سینٹ آف پاکستان : ارتقاء اور تاریخ
سینٹ آف پاکستان کا قیام 1973 ء کے آئین کے تحت عمل میں آیا اور پہلی سینٹ نے 6 اگست 1973 ء کو اسلام آباد میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ 45 رکنی سینٹ کا پہلا انتخاب قومی اسمبلی(وفاقی دارا لحکومت اور قبائلی علاقہ جات کے لئے)اور صوبائی اسمبلیوں نے صوبائی سینیٹروں کے لئے سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے کیا۔اس نظام کو اپنانے کا مقصد یہ تھا کہ صوبے کی چھوٹی سی چھوٹی آواز کو بھی وفاق میں نمائندگی اور آواز ملے۔ اس وقت سینٹ کی مدت 4 سال تھی اور اسے ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کے دیس میں ایک مستقل ادارے کا آئینی تحفظ دیا گیا۔آدھے سینیٹرز 1975 ء میں قرعہ اندازی کے ذریعے ریٹائرڈ ہو گئے اور نئے آنے والوں کے بعد توقع یہ تھی کہ ہر دو سال بعد انتخابات اس میں نئی نمائندگی لا پائیں گے۔ 1977 ء میں سینیٹرز کی تعدد میں اضافہ ہوا اور اسکے اراکین کی تعداد 63 ہو گئی۔ ہر صوبے سے 14، قبائلی علاقوں سے 5 اور وفاقی حکومت سے2!
1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت سینٹ کی اہمیت پر تقریر کرتے ہوئے اس وقت کے نوجوان رکن اسمبلی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اس کے لئے (ہاؤس آف فیڈر یشن) کا نام استعمال کیا۔ یہ نام برسوں بعد سینٹ کے “مونوگرام” کا حصہ بنا۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور کا افتتاح بھی علامتی طور پر سینٹ آف پاکستان کے پہلے چیئرمین حبیب اللہ خان نے کیا کہ یہ ادارہ تسلسل کے ساتھ دستور اور وفاقی اکائیوں کے حقوق کا نگہبان ہوگا۔ ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہم نے سر زمین بے آئین ہونے اور وفاقی اکائیوں کو حقوق نہ دینے کی بھاری قیمت چکائی تھی۔ لیکن یہ خواب 5 جولائی 1977 ء کو ٹوٹ گیا اور پھر 1985 ء میں پہلی بار غیر جماعتی بنیادوں پر سینٹ واپس آئی۔اس مرحلہ پر اس کی عمر چھ سال تو ہوگئی اور اراکین کی تعداد بھی 87 لیکن ٹیکنو کریٹ اور علماء کے لئے ہر صوبے سے 5 نشستیں مختص کرنے سے اس کی روح بگڑ گئی۔ 1988 ء کے بعد سینٹ کے چار انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔1999 ء میں ایک بار پھر سینٹ آف پاکستان کا بوریا بستر اسمبلیوں کے ساتھ گول کردیا گیا۔ 2002 ء میں اس کے اراکین کی تعداد 100 ہوگئی اور خواتن کے لئے 17 نشستیں مختص کی گئی۔ بعد ازاں 18ویں ترمیم نے ہر صوبے سے ایک ایک نشست مذہبی اقلیتوں کے لئے مختص کر دیں۔ اس روش نے بھی سینٹ آف پاکستان کی روح کو سیخ کیا۔ تاریخی اعتبار سے 1973 ء میں بھی سینٹ میں خواتین کی نمائندگی تھی، علماء بھی تھے اور ٹیکنوکریٹ بھی، مذہبی اقلیتیں بھی مخصوص نشستوں سے پہلے سینٹ آ ف پاکستان کا حصہ تھے۔ ان نشستوں کی اس طرح تقسیم کا نقصان یہ ہوا کہ یہ صوبے اور وفاق کی سب سے بڑی یا پھر بعض صورتوں میں د وسری بڑی پارٹی کی جھولی میں ہی گرتی ہیں۔ بھلے نشستوں کی تعداد بڑھا لی جاتی اور پارٹیوں پر قد غن لگائی جاتی کہ وہ تمام طبقات کی نمائندگی کو یقینی بنائیں تو سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کی روح متاثر نہ ہوتی۔ اب اس کی رو ح کو شو آف ہینڈ کے ذریعہ انتخاب کی تجویز سے بالکل ہی ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
غالبا بہت سارے نئے سیاسی ایکٹرزسینٹ آف پاکستان کی روح اور اس کے قیام کے پس منظر سے نظر چرانا چاہتے ہیں۔ جب قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کے تصورات اور نظریا ت کی روشنی میں وفاقی طرز نظام کو اپنایا گیا تو وفاقی اکائیوں کے درمیان پائے جانے والے آبادی کے فرق کو سیاسی وزن میں برابری عطا کرنے کے لئے بوگرا فارمولا میں سینٹ کے قیام کی تجویز دی گئی لیکن ہم نے ون یونٹ اور پیریٹی کے راستے اپنائے جس سے پاکستانی وفاقیت کی روح بری طرح گھائل ہوئی۔
1973ء میں بھی پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں سے زیادہ تھی اور سینٹ آف پاکستان نے سب کو برابری دی۔ اگرچہ اسلام آباد اور قبائلی علاقہ جات کی نمائندگی پر صوبوں کو تحفظ رہے۔ اب قبائلی علاقہ جات کی 8 نشستیں دو مراحل میں 2021 اور2024 میں ختم ہو جائیں گی کیونکہ یہ اب خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکے ہیں تاہم اسلام آباد کی چار نشستوں پر شاید ماضی کی طرح دیگر صوبوں سے مہمان سینیٹروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ مہمان سینیٹروں کا کلچر بدقسمتی سے صوبوں تک بھی جا پہنچا ہے جو کہ سینیٹ کی اصل روح کی نفی ہے۔
اگرچہ 47 سالوں میں سینیٹ آف پاکستا ن کے اختیارات کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا ہے تاہم آج بھی اس کے پاس مالیاتی اختیارات نہیں ہیں۔اگر سینٹ آ ف پاکستان میں واقعی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تو سینیٹ کے انتخابات کو براہ راست کیا جائے اور اسے مالیاتی اختیارات دیئے جائیں۔ مخصوص نشستوں کے کلچر کی بجائے یہ یقینی بنایا جائے کہ پارٹیا ں تمام طبقات کو حق نمائندگی سونپیں۔براہ راست انتخاب سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ صوبائی دارلحکومتوں سے باہر کے اضلاع سے بھی سینیٹر نکل آئیں گے۔ سینیٹ آف پاکستان کو اپنے کام اور اپروچ میں بھی صوبوں کے حقوق اور صورتحال پر بات کرنا ہوگی۔اس ضمن میں ہر تین ماہ بعد کسی ایک صوبے پر خصوصی فوکس کرکے اس کی آواز وفاق تک پہنچائی جائے۔ ماضی میں فقط ایک دو مثالیں ملتی ہیں کہ صوبوں کی شکایات کے لئے خصوصی کمیٹیا ں بنیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے حوالے سے اصلاحات کے کسی بھی ایجنڈا پر غور کرنے سے پہلے یہ بات مد نظر رکھنا ہو گی کہ یہ برطانوی ہاؤس آف لارڈز یا پھر بھارتی راجیہ سبھا سے مختلف ادارہ ہے۔ یہ ہاؤس آف فیدڑیشن ہے جیسا کہ جرمنی کا ایوان بالا۔اسے صرف بزرگوں کی دانش تک محدود نہیں کیا جاسکتا یہاں صوبائی حقوق کی مؤثر نگہبانی لازمی ہے۔سینٹ آف پاکستان نے پاکستان میں جمہوری کلچر کے نمو کے لئے جمہوریت کے گمنام شہیدوں کی یادگار کی تعمیر کی لیکن یہ شاید واحد قومی یادگار ہے جہاں ہمیں ابھی تک قومی جھنڈا لہرانا بھی نصیب نہیں ہو ا۔ سینیٹ نے دستور کی تاریخ کی گلی بھی بنائی لیکن وہاں بھی اب اکثر تالا لگا ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ سینیٹ میوزیم موجود ہے،سپریم کورٹ کا بھی اپنا میوزیم ہے، آرمی کے بھی میوزیم ہیں اور اب تو ملٹری ورثہ کا باقاعدہ ادارہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی اداروں کو دباؤ میں رکھنے کا کلچر ختم ہونا چاہیئے۔باوجود ڈھیروں کمزوریوں کے یہی ادارے قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں۔اس لئے سینیٹ آف پاکستان کو 47 ویں سالگرہ بہت بہت مبارک ۔
امید ہے کہ اس ادارے کی تاریخ اور روح ہردو، اصلاحات کے نام مسخ نہیں کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔
ظفراللہ خان پارلیمنٹری ریسرچ گروپ کے کنوینیئر ہیں اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ پر کتا ب لکھ رہے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے