ایک خوفناک سوچ
ریاست ایسے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آئینی ، قانونی اور سیکورٹی اقدامات اٹھاتی ہے۔لیکن جب ریاستی ادارے اس اندرونی دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت کھو دیں تو؟ اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ دشمن اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہو چکا ہے .
کیا ہم اپنے دشمن کا تعین کرنے میں ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں ؟
اگر ہمدماغ استمعال کریں اور اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تویہ کام مشکل نہیں۔باہر کے دشمن کو پہچاننا مشکل نہیں اورریاست اسکے حربوں سے نمٹنا بھی جانتی ہے۔ لیکن اندر کا دشمن بہت خظرناک ہے، وہ علاقوں پر ہی قبضہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ ہمارے سماجی ڈھانچے کا تیہ پانچہ کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں ، سماج ، ثقافت اور سیاست کو بھی متاثر کرنا چاہتا ہے ۔یہ دشمن اس لئے بھی بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ ہمارے اندر موجود ہے۔یہ ہمارے ساتھ رہتا ہے اور ہمارے اندر آکر ہمیں نقصان پہنچانے پر قدرت رکھتا ہے ۔ یہ خبردار کئے بغیرآہستہ آہستہ ہمارے خیالات کو زہر آلود بنا دیتا ہے ۔
یہ لوگوں کی اکثریت کی منشا کے خلاف ان پرمسلک، مذہب، نظریات اور سماجی ایجنڈے کی مخصوص شکل تھوپنا چاہتا ہے ۔یہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے تشدد کا سہارا لئے ہوئے ہے ۔بعض اوقات یہ صرف ایسا ماحول بناتا ہے جو اس کے پر تشدد نظریاتی ساتھیوں کے لئے معاون ہو سکے ۔
ریاست ایسے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آئینی ، قانونی اور سیکورٹی اقدامات اٹھاتی ہے۔لیکن جب ریاستی ادارے اس اندرونی دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت کھو دیں تو؟ اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ دشمن اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہو چکا ہے ۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بظاہر کالعدم گروپ کے رہنما کے ساتھ اپنی ملاقات کی توجیح کی کوششوں میں فرقہ وارانہ تنظیموں کو دہشت گرد گروپ قرار دینے سے معذرت کر لی ہے ۔تاہم اس سے ان فرقہ وارانہ اور نظریاتی ابہامات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ہمارے اداروں اور ہمارے رہنماؤں کے ذہنوں میں موجود ہیں ۔
انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریئے میں وزیر داخلہ کے بیان کا کھل کر تنقیدی جائزہ لیا ہے اوریہ بات درست انداز میں بیان کی ہے کہ وزیر داخلہ کے بقول یہ کوئی صدیوں پرانا تنازعہ نہیں ہےبلکہ برصغیر اور بالخصوص پاکستان میں انتہا پسندانہ تشدد کا براِہ راست تعلق 1980 کی دہائی میں فرقہ وارانہ گروہوں اور اداروں کی بڑھوتری سے ہے ۔ان گروہوں نے پاکستان میں مسالک کے درمیان نفرت کوپروان چڑھایا۔پاکستان میں عسکری منظرنامہ اپنی فطرت میں بہت حد تک فرقہ وارانہ ہے ۔اور مذہب سے متاثرہ انتہا پسند وں اور عسکریت پسندوں کی رگوں میں فرقہ وارانہ رجحانات خون بن کر دوڑ تے ہیں ۔
تما م مقامی اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں جیسا کہ طالبان ، القاعدہ اور دولت اسلامیہ کئی سطحوں پر فرقہ وارانہ ایجنڈے کو ہی لے کر چلتے ہیں ۔ افغان طالبان فرقہ وارانہ اختلافات کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ افغانستان اور پاکستان دونوں میں فرقہ وارانہ تنظیموں کو مدد فراہم کرتے ہیں لیکن سیاسی طور پر وہ ا س کا اقرار نہیں کرتے کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ ا س سے افغانستان میں ان کی تحریک متاثر ہو سکتی ہے ۔جبکہ القاعدہ فرقہ وارانہ گروہوں کو علاقے میں اپنے جغرافیائی اتحادیوں کے طور پر استعمال میں لاتی ہے اور دولت اسلامیہ کا فرقہ وارانہ ایجنڈا توبہت زیادہ جارحانہ ہے ۔
تحریک طالبان پاکستان، پنجابی طالبان ، جنداللہ اور لشکر جھنگوی کے بہت زیادہ قریب ہے اور یہ سب گروپ اپنی فرقہ وارانہ شناخت پر فخر کرتے ہیں ۔
مجموعی طور پر فرقہ وارانہ اورعسکری گروہ دولت ِ اسلامیہ اور القاعدہ کے زیر اثر شدت پسندی میں ڈھل کر عالمی عسکری گروپوں میں مدغم ہو جاتے ہیں ۔ان گروہوں کو انسانی وسائل کہاں سے مل رہے ہیں یہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے ۔
اس پس منظر کے مطابق ریاست اگر اس خطرے کا ادراک نہیں کرتی تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے تدارک میں اس کی کاوشیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔
خطرے کا غلط ادراک ہمارا حقیقی دشمن ہے اور یہ ان بعض دقیانوسی تصورات پر کھڑا ہے جن پر ہمارے ریاستی ادارے یقین کرتے ہیں ۔ان تصورات کے تحت ایک مذہبی مفکر اور فرقہ پرست رہنما میں فرق نہیں کیا جاتا ۔ خطرے کے نامناسب ادراک کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کی سیاسی حرکیات کو سمجھنے میں ناکامی ہوتی ہے ۔
کئی کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں نے مختلف ناموں سے، اپنے آزاد امیدواروں کی شکل میں یا پھر صف ِ اوّل کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحادوں کی صورت میں سیاسی لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور وہ انتخابی سیاست میں حصہ بھی لیتی ہیں ۔ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ان گروہوں نے سیاسی حیثیت بھی تسلیم کروا لی ہے ۔
متحدہ مجلس عمل جو 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں دو صوبوں میں پرویز مشرف کی زیر قیادت پاکستان مسلم لیگ ق کی اتحادی بھی تھی اس میں شامل چھ مذہبی جماعتوں میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ تحریک جعفریہ پاکستان بھی شامل تھی ۔تحریک جعفریہ پاکستان اور سپاہِ صحابہ پاکستان جو اب اہل سنت والجماعت کے نام سے جانی جاتی ہے ان دونوں جماعتوں نے مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو رواج دیا ہے ۔
اگرچہ پاکستان کی سیاست میں فرقہ وارانہ جہتوں کی جڑیں کافی گہری ہیں ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے 18 فرقہ واریت کے خلاف ہیں ۔ درایں اثنا نکات نمبرتین ،پانچ اور پندرہ کالعدم تنظیموں ، منافرانہ تقریروں اور انتہا پسندی کے خاتمے سے نمٹنے کے اقدامات اور فرقہ وارانہ گروہوں کو لگام دینے سے متعلق ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے سینیٹ سے اپنے خطاب میں بتایا کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں انہوں نے انسداد دہشت گردی اور سیکورٹی کے سلسلے میں 142 ملاقاتیں کیں جن میں 44 ملاقاتیں وزیر اعظم ہاؤس میں ہوئیں۔ لیکن جو بات انہوں نے نہیں بتائی وہ یہ کہ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلا بالخصوص ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ۔ سیاسی طور سے ہٹ کر بھی یہ حکومتی کمزوری ہے کہ فرقہ واریت کا کوئی حل نہیں نکل سکا ۔عسکریت پسندوں کی واپسی کا طریقہ بھی ابھی تک اختیار نہیں کیا گیا ۔
سب سے اہم بات یہ کہ حکومت نے ابھی تک اس جانب کوئی سوچ بچار بھی نہیں کی کہ فرقہ وارانہ گروہوں کو غیر مؤ ثر کرنے یا ان کی واپسی کی منصوبہ اس کی ذمہ داری ہے ۔ باخبر حلقوں کے مطابق ایک بڑی فرقہ وارانہ
جماعت نے حکومت کو پیشں کش کی تھی کہ فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے اپنا ناطہ توڑ لیں گے اور عوامی سطح پر اعلان کریںگے اور اسبات کی ضمانت بھی دیں کہ ان کے پلیٹ فارم سے کسی بھی دوسرے مسلک کے خلاف نعرے نہیں بلند ہوں گے۔اس کے بدلے میں ان کی جماعتیں حکومت سے قومی سطح پر سیاسی جماعت کی تشکیل کی اجازت مانگی تھی۔اس پیشکش کا دوسرے مسالک کی کچھ دیگر تنظیمیں نے بھی خیرمقدم کیاتھا۔اور ایسا ہی حلف دینے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ مگرحکومت نے ا س پیشکش پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ یہ کیسا رویہ ہے کہ حکومت نہ تو ان گروپوں کو مرکزی دھارے میں لا رہی ہے اور نا ہی ایسےاقدامات کر رہی ہے کہ یہ گروہ قانون کی مکمل گرفت میں آ سکیں ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی ، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خطرے کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔وہ ‘‘مذہب ’’ کے لفظ سے ہی خوف زدہ ہے اور وہ مختلف طرح کے مذہبی گروہوں سے پریشان ہے ۔سیکورٹی ادارے صرف ان گروہوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہیں جو اپنا راستہ بدلتے ہوئے ریاست کے خلاف اعلان ِ جنگ کر دیتے ہیں ۔ دوسری جانب حکومت نے مذہبی اداروں کو ظابطوں کو ماتحت کرنے میں اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں ۔
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ ، سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے