اختر رضا سلیمی کا ناول “جاگے ہیں خواب میں” : اردو ادب کا نوحہِ نم ناک

2,488

“جاگے ہیں خواب میں”مطبوعہ رمیل ہاؤس آف پبلی کیشن  کے سرورق کی آرائش, فلیپس اور بیک کور پر ناول کے بارے میں “مجددینِ ادب” اور دیگر لکھاریوں کی آراء کی نمائش دیکھ کر اردو ادب کے قارئین نہال ہو ہو جاتے ہیں کہ بالآخر وہ ناول منصہِ شہود پر آ ہی گیا جس کا انہیں عشروں سے انتظار تھا۔ بارات کا سماں ہے۔ مصنف زرق برق پوشاک پہنے دلہا بنا آگے آگے چل رہا ہے اور خرم و خنداں باراتی پیچھے پیچھے۔ باراتیوں میں سب سے آگے محمد سلیم الرحمن صاحب ہیں جو اس رشتے پر خوش نظر نہیں آتے لیکن خاندان کے بڑے ہونے کے ناطے ساتھ چل پڑے ہیں۔ ان کے دائیں طرف اسد محمد خان ہیں جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد تعریفی نوٹوں کی ایک آدھ گڈی جیب سے نکالتے ہیں اور اسے دلہا کو دکھا کر فضا میں اچھال دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی مستنصر حسین تارڑ ہیں جو شہنائی پر ‘ تھا جس کا انتظار وہ شاہ کار آ گیا’ کی دھن بجا رہے ہیں اور خود ہی جھوم رہے ہیں۔ خالد فتح محمد بلند آواز میں سہرا گا رہے ہیں۔ محمود شام ڈھول اور ستیہ پال آنند چمٹا بجا رہے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ اور چمٹے کے کھڑاک پر ڈاکٹر ممتاز احمد خان، اظہار الحق، سحر انصاری، اقبال آفاقی، ڈاکٹر سعید احمد اور صلاح الدین درویش گرد و پیش سے لاپرواہ بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔

اس دھوم دھام سے متاثر ہو کر قاری کتاب خرید لیتا ہے، لیکن ناول پڑھتے ہی اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہو گیا ہے۔ غیظ و غضب کی حالت میں اس کا جی چاہتا ہے کہ بہ اندازِ مظہر شاہ مرحوم ” اے ویاہ نئیں ہو سکدا” کی بھڑک مار کر ساری بارات الٹا دے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو جاتی ہے اور باراتی کھا پی کے، چمچے کڑچھے کھڑکا کر کب کے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں۔

ناول کیا ہے، بانجھ فکر، لجلجی جذباتیت، طفلانہ فینٹاسی، بچگانہ اظہاریے، وکی پیڈیائی معلومات اور ناقابلِ برداشت غیرتخیلی نثری شاعری نما زبان کا گتاوہ ہے جو “رہبرانِ اردو ادب” نے من و سلویٰ بتا کر قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ مصنف نے اپنے کچے پکے مطالعے سے کشید کردہ خام علم کے دھاگوں سے یہ ٹاٹ کی دھجی تیار کی ہے جسے مبصرین مخمل کہہ کر بیچ رہے ہیں۔ اس کھلے دھوکے کے بعد اردو ناول پڑھنے والے آخر کس پر اعتبار کریں۔

ناول کی کہانی کی طرف چلتے ہیں۔ حوصلے اور صبر کی پیشگی درخواست ہے کیوں کہ یہ حوصلہ شکن، صبر طلب اور تھکا دینے والی ہے۔ اس”بے مثال ناول” کا مرکز و محور زمان ہے جو طبیعات کا ہونہار طالب علم ہے۔ وہ نور آباد نامی پہاڑی بستی میں واقع ایک غار کے چبوترے پر لیٹا ہے اور مصنف اس دوران اطراف کا منظر اور اشیاء کا محل و وقوع بیان کرتا ہے۔ اس کے فوراً بعد ناول نگار ایک مفصل چیڑ نامہ پیش کرتا ہے جس میں اس درخت کی افادیت کا ایسا دکاندارانہ بیان ہے جو دل چیڑ، معذزت چیر کے رکھ دیتا ہے اور منفعت طبع قاری کا جی چاہتا ہے کہ اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد فروخت کرکے فوراً چیڑ کے درخت خرید کر اپنی دنیا و آخرت سنوار لے۔

اس منافع بخش تفصیل کے بعد غار اور اس کے نشیب میں ابھری دو چٹانوں کا محل وقوع بیان کیا جاتا ہے۔ ایک چٹان کے بارے میں راجہ رسالو اور اس کی بیوی رانی کوکلاں سے منسوب ایک کہانی بھی سنائی جاتی ہے۔ زمان جب بھی اس چٹان پر آتا ہے، مصنف کا حکم ہے کہ وہ یہ کہانی ضرور یاد کرے۔

چودھویں کی رات زمان اپنے پسندیدہ مقام، غار کے چبوترے پر موجود ہے جہاں وہ برف پوش مناظر کا چاند کی روشنی میں نظارہ کرنے آیا ہے۔ وہ یہاں آکر علمِ فلکیات، اور طبیعات و مابعد الطبیعیات وغیرہ کی روشنی میں چیزوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کا دھیان کبھی Andromeda اور Perseus کی یونانی دیو مالا کی طرف جاتا ہے ( ناول میں ایندرومیدا اور پرسیس دونوں کے ہجے غلط لکھے گئے ہیں) تو کھبی اپنی پہلی محبت ماہ نور کی طرف۔ وہ ماہ نور کے ساتھ گذرے ایام یاد کرتا ہے۔ اسی باب میں وہ عرفان کو بھی یاد کرتا ہے جو اس کے ساتھ طبیعات و مابعدالطبیعیات، نفسیات اور دیگر علوم کی باتیں کرتا تھا۔ اسی دوران ایک شدید زلزلہ آتا ہے جو بعد کے صفحات میں معلوم ہوتا ہے کہ 2005 کا پاکستان میں آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔ یہاں ” ایک خواب جو حقیقت میں بھی موجود تھا” نامی پہلا باب اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ناول کے اس حصے میں مصنف قارئینِ اردو ادب کو “انتہائی مؤقر سائینسی معلومات” مفت فراہم کرتا ہے یعنی آئن سٹائن کی E = mc2 کی تھیوری طبیعاتی نہیں مابعد الطبیعیاتی مساوات ہے، اسٹیفن ہاکنگ فزکس کی بجائے میٹا فزکس کا آدمی ہے, اس کی بلیک ہول کی تھیوری جب تک ثابت نہ ہو جائے فزکس کا حصہ نہیں بن سکتی وغیرہ وغیرہ۔ ایسی “عدیم النظیر” اور ” مصدقہ معلومات” پڑھ کر قارئین حیران بلکہ پریشان رہ جاتے ہیں، لیکن فزکس کا ہونہار طالب علم، زمان اس پر قطعی معترض نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ناول کے اس حصہ میں مصنف، برف میں خرگوش کے پنجوں کے نشان دیکھ کر فلسفہِ حیات کے ایسے “حیران کن” بلکہ ہیجان کن نکات اور زاویے بیان کرتا ہے کہ فلسفے کا مبادی علم رکھنے والا قاری بھی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔

دوسرا باب ” خواب کا پس منظر” کے آغاز میں نور خان اور عبد اللہ خان دریائے ہرو کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ دونوں کا تعلق ایک بہادر اور جنگجو قبیلے سے ہے۔ ان کے اجداد میں قلی خان نامی شخص نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے زلت آمیز سلوک کی پاداش میں اپنے علاقے کے راجا کو قتل کر دیا تھا۔

سکھا شاہی کا آغاز ہوتے ہی ان کی ریاست کا راجا، مہاراجا رنجیت سنگھ کا مطیع ہو جاتا ہے جو امر سنگھ مجیٹھہ کو ہزارہ کا گورنر مقرر کرتا ہے۔ راجا جو درپردہ نور خان کے قبیلے سے اپنے دادا کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے، امر سنگھ کو اکسا کر ان کے گاؤں پر حملہ کرواتا ہے۔ اس حملے میں کافی قتل و غارت ہوتی ہے اور لوٹ مار کے بعد گاؤں کو نذرِ آتش بھی کر دیا جاتا ہے۔ نور خان، عبداللہ خان اور احمد خان، امر سنگھ اور اس کے بھائی کو قتل کرکے اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ ازاں بعد یہ سید احمد بریلوی کے حلقہِ ارادت میں شامل ہو کر سکھوں کے خلاف بالاکوٹ کے مقام پر جنگ لڑتے ہیں۔ اس جنگ میں سکھ فوج فتح یاب ہوتی ہے اور سید احمد بریلوی اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ نور خان وغیرہ میدانِ جنگ سے بھاگتے ہوئے سید صاحب کا سر تن سے جدا کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جس کی پورے احترام کے ساتھ تدفین کی جاتی ہے۔

سکھ یہ جان کر کہ نور خان وغیرہ نے سید احمد بریلوی کا ساتھ دیا ہے، ان کے آبائی گاؤں کو جلا دیتے ہیں جس سے ان کے خاندان کے بہت سے افراد جل کر مرتے ہیں اور بچے کھچے لوگ وہاں سے نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ ان حالات میں بھی نور خان کے کچھ قریبی عزیز سکھوں کو اپنی بے گناہی کا قائل کر کے اپنی جان بچا لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سکھ جو قتل و غارتگری اور گاؤں جلاتے وقت غیظ و غضب کی حالت میں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کون نور خان وغیرہ سے وابستہ ہے اور کون نہیں، ان حضرات کو فقط کہانی کی پرداخت اور مصنف کی درخواست پر موردِ التفات و عنایت ٹھہراتے ہیں اور ان کی جان بخش دیتے ہیں۔ یہ قریبی عزیز محض مصنف کی ہدایت لیکن برخلاف درایت جلے ہوئے گاؤں میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔

نور خان وغیرہ گاؤں سے بھاگتے وقت اپنے بیوی بچے انہی عزیزوں کے پاس چھوڑتے ہیں۔ اس مقام پر قاری کے دماغ کی لسی بن جاتی ہے کہ گاؤں تو پورے کا پورا جلا دیا گیا ہے( بحوالہ صفحہ نمبر49) اور نور خان وغیرہ وہیں سے اپنی جان بچا کر بھاگے ہیں اور بھاگتے وقت بیوی بچوں اور ان کی حوالگی کا تذکرہ تک نہیں۔ لیکن صفحہ نمبر 51 میں جب کہ انہیں گھر چھوڑے ایک ماہ ہو گیا ہے اور انہیں اپنے بیوی بچوں کی یاد آتی ہے۔ وہ ان سے ملنے اپنے اسی آبائی گھر جو ان کے آبائی گاؤں میں واقع ہے، آتے ہیں۔ قاری سوچتا ہے کہ گاؤں تو پورا جلا دیا گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والے لوگ وہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ وہ بیوی بچے ان عزیزوں کے پاس کب، کہاں اور کیسے چھوڑ گئے تھے۔ غالباً یہ وقوعہ ان کے آبائی گاؤں ہی میں ہوا ہوگا کیوں کہ ان عزیزوں کی کسی اور جگہ رہائش کا تذکرہ نہ ہے۔ اس بات کو اس واقعے سے مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ ایک ماہ کی جدائی کے بعد اپنے بیوی بچوں سے ملنے اپنے آبائی گاؤں ہی میں آتے ہیں۔ وہ گاؤں جو ایک ماہ قبل جلا دیا گیا تھا، وہ گھر جو نذرِ آتش ہو چکا تھا۔ مزید حیرت یہ کہ ان کے بد ترین دشمن، سکھ اتنے نیانے تھے کہ انھیں یہ سب پتہ ہی نہ چل سکا۔ قاری کو بصد کوششِ بسیار ان معصوم سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ لیکن وہ ناچار، اردو ادب کے “مفاد” میں یہ سوچ کر اگلے صفحات پڑھنے لگتا ہے کہ ضرور اس میں اس کی کوئی نہ کوئی بہتری ہوگی جسے ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مصنف نے ایسی “غیر ضروری” باتوں پر وقت “ضائع” نہیں کیا۔

بہرکیف نور خان وغیرہ گاؤں سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لیتے ہیں( یہ وہی غار ہے جہاں زمان جاتا ہے). ایک ماہ بعد وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے اپنے آبائی گاؤں جاتے ہیں۔ اگلے ماہ وہ غار کے نشیبی علاقے میں ایک بستی آباد کرتے ہیں جس کے دامن اور اطراف میں پہاڑ، چٹانیں، چشمہ، چیڑ اور کاہو کے درخت ہیں۔ اس بستی کا نام نور آباد رکھا جاتا ہے۔ بستی کے قیام کے دس سال بعد وہاں بقول مصنف پہلی موت واقع ہوتی ہے( صفحہ نمبر 59)۔ اس بستی کا بنیاد گزار علی احمد داعیِ اجل کو لبیک کہتا ہے۔ اس کی قبر تیار کی جاتی ہے۔ نور احمد حکم دیتا ہے کہ علی احمد بستی کا بزرگ ترین آدمی تھا۔ اس کی قبر کے تختے اس وادی کے بزرگ ترین کاہو کے تنے ہی سے نکالے جائیں گے. یہی ہماری صدیوں سے روایت ہے ( صفحہ نمبر 59) حالانکہ ابھی اس وادی میں بستی تعمیر ہوئے دس سال ہوئے ہیں اور ان کی مندرجہ بالا روایت صدیوں سے ہے۔ شائد ان کا آبائی گاؤں بھی اسی وادی اور مصنف کے زہن میں ہو لیکن ناول اور قاری تک یہ معلومات نہیں پہنچ پائیں۔ اس مقام پر قاری اضطراری کیفیت میں یاعلی کا فلک شگاف نعرہ مار کر مصنف کی دقتِ نظر پر نہال ہو جاتا ہے۔ قرب و جوار سے یاعلی یاعلی کی صدائیں بلند ہوتیں ہیں اور انہی ایمان افروز لمحات میں قاری اگلے صفحات پر پہنچتا ہے۔

درخت کی کٹائی کے دوران موسلادھار بارش شروع ہو جاتی ہے۔ بارش اتنی تیز ہوتی ہے کہ علی احمد کی تدفین بھی اس روز ممکن نہیں ہو پاتی۔ اسی رات کے پچھلے پہر نور خان کا مکان گر جاتا ہے جس کے ملبے تلے دب کر اس کی بیوی، بیٹی اور بہو مر جاتے ہیں تاہم اس کے بیٹے فقیر محمد کا دو سالہ بیٹا زندہ بچ جاتا ہے۔ اگلے روز رفتارِ باراں اور بھی تیز ہو جاتی ہے لہذا چارو ناچار سب میتوں کی تدفین بارش ہی میں کی جاتی ہے۔ یہ ابرِ باراں بستی والوں پر عذاب بن کر برستا ہے اور اگلے چند روز میں مزید تیرہ افراد مر جاتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں اور دیگر مال اسباب کا سیلاب میں بہنا اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ تین چار روز بعد بستی والوں کو اطلاع ملتی ہے کہ پہاڑوں کے پار سیلاب سے ان کے دشمن سکھوں کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے جس سے بقول مصنف بستی والوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔ نور احمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا تھا کہ خدا کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے ( صفحہ نمبر 70)۔ قاری اس موقع اپنے بال نوچنے لگتا ہے ظاہر ہے مصنف اس کی دسترس میں نہیں۔ اپنی بیٹی، بیوی اور بہو کی اندوہناک موت کے چوتھے روز، سکھوں کی تباہی کا سن کر اپنے غم کو اس خاص صورت ِ حال میں مصلحت سے تعبیر کرنے کے لئے ایک خاص قسم کی سائیکی درکار ہے جو کم از کم انسانوں میں تو ناپید ہے۔ ایسے سانحے کو حکمِ خداوندی سمجھ کر خالق کی رضا پر راضی ہو جانا اور مذہبی تربیت کے زیرِ اثر اسے بہتری اور مصلحت سے تعبیر کرنا مختلف بات ہے۔ گاؤں کے دیگر افراد کا بھی سکھوں سے دشمنی کے پس منظر کی شہادت کے بغیر اپنے تیرہ جنازے بھول کر سکھوں کے نقصان پر خوش ہونا بعید از عقل ہے۔

بہر کیف، اسی باب میں جیمز ایبٹ جو ہزارہ کا پہلا ڈپٹی کمشنر تھا، کی آمد ہوتی ہے جو بذریعہ جمعہ خان، نور خان سے ملتا ہے۔ ایبٹ کی خواہش ہے کہ وہ ہزارہ کے جنوب مشرقی حصے میں شورش ختم کرنے میں اس کی مدد کرے۔ وہ نور خان سے ملاقات کا احوال اور اس کی دیگر خوبیاں اپنی ڈائری میں لکھتا ہے اور یہیں اس باب کا اختتام ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اس باب میں ” ایبٹ کی ڈائری بحوالہ تاریخ ہزارہ از شیر بہادر پنی” سے حوالے دے کر اسے تاریخی طور پر مستند بنا کر پیش کیا ہے جو آرٹ کے حوالے سے قطعاً درست عمل نہ ہے۔ بقول ولادیمیر نابوکوف ” فکشن کو حقیقی واقعہ بتا کر پیش کرنا ارٹ اور سچ دونوں کی توہین ہے” ( لیکچرز آن لٹریچر صفحہ نمبر 195)۔

تیسرے باب ” خواب کا پیش منظر” میں چھوٹے سردار جی ظفر علی خان( یہ فقیر محمد کا بیٹا اور نور خان کا پوتا ہے جو مکان گرنے والے واقعے میں زندہ بچ گیا تھا) دیودار کے درختوں کا معائنہ کرنے اور ان کی کٹائی کے حوالے سے ہدایات دینے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور وہاں سے بیس منٹ کی مسافت پر، ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے پہنچتے ہیں۔ ندی کا پانی آبشار کی صورت میں قریب ہی ایک چھوٹی سی جھیل میں گرتا ہے۔ سردار جی ( یہ لفظ ناول میں بے پناہ استعمال ہوا ہے) اس آبشار میں ایک پری جیسی خوب رو لڑکی دیکھتے ہیں جو بقول مصنف ان کی نظر پڑتے ہی کچھ لجلجا جاتی ہے اور یک دم ندی پھلانگ کر گھنے جنگل میں ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ چھوٹے سردار جی گھوڑے پر سوار ہو کر اس لڑکی کے پیچھے جاتے ہیں لیکن وہ جنگل میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔ ظفر صاحب کا واپسی پر سانس پھولا ہوا ہے بقول مصنف جیسے کوئی ان ہونی ہو گئی ہے ( صفحہ نمبر 81)۔ ان کا منشی انہیں اس حالت میں دیکھ کر گھبرا جاتا ہے جسے وہ پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ سردار جی کو سہارا دے کر گھوڑے سے اتارا جاتا ہے اور اسی حالت میں ان کے گھر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کے والد ( فقیر محمد پسر نور خان) اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ فوری ڈاکٹر کو بلایا جاتا ہے جو بڑے سردار جی کو بتاتا ہے کہ چھوٹے سردار کو کوئی زہنی صدمہ پہنچا ہے لہذا انہیں فوراً ہسپتال لے جائیں۔ یہاں قاری کو بھی شدید صدمہ پہنچتا ہے کہ لڑکی کا نہ ملنا کون سی ان ہونی ہے، گھنے جنگل میں اس کا گم جانا عین ممکن عمل ہے اور اس کے نہ ملنے سے شدید زہنی صدمہ پہنچنے میں کیا ربط ہے۔ لیکن مصنف ایسے ” فضول سوالوں” کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور قاری اسے اپنے مقدر کا لکھا جان کر صبر کرتا ہے اور خود ہر جبر کر کے اگلے صفحات پڑھنے لگتا ہے۔ بہر صورت ظفر علی خان صحت یاب ہو جاتے ہیں اور بڑے سردار جی اپنی حویلی کی تعمیر کا رکا ہوا کام دوبارہ شروع کرواتے ہیں۔

سردار جی درویش منش آدمی ہیں، بقول مصنف ایبٹ آباد کے نام سے حال ہی میں تعمیر ہونے والے شہر میں رہائش پذیر ان کے کچھ دوست, اس حویلی کی تعمیر کا پروگرام بناتے ہیں اور نیا ڈپٹی کمشنر بھی اس میں دل چسپی لیتا ہے اور پتھر، لکڑی اور دیگر سامان کی ترسیل کے لئے اس پہاڑی علاقے میں سڑک بھی بنواتا ہے۔ حویلی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کے افتتاح کے لئے ڈپٹی کمشنر میجر آر ایڈمز کو دعوت دی جاتی ہے ( صفحہ 83) جو اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ حویلی پہنچتا ہے۔ یہاں بھی ناول نگار قارئین کو اپنے “وسیع مطالعے” سے آگاہ کرنا قضا نہیں کرتا اور میجر آر ایڈمز کے نام کے آگے ستارہے کی علامت لگاتا ہے۔زیرِ عبارت دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ موصوف ہزارہ کے دوسرے ڈپٹی کمشنر تھے جس پر قاری مصنف سے اظہارِ تشکر کے بعد تفکر بھی کرتا ہے کہ محترم ناول نگار کی فکشن سے زیادہ جنرل نالج میں کیوں دل چسپی ہے۔

ڈپٹی کمشنر حویلی کے افتتاح کے بعد اس سلسلہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سردار فقیر محمد خان کی سرکارِ انگلشیہ کے لئے سر انجام دی گئی خدمات کو سراہتا ہے اور ان کے عوض وائسرائے ہند سے انہیں سر کا خطاب دینے کی سفارش کا اعلان کرتا ہے۔ یہ اعلان سن کر سردار صاحب کے شہری دوست اور دیہاتی تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر فرطِ جذبات سے قاری بھی تالیاں بجانے لگتا ہے لیکن اسی دوران فقیر محمد خان کی تقریر شروع ہو جاتی ہے جو آیندہ بھی انگریزی سرکار کی حمایت کا یقین دلانے کے بعد انکشاف کرتے ہیں کہ ان کے والد نور خان ڈپٹی کمشنر جیمز ایبٹ سے ملنے اپنے آبائی گاؤں ناڑہ گئے تھے۔ جمعہ خان کے گھر میں ایبٹ سے ان کی ملاقات ہوئی جس کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر انہوں نے اسی وقت ان سے ہر قسم کے تعاون کا وعدہ کر لیا تھا (” ہر قسم کے تعاون” کا جواب نہیں) لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور اپنے چچا زاد سردار حسن علی خان کے گھر جاتے ہوئے اندھیرے میں ان کا پاؤں پھسل گیا اور وہ ایک گہری کھائی میں گر کر جاں بحق ہو گئے۔ یہاں قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک جنگجو قبیلے کا حریت پسند شخص، اپنی دھرتی پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے انگریزوں کے ساتھ محض ایک ملاقات میں ” ہر طرح کا تعاون” کرنے پر کیسے تیار ہو گیا۔ چوں کہ مصنف نے اس کی کوئی توجیح و توضیح کرنے کا “تکلف” نہیں کیا لہذا قاری کو بھی چاہیے کہ ایسی ” معمولی” باتوں سے خود کو ہلکان نہ کرے۔ بہرکیف سردار صاحب کی تقریر جاری ہے جو بتاتے ہیں کہ کیسے جمعہ خان نے انہیں ان کے والد کے ایبٹ سے کئے گئے وعدے کی بابت بتایا جس کے بعد وہ جمعہ خان کی معیت میں جیمز ایبٹ سے ملے اور انہیں یقین دلایا کہ اپنے باپ کے کئے گئے وعدوں کو وہ پورا کریں گے اور پھر کیسے انہوں نے اپنا عہد نبھایا۔

ڈپٹی کمشنر بوقتِ رخصت نور آباد سے پانچ میل دور واقع موہڑہ نامی گاؤں سردار ظفر علی پسرم فقیر محمد کے نام بہ طور تحفہ لکھ دیتا ہے۔ موہڑہ ہی کی ایک حسین مٹیار صابرہ خانم سے ظفر علی خان کی شادی ہوتی ہے۔ سردار صاحب، شبِ زفاف، حجلہِ عروسی میں پہلے تو اپنی نو بیاہتا بیوی کو آبشار میں نظر آنے والی لڑکی سمجھ کر مخاطب ہوتے ہیں اور پھر قربت کے لمحات میں بقول مصنف عین عروج کے لمحوں میں ( صفحہ نمبر 99) ان کے ذہن میں کئی مناظر گڈ مڈ ہونے لگتے ہیں۔ آبشار کے سرے پر کھڑی لڑکی، غار کا چبوترا، ہونٹوں کا لمبوترا تل، ہاتھ کی ہتھیلی کی لکیریں( کیا ہتھیلی گوڈوں گٹوں کی بھی ہوتی ہے؟), برف باری، زلزلہ، خرگوش کے پنجے، چبوترے میں دراڑ وغیرہ وغیرہ وغیرہ اور یہیں اس باب کا اختتام ہو جاتا ہے بہرحال زلزلہ، برف باری، چبوترا اور خرگوش کے پنجوں کا بیان سن کر تجربہ کار قارئین فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ مصنف آگے جا کر ظفر علی خان سے زمان کا کنکشن جوڑے ہی جوڑے۔

چوتھے باب ” ایک خواب: جو خواب نہیں تھا” میں عرفان رات دس بجے سخت سرد موسم میں نور آباد پہنچتا ہے۔ وہ دو اڑھائی سال بعد واپس آیا ہے۔ وہ پہلے حویلی جاتا ہے تا کہ بقول مصنف “چھوٹے سردار کو مختلف مضوعات پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتابیں پیش کر سکے اور اڑھائی سال قبل بغیر بتائے چلے جانے پر معذرت کر سکے، لیکن وہاں پر تالہ پڑا ہوا تھا۔” ( صفحہ نمبر 101)۔ حویلی سے وہ گل زیب چچا کے گھر جاتا ہے جن کے ساتھ وہ طویل عرصہ تک رہائش پذیر رہا ہے جو اس دوران اسے چھوٹے سردار جی سے بھی متعارف کرواتے ہیں۔ اس باب میں چھوٹا سردار جی زمان ہے۔ عرفان گل زیب چچا کے گھر پہنچتا ہے جو گھر پر موجود نہیں ہوتے لیکن اس کا بستر وہاں اس سلیقے سے بچھا ہوتا ہے جیسے بقول مصنف گل زیب چچا کو یقین ہو کہ وہ آج ضرور آئے گا۔ بستر میں گھستے ہی اسے بوجہ تھکاوٹ نیند نے آ لیا۔ اسی دوران زلزلہ آتا ہے ( 2005 کا پاکستان میں آنے والا شدید ترین زلزلہ) اور وہ مکان کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو جاتا ہے۔

بقول مصنف “رات بارہ بجے کے قریب پوری بستی لرز اٹھی۔ زمین نے چار پانچ ہچکولے کھائے اور پھر ہر طرف لکڑی کے بھاری شہتیروں کی تڑتڑاہٹ اور پتھروں کی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی( صفحہ نمبر 105)۔ جب کہ 8 اکتوبر 2005 کو آنے والا زلزلہ صبح اٹھ بج کر پچاس منٹ اور انتالیس سیکنڈ پر آیا تھا۔ بہرکیف بقول مصنف سن 1841 میں ہونے والی بارشوں کے ایک سو چونسٹھ سال بعد ایک بار پھر موت نے نور آباد، جو اب بستی سے ایک اچھے خاصے گاؤں میں تبدیل ہو چکا تھا، کا رخ کر لیا تھا۔

زلزلے سے دو تہائی بستی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور سردار جی کی حویلی کا بھی ایک حصہ منہدم ہو جاتا ہے۔ گل زیب چچا سمیت بستی کے دیگر افراد سمجھتے ہیں کہ زمان ملبے تلے آ کر مر چکا ہے۔ اس کی اطلاع بڑے سردار جی عبد العزیز خان( زمان کے والد) کو دی جاتی ہے جو جیسے تیسے نور آباد پہنچتے ہیں۔ ملبہ ہٹائے جانے کے بعد انہیں یہ خوش کن خبر ملتی ہے کہ زمان بوقت زلزلہ حویلی کی منہدم شدہ حصے میں موجود نہیں تھا۔ زمان کی تلاش شروع ہو جاتی ہے جو غار کے چبوترے میں پڑنے والے شگاف میں بے ہوش پڑا ملتا ہے۔

اسے اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال میں لایا جاتا ہے جہاں ڈاکڑ اس کا سی ٹی سکین اور ایم آر آئی ( ناول میں ایم آئی آر لکھا ہے بحوالہ صفحہ نمبر115) کرنے کے بعد سردار عبد العزیز خان کو بتاتا ہے کہ زمان کے دماغ کے دائیں طرف سوجن ہے لہذا امکان ہے کہ یہ کومے میں چلا جائے یا اپنی یادداشت کھو بیٹھے ( صفحہ نمبر 115) حالانکہ وہ مسلسل بے ہوش ہے یعنی کومے میں جا چکا ہے۔ بعد کے واقعات اس حقیقت کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔ صفحہ نمبر 124 میں ہسپتال کا ایم ایس انہیں بتاتا ہے کہ “ابتدائی رپورٹس میں جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں، چھوٹے خان جی سخت سردی میں، ایک بلند پہاڑ پر کئی گھنٹے موجود رہے، شدید سردی اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ان کے دماغ کے دائیں حصے میں سوجن ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ cerebral edema کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ کومے کی ایک شکل ہوتی ہے۔” اس مقام پر جو اصل میں مقامِ عبرت ہے, قاری ” میڈیکل سپر انٹنڈنٹ” کی باتیں سن کر جو اصل میں مصنف کی علمِ طب میں ” مہارتِ تامہ” کا بے دھڑک اظہار ہے, پاکستان میں میڈیکل سائنس کے مستقبل سے مایوس ہو جاتا ہے اور بے اختیار غالب کو یاد کرتا ہے ‘حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں’۔ حضورِ والا! دماغی سوجن ہی کو زبانِ طب میں cerebral edema کہتے ہیں۔ یہ کومے کی وجہ تو ہو سکتا ہے، خدا کی قسم اس کی قِسم نہیں۔ سی ٹی سکین اور ایم آئی آر کی رپورٹس کے بعد کسی ڈاکٹر اور وہ بھی ایم ایس کا یہ کہنا کہ میرا خیال ہے یہ cerebral edema ہے جب کہ اس مرض کی تشخیص ہی مندرجہ بالا ٹیسٹوں سے ہوتی ہے، ‘ اسد اللہ خاں قیامت ہے۔’

ناول کے پانچویں باب ” خواب در خواب” کے شروع میں زلزلے کے بعد زمان کی کیفیات کا بیان ہے۔ اس کے بعد وہ ایک طویل اور مربوط خواب دیکھتا ہے جو صفحہ نمبر 130 سے شروع ہو کر صفحہ نمبر 147 تک بیان ہوتا ہے۔ اس خواب میں زمان اب تک کی کہانی میں مذکور تمام واقعات سے بہ طور مرکزی کردار گزرتا ہے جیسے یہ وقوعے اسی کے ہوئے ہوں۔ وہ اپنے اپ کو ایک پتھریلے تھلے میں پاتا ہے جہاں آبشار میں اسے ایک حسین لڑکی دکھائی دیتی ہے(ظفر علی خان والا واقعہ) جو اس کی نظر پڑتے ہی لجلجا کر پیچھے ہٹتی ہے اور بھاگ کر گھنے جنگل میں گم ہو جاتی ہے۔ زمان اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے نہ پا کر ہانپتا ہوا، گھبرایا ہوا، نڈھال واپس لوٹتا ہے جسے کچھ شناسا افراد اس کے دیکھے بھالے رستوں سے کہیں لے کر جا رہے۔ ان میں سے ایک آدمی اسے چھوٹے سردار جی کہہ کر بلاتا ہے جس پر وہ خود سے سوال کرتا ہے کہ میں کون ہوں۔

اس کے بعد وہ جمعہ خان کے گھر میں جیمز ایبٹ سے ملاقات کرتا ہے ( نور خان اور ایبٹ کی ملاقات والا واقعہ) جہاں سے اپنے عزیز کے گھر جاتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ کھائی میں گر کر مر جاتا ہے۔ اسی خواب میں زمان اپنے آپ کو چارپائی کے ساتھ بندھے جھولنے میں پاتا ہے کہ اچانک ایک دھماکے سے مکان گر جاتا ہے جس کے ملبے سے اسے کیچڑ میں لتھڑے ہاتھ باہر نکالتے ہیں( نور خان کا گھر گرنے والا واقعہ جس میں ملبے تلے دبے افراد میں سے صرف اس کے بیٹے فقیر محمد کا بیٹا ظفر علی خان زندہ بچتا ہے). اسی دوران وہ اپنے آپ کو میدانِ جنگ میں پاتا ہے اور سکھوں سے جنگ ہار کر فرار ہوتے ہوئے سید احمد بریلوی کا سر کاٹ کر لے جاتا ہے( نور خان اور عبداللہ خان والا واقعہ) جس کی بعد ازاں تدفین کی جاتی ہے۔

یہاں سے زمان ٹائم مشین پر سوار خواب میں اشوک کے دور میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی زمہ داری مہاراجا کے فرامینِ مقدسہ کو چٹانوں پر کندہ کرانا ہے۔ وہ پریشان ہے کہ سب لوگ اسے پہچان رہے ہیں لیکن وہ خود کو نہیں پہچان رہا۔ اسی ازیت میں اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور اردو ادب کی تاریخ کا بہ حساب زمانہ و وقت طویل ترین اور مربوط ترین، تاریخی خواب اپنے اختتام کو پہنچتا ہے جس پر بچے خوب تالیاں بجاتے ہیں۔

زمان کومے سے باہر آچکا ہے لیکن وہ کسی کو پہچان نہیں رہا جس کی وجہ سے اس کے والدم سردار عبد العزیز خان بہت پریشان ہیں۔ وہ اپنے خواب میں بار بار نورآباد کا نام سنتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر وہ کسی طرح نورآباد پہنچ جائے تو ممکن ہے کہ وہ خود کو بھی پہچان سکے۔ مصنف اس باب میں بھی قارئین پر اپنی “علمیت” کا رعب ڈالتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ سادھو آنند کے بے موقع و بے محل فرمودات، افکار اور اس کی مختلف علوم میں مہارتوں کا غیر ضروری بیان بہ طور شہادت پیش کئے جاتے ہیں (صفحہ نمبر 153 تا155)

چھٹے باب بعنوان ” ہیں خواب میں ہنوز” میں سردار عبد العزیز خان اپنے بیٹے زمان کو ہسپتال سے گھر لے آئے ہیں جو اپنی یادداشت کھو چکا ہے۔ اس کے زہن میں ٹکساشلہ گھوم رہا ہے جہاں جا کر وہ مہاراجا اشوک کو مختلف معلومات فراہم کرنا چاہتا ہے۔ ایک دن وہ اپنے گھر کے عقب میں واقع پہاڑ پر جاتا ہے۔ وہیں وہ الٹا ہو کر ایک چٹان پر کندہ اشوک کا ساتواں فرمان پڑھتا ہے جسے خواب میں اس نے خود وہاں کندہ کروایا تھا۔ وہ اپنے بھائی فرمان سے کہتا ہے کہ اس چٹان کو الٹا کس نے کیا، اس پر فرمانِ مقدس لکھا ہے جس کی رپورٹ میں نے ٹیکساشلہ جا کر مہاراجا اشوک کو کرنی ہے۔ احباب کو مبارک ہو دورانِ خواب زمان پراکرت اور خروشتی رسم الخط بھی سیکھ چکا ہے۔

فرمان یہ واقعہ اپنے والد کو بتاتا ہے۔ وہ اپنے دیرینہ دوست، ماہرِ نفسیات، ڈاکٹر مسیح الدین فاروقی سے اس سلسلے میں مشورہ کرنے اسلام آباد چلے جاتے ہیں اور جاتے ہوئے چٹان کو سیدھا کرنے اور قدیم زبانوں کے ماہر ڈاکٹر کلیم کو بلانے کا حکم بھی صادر کرتے ہیں۔ اگلے روز گاؤں کے لوگوں کی مدد سے چٹان کو سیدھا کیا جاتا ہے جس پر لکھی عمارت اب سیدھے کھڑے ہو کر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی دوران سردار عبد العزیز، ڈاکٹر مسیح الدین سے ملتے ہیں جو ان کی تمام باتیں سن کر رپورٹس کا معائنہ کر کے انہیں بتاتا ہے کہ hallucination کی کیفیت میں مریض خیالی دنیا کو حقیقی سمجھ سکتا ہے لیکن زمان جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ نہ تو فریبِ نظر ہے اور نہ ہی خطائے حس ( صفحہ نمبر 173), میری پینتیس سالہ زندگی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ قاری کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سردار صاحب سے دوستی کی وجہ سے یہاں بڑی عاجزی سے کام لیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ شاید یہ پوری انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔

عبد العزیز خان، ڈاکٹر صاحب سے استفسار کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی شخص میں اڑھائی ہزار سال پرانی روح ا جائے۔ ڈاکٹر صاحب، عبد العزیز خان کو بتاتے ہیں کہ میڈیکل سائینس روح ووح کے چکر کو تو نہیں مانتی لیکن۔۔۔۔ لیکن کے بعد ڈاکٹر صاحب کی باتیں ماہرِ نفسیات سے زیادہ پروہتوں اور عاملوں والی ہیں جس پر بعد میں تفصیلی تبصرہ کیا جائے گا۔ بہرحال مسیح الدین فاروقی صاحب، سردار جی سے پرسوں نورآباد آنے کا وعدہ کرتے ہیں کہ اس دوران وہ ایک امریکی ماہرِ نفسیات دوست سے مشورہ بھی کر لیں گے۔

قدیم زبانوں کے ماہر ڈاکٹر کلیم، چٹان پر لکھی عبارت پڑھ کر اس کی دو درجن سے زائد تصاویر لے کر واپس جا چکے ہیں اور اب ڈاکٹر مسیح الدین فاروقی نورآباد میں جلوہ افروز ہیں۔ وہ ایک عجیب و غریب اوور کوٹ میں ملبوس ہیں جسے دیکھ کر زمان سوچتا ہے کہ ایسا ہی لباس پہن کر آنند ٹیکساشلہ یونیورسٹی میں پڑھایا کرتا تھا۔

ڈاکٹر صاحب، عبد العزیز خان کو اخبار میں چھپا ڈاکٹر کلیم کا مضمون دکھاتے ہیں جس میں وہ اس چٹان کی دریافت کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں( صفحہ نمبر 180 تا 181) لیکن مصنف یہاں بھول جاتا ہے کہ صفحہ نمبر 167 میں وہ فرمان کے حوالے سے بتا چکا ہے کہ اس نے مانسہرہ کے قریب بریڑی کے مقام پر ، مہاراجا اشوک کے چٹانوں پر کندہ چودہ فرمانوں کے بارے میں پڑھ رکھا ہے۔ ان حالات میں ان کی دریافت اور اس کا سہرا دونوں ہی بعید از فہم ہیں۔

ںہرکیف ڈاکٹر صاحب، زمان کا معائنہ کرتے ہیں اور اس کی باتوں سے اس کی زہنی حالت کا تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کومے کے دوران زمان کا لاشعور جاگ گیا تھا۔ اس نے خواب میں جو واقعات دیکھے انہیں اس نےحقیقی سمجھ لیا ہے۔ سردار صاحب استفسار کرتے ہیں کہ پرکھوں کے واقعات کا بیان تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اشوک کے فرمان کو چٹان پر کندہ کروانے کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، وہ یہ واقعات کیسے جانتا ہے۔ ڈاکٹر مسیح الدین فاروقی اس موقع پر اپنے “علمِ غیب” کی مدد سے انہیں بتاتے ہیں کہ پچاسی نوے پشتیں پہلے یہ عبارت آپ ہی کے خاندان کے کسی فرد نے کندہ کروائی تھی( صفحہ نمبر186)۔ تاہم وہ “فسادِ فی الارض” سے بچنے کے لئے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتے اور قاری بھی ان کے اس عظیم مقصد کے احترام میں خاموش رہتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب، سردار عبد العزیز خان کو بتاتے ہیں کہ زمان کے زہن میں واقعات کی ترتیب بالکل الٹی ہے کیوں کہ بقول مصنف وہ ماضی میں ایک خاص ترتیب سے پیچھے کی طرف گیا ہے۔ جو منظر اس نے سب سے پہلے دیکھا وہ ماضی بعید اور جو سب سے آخر میں دیکھا وہ ماضی قریب ہے۔ فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہم اسے سب سے پہلے دیکھا گیا منظر یاد کروا دیں تو اس کی یادداشت واپس آ سکتی ہے۔ ہائے رام! یہ تو بالکل فلمی سین ہے، قاری زیرِ لب مسکراتا ہے۔ اسی سین میں ڈاکٹر صاحب پر منکشف ہوتا ہے کہ زمان کی شکل اور طبیعت حیرت انگیز طور پر ظفر علی خان سے مشابہ ہے۔

مسیح الدین فاروقی، زمان اور ظفر علی خان کی شخصیت کے آپس میں تلازمے ملاتے ہیں اور انٹرنیٹ پر اجتماعی لاشعور کے حوالے سے ژونگ اور دوسرے نفسیاتی سائنس دانوں کا مطالعہ کرتے ہیں ( صفحہ نمبر 188). اس مقام پر قاری سوچنے لگتا ہے کہ موصوف کا نفسیات میں پینتیس سالہ پیشہ ورانہ تجربہ ہے، ژونگ کو تو اصولی طور پر انہیں زمانہء طالب علمی ہی میں پڑھ لینا چائیے تھا۔ فاروقی صاحب کی یہ حرکت قاری کے اس شبے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ صاحب یقیناً کوئی راج یا مستری ہیں جو فقط زمان کے باپ سے دوستی کے ناطے، اس کے علاج کے لئے نفسیات دان بن گیا ہے۔ بہرحال “ڈاکٹر صاحب” تازہ مطالعے کی روشنی میں زمان کی کہانی اس کی زبانی دوبارہ سنتے ہیں۔ جہاں وہ کچھ بھولتا ہے، موصوف فلمی انداز میں اسے کہتے ہیں۔۔ ہاں، ہاں۔۔ یاد کرو، یاد کرو. آخرکار ان کی شاندار پرفارمنس کی داد کے صلے میں زمان کی یادداشت واپس آجاتی ہے لیکن اس کا سر چکرانے لگتا ہے لہذا اسے صوفے سے اٹھا کر بستر پر لٹا دیا جاتا ہے۔

ساتواں باب ” خواب اور حقیقت کے درمیان” میں زمان کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ اپنے آپ کو حویلی کے مہمان خانے میں پاتا ہے۔ کمرے میں سامان کی وہ ترتیب یکسر بدلی ہوئی ہے جسے چھوڑ کر کل وہ غار کے چبوترے پر چاندنی رات میں برف پوش مناظر دیکھنے گیا تھا۔ وہ ڈاکٹر مسیح الدین فاروقی کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے اور ان سے پوچھتا ہے کہ وہ غار سے کب واپس آیا، اس کا لباس کس نے تبدیل کیا؟۔ اس کے بعد وہ ایسے ہی کئی سوال خود سے بھی کرتا ہے۔ اس دوران وہ کچھ دن ہسپتال میں بھی گزارتا ہے اور اس کے بعد اسلام آباد والے گھر میں منتقل ہو جاتا ہے۔

زلزلے کے گیارہ ماہ بعد زمان دوبارہ نور آباد آتا یے اور چٹان پر لکھی عبارت پڑھتا ہے جسے پڑھ کر وہ خود سے سوال کرتا ہے کہ یہ کون سی زبان ہے؟ اور میں اسے کیسے جانتا ہوں ( صفحہ نمبر 204)۔ اس موقع پر قاری مصنف سے سوال کرتا ہے کہ جب وہ یہ زبان روانی کے ساتھ پڑھ رہا ہے تو اس کا سوال کہ یہ کون سی زبان ہے، معقول نہیں لگتا۔ مصنف حسبِ سابق اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا سو قاری ایک مرتبہ پھر “اس میں بھی کوئی بہتری ہوگی” کے زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے اگلے صفحات پر پہنچتا ہے۔

رات کو زمان کی نگاہوں میں چٹان پر کندہ الفاظ گھومتے رہتے ہیں۔ وہ واش روم جاتا ہے جس کے شیشے میں اسے اپنے چہرے پر گھنی داڑھی نظر آتی ہے جو ہاتھ پھیرنے پر غائب ہو جاتی ہے۔ وہ کمرے میں واپس آتا ہے جہاں آئینہ دیکھنے پر وہ عجیب و غریب لباس میں ملبوس ہے اور اس کے چہرے پر دوبارہ داڑھی اگ آئی ہے۔ اس کا سر چکرانے لگتا ہے( قاری کا بھی) اور وہ بستر پر دراز ہو جاتا ہے۔

اگلی صبح وہ آئینہ دیکھتا ہے۔ عجیب و غریب لباس اور داڑھی غائب ہوتے ہیں۔ کیا یہ خواب تھا، وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے۔ وہ فوراً چٹان پر جا کر دوبارہ عبارت پڑھتا ہے اور کہتا ہے ” نہیں یہ خواب نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی میرا وہم۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جو علت و معلول کے رشتے سے ماوراء ہے ( صفحہ نمبر 207). ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ پورا ناول ہی علت و معلول کے رشتے سے ماوراء بلکہ بے پرواہ ہے۔ ناول کے واقعات میں رشتہِ علت و معلول ہو نہ ہو ہنگامہِ اول جلول ضرور ہے۔ بہرحال زمان کو اچانک چٹان پر کسی بھاری شے کے گرنے کی آواز آتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ چٹان خون سے تر بہ تر ہے اور اس پر کوئی ہیولہ ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ ڈر جاتا ہے اور اپنے گھر لوٹ آتا ہے۔

کچھ روز بعد نور آباد میں سالانہ میلہ لگتا ہے جس کا افتتاح حسبِ دستور بڑے سردار جی کرتے ہیں۔ اسی دن زمان کا ایک عزیز اکبر خان گھوڑے کو موڑتے ہوئے کھائی میں گرتا ہے اور نیچے پڑی چٹان سے ٹکرا کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ زمان اس کی لاش دیکھ کر فوراً چند روز پہلے والے واقعے کو یاد کرتا ہے کیوں کہ اکبر خان کی لاش ٹھیک اسی جگہ پڑی ہوتی ہے جہاں اس نے خون آلود ہیولہ دیکھا تھا۔ اسے اکبر خان کی موت کا بہت دکھ ہوتا ہے، بہ قول مصنف ” وہ اس کے رشتہ داروں میں واحد آدمی تھا، جس نے گزشتہ بارہ سالوں میں اس کا بے حد خیال رکھا۔ وہ روز اس سے حویلی میں ملنے آتا اور دیر تک اس سے گپ شپ لگاتا۔۔۔۔۔ عرفان خان کی پراسرار گمشدگی کے بعد اکبر خان واحد آدمی تھا جس سے وہ ہر بات شیئر کر لیتا تھا یہاں تک کہ اپنے خواب بھی۔”

( اکبر خان کا تذکرہ زمان کے حوالے سے پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ موصوف کا اس کی بیماری کے دوران یا اس سے پہلے کہیں سراغ نہیں ملتا۔ مندرجہ بالا معلومات زمان کو اکبر کی موت پر غم زدہ دکھانے کے لئے فوری ایجاد کی گئی ہیں۔)

اس واقعے کے کافی عرصے بعد زمان چٹانی چبوترے پر جاتا ہے۔ وہ اپنی بائیں ہتھیلی کی لکیریں دیکھنے کے بعد چٹان پر پڑنے والے شگاف کو دیکھتا ہے۔ وہاں ایک دھندلکا ہے جس میں رنگ برنگی روشنی تیر کر اس کی بیوی ماریہ کا روپ دھار لیتی ہے( صفحہ نمبر 123 میں اس کی شادی ماریہ سے ہوتی لیکن وہ تین ماہ بعد ہی خود کو اس سے علاحدہ کر لیتا ہے۔ ان سطور کے بعد صفحہ نمبر 210 میں دوبارہ ماریہ کی آمد ہوئی ہے) اس کے ہاتھوں میں زمان کا دھلا ہوا کرتا ہے۔ وہ کرتا نچوڑتی ہے اور جیسے ہی اسے تار پر پھیلانے کے لئے آگے بڑھتی ہے۔ اس کا بھاری وجود ڈولنے لگتا ہے۔ وہ گرنے ہی والی ہے کہ منظر غائب ہو جاتا ہے۔ شام کو اپنی بیوی سے سامنا ہونے پر اسے اپنی زیادتیوں کا احساس ہوتا ہے کہ کیسے اس نے بے چاری کی زندگی برباد کر دی ( باری تعالیٰ! کے حضور دعا ہے کہ مصنف کو بھی اپنا اور قارئین کا وقت اور ان کا ادبی ذوق برباد کرنے کا ایسے ہی احساس ہو۔ آمین)۔

زمان، ماریہ سے اس کی زندگی کے سولہ سال ضائع کرنے پر اس سے معافی مانگتا ہے۔ وہ ” کوئی بات نہیں” کہہ کر اسے معاف کر دیتی ہے( صفحہ نمبر 212) اور اس کی بانہوں میں سمٹ آتی ہے۔ دونوں پہلی مرتبہ ٹوٹ کر ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ سولہ سال، بغیر کسی وجہ کے، ازیت ناک تنہائی دینے کے باوجود ماریہ کے محض” کوئی بات نہیں” کہہ کر زمان کو معاف کر دینے جیسے غیر فطری عمل پر قاری معترض ہوتا ہے۔ لیکن ماریہ اسے یہ کہہ کر خاموش کرا دیتی ہے کہ جب مجھے اور مصنف کو کوئی اعتراض نہیں تو تم مامے لگتے ہو۔

 

زمان، ماریہ کا بہت خیال رکھنے لگتا ہے اور سب گھر والے بھی اس تبدیلی پر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ایک دن اس کی آنکھوں میں ایک خوف ناک منظر لہراتا ہے: ماریہ اس کا دھلا ہوا کرتا ہاتھوں میں لیے، حویلی کے صحن میں زخمی پڑی ہے۔ وہ بھاگا بھاگا اس کے پاس جاتا ہے اور اسے آیندہ کپڑے ڈالنے کے لئے چھت پر جانے سے منع کرتا ہے۔ کچھ روز بعد اسے پنکھے کے گھومتے ہوئے پروں سے ایک گاڑی ٹکراتی نظر آتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ماہ نور کی گاڑی ٹرک سے ٹکرائی ہے اور اسے گاڑی کاٹ کر باہر نکالا جا ریا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ کانپ اٹھتا ہے۔ دوبارہ دیکھنے پر اسے پتہ چلتا ہے کہ پنکھا ساکن ہے۔ صبح اٹھ کر وہ اس کے خاوند نوید کو فون کرتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ ” ماہ نور سے کہنا کہ آیندہ گاڑی احتیاط سے چلائے۔ لیکن کچھ روز بعد اسے اطلاع ملتی ہے کہ ماہ نور کی گاڑی کا ایک ٹرک سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اسے ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے لیکن تین دن بعد وہ مر جاتی ہے۔ زمان تینوں دن اس کے پاس ہسپتال میں گذارتا ہے۔ چند روز بعد نوید اسے ملنے آتا ہے جہاں زمان کو ماریہ کے چھت سے گر کر زخمی ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ کچھ ہی دن بعد نوید خودکشی کر لیتا ہے۔

ایک دن زمان خواب میں اپنے باپ کو بخار میں مبتلا ہو کر دم توڑتے دیکھتا ہے۔ کچھ دنوں بعد عبدالعزیز خان کی موت بعینہٖ واقع ہوتی ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر قاری کو Final Destination نامی انگریزی فلم یاد آ جاتی ہے جو یقیناً محترم ناول نگار نے بھی دیکھ رکھی ہے۔ اس فلم میں ہونے والی تمام اموات ایلکس براؤننگ نامی کردار کی۔ premonitions کے عین مطابق ہوتی ہیں۔

اس باب میں ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زمان نفسیات دانوں میں زونگ کا مداح رہا ہے اور وہ اسے فرائڈ پر ترجیح دیتا ہے۔ لیکن ان صفحات میں کبھی فرائڈ کا ہم نوا بن جاتا ہے تو کبھی ژونگ کی طرف مراجعت اختیار کرتا ہے اور ان حضرات کے افکار کی روشنی میں چیزوں کا تجزیہ کر کے حیران کن بلکہ پریشان کن نتائج نکالتا ہے۔ وہ اپنے بچپن کے انتہائی قریبی دوست اسلم سے ملنے جاتا ہے واپسی پر اسے ایک کتا ملتا ہے جسے وہ ڈبو کہہ کر پکارتا ہے۔

ایک دن وہ آنکھیں بند کئے اپنی ماں کا چہرہ کفن میں لپٹا دیکھتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ چاہتا ہے کہ اپنی ماں کو اس کی پیشگی اطلاع دے کر اس کی جان بچالے لیکن وہ اس کی ہمت نہیں کر پاتا۔ وہ سوچتا ہے: ” کیا میرا ان کو مرتے دیکھنا ان کی موت کی علت ہے۔” ( صفحہ نمبر 228). علت و معلول کے رشتے کو وہ ڈیوڈ ہیوم کے قول کی روشنی میں دیکھتا ہے اور بڑی “گہری گہری” باتیں کرتے ہوئے “درینہ کا۔پل” ناول کا بھی حوالہ دیتا ہے ۔ یہ ناول کے آخری صفحات ہیں، آپ نے ملاحظہ کیا کہ ناول نگار کتنا مستقل مزاج اور چوکس ہے کہ ابھی بھی آئیو آندریچ کے ناول ” درینہ کا پل” اور ڈیوڈ ہیوم کا حوالہ دے کر اپنے ” مطالعے کی وسعت ” بتانے سے نہیں چوکا۔

بہرحال ایک رات وہ ماریہ کے ساتھ لیٹا محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاؤں سن ہو گئے ہیں۔ وہ بستر سے اٹھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے بدن سے باہر آریا ہے۔ کچھ لمحوں بعد وہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بدن سے مکمل باہر ہے اور فضا میں تیر رہا ہے اور اس کا جسم بستر پر ساکت پڑا ہے۔ ماریہ ایک دل دوز چیخ مارتی ہے جسے سن کر فرمان کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ فرمان بد حواس سا ہو کر زمان کی نبض دیکھتا ہے جو رک چکی ہے جس پر اس کے منھ سے سسکاری نکلتی ہے اور اس کا چہرہ فق ہو جاتا ہے۔ وہ باہر بھاگتا ہے، زمان اسے بلانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اس کی آواز نہیں سنتا۔ تھوڑی دیر میں زمان کی ماں اور گھر کے دوسرے افراد کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی ماں غش کھا کر گرتی ہے جسے دوسرے کمرے میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ زمان کے کانوں میں رونے اور بین کرنے کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔

صبح اس کی میت کو نہلا، کفنا کر ایک چارپائی پر ڈال کر صحن میں رکھا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد زمان کی میت کے ساتھ ایک اور کفن میں لپٹی لاش رکھی جاتی ہے۔ اسے دوسری چارپائی پر کفن میں لپٹا اپنی ماں کا چہرہ نظر آتا ہے۔ زمان مر چکا ہے لیکن فضا میں بلند سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر قاری کا دھیان فوراً 1990 کی مشہور انگریزی فلم گھوسٹ کی طرف چلا جاتا ہے جسے یقیناً مصنف نے بھی دیکھ رکھا ہے۔ اس فلم کا کردار سام ویٹ بھی مرنے کے بعد اپنی میت دیکھ کر یقین کرتا ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ اس کی روح بھی اس کے بدن سے نکل کر سارے مناظر دیکھتی ہے۔ بہر کیف دونوں میتوں کو بعد از نمازِ جنازہ دفنا دیا جاتا ہے۔ ناول کے آخری صفحہ میں بتایا جاتا ہے کہ ٹھیک ایک سال بعد ماریہ حویلی کے صحن میں لیٹی ہوئی ہے اور اس کے پہلو میں زمان کا تین ماہ کا بچہ ہے۔ بچہ ہر آن دور جاتے ستاروں کو پاس بلا رہا ہے۔ اپنے باپ کی طرح اس کی بائیں ہتھیلی پر مندمل ہوئے زخم کا نشان ہے ۔ ناول کا اختتام اس لائن پر ہوتا ہے: ” تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ دولخت چٹانی چبوترا اس نشان پر برابر نظر رکھے ہوئے ہو۔”

کہانی کیا ہے چوں چوں کا مربہ ہے۔ مصنف نے اپنی علمی زنبیل سے ہر جمع شدہ چیز نکال کر کڈھب طریقے سے ناول میں ڈال دی ہے۔ علمِ نفسیات، طبیعیات، مابعدالطبیعیات، ارضیات، فلکیات، نباتات، تعمیرات جغرافیہ، علم الرویا، تاریخ، فلسفہ، طب، ادب، حرب، زبان، رسم الخط اور علمِ نجوم سے ایسا ملغوبہ تیار کیا ہے کہ ہر علم اپنی بنیادی پہچان، ہئیت اور قدر کھو بیٹھا ہے۔

مصنف کی منتشر خیالی، خواب اور ابہام کے پردے میں اپنشدی علم کا ڈھونگ، بانجھ فکر کی برفانی فلسفہ طرازیاں، ژونگ، فرائڈ، سادھو آنند اور ہیوم کے افکار کی مکتبی خطابت: کہانی نہیں ادب کے ساتھ کیا گیا بے ہودہ مذاق ہے۔
اردو کا ادیب نہ جانے کیوں، زمین پر چلنے کی بجائے افلاک کے گھوڑوں پر سوار ہے۔ ناول لکھنے کے لئے سطحِ قرطاس پر قلم یوں رکھتا ہے جیسے ناول نہیں کوئی الہامی کتاب لکھنے لگا ہو۔ اسی سوچ کے نتیجے میں “جاگے ہیں خواب میں” جیسا “شہ پارہ” وجود میں آتا ہے۔

‘ جسے پڑھتے ہی قاری کا بھی دل ہوتا ہے سیپارہ’

کوئی بھی فن کار اپنے تجربے کے تمام پہلوؤں کو اپنی فنی کائنات میں نہیں سمیٹ سکتا لہذا اسے اس میں قطع و برید اور انتخاب و اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ اس اصول کو یک سرنظر انداز کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ایک ایسا کاٹھ کباڑ اکھٹا کر رہے ہیں جس میں تخلیقی جوہر گم ہو کر رہ جائے گا۔ اختر رضا سلیمی صاحب نے اس سلسلے میں قطعاً بخل سے کام نہیں لیا اور کاٹھ کباڑ کا ڈھیر لگا لیا ہے۔ اب قاری کی ہمت ہے کہ وہ اس ڈھیر میں بے دھیانی اور بد سلیقگی سے اوپر نیچے رکھے فالتو سامان کو آگے پیچھے کر کے، تخلیق نامی کوئی شے، اگر وہ ہے تو، تلاشتا ہے یا نہیں۔

ناول نگار منظر کشی میں ” خاص مہارت” رکھتا ہے۔ اس کے الفاظ کی اینٹوں سے بنائے گئے مناظر کی بنیادیں موصوف کے زہن کی زمین ہی سے اٹھتی ہیں اور وہیں اپنی تکمیل کی جولانیاں دکھا کر زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ ناول کے صفحات پر تو اس کے پیچیدہ اور مضحکہ خیز نقشے ہی ابھرتے ہیں جو منظر کشی سے زیادہ منظر کُشی کرتے ہیں۔

صفحہ نمبر 15 پر منظر کشی کا ایک ” اعلا ” نمونہ ملاحظہ فرمائیں جو ناول نگار کے “عمدہ” اور نرالے جمالیاتی ذوق کی بلیغ ترجمانی کرتا ہے۔
” زمان مغرب کی سمت واقعہ ایک چھوٹی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس پہاڑ کا نظارہ کرتا ہے جو اسے کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ وہ ٹک ٹکی باندھے ادھر کو دیکھتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے غار اسے کسی حسینہ کے دہن کے مانند دکھائی دینے لگتا۔ ایک ایسا دہن جس کا اوپر والا ہونٹ نسبتاً ابھرا ہوا ہو۔ غار کے دہانے پر پڑے ہوئے برف آلود پتھر چاندنی میں اسے اس حسینہ کے دانت معلوم ہوتے۔ برف میں لپٹے ہوئے اس منظر میں، اس کا اپنا کمبل ، جسے وہ دانستاً وہاں چھوڑا آتا، اسے ایک سیاہ تل کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ چیڑ کے تنے کو وہ ایک لمبی اور پتلی ناک، مخالف اطراف میں پھیلے ہوئے، اس کے نچلے ڈالوں کو آنکھیں، ان کے اوپر لٹکتی ہوئی دنبالہ دار شاخوں کو بھنوئیں اور اس سے پچھلے پڑے ٹیلے کو اس حسینہ کا سرد تصور کرتا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اپنی نظریں نیچے کی جانب لے جاتا جہاں وادی میں موجود دو بڑی چٹانیں، اس کی آنکھوں کے آگے اس حسینہ کے سینے کے ابھاروں کے مانند ابھرتیں۔ ان دونوں چٹانوں کے عین درمیان میں نیچے کی جانب واقع پیالہ نما گڑھا، جو ایسی راتوں میں برف سے بھرا ہوتا اسے پیالہِ ناف معلوم پڑتا۔ گڑھے سے نیچے، وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والا قدیم راستہ، اسے اس حسینہ کے سفید جسم پر کس کر باندھ دیے ہوئے ازاربند سے پڑھنے والا نشان لگتا۔ یہاں آ کر اس کی نظر ٹھہر جاتی۔ اس نشاط انگیز پتھریلی حسینہ کا نچلا دھڑ دیکھنے کا اسے کبھی حوصلہ نہیں ہوا۔”

اس نسبت سے دیکھیں تو پیچھے کھڑا پہاڑ اس پتھریلی حسینہ کا باپ ہوگا جو مصنف کی گستاخ نگاہی پر اسے خشمگیں اور غضب ناک نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ لاحول ولا قوۃ، منظر کشی کا یہ انداز کسی تخلیق کار کے آرٹ کے شبنمی قطروں کی طرح نہیں بلکہ کسی تماش بین کے منھ سے رال کی طرح ٹپکا ہے۔ اس منظر کا بیان جن تخلیقی قوتوں کا تقاضا کرتا ہے، مصنف کا دامن ان سے تہی نظر آتا ہے۔ جمالیاتی کج روی تو ایک طرف رہی، واقعاتی نقائص ہی اس زاویہِ نگاہ کے ابطال کے لئے کافی ہیں. مثلاً جس چیڑ کے تنے کو لمبی اور پتلی ناک سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں محترم ناول نگار صفحہ نمبر 11 کی آخری سطر میں یوں رقم طراز ہے:

” جس کا تنا اتنا موٹا ہے کہ اگر دو آدمی اس مدور تنے کے گرد، آمنے سامنے، بازو پھیلا کر اسے اپنے کلاوں میں لینے کی کوشش کریں تو ان کے ہاتھوں کی انگلیاں بمشکل ہی ایک دوسرے کو مس کر سکیں۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو، تنا شریف کی گولائی کم از کم دس سے بارہ فٹ بنتی ہے۔ اب غار کے دہانے کی طرف چلتے ہیں جو مصنف کو پتھریلی حسینہ کا دہن لگتا ہے۔ صفحہ نمبر 11 دیکھئے:

” یہ غار کے دہانے کا پتھریلا چبوترہ تھا، جس کی لمبائی سات فٹ اور چوڑائی چار فٹ کے قریب تھی۔”

صفحہ نمبر 49 میں بتایا جاتا ہے:

غار تقریبا پانچ فٹ چوڑا اور چار فٹ اونچا تھا”

غار کے طول و عرض میں تضاد کو اگر ہم نظرانداز بھی کر دیں اور مان لیں کہ اس کا دہن پانچ فٹ کا تھا، تو زرا چشمِ تصور سے پنج فٹی دہن پر دس بارہ فٹ کا ناک دیکھ کر بتائیے کہ کس حسینہِ عالم کا رخِ زیبا ذہن میں ابھرتا ہے۔

تھوڑا سا زکر نچلے ڈالوں کا بھی ہو جائے جو مصنف کو اپنی حسینہ کی آنکھیں، ان کے اوپر دنبالہ دار شاخیں اس کی بھنویں اور ان سے پیچے بڑا ٹیلہ، اس قاتل حسینہ کا سر لگتا ہے۔ صفحہ نمبر 12 ملاحظہ کیجئے:

” تنا بالکل سیدھا ہے اور ماسوائے ایک ڈال کے جو زمین سے سولہ سترہ کی بلندی پر واقع ہے۔ باقی سب کے سب چوبیس پچیس فٹ کی بلندی سے شروع ہوکر چوٹی تک شاخ در شاخ پھیلے ہوئے ہیں جن کی دنبالہ دار شاخیں دوپہر تک چٹان پر سایہ کئے رکھتی ہیں۔”

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ تنے کی نچلی ڈال صرف ایک ہے گویا مصنف کی حسینہ کانی ہے۔ ٹیلے کو سر سمجھنے کا مطلب ہوا کہ محترمہ گنجی بھی ہے۔ لیجئے صاحب اس پتھریلی قتالہِ عالم کا چہرہِ انور اب مکمل آپ کے سامنے ہے: پانچ فٹ چوڑا اور چار فٹ کھلا دہن جس کے اوپر دس بارہ فٹ چوڑی ناک، یک چشم اور گنجی لیکن بقول ناول نگار حسینہ۔ توبہ استغفار۔

ایسا ہی الم غلم بیان دو ابھری چٹانوں کو پتھریلی حسینہ کی چھاتیوں کے ابھار اور ان سے کچھ نیچے گڑھے کو اس کا پیالہِ ناف سمجھنے کے باب میں ہوا ہے۔ مصنف، جوشِ بیان میں ازار بند، کمر کی بجائے اپنی حسینہ کے جسم سے باندھ گیا ہے اور وہ بھی کَس کے۔ کہاں کی چیز کہاں باندھ دی, کوئی خدا کا خوف کرو۔ اس کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کمر بھی تو جسم ہی کا حصہ ہے۔ سرکار! گلا بھی جسم ہی کا حصہ ہے، کہیں ازار بند وہاں نہ باندھ دیجئے گا۔۔۔ کَس کے۔

ایک اور عیب اس ناول میں طول بیانی کا ہے۔ اختصار اور کفایتِ الفاظ سے بڑی مشقت کے ساتھ اجتناب برتا گیاہے۔ بے موقع اور بلا ضرورت الفاظ کا ایک کوہ ہمالیہ ہے جس کا سلسلہ ناول کے پہلے صفحے سے لے کر آخری سطر تک پھیلا ہوا ہے۔ جزئیات نگاری میں بالخصوص ایجاز کی بجائے اطنابِ ممل سے کام لیا گیا ہے۔ حشو و زوائد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے مناظر اور تصویروں کے اصلی خد و خال نظروں سے اوجھل کر دیئے ہیں۔ پلاٹ اور کرداروں پر زور دینے کی بجائے جزئیات نگاری پر بے پناہ بلکہ اکتاہٹ پیدا کرنے والا زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح ضمنی پلاٹ کی حدود، اصل پلاٹ سے بھی بڑھا دی گئی ہے۔ بنیادی موضوع کی بجائے فروعی اور غیر دلچسپ کردار ضرورت سے زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ ضمنی قصوں بلکہ غیر ضروری طفیلی حشرات الفاظ کی بھرمار ہے جو کہانی کا رس کا چوستے جاتے ہیں۔ جو اصل واقعہ کے کسی اہم پہلو کی وضاحت نہیں کرتے۔ کردار مجرد بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں۔ ناول کے فکری اورحسی ڈھانچے میں کوئی مطابقت ہی نہیں ہے۔ اس میں غیر اہم اجزاء یعنی غیر ضروری مکالمے اور پس منظر ضرورت سے زیادہ نمایاں ہے۔ رنگینیَ بیان، خطابت اور جذباتیت تناسب کے عدم احساس کی وجہ سے حاوی ہے۔ لفظوں کی اکائیاں زیادہ اور مفہوم کی اکائیاں کم استعمال ہوئیں ہیں۔

اور پھر ناول کی زبان۔۔۔ الحفیظ الامان۔ فکشن کی زبان حسی، تاثراتی، تخیلی اور پیکر ساز ہوتی ہے لیکن ناول نگار نے بڑی محنت اور ریاضت سے خود کو ان “آلائشوں” سے دور رکھا ہے اور صرف لفظوں کے طلسم سے شاعرانہ کیفیت کا فریب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صفحہ نمبر 39 کی نیچے سے چوتھی سطر دیکھئے جہاں زلزلے کے وقت درختوں کی حالت بیان کی گئی ہے:

” جہاں چیڑ کے درخت زور زور سے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔”

صفحہ نمبر 97 کے چوتھے پیراگراف کی چَھٹی سطر کا بیان بھی دیکھنے کے لائق ہے جہاں حجلہِ عروسی میں بیھٹی نئی نویلی دلہن کے کانوں کی لووں سے بہتے پسینے کی دھار اس کے سینے کے درمیان سے گزر رہی ہے:

” جب وہ( دھار) اس کے سینے کے ابھاروں کے عین درمیان سے گزر رہی تھی، اسے اس کی سرسراہٹ دور اندر دل کی گہرائیوں میں سنائی دی”

محترم! کون سی پسینے کی دھار سرسراہٹ پیدا کرتی ہے اور کون اسے دور اندر دل کی گہرائیوں میں سنتا ہے؟ بھائی! کیوں پبلک کو گمراہ اور نثر کو رسوا کر رہے ہو۔ شاعرانہ بیان کا یہ عجز اصل میں اس ذہن کی پیداوار ہے جو نثر کے حسن سے واقف ہی نہیں۔ ” دور اندر دل ” کیسا عامیانہ بیان ہے۔ یہ تین لفظ ہی بتا دیتے ہیں کہ مصنف زبان کے شعور سے محروم اور اسے تہس نہس کرنے پر کاربند ہے۔

صفحہ نمبر 99 کے تیسرے پیراگراف میں ظفر علی خان کا شبِ زفاف، اپنی دلہن سے ازدواجی تعلق ان الفاظ میں قائم کیا جا رہا ہے:

” ظفر نے پلنگ کے ساتھ رکھی ہوئی لالٹین کا شیشہ انتہائی احتیاط سے اوپر اٹھا کر پھونک ماری اور پورا کمرہ اندھیرے کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا۔ جس میں وہ دونوں ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ آہستہ آہستہ ان کے سانس پھولنے لگے یہاں تک کہ ان کے تیز سانسوں کی آواز اندھیرے کے اس اتھاہ سمندر سے باہر جلتے ہوئے دئیو کو بھی صاف سنائی دینے لگی۔”

بھئی سبحان اللہ! ہاتھ پاؤں مارنے کا جواب نہیں۔ مصنف نے اپنی” بلندیِ فکر” سے جنسی ارتباط و اختلاط کو لذت کی بجائے مشقت کا عمل بنا دیا ہے۔

صفحہ نمبر 22 کی آخری دو سطور دیکھیں:

” وہ کچھ دیر آتش دان کے پاس بیٹھا آگ تاہتا ریا اور پھر نہانے اور کپڑے بدلنے غسل خانے چلا گیا جہاں نیم گرم پانی اس کے جسم سے مس ہونے کے لیے بے تاب تھا۔”

آپ نے دیکھا کہ سادہ سی بات کو زبردستی آرائشی بنانے کے چکر میں کیسا مضحکہ خیز جملہ معرضِ وجود میں آیا۔ اور جملے کی غیر ضروری سجاوٹ، معنوی گراوٹ کا باعث بن گئی۔ یہ اصل میں سب، غیر تخلیقی ذہن کی بے لگام سوچ کا نتیجہ ہے۔

آرائشی بنانے کے چکر میں زبان کی جو درگت بنائی گئی وہ تو آپ دیکھ چکے، لفظوں کے پہاڑے سنا کر مصنف نے جو مراتبِ لسانِ فکشن بلند کئے ہیں اب ان کا نظارہ بھی کیجئے۔ صفحہ نمبر 30 کے دوسرے پیراگراف کی تیرہویں سطر پیشِ خدمت ہیں:

” اس سے پہلے کہ وہ اپنی پتلیوں کو ہلکا سا گھما کر اس کی طرف دیکھتی زمان کو الہام سا ہوا کہ اس کا سارا حسن اس کی بے خبری میں مستور ہے اور یہ کہ اگر اس نے دیکھ لیا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا حسن زائل ہو جائے گا، اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی نظریں اس کے چہرے سے فورا ہٹا لیں اور وہ اس کے دیکھے جانے سے بے خبر اپنے آپ میں مست فضا کو معطر کرتی ہوئی آگے نکل گئی۔”

ان سطور میں مصنف ایک کند ذہن طالب علم کی طرح ” اس” کا پہاڑہ یاد کرتا نظر آتا ہے۔ صرف ایک جملے میں نو مرتبہ “اس” کا استعمال کرکے ناول نگار نے اس کا بھرکس نکال دیا ہے۔ پھر بھی اس کا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور صفحہ نمبر 31 کے دوسرے پیراگراف میں” اس” کے چودہ کوڑوں سے قارئین کی چمڑی ادھیڑی گئی ہے۔

صفحہ نمبر 51 کے چوتھے پیراگراف کی تیسری سے پانچویں سطر میں “گاؤں”، صفحہ نمبر52 کے پہلے پیراگراف کی چھٹی سے آٹھویں سطر میں “غار”, صفحہ نمبر 98 کی پہلی سے تیسری، صفحہ نمبر 144 کی پہلی سے دوسری اور صفحہ نمبر 23 کی تیسری سے چوتھی لائن میں “اس”، صفحہ نمبر 56 کے چوتھے پیراگراف کی آخری اڑھائی سطور میں،” کَسی”، صفحہ نمبر 171 کے چوتھے پیراگراف میں “چٹان” اور صفحہ نمبر 203 کے دوسرے پیراگراف کی دوسری سے پانچویں سطر میں “یہاں” کی گردن توڑ گردانیں کی گئیں ہیں۔

ارے یہ کیا، آپ نے اس ناول کی بری صحبت کے اثرات ملاحظہ کئے: قاری لفظوں کی تکرار بتاتا بتاتا خود بھی صفحہ نمبر، پیراگراف نمبر اور سطر نمبر کی گردان کرنے لگا۔ کاش اس نے اسماعیل میرٹھی کی بات مان لی ہوتی اور اس ناول کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کیا ہوتا۔

‘بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا ‘

زبان کے ساتھ ڈھائے گئے مظالم کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا، دل تھام کے رکھیں کہ ‘ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں’.
آنکھیں کھولیں اور مصنف کی تمثیلوں اور تشبیہات کے چند ” شہ پارے” دیکھیں:

” رفتہ رفتہ یہ دونوں آوازیں؛ ٹھک ٹھک۔ ہااہہ۔ ٹھک ٹھک۔ ہااہہ۔ ٹھک ٹھک۔ ہااہہ۔۔ ایک مخصوص ردھم میں ڈھلتی گئیں اور لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی چلی گئیں۔ بلند ہوتے ہوتے، ایک وقت ایسا آیا، جہاں یہ دونوں آوازیں بالکل ایک ہو گئیں؛ ٹھک ہا۔ ٹھک ہا۔ ٹھک ہا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے ہارمونیم کی آواز گائیک کی لے کا پورا ساتھ دے رہی ہے ( صفحہ نمبر 58, پہلے پیراگراف کی چھٹی سے نویں لائن)

مصنف کتنی دور کی کوڑی لایا ہے۔ ارے بھائی ٹھک ہا۔ ٹھک ہا۔ ٹھک ہا میں کون سی موسیقیت ڈھونڈ بیٹھے ہو۔ اس کھڑاک اور ہارمونیم اور گلوکار کی آواز میں کون سا تلازمہ دریافت کر لائے ہو۔ میاں، کیوں ایسی مثالیں دے کر ہم غم زدوں کو ستاتے ہو۔ اس ناول کی بیزاری کو قاری نے موسیقی سن کر ختم کرنا تھا، تم نے اس سے بھی دل کھٹا کر دیا۔

اب بات چل ہی نکلی ہے تو کچھ مثالیں اور دیکھئے:

” سورج مغرب کی سمت واقع ایک دور دراز پہاڑ پر یوں ٹنگا ہوا تھا جیسے چوٹی پر کھڑے ہو کر اس پر، آسانی سے مچھلی تلی جا سکتی ہو” ( صفحہ نمبر 51 کی پہلی سطر)

” ستواں ناک کے نیچے دائیں طرف؛ اوپر والے ہونٹ کے پیچھے ایک باریک سا تل تھا، جو عام گول تلوں سے مختلف تھا۔ یہ تل لمبوترا سا تھا۔ بغور دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے کوئی درویش کہیں کمبل اوڑھے سو رہا ہو۔” ( صفحہ نمبر 98, دوسرا پیراگراف)

” لیکن اس کے باوجود ان کی آواز میں مسرت لہریے لے رہی تھی۔ جسے خود ان کے علاؤہ صرف چٹان نے محسوس کیا جو ان کے قدموں سے تقریباً بیس فٹ نیچے ایک کھائی میں جائے نماز کی طرح بچھی ہوئی تھی۔” ( صفحہ نمبر 177, تیسرا پیراگراف)

)” چٹختا ہوا انار اسے کسی مسکراتی حسینہ کے چہرے کی طرح لگا۔” ( صفحہ نمبر 226, دوسرے پیراگراف کی آٹھویں سطر

ناول نگار کے لفظی پیکر انتہائی بھونڈے اور بد مزہ ہیں۔ بیان قطعاً حاضراتی نہیں۔ بیانیے کی حقیقت پسندانہ بنیاد ہی کمزور ہو تو شے کی شئیت کو گرفت میں لا کر اسے لفظی پیکر میں بدلنا ناممکن ہوتا ہے۔ جسے حقیقت پسندانہ اسلوب پر قدرت نہ ہو وہ تمثیل یا تشبیہ کا ڈھنگ سے استعمال خاک کرے گا۔

واقعات نگاری میں بھی مصنف کی زبان رعشے کا شکار نظر آتی ہے۔ بالخصوص زلزلے اور سیلاب کے بیان میں اظہاریہ اتنا کمزور ہے کہ سانحے کی فضا ہی نہیں بن پائی شاید اخبار میں یہ واقعات پڑھ کر زیادہ صدمہ ہوتا ( صفحہ نمبر 105 تا 111 میں زلزلے کا بیان بہ طور ثبوت دیکھا جا سکتا ہے)۔ بڑا ادیب اپنے دور کے انتشار کو بھی آرٹ کے تجربے میں ڈھال دیتا ہے۔ طوفان، سیلاب اور زلزلوں کے بہترین مرقعے وہی ہیں جو زبان کے ڈسپلن کو قائم رکھ کر ترتیب دئیے گئے ہیں۔ انتشار کے پرانتشار بیان سے تخلیق نہیں انارکی پیدا ہوتی ہے۔ آفت کے سنسی خیز بیان سے قاری کی طبیعت میں ہیجان تو پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا دل اس تڑپ اور رنج سے تہی رہتا ہے جو آفت کی تباہ کاریوں سے فطری طور پر جنم لیتا ہے کہ سنسنی، فطری ردعمل دبا دیتی ہے۔ تجربہ کار لکھاری قیامت کے بیان میں اسلوب پر قیامت نہیں ڈھاتا۔ زلزلے کی دھمک یا بادل کی گرج کو شعبدہ بازیوں سے صفحہِ قرطاس پر اتارنا ان کو صوتی آہنگ دینے سے کہیں آسان ہے لہذا، سہل طبع ادیب اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔

ناول میں لفظوں اور محاوروں کے کلیشے بھی وافر تعداد میں استعمال ہوئے ہیں۔ مضمون، زبان کے حوالے سے مزید طول بیانی کا متحمل نہیں ورنہ بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ مضمون کتابی شکل میں شائع ہوا تو ضرور اس پہلو پر بھی بات ہوگی۔

“جاگے ہیں خواب میں” کے کردار انتہائی ایمان دار، صاف گو اور راست باز ہیں۔ ہر کردار اپنے عمل، ردِعمل، زہنی حالت، کیفیات اور طور طریقوں کی شہادت کے ساتھ، قارئین کو قائل کرتا ہے کہ وہ سراسر ناقابلِ یقین ہے اورمحض مصنف کے کچے پکے مطالعاتی نتائج کے بیان کا ذریعہ ہے۔

ای ایم فورسٹر کا کہنا ہے: ” ناول کی ادبی اہمیت اس کی کردار نگاری پر منحصر ہے اور اگر کوئی ناول نگار کردار نگاری کی قوت نہیں رکھتا تو وہ صحیح معنی میں ناول نگار کہلائے جانے کے لایق نہیں ہے۔۔۔ کردار کی زندگی عام زندگی نہیں ہوتی بلکہ ناول نگار کی قوت متخیلہ اس کو ایسی نئی زندگی بخش دیتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ پر کیف اور پر اثر ہوجاتی ہے۔“

فارسڑ صاحب درست کہتے ہوں گے، لیکن ناول نگار نے قطعاً اس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ زمان فزکس کا ہونہار طالب علم ہے لیکن عملی طور پر میٹا فزکس کا قائل نظر آتا ہے۔ صفحہ نمبر 37 پر جب ناول نگار بہ زبانِ عرفان، اسٹیفن ہاکنگ کو سرزمینِ طبیعیات سے نکال کر ملکِ مابعدالطبیعیات کی شہریت عطا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی بلیک ہول کی تھیوری جب تک ثابت نہ ہو جائے سائنس کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اسی طرح آئن سٹائن کی طبیعاتی مساوات E = mc2 کو میٹا فزکس کی اِکویشن کہتا ہے، لیکن زمان سائنسی علم کی اس بے توقیری پر نا صرف خاموش رہتا ہے بلکہ اس کا قائل بھی نظر آتا ہے۔

عالمِ خواب میں زمان کا پراکرت سیکھ جانا اور خروشتی رسم الخط جان لینا ہی اسے ناقابلِ اعتبار بنانے کے لئے کافی ہے، لیکن مصنف ادب کی بہتری کے لیے اس کے ناقابلِ اعتبار ہونے کے مزید جواز فراہم کرتا ہے جس کے لئے قارئین ہمیشہ اس کے شکر گذار رہیں گے۔ Final Destination اور Ghost کے کرداروں کی مرکب خصوصیات کا اناڑی پن سے اظہار اور یادداشت کھو جانے سے لے کر میموری ریسٹوریشن کے دوران اس کے طور طرہقے، زمان کو انسان سے پرچھائی بنا دیتے ہیں۔

ناول نگار نے یادداشت کھو دینے والے افراد کے طور طریقوں کا مطالعہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سے متعلق طبی معلومات حاصل کرنے کی زحمت کی ہے۔ زمان کی زہنی کیفیات اور محسوسات کے حقیقت پسندانہ بیان اور طبی حوالے سے اس کے استناد کے لئے محولہ بالا امور کی انجام دہی بہت ضروری تھی تا کہ اس بابت فاش غلطیوں سے بچا جا سکتا۔

یادداشت کھو دینے والا شخص confabulation کے لئے سابقہ معلومات کا محتاج ہوتا ہے۔ زمان کا اپنے پرکھوں پر گذرے واقعات سے متعلق یہ عمل اس کی گزشتہ معلومات کی روشنی میں تسلیم کیا جا سکتا ہے ( حالاں کہ ناول میں ان معلومات کی اس تک ترسیل کا کوئی تذکرہ نہ یے) لیکن اشوک، پراکرت، خروشتی رسم الخط وغیرہ سے متعلق confabulation کے لئے اس ک پاس ایسا کوئی علمی جواز موجود نہیں۔ اسی طرح hallucination کا شکار مریض، اپنی خیالی دنیا کو حقیقی سمجھتا ہے، لیکن زمان خیالی دنیا میں اپنے آپ کو کبھی نور خان، کبھی ظفر علی خان اور کبھی مہاراجا اشوک کا ملازم سمجھنے کے باوجود بار بار سوال کرتا ہے: میں کون ہوں!۔

کومے کی حالت میں خواب دیکھنا طبی طور پر انتہائی متنازع فیہ ہے لیکن ماہر اطبا کو اس پر متفق علیہ دکھایا گیا ہے بلکہ ایک ڈاکٹر تو اس کی روحانی توجیہات کرتا بھی نظر آتا ہے۔ ناول میں میڈیکل سائنس سے زیادہ سپرچوئیل سائنس کے مظاہرے دکھائے گئے ہیں جو پاپولر سائنس کے اخباری تراشے پڑھنے کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔

ڈاکٹر مسیح الدین فاروقی، ماہرِ نفسیات سے زیادہ زہنی مریض لگتے ہیں . مولی فنچر کی مثال دیتے ہوئے موصوف کے کردار کا ناقابل اعتبار پن کھل کر سامنے آتا ہے۔ صفحہ نمبر 174 پر جب سردار عبد العزیز خان، زمان کی عدیم النظیر بیماری کا سن کر ان سے پوچھتے ہیں کہ “کیا میڈیکل سائنس کی تاریخ میں ایسی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں؟”۔
ڈاکٹر مسیح الدین فاروقی اس کا نہایت Antiscience جواب دیتے ہیں کہ ” بالکل ایسی نہ سہی۔ لیکن اس سے ملتی جلتی مثالیں موجود ہیں”۔ اس سلسلے میں وہ مولی فنچر نامی عورت کی مثال پیش کرتے ہیں کہ کیسے وہ بند لفافے میں پڑے خط کے مندرجات، بغیر پڑھے، حرف بہ حرف ٹھیک بتا دیا کرتی تھی۔ اس کے ورائے فطرت افعال کی تصدیق مشہور ماہرِ فلکیات ہنری پارخرسٹ نے بھی کی جو خصوصی طور پر اسے ملنے آیا اور کئی روز اس کے ساتھ رہ کر یہ تجربہ دہراتا رہا۔

اول تو ڈاکٹر صاحب، مولی فنچر کی عمر غلط بتاتے ہیں۔ صفحہ نمبر 174, دوسرے پیراگراف کی دوسری سطر ملاحظہ کیجئے: ” میرے خیال میں اس کی قریب ترین مثال مولی فانچر نامی ایک عورت کی ہے۔ جس کی پچاس سالہ زندگی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے، جنھوں نے اس کے معالجین کو ہلا کر رکھ دیا”. مولی فنچر کی درست عمر اڑسٹھ برس ہے۔ وہ اگست 1948 کو پیدا ہوئی اور فروری 1946 کو فوت ہوئی۔ دوم، میڈیکل سائنس clairvoyance کو pseudoscience سمجھتی ہے، پینتیس سالہ پیشہ ورانہ تجربے کے حامل، ایک ماہرِ نفسیات سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسی مثال پیش کرے۔ سوم، ہنری پارخرسٹ جو ایک ماہرِ فلکیات ہونے کے ساتھ ساتھ پادری بھی تھا کی شہادت قبول کرنا سراسر میڈیکل سائنس کے مبادی اصولوں کے خلاف ہے کہ سائنس فقط مادی شہادتوں کو مانتی ہے۔ اس وقت کے مشہور نیورالوجسٹ اور امریکی سرجن جنرل ڈاکٹر ولیم اے ہیمنڈ نے اپنی کتاب ” فاسٹنگ گرلز دئیر فزیالوجی اینڈ پیتھالوجی” مطبوعہ 1879, میں مولی فنچر کو فراڈ قرار دیا تھا اور ہنری پارخرسٹ اور مولی کے خود ساختہ ماہرینِ زہنی امراض، معالجین پر کڑی تنقید کی تھی کہ فنچر اور دیگر فاقہ کش لڑکیاں یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ ان کے جسموں پر ویسا ہی نشان ( Stigmata) ہے جو مصلوب ہونے کے بعد حضرت عیسیٰ کے بدن پر پڑا تھا۔ ولیم ہیمنڈ نے اس لڑکی کا معائنہ تک کرنا ضروری نہ سمجھا۔ ان کے خیال میں اس مسئلے کی سائنسی توجیح ممکن ہی نہیں تھی۔ مولی کے دعوے کی تصدیق کرنے والا ہنری پارخرسٹ پادری اور اس کا ایک معالج پریسبیٹیرئین چرچ کاریورنڈ تھا۔ آج بھی فنچر سے متعلق محیرالعقول واقعات زیادہ تر تھیوفیسیکل سائٹس پر مشتہر ہوتے ہیں۔ بہرحال، ایک ماہرِ نفسیات کا نیورالوجسٹ ولیم اے ہیمنڈ کا حوالہ نہ دینا اور زہنی مرض کے معاملے میں ایک ماہرِ فلکیات پادری کا قول نقل کرنا ثابت کرتا ہے کہ مسیح الدین فاروقی صاحب ڈاکٹر کے سوا سب کچھ ہو سکتے ہیں۔

“ڈاکٹر’ مسیح الدین کا سب سے شاندار ڈاکٹری مظاہرہ صفحہ نمبر 185 اور 186 پر ملتا ہے جہاں وہ سردار عبد العزیز خان کو بتاتے ہیں کہ زمان جو باتیں بھی کر رہا ہے وہ اس کے لئے مانوس اور جانی پہچانی ہیں کیوں کہ آپ خود تصدیق کر چکے ہیں کہ آپ کے خاندان سے متعلق اس کی باتیں تاریخی طور پر بالکل درست ہیں۔ جس پر سردار صاحب کہتے ہیں کہ بعض واقعات یعنی اشوک کے دور میں چٹانوں پر اس کے فرمان کندہ کروانے کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ ماہرِ نفسیات فاروقی صاحب کے جواب کا لطف اٹھائیں:

۔” بالکل۔ یہ آپ کے آباؤ اجداد ہی میں سے کسی نے کندہ کروائی تھی۔ کوئی پچاسی نوے پشت پہلے”

اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ یہ “ڈاکٹر” صاحب کو الہام ہوا ہے، ان کے پاس غیب کا علم ہے، انہیں اشوک نے میسج کیا ہے یا سادھو آنند نے خط لکھا ہے۔ میرے خیال میں فاروقی صاحب کو ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہے۔

نور خان، ظفر علی خان، سردار عبد العزیز خان، ماہ نور، صابرہ خانم، چچا اورنگزیب، عرفان اور ماریہ کا حال بھی بہت پتلا ہے۔ کسی ایک بھی کردار میں وہ قوت نہیں کہ جو اسے صفحات پر ابھار سکے۔

ناول میں واقعاتی اثقام کا ازدحام ہے۔ لیکن مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے چند مثالوں ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ صفحہ نمبر 106 اور 107 پر خوف ناک زلزلے کے بعد ان افراد کے طور طریقے ملاحظہ فرمائیں جن کے کچھ پیارے تو مر چکے ہیں اور کچھ ملبے تلے دبے ہیں:

” شمیم بھائی! آپ کے گھر کی کیا صورت حال ہے؟ ایک آدمی جو گرے ہوئے مکان کا ملبہ کھود رہا تھا، نے دوسرے سے پوچھا۔
بس جی۔ والد صاحب اور میں بچ گئے۔ میری بیوی کو شدید چوٹیں آئیں ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے بچ گئی ہے۔ لیکن میرا بیٹا ابھی تک ملبے تلے دبا ہوا ہے۔ کدال کا دستہ ٹوٹ گیا ہے، دوسری کدال کا انتظام کرنے جا رہا ہوں۔ دوسرے نے جواب دیا۔
چلیں جی خدا کا شکر ہے۔ باقی تو بچ گئے ناں۔ میری بیوی بے چاری مر گئی ہے۔ بیٹا زخمی ہے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی پر میری بہو اور میں معجزانہ طور پر بالکل سلامت رہے۔ جب کہ میرا دو سالہ پوتا ابھی تک لاپتہ ہے۔ خدا کرے وہ زندہ ہو۔ پہلے نے کہا۔
بس جی اللہ سلامت رکھے۔ اللہ سب کے بال بچوں کو اپنی امان میں رکھے۔ سیلمان غریب کا تو پورا خاندان ہی صفحہء ہستی سے مٹ گیا ہے۔ بے چارے کا کوئی رونے والا بھی نہیں بچا۔ نو کے نو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ابھی صرف چار لاشیں نکالی ہیں۔”
آصف بھائی! کوئی اضافی کدال ہو تو۔۔۔”

آپ نے دیکھا کہ دو اشخاص جن میں سے، ایک کا بیٹا ملبے تلے دبا ہوا ہے اور دوسرے کا پوتا لاپتہ ہے ، کتنے اطمینان سے حالاتِ حاضرہ پر گفتگو میں مگن ہیں، لیکن ان کے لہجے میں کرب، حزن، بے چینی اور غم و اندوہ کے آثار تک نہیں۔ دونوں کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے پیاروں کی موت اور اپنی بربادی پر بات نہیں کر رہے بلکہ کرکٹ میچ کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ میری ٹیم کا ایک وکٹ کے نقصان پر اتنا سکور ہے، کس بیٹسمین کا کیچ ڈراپ ہو گیا اور کون رن آؤٹ ہونے سے بچ گیا ہے۔ اس درد ناک واقعے پر انسانی ردِعمل کا ایسا غیرفطری بیان نا صرف ناول نگار کے اناڑی پن کا ثبوت ہے بلکہ انسانی فطرت سے اس کی ناقابلِ معافی لاعلمی کی دلیل بھی ہے۔

واقعاتی نقص کے حوالے سے صفحہ نمبر 44 بھی دیکھئے جہاں لکھا ہے کہ پورا قبیلہ سید احمد بریلوی کا ہم خیال بن گیا ہے، فقط انہوں نے شادی بیاہ اور مرگ و موت کی رسومات برقرار رکھیں، لیکن صفحہ نمبر 60 تا 63 انہی لوگوں کی بسائی بستی میں توہمات کا بازار گرم ہے۔ نور خان وغیرہ بھی جو سید احمد بریلوی صاحب کے قریبی ساتھی بیان ہوئے ہیں، اس سلسلے میں آگے آگے ہیں۔ یہ سطور دیکھئے:
“پچھلے سال تو بادل امڈنے نے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ حالاں کہ میں نے اپنے بیٹے کے رخساروں پر کالک مل کر اسے پوری بستی میں گھمایا تھا۔ پہلے آدمی نے کہا۔ ( صفحہ نمبر62)

“وہ تو خدا بھلا کرے نور خان کا جس نے نے بری امام جا کر پوری چڑھائی تھی۔ تب جا کر تھوڑی بہت بارش ہوئی اور ہم نے بوائی کی۔ ورنہ ہم بھوکے مر رہے ہوتے”

سید احمد بریلوی کے بارے میں معمولی سا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ وہ توہمات و بدعات کے کتنے خلاف تھے؛ اور ادھر ان کے قریبی رفقاء کا عمل ان کی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ بالخصوص نور خان، جو ان کے لئے سکھوں سے جنگ بھی کرتا ہے۔

صفحہ نمبر 66 کی یہ لائنیں دیکھئے:

” خدا خیر کرے گا۔ جو اس کی مرضی۔ نور خان نے ڈبڈبائی ہوئی آواز میں کہا جس میں اندر کو گرتے آنسوؤں کی نمکینی بخوبی محسوس کی جا سکتی تھی۔”

بندہِ خدا، یہ آنسو اندر کس مقام پر گر رہے ہیں؛ اور وہاں کون بیٹھا ان کی نمکینی کو، بہ خوبی محسوس کر کے بروقت مصنف کو اطلاع دے رہا ہے؟

صفحہ نمبر 74 کے پہلے پیراگراف میں جمعہ خان کے لئے کبھی صیغہِ واحد استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی جمع کا صیغہ، ملاحظہ کیجئے:

” جمعہ خان کا بھی شکریہ کہ اس نے مجھے آپ جیسے آدمی سے ملوایا۔ میں نے ان سے آپ کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ آپ کو شاید میرے آفس تشریف لانے میں تردد ہو۔ لہذا میں یہاں چلا آیا۔”

یہی ” شان دار” سلوک سردار فقیر محمد، ظفر علی خان اور زمان کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔

لیجئے صاحب! یہ ہے وہ ” بےنظیر” ناول جس کی خوبیاں بیان کرتے ہمارے پیارے راج دلارے مبصرین تھک نہیں رہے۔۔ تعبیر اور تشریح سے اختلاف کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے لیکن اگر تبصرہ نگاروں نے اس کتاب کے متن ہی کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھا کہ ناول میں کیا کیا وقوع پزیر ہوا ہے تو تعبیر بھی الا ماشاءاللہ الٹی سیدھی ہوگی۔

ناول کا نام مرزا اسد اللہ غالب کے اس شعر کے دوسرے مصرعے سے مستعار ہے:

‘ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں’

افسوس کہ اس شعر سے اکتساب کرنے کی بجائے، اس کی مٹی پلید کی گئی ہے۔

یہ ناول خراب ناولوں کی فہرست میں ایک عبرت ناک اضافہ ہے۔ حسن آفرینی، تازہ کاری، تنوع، ندرت، تخیل کی قوتِ ایجاد، واقعہ نگاری کے اعجاز، کردار نگاری کی طاقت، فکشن کی زبان اور ہئیت و مواد کی وحدت سے محروم اس ناول کی تعریف کرتے وقت معزز مبصرین کو، معلوم نہیں شرم آئی ہوگی کہ نہیں، لیکن ان کی آراء پڑھ کر قاری ضرور شرم سار ہوا ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...