وائٹ لسٹ ہونے کے انتظار میں
پاکستان ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لئے بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ شروع سے ہی ریاستی ادارے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کوایک قابل سزاسیاسی ہتھیار سمجھے ہوئے ہیں اور ان پر عملدرآمد کررہے ہیں جوں جوں دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے حکومت مرحلہ وار ان تمام کمزوریوں کو دور کررہی ہے جو کہ دہشتگردی کی مالیات کے انسداد(سی ٹی ایف) کے لئے حکومتی اداروں میں تاحال موجود رہی ہیں ۔یہ مرحلہ طویل ضرور ہوسکتا ہے مگر اس کی قیمت شہری آزادیوں پر قدغن کی صورت ہرگز نہیں ہونی چاہیئے۔
ایف اے ٹی ایف کی وزراء کی سطح پہ ہونے والی کونسل میٹنگ 15 اگست کو میامی میں متوقع ہے۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ یہ میٹنگ آن لائن ہوگی اور اس میں شامل وزراء پاکستان کی جائزہ رپورٹ ملاحظہ کریں۔ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ 6 اگست تک جمع کروانی تھی ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے ہاں التوا کا شکار قانون سازی کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں دونوں ہی نے متفقہ طور پر یونائیٹڈ نیشن سیکورٹی ترمیمی بل اورانٹی ٹیریزازم ترمیمی بل کو ایف اے ٹی ایف کی پیشگی شرائط کے طور پر قبول کر لیا ہے ۔ مشترکہ آئینی معاونت (فوجداری معاملات)کا بل بھی اپوزیشن کے اعتراضات کے جواب دے کر پاس کر لیا گیا ہے۔ ان آئینی اقدامات کے بعد پاکستان کو توقع ہے کہ اسے اب ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ذرا سکون میسر آئے گا ۔ دہشت گردی کی مالیات کے انسداد کے لئے کی جانے والی قانون سازی کے علاوہ انسداددہشتگردی کی عدالتوں میں بھی دہشتگردوں کی مالی امداد کے حوالے سے جاری کیسسز کی کاروائی کو تیز کردیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر گوجرانوالہ کی انسداد دہشتگردی عدالت نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے سبھی 5 دہشتگردوں کو دہشتگردی کی مالی معاونت اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے جرم میں 16،16 سال کی قید سزا سنائی ہے۔ دہشتگردوں کا یہ سیل بھارت میں بھی القاعدہ عناصر کی معاونت کررہا تھا۔
ایک دوسرے مقدمے میں انسداد دہشتگردی عدالت نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے برادر نسبتی حافظ عبدالرحمن مکی اور ان کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے دیگر تین افراد پر دہشتگرد عناصر کی مالی امداد کے لئے فرد جرم عائد کردی ہے ۔سال 2019 میں پنجاب کے انسداد دہشتگردی ادارے نے حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کے چند دیگر رہنماؤں کے خلاف صوبے بھر میں (لاہور، ملتان، فیصل آباد، ساہیوال اور سرگودھا) میں 23 ایف آئی آرز درج کی ہیں۔ اس ادارے نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ افراد مذہبی مقامات اور مساجد کو دہشتگرد عناصر کی مالی امداد کے لئے استعمال کررہے تھے۔
وفاقی وزراء کے اعتماد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر اہم سنگ میل عبور کرلئے ہیں اور انہیں یہ توقع ہے کہ پاکستان جلد ہی “گرے لسٹ” سے باہر آجائے گا۔ رواں سال جون کے مہینے میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی بہت سی شرائط پہ عمل در آمد کرلیا ہے اور ان کی وزارت نے کالعدم جماعتوں کی 976 قابل انتقال و ناقابل انتقال جائیدادوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سکولز، کالجز، ہسپتال، ڈسپنسریاں، ایمبولینسسز جو کہ کالعدم تنظیموں کی ملکیت تھیں انہیں بھی حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
یہ اقدامات قابل تعریف ہیں تاہم پاکستان کی جانب سے دہشتگردی کے مالی نظام کے خلاف کاروائیاں صرف ایف اے ٹی ایف کی تادیب سے بچاؤ کے لئے نہیں ہونی چاہیئں۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے دباؤ سے قطع نظر دہشتگردی اور اس کے مالی نظام کے خلاف اقدامات جاری رکھنا ہوں گے ۔ ماہرین کے مطابق جوں جوں دہشتگردی کا مالی نظام مضبوط ہوگا ایف اے ٹی ایف کی گرفت کا دائرہ کار بڑھتا جائے گااور اس کا نشانہ نہ صرف پاکستان ہوگا بلکہ وہ تمام ممالک ہوں گے جو دہشتگرد عناصر کی مالیات کے خلاف اقدامات نہیں کررہے۔
پاکستان کے یہ خدشات کہ ایف اے ٹی ایف کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے بے جانہیں ہیں ۔ گزشتہ سال چین نے ایف اے ٹی ایف کے سیاسی استعمال کو نا پسندکیا تھا۔ چین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بہت سے ممالک پاکستان کے خلاف سیاسی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ خیال بہت پختہ تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط بھی پرانے ” ڈومور” والے منتر کا روپ دھارتی جارہی ہیں۔ تاہم اگر ایف اے ٹی ایف پر سےسیاسی ہتھیار ہونے کا شائبہ دور ہوجانے کی صورت میں پاکستان کو پراعتماد انداز میں انسداد دہشتگردی کے نظام کو تین ستونوں پہ قائم کرناہوگا: خطرات، عدم تحفظ اور نتائج ۔ اس مقصد کے لئے ایف اےٹی ایف کی سفارشات یہ ہیں کہ ایک نظام یا اتھارٹی قائم کی جائے جوخطرات کے مقابل میں ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دے سکے۔
مشترکہ آئینی معاونت بل ( فوجداری معاملات) نے بھی اس امر کا تقاضا کیا ہے کہ ایک مرکزی اتھارٹی قائم کی جائے جس میں وزارت داخلہ ، وزارت قانون و انصاف، وزارت خارجہ کے سیکرٹریز کو بھی ، اور چاروں صوبائی ہوم سیکرٹریز کو شامل کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے وفاقی سیکرٹری کو کنویئر مقرر کیا جائے۔ یہ اگرچہ ایک چھوٹا فورم ہوگا اور ایف اے ٹی ایف کی ہدایات ایک بڑے نظام کو قائم کرنے کی تجویز دیتی ہے جس کا مقصد دہشتگرد عناصر کی مالی امداد پر اعلیٰ سطحی نگرانی رکھنا ہے۔اور اس میں پراسیکوئشن اتھارٹی ، این جی اوز، نگران اتھارٹی ، ٹیکس و ریونیو اتھارٹی ، ریئل اسٹیٹ ادارے اور رجسٹریز وغیرہ سبھی کو شامل کرنا چاہیئے۔
یہ اہم ثابت ہوگا کیونکہ ایک وسیع نظام دہشتگردی کی مالیات کے خطرے پر موثر نگرانی کرسکتا ہے۔ اگرچہ 14 اہم ادارے بشمول مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ اور نیکٹا ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کی روشنی میں تزویراتی تجزیئے کی تیاری میں معاون ہیں لیکن اس بل میں مجوزہ آئینی ادارے کا قیام سول سوسائٹی اور دہشتگردی کی مالیاتی انسداد کے لئے ایک موثر نگران کا کردار ادا کریں گے۔ اس طرح ایف اے ٹی ایف کی نگرانی اور جائزہ رپورٹ اس آئینی ادارے کے ہم آہنگ ہوسکے گی ۔
تاہم ایف اے ٹی ایف بذات خود ایک نگران ادارہ ہے اور کچھ آئینی سیاسی اور حقوق انسانی کے معاملات ممکنہ طور پر اس کی حدود میں نہ آتے ہوں۔ پارلیما ن اور سول سوسائٹی کو اس معاملے میں اپنی آنکھیں کھولے رکھنا ہوں گی۔ پاکستان میں سیکورٹی سے متعلقہ قانون سازی کو سیاسی اداروں اور سوسائٹی کارکنان کے خلاف استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ موجود ہے سیکورٹی سے متعلقہ قانون سازیاں جنہیں پارلیمان کی تائید حاصل رہی ہے، مثال کے طور پر پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014 اور فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 ،ان قوانین سے قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہوئے ہیں مگر ایسے قوانین پر یہ الزامات بھی عائد ہوئے کہ ان کی وجہ سے ملک میں حقوق انسانی کا فریم ورک متاثر ہوا ہے۔ قانون نافذکرنے والے ادارے بہر حال مزید آئینی طاقت کے متقاضی رہے ہیں ۔ آج تک انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور فئیر ٹرائل ایکٹ اور2013 پرویکیشن آف پاکستان ایکٹ 2014 میں دو درجن کے لگ بھگ ترامیم ہو چکی ہیں ، اس سلسلے کی آخری کڑی دہشت گرد عناصر کے مقدمات کی جلد کاروائی کے لیئے فوجی اداروں کا قیام تھا ۔ تاہم ان تمام آئینی اقدامات کے باوجود دہشت گرد کاروئیوں میں ملوث عناصر کی بریت کے فیصلوں کی بڑی تعداد کم نہیں ہو سکی اور یہ معاملہ تاحال سنگینی کا شکار ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں نے ان آئینی اقدامات کے غلط استعمال ہو سکنے کا اندیشہ بارہا ظاہر کیا ہے۔ کڑی پارلیمانی نگرانی ان قانون سازیوں کی ایک شرط ضرورہے تا ہم یہ گارنٹی نہیں ہے کہ حکومت ان قوانین کا غلط استعمال نہیں کرے گی یا دہشت گردی کے مالیات کے انسداد کےلئے قانون سازی کو منی لانڈرنگ سے گڈ مڈ نہیں کر دے گی۔ پارلیمان میں موجود بہت سے اپوزیشن اراکین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کو سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ایف اے ٹی ایف کی “گرے لسٹ ” سے اخراج ہر پاکستانی کی خواہش ہے جو ملک کا خیرخواہ ہے تاکہ معیشت ، سیکورٹی اور ملک کا عالمی امیج بہتر ہوسکے مگر اس سلسلے کی کوششوں کے لئے ہدف صرف اور صرف دہشتگرد عناصر اور ان کے مالی وسائل ہونے چاہیئں۔
بشکریہ: ڈان
مترجم:محمد شوذب عسکری
فیس بک پر تبصرے