشق کے “الشامی” ہسپتال میں سخت حفاظتی انتظامات میں زیر علاج ہیں۔یہ وہی ہسپتال ہے جہاں سابق شامی صدر حافظ الاسد(موجودہ صدر کے والد) نے 10 جون 2000 کو اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کیں۔ اس کے علاوہ حافظ الاسد کے داماد آصف شوكت اور کئی دیگر اہم سرکاری شخصیات نے الشامی ہسپتال میں ہی زندگی کے آخری لمحات گزارے۔
سعودی روزنامے “عكاظ” کی خبر ذرا مختلف ہے،عکاظ نے جمعے کے روز “خصوصی ذرائع” کے حوالے سے بتایا کہ بشار الاسد دماغ میں رسولی کا شکار ہیں اور کچھ عرصے سے الشامی ہسپتال میں ہفتہ وار بنیادوں پر طبی معائنہ کروا رہے ہیں جس کے اثرات اب شدت کے ساتھ سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان اثرات پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ مختصر وقفوں کے ساتھ میڈیا میں نمودار ہوتے ہیں ۔ عکاظ ذرائع کے مطابق بشار کے طبی معاملے کو شام میں موجود روسی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم دیکھ رہی ہے۔
معروف لبنانی روزنامے “الديار” نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ بشار پر فالج کے حملے کے سبب ان کی ایک آنکھ اور جسم کا کچھ حصہ متاثر ہوا ہے۔ تاہم ہفتے کے روز اشاعت میں اخبار نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اسے محض لوگوں کا خیال اور گمان قرار دیا۔
یہاں تک جن خبروں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سب اس بات پر تو متفق ہیں کہ بشارالاسد دمشق کے الشامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں لیکن ان کی بیماری کیا ہے؟اس بارے میں کہیں دماغ کی رسولی،کہیں دماغی فالج اور کہیں جسم کے ایک حصے پر فالج کا حملہ بتایا گیا ہے جس سے ان کی آنکھ بھی متاثر ہوئی،
مزید افواہیں سنیئے:
ایک خبر کے مطابق بشارالاسد اپنی بیماری کا علاج کروانے کے لیے لبنان گئے ہوئے ہیں اور امریکن یونیورسٹی بیروت میں زیر علاج ہیں،جبکہ فرانسیسی ہفت روزہ “لی پوائنٹ” نے یہاں تک دعوی کر دیا کہ بشار الاسد کو ان کے ایرانی گارڈ مہدی الیعقوبی نے قتل کر دیا ہے جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر پھیل گئی کہ شامی صدر اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔
تضادات سے بھرپور اس خبر کےاتنی کثرت سے سوشل میڈیا پر پھیلاؤ سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس خبر کا پیچھا کیا جائے اور اصل خبر کا سراغ لگایا جائے کہ آیا شامی صدر فالج یا کسی مرض کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں یا اپنے محافظ کی گولی کا شکار ہو کر؟ اور آیا وہ ہسپتال میں داخل بھی ہیں یا یہ سب ان کے مخالفین کی طرف سے گھڑا ہوا افسانہ ہے؟
تا دم تحریر کہیں سے بھی اس خبر کی تصدیق سامنے نہیں آئی جبکہ فیس بک پر شامی ایوان صدر کے صفحے پر ان خبروں کی تردید کی گئی ہے۔
لبنانی جنرل سکیورٹی کے سابق سربراہ میجر جنرل جمیل السید نے ان خبروں کو محض افواہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے اپنی ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ ” صدر بشار کے دماغی سکتے سے متاثر ہونے کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس کے خلاف جنگ میں بے بس ہونے کے بعد اب مخالفین نے اپنی تمناؤں اور خواہشوں کا رُخ قدرت کی جانب کر لیا–
الجزیرہ کے معروف اینکر فیصل القاسم نے بھی اپنے آخری ٹویٹ میں ایسی تمام خبروں کی تردید کی ہے،فیصل القاسم گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل اس خبر کا پیچھا کر رہے ہیں اورجو بھی اپڈیٹس ملتی ہیں انہیں فیس بک اور ٹویٹر پر شیئر کر رہے ہیں،ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ بشارالاسد زندہ ہیں اور وہ الشامی ہسپتال میں معمول کا چیک اپ کروانے گئے تھے،اس لیے افواہوں پر کان نہ دھرے جائیں، فیصل القاسم نے مزید یہ بھی کہا کہ اس وقت شام کا مکمل کنٹرول روس کے ہاتھ میں ہے اور بشار کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی ہے اور اب اس کے ہاتھ میں کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا،حتی کہ اس کی جان بھی،کیونکہ شام کے مستقبل میں بشارالاسد کی کوئی جگہ نہیں ہے، اب شام روس کے ہاتھ میں چلاگیاہے اور ایران روس سے اپنا حصہ مانگ رہا ہے۔
شامی صدر کی صحت سے متعلق معمولی خبر پر اتنی گرم بازاری دیکھنے کے بعد شامی ڈکٹیٹر کے لیے پائی جانے والی نفرت اور اس کی موت کی تمنائیں کرنے والوں کی کثرت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ شامی عوام کے مستقبل پر ہم کتنے فکر مند ہیں؟ ان کو روسی اور ایرانی تسلط سے آزاد کروانے کے لیے او آئی سی یا عرب لیگ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ اور فوری طور پر پناہ گزینوں کی امداد میں مسلم عوام اور مقتدر حلقوں کی جانب سےکتنی سنجیدگی دکھائی جارہی ہے؟
اللہ کرے کہ ہمیں ان امور پر بھی سوچنے اور فکرمند ہونے کی فرصت ملے۔
فیس بک پر تبصرے