کیا ٹرمپ کو نفاذ شریعت پر ثواب ملے گا؟
حیرت اس بات پر ہے کہ آج اگر ٹرمپ مسلمانوں کو توبہ کا موقع دے رہا ہے کہ وہ مسلم معاشرت میں واپس جا کر اپنی عاقبت سنواریں تو اسے برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ دھرنے ، مظاہرے اور کارٹون بنا کر اس نیک کام کی مخالفت کی جارہی ہے
خبر ملی ہے کہ صدر امریکہ جناب ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ میں ہجرت سے منع کردیا ہے۔ امریکہ میں شریعت کے نفاذ کی جانب اس پہلے قدم پر مبارکباد تو بنتی ہے۔ ایک صدی سے فقہائے امت غیر مسلم ممالک میں ہجرت کے عدم جواز کا فتوی دے رہے تھے۔ لیکن لوگ ان فتاوی کو پس پشت ڈالتے ہوے غیر مسلم ممالک میں کثیر تعداد میں ہجرت کرتے رہے۔ فقہا نے آخر کاراضطرار کے اصول کا اطلاق کرتے ہوے یہ رعایت دی کہ اگر مجبوری میں ہجرت کرنا بھی پڑے تو اس غیر شرعی قیام کو طویل نہ کریں۔ زیادہ دیر وہاں نہ رہیں۔ کام پورا ہوتے ہی اپنے ملکوں میں واپس آجائیں۔ اگر رکنا بھی پڑے تو ان ملکوں میں تجارت، تعلیم اور ثقافت کے معاملات میں غیر مسلموں سے دوستی نہ بڑھائیں ۔ اس ضمن میں خواتین کے لئے ممنوعات کی فہرست بہت طویل تھی۔ عام حکم یہی تھا کہ اس حالت اضطرار میں غیر شرعی امور میں ہرگز شریک نہ ہوں ۔ حلال اور حرام کی تمیز نہ بھولیں۔ سیاسی کاموں میں تو قطعاً حصہ نہ لیں کیونکہ اس طرح وہ کفر کے نظام کو مستحکم بنانے کے گناہ میں شامل ہوں گے۔
مسلمانوں نے نہ صرف ان سب منکرات کو اختیار کیا بلکہ وہاں کی شہریت اختیار کرتے ہوے غیر اسلامی آئین اور نظام سے وفاداری کا حلف بھی اٹھا لیا۔ ذرا بھی خیال نہ کیا کہ اللہ کی حاکمیت اور شریعت حقہ سے بے وفائی کا حساب کیسے دیں گے۔ الیکشنوں میں بڑھ چڑھ کر حصے لئے، کانگریس اور سینیٹ میں شریک ہوکر اس کفر کے نظام کو مستحکم کیا ۔
فقہا کے پر زور مطالبے پر امریکہ اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے قیام کے شرعی جواز کے لئے ان ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریک شروع کی جو گذشتہ دس سال سے جاری ہے۔ لیکن میڈیا اور لبرل طبقات کی اسلام دشمنی آڑے آتی رہی۔ امریکہ میں اسلام کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ امریکہ کی ساری ریاستوں میں بلا تفریق شریعت نافذ کی جارہی ہے۔ کئی ریاستوں نے اسی غلط فہمی کی بنیاد پر شریعت کے عدم نفاذ بلکہ ممانعت کے اعلانات بھی جاری کردئے۔ اسلام کا رعب خوف میں تبدیل ہوا تو اس غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ لیکن اصل میں یہ سب کچھ اس نا سمجھی کے سبب ہوا کہ بعض مسلم ممالک میں جہاں شریعت کا نفاذ عمل میں آیا وہاں اسے مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا گیا تھا۔ اس کا اطلاق غیر مسلم اقلیتوں پر بھی کیا گیا۔ میڈیا نے شور مچا دیا کہ شریعت کا نفاذ غیر مسلموں پر بھی ہوگا۔ اب ٹرمپ بعد از خرابی بسیار اس کی اصلاح کرتے ہوے صرف مسلما نوں پر احکام نافذ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ٹرمپ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اسے امریکی مسلمانوں سے زیادہ ان کی عاقبت کی فکر ہے اور وہ اصلاح کا موقع دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کی نیت پر شبہ کی گنجائش اس لئے نہیں ہے کہ شریعت کے اس پہلو کا نفا ذ اس نے امریکی مسلمانوں تک محدود رکھا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ آج اگر ٹرمپ مسلمانوں کو توبہ کا موقع دے رہا ہے کہ وہ مسلم معاشرت میں واپس جا کر اپنی عاقبت سنواریں تو اسے برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ دھرنے ، مظاہرے اور کارٹون بنا کر اس نیک کام کی مخالفت کی جارہی ہے۔ الٹا یہ بحث ہو رہی ہے کہ ٹرمپ کو اس نیک کام کا کیا ثواب ملے گا۔ وائے افسوس ، کہ احساس زیاں جاتا رہا۔
ٹرمپ کے بارے میں یہ خبریں بھی مل رہی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کوئی ایسی ڈیوائس پہننے کا حکم دینے والے ہیں جس کو دیکھتے ہی پتا چل جائے کہ وہ مسلمان ہے۔ قرون وسطی کی تاریخ سے ثابت ہے کہ مسلم علاقوں میں آباد غیر مسلموں کے لئے مخصوص رنگ کا لباس پہننا لازمی تھا تاکہ ان کی شناخت میں دیر نہ لگے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اسی اصول کے تحت انگریزی لباس پہننے پر کافی عرصے تک مسلمانوں کو کرسٹان کہا گیا۔ میز پر بیٹھ کر کھانا اور چھری کانٹے کا استعمال کرنے والے مسلمانوں سے میل جول کو برا سمجھا گیا۔ کیونکہ ان کے ظاہر سے یہ فیصلہ مشکل تھا کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک کیا جائے یا کافروںسا۔ صرف حجاب ہی نہیں اور بھی بہت سی رسمیں ایسی ہیں جو آج بھی مسلم اور غیر مسلم کی شناخت کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے غیر مسلموں کو مسلم ممالک میں اقلیت کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان کو بعض حقوق میں قانونی طور پر برابری حاصل نہیں۔
مسلمانوں کے اس پیچ و تاب رازی اور ذہنی کش مکش کا اندازہ ہمیں جنوبی افریقا میں رازی صاحب سے ملاقات میں ہوا۔ ان کا نام تو کچھ اور تھا لیکن ہم انہیں رازی کے نام سے یاد کریں گے۔ امام رازی نے قرآن کریم کی ایک معرکة الآرا تفسیر لکھی جس کے بارے میں مشہورہے کہ اس میں تفسیر کے علاوہ سب کچھ ہے۔ وہ ہر موضوع پر مخالفین کی جانب سے تمام ممکن اعتراضات کا ڈھیر لگا دیتے تھے لیکن جب جواب کا وقت آتا تو قاری کی تسلی نہیں کر پاتے تھے۔ علامہ اقبال نے پیچ و تاب رازی کی تلمیح میں مسلمانوں کے اسی غصے کی طرف اشارا کیا ہے۔ ہم جن صاحب کا ذکر کررہے ہیں یہ ایک ناراض مسلمان ڈاکٹر تھے جو جنوبی افریقا میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھن جانے کا افسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ حال ہی میں حکومت نے ڈاکٹروں کو اسقاط حمل کے معاملات میں تعاون کی ہدایات جاری کی ہیں۔ رازی صاحب کا کہنا تھا کہ مسلمان ڈاکٹر اسقاط حمل کو گناہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح ان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے احکامات کی خلاف ورزی کریں۔ ہمیں جنوبی افریقا کے مقامی حالات کا اندازہ نہیں تھا ۔ ہم نے سادگی میں کہ دیا کہ اگر مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا تو آپ اس کام سے انکار کردیں۔ انہوں نے کہا کیسے کردیں۔ حکومت نوکری سے نکال دے گی۔ ہم نے سمجھا یا کہ یہ مذہب کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا لیکن یہاں کا آئین مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ ہم نے کہا کہ اگر آپ کو نوکری اسی کام کے لئے ملی ہے تو یہ نوکری چھوڑ دیں جو مذہب کے خلاف کام سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ نوکری میرا حق ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے نفاذ شریعت کے اقدامات کے بارے میں مسلمان بہت ہی کڑے تذبذب کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شریعت کا نفاذ صرف مسلمان ملکوں اور مسلمانوں پر کیوں ہو رہا ہے؟ یہ لوگ شاید بہت جلد اسے عالمی سازش بھی قرار دے ڈالیں۔ دوسری جانب لبرل دانشور انصاف اور انسانی حقوق کے بارے میں ان امتیازات کو قول و فعل میں تضاد کا نام دیتے ہیں۔ کاش امریکہ مسلمانوں کی اس قانونی کش مکش پر ہمدردی سے غور کرتا کہ شریعت کے نفاذ کا حق صرف مسلمانوں کو ہے۔ کیونکہ یہ نیکی کا کام ہے اور نیکی کا ثواب ٹرمپ کو نہیں مل سکتا۔
کسی کو یہ دکھ ہے کہ اللہ تعالی یہ کام غیروں سے کیوں لے رہا ہے۔ حالانکہ اس میں حکمت کا پہلو یہ ہے کہ لوگ بادشاہوں کے دین کو مانتے ہیں، اور طاقت کا سکہ چلتا ہے۔ ظاہر ہے امریکہ میں شریعت کا نفاذ شروع ہوا تو دیکھا دیکھی باقی ملک بھی اس کی پیروی کریں گے۔ پاکستان میں صرف عمران خان صاحب خوش ہیں کہ ان کی دعا پوری ہوئی ۔ خبر ہے کہ عمران خان بہت دیر سے دعا مانگ رہے تھے کہ امریکہ پاکستانیوں کو ویزا دینا بند کردے۔ اس خبر سے اس بات کی تو تائید ہوتی ہے کہ وہ بھی پاکستانیوں کی امریکہ میں ہجرت کے قائل نہیں لیکن ان کا استدلال مایوس کن ہے۔ وہ شریعت کے نفاذ کے لئے صرف دعا کرتے ہیں۔ لیکن ان کی مایوسی ملاحظہ ہو کہ وہ پاکستانیوں کو منع کرنے کی بجائے چاہتے ہیں کہ یہ کام بھی امریکہ ہی کرے۔وزیر اعظم کے صاحبزادگان کا بیان بھی چھپا ہے کہ پاکستان ان کے رہنے کے قابل نہیں تھا اس لئے وہ برطانیہ میں مستقلاً منتقل ہو گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے اسی لئے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان بہت جلد امریکہ منتقل ہونے والے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا بھی اک طرفہ تماشا ہے۔ کیا یہ بیانات پاکستانیوں کی ذہنی اذیت میں اضافے کے لئے دئے جا رہے ہیں ۔ ہم اس بات کی وضاحت کے ذمے دار نہیں۔ آج کل ان بیانات کی منطق کی وضاحت کا بار ثبوت وزیر اطلاعات پر ہے۔
ہمیں البتہ مولانا سراج الحق کے بیان پرتعجب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں شریعت نافذ کر دیتے تو وزیر اعظم پاناما سے بچ جاتے۔ لا حول ولا قوة۔ کیا جماعت اسلامی کا موقف بدل گیا ہے؟ کیا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ شریعت کے قانون میں پاناما سے بچنے کی گنجائش موجود ہے۔ امریکہ اور پاکستان میں سیکولر اور لبرل لوگ ٹرمپ کے ان اقدامات پر غم اور غصے کا اظہار کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن سبز اسلامی پتے بھی ہوا دینے لگیں تو طوطا چشمی کا گمان ہوتا ہے۔ اگر انہیں یہ اعتراض ہے کہ ٹرمپ کو اس کا ثواب نہیں ملے گا تو بہت سے لوگ ثواب کے بغیر بھی نیک کام کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ ٹرمپ سے اس بات پر ناراض ہیں کہ وہ مسلمانوں کو امریکہ میں ہجرت کی اجازت سے انکاری ہیں تو یہ امت مسلمہ کے لئے المیہ فکریہ ہے۔
فیس بک پر تبصرے