مائنس ون کی صورت میں موزوں ترین امیدوار

اختررضاسلیمی

1,124

جب سے مائنس ون کا “شوشہ” سامنے آیا ہے ۔ ہمارے سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ایسی صورت میں متوقع وزیر اعظم کون ہوگا؟
اپوزیشن کی جماعتیں تو کہہ رہی ہیں کہ مائنس ون کے پلوں تلے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اب اس کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے سو اب پوری حکومت کو جانا ہوگا۔ جس کے جواب میں شیخ رشید نے،جنہیں اندر کا آدمی سمجھا جاتا ہے، فتویٰ صادر کیا ہے کہ اگر مائنس ہوا تو مائنس ون ٹو تھری ہوگا۔ ظاہر ان ان کا اشارہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی طرف ہے۔
تاہم عمران خان نے اس امکان کو رد نہیں کیا بلکہ انھوں نےاپنے ووٹرز کو یقین دلایا ہے کہ فرض کریں کہ اگر مائنس ون ہوبھی گیا تو پی ٹی آئی کی پالیساں وہی رہیں گئی اور کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔جس سے اشارہ ملتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالاضرور ہے۔
وزیر اعظم صاحب کےاس اعتراف کے بعد کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیانے ممکنہ وزیر اعظم کے لیےمختلف  نام پیش کرنا شروع کر دیے ،جن میں سےسب سے مضبوط امیدوار اسد عمر اور شاہ محمود قریشی قرار دیے گئےیہ نام اتنی شد و مد سے پیش کیے گئے کہ نہ صرف دونوں کی طرف سے پر زور تردیدیں آنا”فرض ” قرار پائیں بلکہ فیصل واوڈاکی طرف سے یہ فتویٰ جاری کرنا بھی ضروری سمجھا گیا کہ” عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی زیرو ہے ۔”انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ “وضاحت ” بھی ضروری سمجھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھاکہ جو میرے ساتھ اختلاف کرے گا وہ پی ٹی آئی میں نہیں رہ سکتا۔
ہمیں اگرچہ سیاست سے کچھ زیادہ مس نہیں لیکن ایک سیاسی تماشائی کے طور پر ہم نے جب اس معاملے پر غورکیا توہمیں سب سے زیادہ موزوں امیدوار پرویز خٹک لگے۔وہ ہر حوالے سے اس مسند کے لیے اہل ہیں۔ ایک تو انھیں خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کے طورپر کام کرنے پانچ سالہ تجربہ حاصل ہے ۔ دوسرا وہ وسیع المشرب سیاست دان ہیں اور ان کا مسلک ہی صلح کل ہے۔انہیں سیاسی گٹھ جوڑ کا جتنا تجربہ ہے وہ پی ٹی آئی کے کسی بھی دوسرے رہنما کو حاصل نہیں۔
تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت پاکستان کے وزیر دفاع ہیں۔پاکستان میں وزارت دفاع ایک ایسا عہدہ ہے کہ اس پر فائز بندہ سربراہ حکومت بننے کے لیے موزوں ترین سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سربراہان ِ حکومت، چاہے وہ وزیر اعظم کے طور پر ملک کے سربراہ رہے ہوں یا صدر کے طور پر ، انہوں نے یہ عہدہ اپنے پاس رکھا ۔
قیام پاکستان کے بعد جب لیاقت علی خان نے 15 اگست 1947ءکو کابینہ کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تو اس عہدے کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے اس کا قلم دان کسی اور کو سونپنے کے بجائےاپنے پاس رکھا۔

یہاں تک کہ 16اکتوبر 1951کوراولپنڈی میں سید اکبر نامی شخص کی گولی کا نشانہ بننے تک وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ یہ عہدہ بھی انہی کے پاس رہا۔

17اکتوبر 1951ء کو خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم کا حلف اٹھایاتو سات دن تک یہ عہدہ خالی رہا تاوقتے کہ اپنے پیش روکی تقلید میں 24 اکتوبر کو انہوں نے اس کا اضافی قلم دان بھی نہیں سنبھال لیا۔انہیں ان دونوں قلم دانوں سے اس وقت جدا ہونا پڑا جب ملک غلام محمد نے 17اپریل 1953ءکو ان کی حکومت تحلیل کردی۔
محمد علی بوگرہ نے اسی دن جب وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو ساتھ ہی وزارت دفاع کی گدی بھی سنبھال لی۔ان کے پاس یہ عہدے تقریباً ڈیڑھ سال رہا۔24 اکتوبر1954ء کوانھوں نے یہ گدی یہ سوچ کر ایک حاضر سروس جنرل محمد ایوب خان کے حوالے کر دی کہ جب ملکی دفاع کرنا فوج کا کام ہے تو یہ اہم عہدہ ایک سویلین کے پاس کیوں رہے۔
چودھری محمد علی نے وزارت دفاع کا قلم دان سنبھالاتو انھوں نے بھی یہ عہدہ اپنے پاس رکھنا ضروری سمجھا لیکن وزارت دفاع بھی انہیں اپنا دفاع کرنے میں کامیاب نہ کر سکی سو انہیں سکندرمرزا سے اختلاف کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔
حسین شہید سہروردی بھی جب تک وزیر اعظم رہے یہ اہم عہدہ بھی ان کے پاس رہا۔تاہم ان کے بعد آنے والے وزیر اعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر کو صرف وزیر اعظم کے طور پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔ وزارت دفاع کا قلم دان میاں ممتاز دولتانہ کو سونپ دیا گیا۔ پہلی دفعہ یہ عہدہ وزیر اعظم کے علاوہ کسی اور سویلین کو دیا گیا۔ انجام معلوم۔ نہ وزیر اعظم چلا نہ وزیر دفاع۔ دو ماہ بعد دونوں کو رخصت ہونا پڑا۔
فیروز خان نون نے ساتویں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تو آٹھویں وزیر دفاع کی مسند بھی انھیں خود ہی سنبھالنا پڑی کہ اپنے پیش رو ابراہیم اسماعیل چندریگر کا انجام ان کے سامنے تھا۔لیکن چار ماہ بعد ہی جانے انھیں کیا سوجھی کہ انھوں نے اس وزارت کا قلم دان محمد ایوب کھوڑو کوسونپ دیا۔ ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ہونا تھا۔ سو انہی کے ایک ہم نام جنرل محمد ایوب خان نے دونوں کو گھر بھیج دیا۔
ایوب خان نے اپنے دور حکومت گیارہ برسوں میں سے آٹھ برس تک یہ عہدہ اپنے پاس رکھا ۔آخری تین برسوں میں افضل الرحمٰن خان برائے نام اس عہدے پر فائز رہے۔
ایوب خان نے جب یحیٰ خان کو اقتدار سونپا تو انھوں نے بھی اس عہدے کو اپنے پاس ہی رکھا کہ وہ نہ صرف پاکستان کے سربراہ تھے بل کہ اس کے دفاع کے “محافظ” بھی تھے۔
1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی تو انھوں نے اپنے پورے “جمہوری دور” میں اس عہدے کی ہوا کسی اور کو نہیں لگنے دی۔ لیکن یہ “کمال نے نوازی ” بھی ان کے کسی کام نہ آیا اور ان کی وزارت دفاع کے ایک ماتحت فوجی افسر جنرل ضیاء الحق نے ان سے نہ صرف وزارت دفاع چھین لی بلکہ وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھی ۔
ضیا ء الحق کے دور میں کچھ عرصہ یہ عہدہ خالی پڑا رہا ۔ پھر انھوں نے پانچ چھ ماہ کےلیے اسے اپنے پاس رکھ کر ، تقریباًسات سال کےلیے میر احمد تالپور کو سونپ دیا۔ پھر دوبارہ ایک آدھ ماہ کے لیے اپنے پاس رکھ کر محمد خاں جونیجو کو نہ صرف وزیر اعظم بنا دیا بل کہ وزارت دفاع کا قلم دان بھی انھیں ہی سونپ دیا۔
بے نظیر بھٹو نےاپنے پہلے دور حکومت میں اسے اپنے پاس رکھاجب کہ دوسرے دور حکومت میں اسے آفتاب شعبان میرانی کے سپرد کر دیا ۔
نواز شریف جو بے نظیر بھٹو کے روایتی سیاسی حریف تھے انھوں نے اس حوالے سے الٹی چال چلی۔ انھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسے غوث علی شاہ کے حوالے کیے رکھا لیکن دوسری مرتبہ جب بر سر اقتدارآئے تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ یہ اہم عہدہ انہی کے پاس رہے۔
پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین برسوں میں اس عہدے کا دفاع خود کیا بعد ازاں ق لیگ کو اقتدار سونپا گیاتو یہ عہدہ رائو سکندر اقبال کے حصے میں آیا ۔
2008ء میں پپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی اور مفاہمتی سیاست کا آغاز ہوا تو انھیں جہاں دو وزیر اعظموں کے ذریعے اپنی آئینی مدت پوری کرنا پڑی وہاں انہیں وزارت دفاع کو بھی احمد مختار اور نوید قمرمیں تقسیم کرنا پڑا۔
اس مفاہمت کی لاج 2013ء میں بننے والی ن لیگ کی حکومت کو بھی رکھنا پڑی ۔ انھوں نے جہاں پیپلزپارٹی کی طرح دو وزیر اعظموں کے سہارے اپنی آئینی مدت پوری کی وہیں وزیر دفاع کے طور پر پہلے خواجہ آصف اور بعد ازاں خرم دستگیر خان کو تعینات کرنا پڑا۔واضح رہے کہ اب کی بار ابتدائی چند ماہ تک اس عہدے کا قلم دان میاں صاحب کے پاس بھی رہا۔
18اگست 2018ء سے تاحال پرویز خٹک اس عہدے کو اپنے ناتواں کندھے پر لادے ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس عہدے کا حلف 33 مرتبہ اٹھایا جا چکا ہے۔تین نگران وزرائے دفاع(محمود ہارون، شاہد حامد اورسلیم عباس جیلانی) کو اگر نکال دیا جائے توبقیہ30 میں سے16مرتبہ یہ عہدہ براہ راست سربراہ حکومت کے پاس رہا ۔جنرل ایوب خان سربراہ حکومت بننے سے پہلے بھی ایک مرتبہ وزیر دفاع رہ چکے تھے۔ یوں سترہ مرتبہ اس عہدے پر وہ لوگ فائز رہے جو سربراہ حکومت بھی رہے۔
جنرل ایوب، ضیاءالحق اورمیاں نواز شریف دو دو مرتبہ اس عہدے پر فائز رہے۔تاہم موخر الذکردونوں حضرات جنرل ایوب خان کے برعکس دونوں ادوار میں سربراہ ِ حکومت بھی تھے۔
جنرل ایوب خان کو اس عہدے کے حوالےسے کئی اعزازات حاصل ہیں۔ مثلاً وہ پاکستان کے پہلے وزیر دفاع تھے ، جو اپنے پہلے ٹینور میں سربراہ حکومت نہیں تھے ۔ یہ اعزاز بھی انہی کے حصہ میں آیا کہ ایک طرف وہ حاضر سروس جنرل تھے تو دوسری طرف وزیر دفاع بھی۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہی پہلے شخص تھے جنہوں نے اس عہدے سے “ترقی ” پا کر سربراہ حکومت کا عہدہ سنبھالااور یہ عہدہ مسلسل آٹھ سال تک اپنے پاس رکھ کر ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا ،جس آج تک نہیں توڑا جا سکا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ یہی جنرل صاحب تھوڑی دیر کےلیے ملک کے وزیر اعظم بھی رہے ہیں۔
پرویز خٹک اگرچہ جنرل نہیں ہیں ،لیکن وہ پی ٹی آئی کے تین چار بڑے کور کمانڈروں میں سے ایک ضرور ہیں۔
ہماری خواہش کے مطابق اگروہ اس عہدے سے “ترقی” پا کر وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو وہ جنرل ایوب کے بعد پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم ہوں گے ،جن کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہوگا۔
سابق ڈپٹی اسپیکر سردار یعقوب قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے سےپہلے ممبر ضلع کونسل کا الیکشن ہارے تھے ۔ اگلے ہی برس وہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر خیبر پختون خوا(اس وقت کا صوبہ سرحد) کے ” کوٹے” سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بن گئے تھے۔ ممتاز شاعر نسیم عباسی اور راقم انہیں مبارک باد دینے گئے تو نسیم عباسی صاحب نے باتوں باتوں میں انہیں چھیڑا کہ ابھی پچھلےسال آپ ضلع کونسل کا الیکشن ہار گئے تھے ۔ آج ایک سال بعد خدا کی قدرت دیکھیے کہ آپ یہاں پہنچ گئے ۔ سردار یعقوب کہنے لگے کہ ممکن ہے قدرت نے مجھے الیکشن ہرایا ہی اس لیے ہو کہ میں ڈپٹی سپیکر بنوں ۔ اگر میں وہ الیکشن جیت جاتا تو یہاں کیسے پہنچتا۔
خان صاحب جب بر سراقتدار آئےشروع میں سب کی طرح ہمارا خیال تھا کہ پرویز خٹک کی خیبر پختون خوا میں بطور وزیر اعلیٰ کارکردگی کے پیش نظر ،انہیں اگلے پانچ برسوں کے لیے بھی وزیر اعلیٰ کے طور پر برقراررکھا جائے۔لیکن انھیں وزیر دفاع کے عہدے پر “اکتفا” کرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ قدرت نے انھیں وزیر اعلیٰ اسی لیے نہ بننے دیا ہو کہ وزارت عظمیٰ کا تاج ان کے سر پر سجے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...