صدیق عالم، ایک علاحدہ رنگِ سخن کا موجد
“اسے جھکنے نہ دو؛ اور نہ ہی اس کی شدت کم کرو۔ اسے منطقی بنانے کی کوشش بھی نہ کرو؛ رواج کے مطابق اپنی روح کو مدون کرنے کی بجائے بے رحمی سے اپنے انتہائی شدید جنون کی پیروی کرو۔” صدیق عالم کے افسانوں کا انتخاب ” نادر سکوں کا بکس” مطبوعہ ” آج” پڑھتے ہوئے بار بار , کافکا سے منسوب مندرجہ بالا قول میرے ذہن سے ٹکراتا رہا جسے صدیق عالم نے ان افسانوں کے زریعے عملی قالب میں ڈھال دیا ہے۔
صدیق عالم کی کہانیوں کے رنگ مانگے تانگے کے نہیں ہیں۔ یہ رنگ اس کے زرخیز ذہن سے برآمد ہوتی تخیل کی ایسی ویو لائیٹس ہیں جو سطحِ قرطاس پر اترتے ہی ہر سو قوس قزح بکھیر دیتی ہیں۔ وہ نظریہ پرست نہیں نظریہ ساز ہے، ایک مبدا، ایک منفرد رنگِ سخن کا موجد ہے۔
” نادر سکوں کا بکس” آرٹسٹک فارم کی شاندار توسیع ہے۔ کچھ کہانیاں تو اردو افسانے کے روایتی نظم سے کلی طور پر آزاد ہیں اور اپنی نو دریافت شدہ خود مکتفی دنیاؤں میں درک و فہم کے نئے افق وا کرتی ہیں۔ “ڈھاک بن” ایسی ہی ایک کہانی ہے جس میں جادوئی حقیقت نگاری کو اس کی مکمل تفہیم کے ساتھ برتا گیا ہے۔ میری رائے میں اردو افسانہ نگاری میں یہ اپنی طرز کا اولین مکمل کامیاب تجربہ ہے۔ اس سے پیشتر فینتیسیا، معمہ، تحیر اور پراسراریت کئی دہائیوں تک جادوئی حقیقت نگاری کی پیکنگ میں پیش کی جاتی رہی ہے۔
میجیکل رئیلزم روزمرہ زندگی کے تانے بانے عموماً فینٹسی اور اسطورہ سے بُنتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جہاں ہر شے آپس میں جادوئی عناصر کے دھاگے سے بندھ جاتی ہے۔ معمولی غیرمعمولی کے ساتھ، حقیقی غیرحقیقی کے ساتھ، نیند بیداری کے ساتھ اور خواب حقیقت کے ساتھ گندھ جاتے ہیں۔
اس افسانے میں جھرنا ہیمبرم اور منگرو کی اپنے بیٹے رائسن سے محبت کو بیان کیا گیا ہے۔ منگرو افسانے کے آغاز سے پہلے ہی مر چکا ہے۔ اس کی روح ڈھاک بن میں چیتیان کے پیڑ پر بسیرا کرتی ہے۔ رائسن نے اپنی ماں کی عمر کی ایک عورت سے شادی کرلی ہے اور جھرنا کو بھی گاؤں سے اپنے پاس لے آیا ہے۔ جھرنا ہیمبرم کی بہو اسے قبول نہیں کرتی۔ وہ ہر وقت اسے طعن و تشنیع کرتی رہتی ہے۔ جلد ہی رائسن بھی اپنی بیوی کی ڈگر پر چل نکلتا ہے اور اپنی ماں کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ وہ اپنے گاؤں واپس آجاتی ہے جہاں اس کا کتا تھنبا اس کا منتظر ہے۔ گاؤں آکر بھی وہ اپنے بیٹے کی مشکلات بارے میں پریشان ہے سو تھنبا کو لئے ڈھاک بن جا پہنچتی ہے۔ منگرو جو بیٹے کی حرکات معاف کرنے پر تیار نہیں، جھرنا کےمنت سماجت کرنے پر مان جاتا ہے اور اسے ایک نگارا دیتا ہے کہ مشکل سمے میں اسے بجانے سے دکھ دور ہو جائیں گے۔ لیکن نگارا بجانے کی تاثیر الٹی نکلتی ہے۔ اس کا بیٹا رائسن اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور پولیس اسے گرفتار کرلیتی ہے۔ جھرنا تھنبا کے ساتھ دوبارہ ڈھاک بن جاتی ہے لیکن منگرو کی روح وہاں سے جا چکی ہے۔
افسانہ نگار اسے پلاٹ کے گنجلوں، رمز اور پیچیدہ بیانی سے چیستان نہیں بناتا۔ اور نہ ہی مافوق الفطرت کرداروں کے زریعے قاری کے جسم میں اسرار کا کرنٹ چھوڑتا ہے۔ غیر گنجلک پلاٹ، سادہ بیان، جاندار کردار، پرتحیر فضا، اپنے عہد اور تہذیب کا نقشہ کھینچتے مکالموں کے زریعے ” ڈھاک بن” قاری کو خود میں جذب کر لیتا ہے۔ عام، سادہ اور معمولی انسانی کرداروں سے ورائے طبعی واقعات رونما ہوتے ہیں جو اصل میں جادوئی حقیقت نگاری کا منفرد پہلو ہے۔
میجیکل رئیلزم میں تصوراتی اور جادوئی عناصر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ معمول کی بات ہو۔ لیکن ” معمول کی یہ بات” حقیقت کے تسلیم شدہ معیار پر مسلسل سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اصل میں جادوئی حقیقت نگاری مصنف کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ کسی قبول شدہ حقیقت کا متبادل پیش کرے۔
” تجھے زندہ رہنے کے لیے کسی کی ضرورت تو نہیں تھی جھرنا؟ تو ریچھ کی طرح طاقتور تھی۔ تُو تو اکیلی پہاڑ کی رکھوالی کر سکتی تھی۔ پھر بھی، جب تو کمزور پڑ ہی چکی ہے تو میں تجھے لڑنے کے لیے ایک ہتھیار دیتا ہوں۔ وہ جنگل کی طرف بھاگا۔ وہ ایک دیودار کے تنے پر چڑھتا نظر آیا، اس نے اپنی آنکھیں خاردار جھاڑیوں پر ٹانگ دیں اور کان پتوں پر لٹکا دیئے۔ اس کے دانت پتھروں پر گرتے چلے گئے اور اس کے بال الگ الگ رینگنے لگے۔ جھرنا ہیمبرم نے اپنے سامنے ایک چھوٹے سے نقارے کو پڑاپایا۔منگرو اس کے سامنے کھڑا ہانپ رہا تھا۔ نقارے کے چمڑے کی کھال پر اپنی سوکھی چمڑیوں والا ہاتھ پھیر رہا تھا۔
اس نگاڑے کے لیے ہم روحوں نے کتنی محنت کی تھی۔ اسے مٹی کے نقاب پہن کر ناچنے والوں سے چھینا تھا جب ان کا جتھا نیچے شہر کی طرف جا رہا تھا اور نشے میں تھا۔ جب بھی تیرا دکھ تجھے چاٹے تو اپنی ساری چوٹ اس کو دینا۔ یہ تیرا دکھ بانٹ لے گا تیرا کام آسان کر دے گا۔ اسے بجانے کے لیے ایک مڑی ہوئی لکڑی بنا لینا اور اسے تیل پلانا جس کی ہم روحوں کو قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔” ( صفحہ نمبر 17)
اور یہ بھی دیکھئے:
“خاموش رہو بے مطلب کے پِلو! منگرو کی آواز سے روحیں دہل جاتیں اور وہ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے پیڑوں اور جھاڑیوں کے پیچھے پناہ لینے لگتیں۔ یہ بھی کوئی زندہ انسانوں کی جگہ ہے کہ دانت نکوس رہے ہو؟ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے علاوہ تم آتماوُں کو اور کچھ آتا بھی ہے۔” ( صفحہ نمبر 15)،
صدیق عالم قاری کو حقیقت سے بیگانہ نہیں کرتا۔ لیکن حقیقت کے سنگین ، اداس اور ناقابل تصور پہلوؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے قاری اور حقیقت میں ایک جمالیاتی فاصلہ ضرور پیدا کرتا ہے۔
” لیمپ جلانے والے” انسان کی ازلی تنہائی کا نوحہ ہے۔ یہ ایک بوڑھے پنشنر اور پرانے وقتوں کے مٹی کے تیل سے جلنے والے آہنی لیمپ پوسٹ کی کہانی ہے۔ ایک دن لیمپ پوسٹ، بوڑھے سے ان الفاظ میں مخاطب ہوتا ہے ” تم مجھے نظر انداز نہیں کر سکتے”۔ بوڑھا اس وقوعہ پر حیران ہوتا ہے لیکن، لیمپ پوسٹ کے دوبارہ بولنے پر اسے یقین آ جاتا ہے۔ ایک دو بار کی بات چیت سے دونوں آپس میں بےتکلف ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے کا اس سے ایک عجیب، اپنائیت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
ایک دن لیمپ جلانے والے، بریکٹ کے ساتھ لٹکے لیمپ میں پیرافین آئل انڈیل کر اسے جلاتے ہیں جس سے وہ اپنے رنگین شیشوں میں جگمگانے لگتا ہے۔ وہ بوڑھے سے کہتا ہے: ” یہ میری زندگی کی ایک اچھی رات ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب کچھ صحیح سمت کی طرف لوٹ آیا ہے۔” بوڑھا تمام رات سنگِ میل پر بیٹھ کر گذارتا ہے کہ تمام رات اس کی آنکھیں لیمپ پوسٹ کے رنگین شیشوں سے ہٹتی ہی نہیں۔ فجر کی اذان سن کر وہ اپنے کمرے میں آ کر سو جاتا ہے۔ جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دن کا بیشتر حصہ گزر چکا ہے۔ وہ باہر سڑک پر آتا ہے جہاں لیمپ پوسٹ موجود نہیں ہوتا۔ لیمپ پوسٹ کو اکھاڑ کر وہاں بجلی کا کھمبا نصب کیا جاتا ہے۔ بوڑھا زمین پر پڑے پرانے لیمپ پوسٹ پر جھک کر اسے انگلیوں سے چھوتا ہے جو اسے کہتا ہے: ” یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔”

ایک ہفتے بعد بوڑھا سڑک پر آتا ہے اور سنگِ میل پر بیٹھ جاتا ہے جہاں نیا سوڈیم لیمپ روشن ہو جاتا ہے۔ بوڑھا اس سے مخاطب ہوتا ہے: ہیلو لیمپ پوسٹ کیسے ہو؟”۔ لیمپ کوئی جواب نہیں دیتا۔ بوڑھا شکست خوردگی کا احساس لئے گھر لوٹ آتا ہے اور کھڑکی بند کر کے بستر پر لیٹ جاتا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اسے پرانا لیپ پوسٹ دکھائی دینے لگتا ہے۔
یہ افسانہ ایک خاص طریقہِ کار اور تکنیک کو نبھانے اور اس کے تخلیقی امکانات کو کھنگالنے کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مصنف غنائیت اور شعریت سے حقیقتیں منکشف کرتا ہوا کہیں بھی تھک کر ڈرامائی تصادم یا میلو ڈرامہ کی بے ساکھیوں کا سہارا نہیں لیتا کہ اس پس منظر میں یہ عجزِ ہنر کی دلیل ہے۔ اس کہانی کا بیانیہ، جزئیات اور تفصیلات کا مکمل وفادار ہے اور غلو کا سایہ بھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔ بوڑھے کے رویے اور طور طریقوں کا بیان کہانی کار کی نفسیاتی ژَرْف نگاہی پر دال ہے جو اس کردار کی نازک ترین کیفیات اور احساس کی مہین ترین لرزشوں کو بھی نظرانداز نہیں کرتی۔
” ہر سال نہ جانے کون میری مغربی دیوار پر ایک کیلنڈر ٹانگ جاتا ہے، اس بات سے لاپروا کہ مجھے اس کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ کیلنڈر ہوا کی زد میں آ کر دیوار پر پلستر پر ایک نیم بیج بیضوی لکیر کھینچتا ہے اور دن بدن اسے زخم کی طرح گہرا کرتا چلا جاتا ہے۔ کبھی کبھار میں چونک کر اپنے بستر پر بیٹھتا ہوں۔ کون ہوں میں؟ اس سیارے پر میرا کام کیا ہے؟ جانے کتنا وقت لگ جاتا ہے تب جاکر میں اس قابل ہو پاتا ہوں کہ زمان و مکاں کے نظام میں خود کو دریافت کر سکوں۔” ( صفحہ نمبر 25)
صدیق عالم کا بیانیہ ڈرامائی یا معروضی نہیں ہے۔ بیانیے میں ان کی چمک دار نثر اور کسے ہوئے اسلوب کی تمتماہٹ ملتی ہے جس کے سبب اس کے اکثر جملے تو اقوالِ زریں کی صفت پیدا کر لیتے ہیں۔ صفحہ نمبر 28 کی مندرجہ ذیل سطور ملاحظہ فرمائیں:
“تم سفر کے بارے میں سوچ کیسے سکتے ہو؟ لیمپ پوسٹ کی آواز میں ہمدردی ہے۔ ایک نئی دنیا کے لیے خود کو تیار کر لو۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ ابھی امکان نے اپنے تمام دروازے کھولے ہی کہاں ہیں۔”
” میرے بہی خواہوں اور میرے بدگوئی کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ایک لمبی زندگی کا لازمی نتیجہ ہے۔ ان سے مجھے بچنا بھی پڑتا ہے اور گاہے بہ گاہے مجھے ان کی ضرورت بھی پڑی رہتی ہے۔ زندگی کے آخری موڑ پر کھڑے ہو کر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ نیا کچھ بھی نہیں ہوتا، سارے رشتے ناتے، واقعات و حادثات خود کو دہراتے رہتے ہیں۔ حافظے کا دیو آپ کو اپنے چنگل میں لئے اڑتا رہتا ہے۔” ( صفحہ نمبر 24)
“فورسیپس” مکالمے اور خودکلامی کی دھند میں لپٹی ہوئی کہانی ہے۔ اس افسانے کے مباحث روایتی کہانیوں کی طرح یک دم واضح نہیں ہوتے۔ اس کا مرکزی کردار بظاہر عجیب و غریب باتیں کرتا ہے لیکن، غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس ہذیان میں بھی عرفان ہے۔ مندرجہ سطور ملاحظہ کیجئے:
” مجھے سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک ٹھاک نظر آتا ہے اور سوچتا ہوں ایک دن میں اس گتھی کو سلجھا کر ہی رہوں گا کہ کیوں لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف پیدا ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے، اور جو کچھ ہوتا ہے اسے کہیں زیادہ انسانیت کے ساتھ، زیادہ جمہوری طریقے پر کیوں نہیں انجام دیا جاتا؟ کیا میڈیکل سائنس میں انسان کی مرضی کو کوئی دخل نہیں؟”( صفحہ نمبر 86)۔
صفحہ نمبر 88 کی یہ لائنیں بھی دیکھئیے:
” آخری آواز میری تھی۔ آپ نے دیکھا یہ صدیق عالم کس درجے کا قلم کار ہے! وہ آپ کی خواب گاہ کے اندر تک داخل ہونے سے نہیں چوکتا۔ اس کا قلم کب فحش نگاری پر اتر آئے اسے نہیں معلوم۔ اس کے بارے میں مجھے اطلاع ملی ہے وہ شہر کے ہر حصے میں، ہر عمارت میں، ہر جھوپڑ پٹی میں، یہاں تک کہ طوائف کے محلوں، مسافر خانوں، کیل خانوں، ہسپتالوں کے مردہ گھروں، بلکہ قبرستان اور شمشان گھاٹ تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے پاس لوگوں کی ذاتیات کے اندر جھانکنے کے ہر طرح کے ذرائع موجود ہیں، اور جہاں یہ اینٹھے خان جھانک نہیں پاتا وہ اپنے تصورات کے ذریعے یا لوگوں کی نفسیات کا غلط یا صحیح مطالعہ کرکے ان کا خاکہ کھینچ ڈالتا ہے۔”
یہ افسانہ وجود کی حساس ترین سطح پر جیتی ہوئی تمثیل ہے۔ اس کی زبان اس کے وجدان کی سفیر ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نیلے آکاش کی بلندیوں میں اڑنے کے مستحق تخیل کے پنچھی زبان کے پر کٹے ہونے کے کارن زمین پر بھی ہانپتے پھرتے ہیں۔ صدیق عالم کی تخلیق کے پرند زبان و بیان کے توانا پروں سے آسمان کو بار بار چھوتے ہیں۔
اس افسانوی انتخاب کے بیشتر افسانے، آرٹ کی افسوں گری کا شاہکار ہیں کہ ہر افسانہ ایک علاحدہ مضمون کا تقاضا کرتا ہے۔ “کبھی دو پیر فرتوت”, ” جانور”, “رودِ خنزیر”, “قصہ ایک نیگرو اور مرے ہوئے کتے کا” اور ” خدا کے بندے” ایسے افسانے ہیں جن کے فنی پہلوؤں ، نیرنگیِ اسلوب، کردار نگاری، زبان اور فضا کاری کے ساتھ ایک مضمون میں عدل ممکن ہی نہیں۔
ان افسانوں کے واقعات ایسی معنوی تہہ داری لئے ہوئے ہیں کہ انھیں جب بھی پڑھیں، ایک نئے جہانِ معنی کے در وا ہوتے ہیں۔ ان کا جادو ایک خواندنی میں اپنا حسن لٹا دینے کی بجائے بار بار قرات کی دعوت دیتا ہے تاکہ ہر بار ابہام کے پردے تھوڑے تھوڑے کھلتے جائیں اور حسن معنی آہستہ آہستہ، کبھی امیج اور استعاے کے جھروکے سے کبھی قولِ محال کی جالیوں کے پیچیدہ ڈیزائین سے جھانکتا نظر آئے۔ ان کہانیوں کی معنویت آہستہ آہستہ نمود سحر کی مانند ابہام کے پردوں سے ظاہر ہوتی ہے اور دھوپ چھاؤں کے کھیل کی مانند کبھی واضح اور کبھی غیر واضح رہتی ہے۔ لہذا قاری کو رک کر پوری توجہ سے غور کرنا پڑتا ہے تبھی معنویت کے راز سربستہ کے امکانات اور گنجائشوں کی کلید ہاتھ آتی ہے۔ ان کہانیوں میں بیک وقت حقیقت نگاری کا سورج تمتماتا ہے، اساطیر کی دھند پھیلتی ہے اور استعارات کی دھنک کھلتی ہے۔
صدیق عالم کے افسانے قاری کو ایک ایسی تخلیقی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں نہ لایعنی آدرش ہیں، نہ غیر ضروری جذباتیت ہے، نہ خطابت ہے نہ مشورہ بازی کا کوئی چلن ہے۔ بلکہ زندگی اپنی تگ و تاز کے ساتھ رواں دواں ہے۔
میتھیو آرنلڈ کے مطابق آرٹ زندگی کی تنقید ہے۔ اگر اس رائے کو درست مان لیا جائے تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ صدیق عالم زندگی پر تنقید لکھتا ہے۔ وہ ایک ایسا فن کار ہے جس کی ادبی روایت کو ایک علاحدہ افسانوی تجربے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے افسانے ادبی گروہ بندیوں کے جبراً پھیلائے اندھیروں کو جگنوؤں کی جگمگاہٹ کی طرح لحظہ لحظہ اور کو بہ کو للکارتے ہیں۔
صدیق عالم کے افسانے کی فنی جہات، فکشن کی شعریات، اس کے افسانوی اسلوب کی جمالیات کی بازیافت نقادوں پر قرض ہی نہیں فرض بھی ہے۔
فیس بک پر تبصرے