دینی مدارس خود کفیل کیسے ہوں؟
پاکستان میں جہاں دیگرعصری تعلیمی ادارے موجود ہیں، وہاں دینی مدارس جیسے تعلیمی ادارے بھی ایک حقیقت ہیں۔پاکستان میں اس وقت ہزاروں دینی مدارس میں کم و بیش پانچ تا چھ لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں ۔ دینی مدارس کے بارے میں ہمیشہ سے ایک طبقہ کی جانب سے عمومی طور پر یہ الزام داغا جاتا رہا ہے کہ یہ مدارس دقیانوسی تعلیم دیتے ہیں۔ جس کے سبب ان مدارس سے انتہاء پسند ذہن پیدا ہوتے ہیں اور اس انتہاء پسندی کے سبب معاشرے میں فساد برپا ہوتا ہے۔دینی مدارس کو تین بنیادی نکات میں تقسیم کرلیا جائے تو سمجھنے میں آسانی ہو سکے گی۔ پہلا دینی مدارس کی ضرورت ، دوسرا دینی مدارس کا نصاب اورتیسرا دینی مدارس کا نظام ۔ اختصار کے ساتھ یہی عرض ہے کہ دینی مدارس کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے ،جنہیں بنیادی اسلامی تعلیم کی بھی ضرورت ہے ۔ بنیادی اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے یقینا ًایسے ہی اداروں کے قیام بھی ضروری ہے جہاں اس ضرورت پور اکیا جا سکے۔ دوسرا نکتہ دینی مدارس کے نصاب کا ہے۔اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب دو طرز پر مشتمل ہے۔ ایک ابتدائی جس میں بنیادی تعلیم قرآن ناظرہ ، قرآن کی تفہیم پیدا کرنا ،اور رسول اللہ کی سیرت مبارک سے آگاہی دینا ہے۔ جب کہ نصاب کا دوسرا حصہ وہ مکمل تعلیمی نظام ہے، جس میں ترتیب کے ساتھ چند سالوں پر محیط جامع کورس کرایا جاتا ہے ۔ نصاب کی پہلی ضرورت تو ہر مسلمان کی ضرورت ہے مگر نصاب کا دوسرا حصہ صرف ان کے لیے مختص ہے جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ دین کا عالم بننا ہے ۔ تیسرا اور اہم نکتہ مدارس کا نظم پر مشتمل ہے، جس میں وہ تمام نظم الامور شامل ہیں ،جیسا کہ ادارے کا قیام کا نظم، پڑھانے کا نظم، نگرانی کا نظم، رہائش کا نظم، تربیت کا نظم اور اوقات کا نظم شامل ہے جوکہ دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلےمیں مثالی کہلاتا ہے۔
معاشرہ وہ طبقہ جو دینی مدارس پر معترض ہوتا ہے وہ نصاب کو زیادہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور اس ضمن میں پورےادارہ ہی کو قابل نفرت قرار دے دیتا ہے۔ حالانکہ مدارس نے اپنے نصاب میں وقت کے ساتھ جو بہتری لانے کی کوشش کی ہے اسے بھی مثبت انداز سے دیکھنا چاہیئے ۔ ویسے بھی کسی بھی ادارے میں موجود کمی و کمزوری اور کوتاہی کو دور کرنے میں اصلاحات کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، چاہے وہ اصلاحات نظم الامور سے متعلق ہوں یا نصاب تعلیم سے متعلق۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ معاشرے کا جو طبقہ دینی مدارس پر شدیدمعترض ہوتاہے ، اس کی جانب سے اصلاحات کے لیے کبھی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ مجموعی طور پر دینی مدارس کے مکمل نظام و انصرام کا دارو مدار اہل خیر کے چندے و عطیہ، زکوۃ و خیرات و صدقات پر قائم ہوتا ہے ۔ گویا ایک تاثر قائم ہو چکا ہے کہ دینی مدارس کی خدمات ان ذرائع کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے لوگوں میں یہ مزاج کیوں پیدا نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کو خود کفالتی نظام کے تحت قائم کریں اور اسے خود مختار بنانے کی بتدریج کوشش کریں؟ تاکہ نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا جا سکے اور نہ ہی عزت نفس مجروح ہو ۔ کیااس کا متبادل کوئی ہو سکتا ہے ؟ تو جواب ہاں میں ہے ۔
اس وقت ہمارے سامنے بے شمار دینی مدارس کے فاضلین کے بنائے ہوئے وہ ادارے موجود ہیں جنہوں نے مدارس کے تعلیم مکمل کرنے کرنے بعد نئے طرز کے ادارے قائم کیے جن میں باقاعدہ طلبہ کی فیس مقرر ہے ۔ اور ایسے اداروں کا پورے پاکستان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ دوسری جانب آن لائن دینی تعلیم کا بھی کثرت سے اہتمام جاری ہے ،جہاں فیس کی وصولی ڈالرز ،پاونڈز و دیگر کرنسی میں وصول ہوتی ہے۔ جب دینی نصابی کتب کی خرید بغیر پیسوں سے ممکن نہیں تو تعلیم میں اجرت لینا کیوں مناسب نہ ہوگا؟ گویا شاید کچھ دینی مدارس کے فاضلین نے اس پر غور کیا کہ ہمیں خود کفالتی پروگرام کی طرف جانا چاہیئے ،اور ہمیں پرانے طرز کے مدارس بنا نےاور اہل خیر کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے، اس نیک کام کو اس طرح سے آگے بڑھایا جانا چاہیے ۔ یقیناً وقت اور حالات کے بدلتے مسائل نے معاشی ضرورت پورا کرنے کے لیےایک نیا زاویہ ذہن میں اجاگرکر دیا۔ باوجود اس کے ، اس سوال کا جواب اب بھی ادھورا ہے کہ کیا دینی مدارس میں چندےو عطیے، زکوۃ و خیرات کے ساتھ چلتے رہنے کا یہ تاثر ختم ہونا چاہیئے یا قائم رہنا چاہیئے؟ میرا خیال یہ ہے اس کا جواب دیانتداری کے ساتھ تلاش کرنا آج کی ایک اہم ضرورت ہے ۔
موجودہ دور میں جیسے جیسے نت نئی ترقی اور جدید سہولیات بڑھتی جا رہی ہیں، ویسے ویسے انسانی ذہن میں ان آسائشوں کے حصول کی جستجو اور تلاش بھی تیزی سے ذہنوں کو بدل رہی ہے۔ دینی اداروں میں آسائش و سہولیات کا اگر ایک چھوٹا سا جائزہ لیا جائے، تو شہری مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور مہتمم ، دیہی مدارس کے طلبہ ، اساتذہ و مہتم کے معیار زندگی میں واضحفرق نظر آئے گا ۔ اس فرق کا واضح سبب یہی نظر آتا ہے کہ شہری مدارس کے ذمہ داران کا شہر کے سرمایہ دار اہل خیر سے روابط قائم ہوجاتے ہیں ۔ جس کے جتنے باثر اہل خیر سے روابط اور تعلق قائم ہونگے، ان کے اپنے اور ادارے کے معیار میں اتنی ہی زیادہ آسائشیں اور سہولیات بڑھتی چلی جائیں گی۔ واضح رہے کہ اس عمل کو کسی طور پر بھی صحیح اور غلط ، جائز ناجائز سے تعبیر نہیں کیاجا سکتا ہے ۔یہ ایک ضرورت ہے جس کی تکمیل کے تقاضے مختلف ہو سکتے ہیں۔لیکن سوال وہیں اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا دینی مدارس کو مستقل بنیاد وں پراپنے وسائل خود پیدا کرنے کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور کیا اپنا خود کفالتی نظام شروع کرنا چاہیئے ؟
اس ضمن بس گزارش اور تجویز اتنی سی ہے کہ مدارس میں ذہین طلبہ کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے ۔مدارس میں موجود ایک یا دو کمرے سے ایک مثالی خود کفالتی پروگرام شروع کیا جا سکتا ہے۔اس عمل کے لیے کچھ ماہرین کا انتخاب کیا جائے جو ادارے کی مالی ضرورت کے پیش نظر ،غور فکر، سوچ بچار کے بعد ایک ورکنگ پلان مرتب کریں کہ ایک طالب علم پہلے درجے سے آخری درجے تک کتنے ہنر سیکھ پائے گا، اور اس کی مہارت سے کتنے عرصے میں اور ادارے کو کتنا مالی فائدہ ہوسکے گا؟اس جامع منصوبہ بندی اور اس کا لائحہ عمل کاخاکہ سامنے لاکر ابتداء کی جائے۔ مدارس اپنا تعلیمی نصاب بھی پڑھائیں۔ عصری علوم کو بھی شامل کریں اور ساتھ ہی پورے تعلیمی نظم میں کم از کم ایک گھنٹہ کسی ہنر وفن کے سکھانے میں وقف کریں ۔ہر طالب علم کو اس کے مزاج کے مطابق ہنر سیکھنے کی ترغیب دی جائے۔ مختلف فنون جن میں خیاطی، کار پینٹر، موبائیل، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ ریپیرنگ، بجلی کے کنکشن، موٹر وائینڈنگ، موٹر سائیکل اور کار الیکٹریشن، فرج ، ریفریجریٹر،ا یئر کنڈیشن کی مرمت، اردو، عربی انگریزی ، تراجم اورکمپوزنگ، پرنٹنگ پریس، جلد سازی بے کار اشیاء کو کار آمد بنانا، باغبانی ، پانی کے فلٹر پلانٹ بنانا،کمپیوٹر کورسز میں ،ویڈیوز ایڈیٹنگ، گرافکس، ویب ڈیزائن جیسے بے شمار فنون کی فہرست مرتب کی جائے اور ضرورت اور ترجیحی بنیاد پر کچھ فنون سے ابتداء کی جائے ۔ رفتہ رفتہ صرف مدارس کے طلباء ہی نہیں بلکہ علاقے کے بچوں میں یہ فنون سیکھنے کا شوق بیدار ہو سکے گا۔ ویسے بھی انٹر نیٹ کی دنیا نے جو انقلاب برپا کردیا ہے،اس کے مطابق ہر قسم کے آن لائن بزنس کا بھی دور شروع ہوچکا ہے ۔ اس جدید سہولت سے بھی فائدہ اٹھانا بھی مستقبل کی منصوبہ بندی کہلائے گا۔ جب دینی مدارس یہ عمل شروع کرینگے تو پاکستان میں موجود سرکاری ووکیشنل ادارے اور پرائیویٹ ٹیکنکل ادارے بھی اس سفر میں ضرورشامل ہوجائیں گے۔ یہ اسکیم دیہی مدارس سے شروع ہو گی تو اس کے فوائد شہری مدارس سے مختلف ہونگے۔ ایک عالم دین بن کر وہ نہ صرف اپنے ادارے کی مستقل خدمت سے جڑا رہے گا ، بلکہ اس کا اپنا معاش کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گا۔ پاکستان کو ایسے ہی مثالی اداروں اور افراد کی ضرورت ہے جن کے ثمرات سے معاشرے میں خوشگوار ترقی کی ابتداء ہو سکتی ہے۔ بے شمار مثبت سوچ رکھنے والوں کا یہ ایک خواب ہے جس کی تعبیر یہی دینی مدارس ہیں۔
فیس بک پر تبصرے