غائب شدوں‘‘ کی ’’ حاضری‘‘ کب تک؟
اس سارے معاملے میں ریاستی خاموشی بہت سارے سوال کھڑے کر رہی ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے خلاف اس طرح کے الزامات اور انتہائی تنقید کی مثالیں موجود ہیں تویہ ثبوت عوام اور عدالتوں کے سامنے لا ئے جائیں
سال نو کے آغا ز ہی میں سماجی ذرائع ابلاغ ( سوشل میڈیا ) پر مذہبی انتہا پسندی اور فوج کے سیاسی کردار پر کڑی تنقید کرنے والے افراد میں سے چند ایک کے غائب ہو جانے سے پتہ چلا کہ اس سال بھی کچھ عناصر پرانی سوچ اور پرانی قرار داد پر ہی عمل پیرا رہیں گے ۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں ملک کے دارلحکومت اسلام آباد اور پاکستان کے دل لاہور سے کم و پیش پانچ ایسے لوگ بھی تک “نامعلوم افراد”کی جانب سے اٹھائے لیے گئے ہیں ۔
غائب ہونے والوں میں سلمان حیدر ، ایک سماجی کارکن بائیں بازو کے خیالات کی تنظیم کے متحرک کارکن جو استاد اور شاعر بھی ہیں ،سلمان ایک آن لائن میگزین ’’تنقید ‘‘ کے اردو سیکشن کے ایڈیٹر بھی ہیں ۔ یہ میگزین بائیں بازو کے خیالات اور خصوصاً بلوچستان میں جاری فوج اور قوم پرستوں کے درمیان کشیدگی میں ریاستی کردار کو بہت تنقید سے دیکھتا ہے ۔جبکہ کچھ لوگ سلمان حیدر کی ایک مخصوص مگر نشانہ ذدہ فرقہ سے تعلق کی وجہ کو بھی اہم گردانتے ہیں ۔اسلام آباد ہی میں غائب ہونے والے ایک اور فر دثمر عباس ہیں جو واضح طور پر ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کراچی میں رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک ترقی پسند اتحاد کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ جبکہ لاہو ر اور اس کے گردونواح میں سے اٹھائے جانے والے افراد میں سے ایک ہالینڈ میں عارضی طور پر مقیم وقاص احمد گورائیہ ہیں ۔ وقاض گورائیہ لاہور میں اپنے کزن عبدالرحمان چیمہ کے ساتھ اپنے خاندان کے لئے ایک کرائے کا مکان دیکھنے واپڈا ٹاؤن گئے لیکن دونوں گھر واپس نہ پلٹ سکے ۔ وقاص احمد گورائیہ بہت ترقی پسند خیالات کے مالک ہیں اور فوج کے سیاسی کردار کو شدید نا پسند یدگی سے دیکھتے ہیں اور یہ خیالات ان کے فیس بک کے اکاونٹ سے واضح طور پر دیکھے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ باقی دو عاصم سعید اور احمد نصیر رانا کو بھی اسی مناسبت سے اٹھائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ احمد نصیر وقاص گورائیہ کے دوست ہیں اور ان کے لئے کام کرتے ہیں ۔
سوشل میڈیا اور حتیٰ کہ بعض ٹی وی چینلوں پر ہونے والی بحث جس میں خصوصاً اسلامی انتہا پسند گروہوں اور افراد کی جانب ان غائب ہو جانے والے کارکنوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ’’ بھینسا ‘‘ ’’ موچی ‘‘ اور ’’ روشنی ‘‘ جیسے فیس بک پیچ (صحفات ) چلا رہے تھے جس کے ذریعہ اسلام اور فوج پر شدید اور انتہا ئی قابل اعتراض تنقید کی جاتی تھی اس لیے یہ افراد اب اپنے ’’ انجام ‘‘ کو پہنچ گئے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ان افراد بالخصوص وقاص گورائیہ اور سلمان حیدر پر شدید لعن طعن کی جا رہی ہے اور انہیں مذہبی توہین کے مرتکب اور ملک کے غدار تک کہا جارہا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے دارلحکومت میں مذہبی انتہا پسندی کے متعلق شہرہ آفاق مرکز’’ لال مسجد ‘‘ سے اٹھنے والی شہدا فاونڈیشن اور اس کے چند کارکن سیاسی اور مذہبی نمبربازی کے لئے ان افراد پر’’ توہین رسالت‘‘ اور’’ توہین مذہب ‘‘کا مقدمہ درج کرانے کے درپے بھی نظر آرہے ہیں۔
اس تیزی سے بڑھتی ہوئی بحث اور تنقید جس میں مذہبی انتہا پسند کھلے دل، تیز زبان اور جوش و خروش سے حصہ ڈال رہے ہیں ایک پہلو بہت حیران کن ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی سرکاری ادارے ،ایجنسی یا تنظیم نے ان افراد کے غائب یا اغوا ہونے کے بارے میں کچھ بھی سرکاری سطح پر بیان نہیں کیا ۔ نہ ہی ان قابل اعتراض سمجھے جانے والے صفحات چلانے کے بارے میں ان غائب شدہ افراد سے متعلق کوئی سرکاری تصدیق کی گئی ہے ۔ نہ ہی کسی اور گروہ نے
ان کے اغوا کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ لیکن پھر بھی مذہبی انتہا پسندافراد اس الزام کو ایک ’’ مصدقہ اطلاع ‘‘سمجھ کر اس پر سرگرم ہیں۔ حتٰی کہ چند دن پہلے ملک سے وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں ان افراد کی غائب ہوجانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ان افراد کے بارے میں یا ان پر کسی الزام کے متعلق نہیں پتہ چل سکا ہے ۔عموماً اسی طرح سے اٹھائے جانے والے افراد کو ملک کی سرکاری خفیہ ایجنسیوں کے جانب سے ایک اقدام سمجھا جاتا ہے یا پھر کسی مذہبی اورمسلح انتہا پسند گروہ کی کاروائی خیال کیا جاتا ہے ۔ لیکن ابھی تک ان ا طر اف سے ان افراد کے اٹھائے جانے کی ذمہ داری اور وجوہات سامنے نہیں آئی ہیں ۔
ایک طرف سماجی کارکن اسے اظہار آزادی رائے اظہار پر کھلا حملہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ریاستی ادارے سوشل میڈیا پر ہونے والی اپنے اوپر تنقید کی برداشت نہیں کر پائے اور اسی لئے ایسے لوگوں کو ڈرا کر پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چپ رہو جبکہ دوسری طرف مذہبی انتہا پسند لوگ اس طرح کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کو مذہب اور ملک کے خلاف حملہ اور انتہائی قابل اعتراض سمجھتے ہیں ۔ ان افراد کے اغواء کے بعد سوشل میڈیا پر جاری بحث اس سماجی تقسیم اور انتہا پسندی کی واضح مثال ہے ۔
اس سارے معاملے میں ریاستی خاموشی بہت سارے سوال کھڑے کر رہی ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے خلاف اس طرح کے الزامات اور انتہائی تنقید کی مثالیں موجود ہیں تویہ ثبوت عوام اور عدالتوں کے سامنے لا ئے جائیں ۔ اور اگر ریاست ان کے اٹھائے جانے میں شامل نہیں تو جلد سے جلد انہیں بازیاب کرائے اور اغوا کاروں اور ان کے مقصد کے بارے بتائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شخص ریاست یا مذہب کو انتہائی طریقے سے تنقید کا نشانہ بنائے جیسے عموماً نامناسب اور ناقابل برداشت سمجھا جائے تو پہلے اس کے لئے ایک وارننگ دینی چاہیے اس کے لئے ایسے اقدامات کریں جس سے آزادی اظہار میں ایک مثبت تنقید اور بے خوفی رہے یہ مناسب نہیں کہ ایک انتہا پسند ی کو روکنے کے لئے نہ صرف ریاست خود سے اور خاموشی سے انتہائی قدم اٹھائے اور پھر اس کے متعلق خاموش رہے ۔ بلکہ ایک دوسری انتہا پسند ( مذہبی ) قوتوں کو ان لوگوں پر انتہائی قابل اعتراض تنقید کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دے ۔
ایسے اقدامات اور ایسا بیانیہ اور اس کا جاری رکھنا مہذب اور ترقی پسند اقوام کے لئے قابل مذمت اور ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے قومی منصوبے ’’ نیشنل ایکشن پلان ‘‘ کی ضد ہے اس وقت میں اگر ملک پاکستان کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو اعتدال کی نہ کہ انتہا پسندی برائے انتہا پسندی کی ہم سب کو اعتدال پسندی اور برداشت (Tolerance)کے لئے کام کرنا چاہیے ۔ ملک میں برداشت کا لیول بڑھائے بغیر معاشرہ ہرگز اعتدال پسندی کی طرف نہیں جا سکتا اور اس کے لئے جن طریقوں کی ضرورت ہے ان میں بھی اعتدال اور برداشت لائی جائے ۔ انتہائی اقدامات کی بجائے مناسب رویہ اور بات چیت کا راستہ ہی ہمیں ایک بہتر معاشرہ میں تبدیل کر سکتا ہے ۔
فیس بک پر تبصرے