سعودی عرب میں سینما کی واپسی

903

سعودی عرب میں پہلی دفعہ 1930 کی دہائی میں ارامکو کمپنی کے غیر ملکی ملازمین نے سینما متعارف کروا دیا تھا لیکن یہ مخصوص علاقوں تک ہی محدود رہا،80 کی دہائی میں سعودی عرب نے سینما پر پابندی عائد کردی تھی جو کہ تاحال برقرار ہے

دنیا بھر میں سینما  کی ثقافت   ایک صدی پر محیط  ہے،کئی دہائیوں سے مختلف ممالک  اور اقوام اپنی اپنی روایات و ثقافت کے مطابق طرح طرح کی فلمیں،ڈاکومنٹریاں اور علمی ،تاریخی  و تفریحی  وثائق  بڑی سکرین پر پیش  کرتی چلی آرہی ہیں، سعودی عرب میں پہلی دفعہ  1930 کی دہائی میں ارامکو  کمپنی کے غیر ملکی ملازمین نے  سینما متعارف کروا دیا تھا لیکن یہ مخصوص علاقوں تک ہی محدود رہا،80  کی دہائی میں سعودی عرب نے سینما پر پابندی عائد کردی تھی جو کہ تاحال برقرار ہے۔

سعودی میڈیا  نے عوام الناس کے لیے شرعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے  جائز تفریح  کے لیےسینما کے قیام کے لیے  متعدد بار آواز اٹھائی  جو کہ صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی ۔تاہم چند دن قبل ایک خبر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سعودیہ  میں  سینما گھر کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے بعد سعودی شہریوں کو  سالانہ اربوں ڈالر  خرچ کر کے بحرین یادبئی میں نہیں جانا پڑے گا۔

العربیہ کے مطابق سعودی کلچر اینڈ آرٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین سلطان البازعی نے  اپنے ایک بیان میں  یہ اعلان کیا ہے کہ  “2017 کے وسط تک سعودی عرب میں سینما گھر دوبارہ کھول دیے  جائیں گے،انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہمارے ہاتھوں میں نہیں لیکن معاشرے میں رونما تبدیلیوں کے باعث سینما گھروں کو دوبارہ کھولا  جائے گا،سلطان البازعی نے مزید کہا کہ معاشرہ بدل رہا ہے،دورِ حاضرریاست میں رونما حقیقی تبدیلیوں کا گواہ ہے  اور سینما گھروں کا دوبارہ کھولا جانا ان تبدیلیوں کا حصہ ہے ،سعودی عرب میں سینما گھروں کا قیام  اب ایک ناگزیر چیلنج  بن چکاہے اور لوگوں کی دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چینلوں تک رسائی  حاصل ہے۔یہ فیصلہ صرف تفریح کے لیے نہیں  کیا جا رہا بلکہ اس سے معاشی مواقع بھی پیدا ہوں گے، سینما گھروں کے قیام سے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔قومی معیشت میں اربوں ریال کا اضافہ ہوگا اور ملک اپنی ثقافت کو برآمد کرسکے گا۔”۔

غیرسرکاری رپورٹس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ: سعودی شہری ہر سال بحرین اور دبئی میں فلمیں دیکھنے پر ایک ارب ڈالرز سے زیادہ اڑا دیتے ہیں جوکہ بہت بڑی رقم ہے۔

ماہرین معیشت کا بھی کہنا ہے کہ سعودی شہری جو رقوم بیرون ملک فلمیں دیکھنے میں اڑاتے ہیں،ان کو ملکی معیشت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

سلطان البازعی کے اس اعلان کے بعد سے سعودی حلقوں میں  ایک مرتبہ پھر سینما کی شرعی حیثیت پر بحث چھڑ گئی ہے،مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر یہ اجازت دے دی گئی تو نئی نسل کی اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا،سعودی مفتی اعظم نے بھی اپنے فتوے میں حکومت کو ایسے اقدامات سے باز رہنے کی تلقین کی ہے، انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سینما ممکنہ طور پر عیاشی اور غیر اخلاقی مواد پر مبنی فلمیں دکھائے گا، گانے بجانے پر مبنی کنسرٹس میں کچھ اچھائی نہیں ہے بلکہ موسیقی اور سینما گھروں کو کھولنا دراصل مخلوط محفلوں کیلئے اجازت ہو گی۔انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں وہ خواتین کیلئے علیحدہ جگہ منتخب کریں گے اور مردوں کیلئے بھی لیکن بعد مرد اور خواتین ایک ہی جگہ پر آجائیں گے،جوکہ اخلاقیات اور اقدار کو تباہ کر دے گا۔ان کاکہناتھا کہ سانٹیفک میڈیا اور ثقافت کے ذریعے انٹر ٹینمنٹ میں کوئی مضائقہ نہیں۔انہوں نے متعلقہ حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شیطانوں کیلئے دروازے نہ کھولے جائیں۔

اس کے برعکس حامیوں کا کہنا ہے کہ  اسلام فنون لطیفہ کا مخالف نہیں،سینما میں اور ٹی وی میں صرف چھوٹی سکرین اور بڑی سکرین کاہی فرق ہے ،پہلے لوگ ٹی وی کو بھی مسترد کرتے تھے لیکن اب یہ ان  سب کے لیے تفریح  اور معلومات کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔سینما تہذیب وثقافت کا نمائندہ ہے۔مووی تھیٹر سعودی مملکت کی اقدار کے منافی نہیں ہے۔فلموں کی نگرانی اور ان کو ریگولیٹ کرکے انھیں قومی ثقافت سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔

سعودی میڈیا کے مطابق  پولیس کے سربراہ شیخ ابراہیم الانمیت نے کہا  ہے  کہ سینما میں ایسی فلمیں دکھائی جاسکیں گی جو فحاشی سے پاک اور اسلام کی حدود کے اندر رہ کر بنائی گئی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ فلم دکھانے سے قبل مقامی مذہبی پولیس 1200سیٹ کے کانفرنس ہال کا جائزہ لے گی کہ مرد اور خواتین الگ الگ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلم کے شو کے دوران خواتین بالکونی اور مرد پہلے فلور پر بیٹھیں گے۔

دو سال قبل بھی  سعودی عرب میں سینما کی بحالی کی خبریں آئی تھیں لیکن مذہبی حلقوں کی جانب سے   احتجاج کے پیش نظر معاملہ دب گیا تھا تاہم اس دفعہ سعودیہ کی معاشی صورتحال بھی مختلف ہے اور سوشل میڈیا نے بھی  معاشرے کو بہت تبدیل کر دیا ہے،اس لیے   توقع ہے کہ  حکومت اپنا فیصلہ ناٖفذ کر کے رہے گی،اس بات کا  عملی ثبوت یہ ہے کہ 4 متعلقہ اداروں  جن میں وزارت داخلہ ، کمیشن برائے سیاحت و نوادرات ، کمیشن برائے صوتی و بصری میڈیا اور کمیشن برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر  شامل ہیں  نے اس حوالے سےمختلف  کمپنیوں کے ساتھ رابطے  شروع کر دیے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...