نئے نقاد کے نام وارث علوی کا خط

1,345

عزیزی و محبی!
9جنوری 2014، میرا اس عالمِ آب و گِل میں آخری دن تھا۔ بہ وقتِ رخصت جی مضطرب بھی تھا اور مطمئن بھی۔ اضطراب یہ کہ ادب فروشوں سے جنگ ابھی جاری تھی کہ پیغامِ اجل آ گیا۔ اطمینان اس بات پر کہ ادب کی فضاؤں میں عمداً اندھیرے پھیلانے والوں کا حلیف نہیں حریف بنا اور زندگی بھر اپنے حصے کی شمع جلائے رکھی۔
ایک عرصے سے خواہش تھی کہ تم سے بات ہو، لیکن یہاں ڈاک کا نظام بڑا ناقص ہے۔ اول تو اُس جہان تک خط پہنچتا ہی نہیں، پہنچ بھی جائے تو مکتوب الیہ کو بڑی تاخیر سے موصول ہوتا ہے۔ میں نے یہ مکتوب جولائی کے مہینے میں لکھا اور ارجنٹ میل میں پوسٹ کیا تھا۔ احتیاطاً، ڈاکیے کی مٹھی بھی گرم کردی تھی۔ حیران مت ہونا، یہاں کے حالات بھی دنیا سے کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ امید ہے کہ یہ خط ستمبر تک تمہیں مل جائے گا۔
یہ مراسلہ پڑھ کر، میری دیگر تحریروں کے ذریعے تسلی کر لینا کہ مکتوب میں تمہیں جو نصیحتیں کی گئی ہیں؛ کیا میں خود بھی ان پر عمل کرتا رہا ہوں یا نہیں۔ آج کل یہاں اس خط کا بڑا چرچا ہے جس میں ایک سنیاسی نقاد نے تمہیں یبوست مارے، کائی زدہ، مکتبی اور حالات کے رد کئے ہوئے، تنقیدی مشوروں کے ساتھ ساتھ ایسی جرات مندی کی بھی تلقین کی ہے جس کا موصوف کی تحریروں میں نام و نشان تک نہیں ملتا۔ افسوس کہ آج کا نقاد، ادب فروشوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں للکارنا تو ایک طرف چلمن کے پیچھے سے ہلکا سا کھانس کر بھی اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلاتا۔ لہذا سنجی گلیوں میں “مرزے یار” دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور ادب بے چارہ رضیہ کی طرح غنڈوں میں گِھر گیا ہے۔
برخوردار! اسٹیٹس کو’کے حامی، روپ بدل بدل کر تم پر وار کریں گے۔ کچھ لوگ تمہاری بات کی بجائے ذات پر رکیک حملے کریں گے۔ ان سے مطلق گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ان کا نیچ فعل انہی کے خلاف دلیل بنے گا۔ زیادہ خطرہ تمہیں ایسے لوگوں سے ہے جو مزکورہ حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہوں گے۔ ان سے بچنا زیادہ مشکل ہوگا۔ یہ دوست بن کر تمہاری جڑیں کاٹیں گے۔ اصل میں یہی تمہارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہوگی جو بلا وجہ تمہاری ستائش کریں گے۔ ایسے موقعوں پر بہت محتاط رہنا اور بے جا تعریف سے بھٹک مت جانا۔ یاد رکھنا! تعریف و توصیف شہد کی دلدل ہے۔ مدح خوانی کی تیز چھری کسی بھی وقت تمہاری دیانت داری کی شہ رگ کاٹ سکتی ہے۔ نقاد دیانت چھوڑ کر لعنت کا حق دار بن جاتا ہے۔
چوتھی قسم ایسے لوگوں کی ہوگی جو ” بیلنسڈ” تحریر کی پرفریب اصطلاح استعمال کرکے تمہیں، خراب ادب کی بھی کوئی نہ کوئی خود ساختہ خوبی بیان کرنے پر قائل کرے گی۔ خبردار! بیلنسڈ تحریر تنقیدی نہیں سیاسی اصطلاح ہے، ادب سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ میرے پیارے! مصلحت کوش اور ادب فروش کے محض سپیلنگ میں فرق ہوتا ہے، کام دونوں قریباً ایک ہی سا کرتے ہیں۔ ایسے مشورے دینے والے اصل میں یزید کے وہ ساتھی ہیں جن کا حسین سے بھی احترام کا رشتہ ہے۔
ادب سے محبت کرنے والے تمہاری حوصلہ افزائی کے لئے تمہیں سراہیں گے۔ باغِ ادب میں انہی سے رونق ہے، ان کی محبتیں سنبھال کر رکھنا۔
بیراگی نقاد نے اپنے خط میں تمہیں نصیحت کی ہے کہ جو نقاد سابق ادیب یا ہم عصر ادیب کی زلت میں خوشی محسوس کرے خواہ اس کے بیان میں کتنی ہی کاٹ کیوں نہ ہو، اسے دور ہی سے سلام کرنا۔ لیکن اس مکتوب میں تمہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ادب کی زلت میں خوشی محسوس کرنے والوں کو قریب آنے پر بھی سلام کرنا ہے یا نہیں۔ جوابی خط لکھ کر ناصح مذکور سے ضرور پوچھو اور یہ بھی کہ ادیب کو زلیل کرنے سے آپ کی مراد کیا ہے۔ متن کے بطن سے تخلیق کی پیدائش نہ ہونا صرف و محض تصنیف کے تخلیقی بانجھ پن کی دلیل ہوتی ہے۔ تحریر کے معائب کی تفصیل، ادیب کی زاتی تذلیل کب سے ہونے لگی۔ ایسی احتیاطیں بتانے والے ہومیو پیتھک نقاد، مرض اور مریض دونوں سے بنا کر رکھتے ہیں۔ محتاط نقاد آبِ زم زم بھی ابال کر پینے کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کی یہی احتیاط اردو ادب کے انحطاط کا باعث بنی ہے۔
جولائی میں تمہارے نام لکھا گیا صوفی نقاد کا خط، راہبانہ مشوروں کی ایسی کتاب ہے جس کی بیشتر آیات وقت اور زمانے کے ہاتھوں منسوخ ہو چکی ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہو کر دین و دنیا برباد مت کرنا۔ مراسلے میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ہم نے اپنا ایلیٹ، دریدا اور ایڈورڈ سعید کیوں پیدا نہیں کیا۔ اس کے جواب میں لکھو کہ تنقید، تخلیق کے راج ہنس کے ہم راہ تخیل کی فضاؤں کی سیاحت کرتی ہے۔ دونوں ایک ہی فضا میں اڑان بھرتے ہیں۔ تنقید دوران پرواز، تخلیق کی روح کی گہرائیوں میں اتر کر اس کے نہفتہ راز اشکار کرتی ہے۔ نقاد، وہ غوطہ خور ہے جو تخلیق کے سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر، اس کی تہوں سے موتی تلاشتا ہے۔ بحرِ فن کی تہ میں جس قدر گوہر و صدف موجود ہوں گے، اسی قدر بھرا پرا نقاد سطح آب پر ابھرے گا۔ یہ ساری مشقت جواہرات کے حصول کے لئے کی جاتی ہے، کنکروں کے لئے کوئی اتنا جوکھم نہیں اٹھاتا۔ درویش نقاد کو اردو ادب میں ایلیٹ، دریدا اور ایڈورڈ سعید جیسے نقاد پیدا نہ ہونے کا تو بہت دکھ ہے لیکن فلابیئر، شیکسپئر اور ٹالسٹائی جیسے تخلیق کاروں کی عدم موجودگی پر کوئی افسوس نہیں۔ اسے بتاؤ کہ بڑا ادب ہی بڑا نقاد پیدا کرتا ہے۔ اول درجے کی تخلیق ہی اعلی تنقید کا موجب ہوتی ہے۔
سادھو نقاد نے اپنے مکتوب میں تمہیں یہ بھی تلقین کی ہے کہ جب تنقید کے مخالف اک مقدس فرض سمجھ کر اس کے خلاف جنگ کریں تو تم اس یُدھ کا حصہ ہرگز مت بنو۔ بل کہ تیر کا زخم اور خنجر کا گھاؤ کھا کر بھی خاموش رہو اور یہ سارے ظلم سہہ کر کربلا کے مظلوموں یا مہاتما بدھ کی دہشت گرد سے ملاقات کا تصور کرلیا کرو۔ نا صرف یہ بلکہ جب تمہارے بد خواہ اپنی ہی پیدا کردہ بد روحوں کے ہاتھوں زخمی ہوں تو ان کے لئے دستِ دعا بھی بلند کرو۔ میرے بچے! اس کی باتوں میں ہرگز مت آنا، یہ تمہیں باندھ کے مروائے گا۔ اس کی پند و نصائح سے صاف ظاہر ہوتا ہے: موصوف کی شدید خواہش ہے کہ تم کسی نہ کسی طرح جامِ شہادت نوش فرما لو۔ اس جوگی نقاد کو جوابی خط میں فوری لکھو کہ دلیل کا جواب تو دلیل سے دیا جاسکتا ہے، لیکن تلوار کے مقابلے میں استدلال کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ کا زندگی سے جی بھر گیا ہے۔ تنقید پر زبردستی مسلط کی گئی جنگ کا دفاع نقاد نہیں کرےگا تو اور محلے کا نائی کرے گا۔ پورا خط محض ظاہراً اخلاقی لیکن حقیقتا بے روح اور بے رس باتوں سے تربتر ہے۔ “کثیر الفوائد” تنقیدی اخلاقیات کی یہ تلقین، سیاسی نیتاؤں کے اس بھاشن جیسی ہے جو سیاسی جلسوں میں محض کارکنوں کی تالیوں کی آرزو میں دیا جاتا ہے۔ ایسی باتوں سے ادب کی خدمت ہو نہ ہو تیاگی نقاد کی مدحت ضرور ہوگی۔
آج کل کچھ ادیب نما افراد، فیس بک، وٹس ایپ گروپوں اور نجی محافل میں ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے میں مشغول ہیں کہ اردو ادب کی حالتِ زار کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے تخلیقی نقاد۔ ان افلاطونانِ عصر کے مطابق ناکام ادیب، نقاد بن جاتا ہے اور پھر اپنی ناکامی کا غصہ کامیاب ادیبوں پر نکالتا ہے۔ اس کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ناکام نقاد، ادیب بن جاتا ہے اور پھر اپنی ناقدانہ بصیرت کی کمی کا غصہ نکتہ سنج نقادوں پر اتارتا ہے۔ لیکن اتنی اسفل سطح پر آ کر جواب دینا درست عمل نہیں۔ موصوف الزکر افراد بہ یک وقت مدعی اور منصف بننا چاہتے ہیں۔ اپنی ٹاٹ کی دھجیوں پر اطلس و کمخواب کی مہریں لگا کر بیچنے کے خواہش مند ان بچے جموروں کی یہ سوچ پست بھی ہے اور اصول معدلت کے منافی بھی۔
یہ فیس بکیے دانش ور اصل میں ایسے خواجہ سرا سخن ور ہیں جن کے پاس نہ تو پاپولر فکشن جیسی چٹ پٹی کہانیاں اور چٹخارے دار زبان ہے اور نہ ہی سنجیدہ ادب کی تہ داری۔ یہ فکشن کے بارھویں کھلاڑی بلکہ ریلو کٹے ہیں۔ مذکوران کی خراب تحریروں کی ستائش نے ان میں انا کی ایسی دیوار اٹھا دی ہے جس نے ایسے ادیب نماؤں کی آیندہ بہتری کی راہ بھی مسدود کردی ہے۔ خراب ادب کو سراہنے والے پیشہ ور نقاد بھول جاتے ہیں کہ خام کاروں کی حوصلہ افزائی کے نام پر توصیف سے پرکھ کے معیار بدل جاتے ہیں اور ادبی تصورات کے مضبوط قلعے کی دیواروں میں شگاف پڑ جاتا ہے۔ بڑا ادب لکھنے والوں کا دل اور ظرف بھی بڑا ہوتا ہے اور اسی قدر ناقدانہ شعور بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایمان داری سے کی گئی تنقید خوش دلی سے قبولتے ہیں۔ دوسرے درجے کے ادیبوں کی تنقیدی بصیرت، تیسرے درجے کی ہوتی ہے اسی لئے وہ تنقید پر جھنجھلاتے ہیں، جلتے کُڑتے ہیں، منصوبہ بندیاں کرتے ہیں، سازشیں بُنتے ہیں۔ موصوفین اس سے آدھی محنت اگر اپنے کام پر کریں تو شاید بہتر لکھنے لگیں۔ یہ حضرات انہی نقادوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کی تحریر کے گلے میں انگلیاں ڈال کر وہ خصوصیات بھی اگلوائیں جو اس کے معدے میں ہے ہی نہیں۔ اس زبردستی پر لکھت احتجاجاً قے کردیتی ہے اور ایسے نقاد کی پوشاک غلاظت سے لتھڑ جاتی ہے۔ میری نصیحت ہے گوہر اور جوہڑ میں ہمیشہ تمیز کرنا۔ ایمان داری نہ ہو تو تنقید دو کوڑی کی نہیں ہوتی۔ ایسے ادیب نماؤں کو تنقید نہیں تفتیش کی لاٹھی سے ہانکو چاہے ان کی کتابوں کو ایوارڈوں سے ہی کیوں نا نوازا جائے۔ ان پروموٹڈ لکھاریوں کی ان کے پروموٹروں سمیت خبر لو۔ یاد رکھنا! بے ہنروں پر تنقید نہیں کی جاتی انہیں بےنقاب کیا جاتا ہے۔ یہ سرزمینِ فکشن میں ویزا لے کر نہیں ڈینکی لگا کر آئے ہیں۔ نقاد کا فرض ہے کہ غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرکےملکِ فکشن میں آنے والوں کو ڈی پورٹ کرانے میں مدد دے۔
تنقید کے بدخواہوں کو سمجھاؤ کہ یہ اپنی اصل میں نہ تو تخلیق کی حریف ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی نعلین بردار۔ یہ باہم ہم راز، ہم جلیس، ہم رکاب اور ہم سخن ہیں۔ تخلیق کا تجربہ جمالیاتی ہے اور تنقید کا نظریاتی۔ ایک کی سیرت دیکھی جاتی ہے تو دوسری کی بصیرت۔ اول الذکر آرٹ کی نقاب کشائی ہے اور موخر الذکر پرشوق تماشائی۔ تخلیق تخیل کا وفور ہے تو تنقید چشمہء شعور۔ دونوں باغِ ادب کی رونق ہیں۔ میرا ایک قول یاد رکھنا، تنقید معجزہ نہیں ہوتی لیکن تخلیق کے اعجاز کی شاہد اور رمزشناس ضرور ہوتی ہے۔ بے شک تخلیق، تنقید کی حاجت مند نہیں لیکن وہ سخن ناشناسوں کی جنت میں رہنے کی بجائے سخن شناسوں کے عذابِ دانش میں جینا زیادہ پسند کرتی ہے۔
نوجوان! اعلی اور خام ادب کا فرق ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھنا۔ اچھا نقاد بڑے ادب کے سامنے منکسر اور حلیم ہوتا ہے۔ احساسِ برتری اور عالمانہ پندار کے وار سے بچ کر رہنا اور اپنے اندر کے قاری کو زندہ رکھ کر آرٹ کی جادو نگری کے تماشے کا نظارہ بچے کی حیرت زدہ آنکھ سے کرنا۔ میری تمہیں نصیحت ہے کہ کسی بھی فن پارے کو مکمل اکائی کے طور پر قبول کرنا، پُر اثر تحریر میں چوں کہ، چناں چہ، اگرچہ، مگرچہ جیسے حقیر اعتراضات سے بچنا۔ اس سے بڑی تحریر کی توہین بھی ہوگی اور تمہاری تنقیدی فکر کی تدفین بھی۔ میرے عزیز! لفظوں کے لغوی معنوں سے زیادہ ان کے تخلیقی اور تخیلی استعمال پر نگاہ رکھنا .
برخوردار! میں نے اپنی کتاب “بورژوازی بورژوازی” میں لکھا تھا کہ ناول یا افسانے کی ہئیت، موضوع اور مواد کے مطالعے کے بےشمار زاویے ہیں۔ زبان، لب و لہجہ، آہنگ، موزونیت، تضاد، تصادم، منظر نگاری، فضا، ماحول، مقام، لسانی ساخت، اسلوب، بیانیہ، نقطہء نظر، معروضیت، ڈرامائیت، تہذیبی پس منظر، جمالیات، طنز، ظرافت، المیہ، طربیہ، فلسفیانہ، اخلاقی، سماجی، نفسیاتی زاویے اور پھر ان موضوعات کے ان گنت زیلی اور ضمنی مباحث اور نکات۔ تمہارا حق ہے کہ جس پہلو اور زاویے سے چاہو ناول یا افسانے کا مطالعہ کرو۔ لیکن ان تمام پہلوؤں زاویوں ،اجزا اور نکات کا اظہار زبان ہی کے زریعے ہوتا ہے۔” زبان اور بیان اور ان کی نوعیت کا علم حاصل کئے بغیر ناول یا افسانے کا تجربہ یا تجزیہ دونوں ثمر آور نہیں ہو سکتے۔ کچھ افراد کی دانست میں زبان، فکشن کے بنیادی مطالبوں میں شامل نہیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ فنی تجربات کا انکشاف اور آرٹ کے معجزوں کا اکتشاف زبان کے علاوہ کیونکر ممکن ہے۔ میرے نزدیک یہ رویہ انتہا پسندانہ ہے۔ اسی طرح محض زبان کے سرکس کو فکشن سمجھنے والے ایک دوسری انتہا پر کھڑے ہیں۔ اصل میں زبان سے خیال کے پیکر بنانے کی صلاحیت سے محروم ادیب زبان کو زائد از ضرورت سمجھتا ہے۔ زبان و بیان پر دسترس در اصل وہ انٹری ٹیسٹ ہے جسے پاس کریں تو فکشن کے مکتب میں داخلہ ملتا ہے۔ تاثر کا وفور، آہنگ کا زیر و بم، حقیقت نگاری کی صلابت، نیرنگیِ تخیل، تجریدیت، علامت، تمثیل اور غنائیت وغیرہ بعد کے مراحل ہیں۔
عزیزی! تنقید ایک سنجیدہ عمل ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یبوست زدہ، کائی لگی، روکھی پھیکی، بےمزہ، بےکیف اور دقیق اصطلاحات کا مسالہ اتنا تیز ڈال دیا جائے کہ قاری کا ہاضمہ ہی خراب ہو جائے۔ نقاد کی نظر دقیق اور بیان لطیف ہونا چائیے۔ فکر کی سنجیدگی سے تحریر کی پیچیدگی برآمد ہو تو تنقید بد خط حکیم کے اس ناقابلِ فہم طبی نسخے جیسی ہو جاتی ہے جسے پنساری بھی نہیں سمجھ پاتا۔ مجھ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ میں نے اپنا الگ اسلوب اختیار کر کے تنقید کو سنجیدگی سے دور کیا ہے۔ موضوع کی کثافت اگر بیان کی لطافت سے دور ہو جائے تو کیا برا ہے۔ اس میں غیر سنجیدگی کہاں سے آ گئی۔ یہ فی نفسہِ ایک سنجیدہ عمل ہے کہ اس سے تنقیدی تجربات کا رس عام قاری کے حصے میں بھی آیا۔ تنقید کے رسیلے پھل کا ذائقہ چکھتے ہی فکشن کا قاری تنقید کا رسیا بھی ہوگیا جو اس سے قبل جناتی اصطلاحات کا دفتر تھی۔ فکر کی روانی کو بیان کی آسانی میسر آنے سے مرید، پیر بن گئے اور تفہیم نے خاص و عام کی تقسیم ختم کردی۔ مجھ سے نالاں، زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کی اس کے نتیجے میں گدیاں چھن گئیں اور دربار لٹ چکے ہیں۔
انہی لوگوں نے میری تنقید کی زبان اور معیار پر اعتراضات کئے اور مجھے وزیر آغا اور شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کی تحریریں پڑھنے کا مشورہ دیا۔ لیکن میں نقاد کو “شریف” بنانے والے تمام ہتھکنڈوں سے واقف تھا۔ میں نے اپنے مضمون ” روح کی اڑان” میں انھیں جواب دیا: “میں ان لوگوں میں سے نہیں جو گندے دنوں کا تذکرہ معطر زبان سے سناتے ہیں اور روح کے جہنم زاد کا بیان خس خانوں کی زبان میں کرتے ہیں تا کہ” نفاست پسندوں” میں “نفیس” کہلا سکیں۔ میں جب ڈھائی تولے کے ادیب کو سورما اور بونے نقاد کو باون گزا کہنے سے انکار کرتا ہوں تو لوگ میری زبان کو غیر مہذب کہتے ہیں۔ ادب کا زکر بھی ذکرِ یار کی طرح حسین اور دل آویز ہونا چاہئیے اسی لئے مجھے مکتبی تنقید کا جارگون ٹھنڈے ہاتھ کا مصافحہ اور بیمار مولوی کا وعظ معلوم ہوتا ہے۔ جب ذہن ہجومِ فکر اور دل وفورِ جذبات سے لرزتا ہو تو فروغِ مے کا اثر اسلوب کے رنگِ رخسار پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سکہ بند محبوس حسینہ کی مانند نئے افکار اور نئے جذبات کی شوخ نگاہی کی تاب نہیں لا سکتی، ایسے لوگ کوثر و تسنیم میں دھلی زبان لکھ سکتے ہیں کیوں کہ فردوس کے یہ چشمے زکرِ پاک کے لیے مناسب سہی لیکن جامہِ اہرام کے دھبے دھونے کے کام کے نہیں۔ میں تنقید کے ہونقوں کی طرح بے سروپا جملے نہیں لکھتا لیکن میں تنقید کے بقراطوں کی طرح اس خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں رہتا کہ میرے قلم سے نکلا ہوا ہر جملہ اپنے جبڑوں میں علم و عرفان کا سو کینڈل پاور کا بلب جلائے طلوع ہو رہا ہے۔ جس زبان اور اسلوب کی مجھے ضرورت نہیں، وہ میرے لئے قابلِ رشک بھی نہیں چاہے وہ فاروقی کا ہی اسلوب کیوں نہ ہو۔”
میرے پیارے! اپنی باتیں تم سے محض اس لئے سانجھی کیں ہیں کہ میں جانتا ہوں، یہ لوگ زبان و بیان کی شائستگی کی آڑ میں تمہاری بے باکی اور دیانت داری کا خنجر کند کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن تم صرف اپنے من کی سننا۔ اپنے خیالات کو اپنے من چاہے اسلوب، زبان اور انداز سے بیان کرنا اور ان ادب کے آڑھتیوں کی باتوں میں مت آنا۔ نقاد کا کام ایسے نوسر بازوں کو خوش کرنا نہیں بلکہ ایک نیا فنی شعور پیدا کرنا ہے۔ تنقید کا کام لبِ لعلیں سے تبسم لُٹانا ہی نہیں رخشِ رستم سے صفیں الٹانا بھی ہے۔
میں تم سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں، لیکن اب مجھ پر تھکاوٹ حاوی ہو رہی ہے اور حوروں کے مسلسل میسج بھی آ رہے ہیں جو سلسبیل کے کنارے بیٹھی کب سے میرا انتظار کر رہی ہیں۔ امید ہے مستقبل میں بھی تم سے خط و کتابت جاری رہے گی۔ اپنا اور اپنے قلم کا بہت خیال رکھنا۔ خدا حافظ۔
خیر اندیش
وارث علوی

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...